آدابِ ِدُعاء
دُعاء کے افضل اوقات
1۔ رات کو دُعاء کرنا:
رات کو جبکہ ہر طرف سکون، اطمینان اور فضا میں سناٹا طاری ہوتا ہے، تمام لوگ گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں، صرف وہ آنکھیں بیدار ہوتی ہیں جو آسمان کی طرف متوجہ ہوکر اس بے پایاں کائنات میں چلتی ، پھرتی،تیری اللہ کی مخلوقات کے بارہ میں سوچ بچار کر رہی ہوتی ہیں۔ اس پر سکون ماحول میں انسان اپنے آپ کو ایک کمزور او ربے حقیقت شے تصور کرتا ہے۔ تب اس کے قلب میں خلاق کی عظمت اجاگر ہوتی ہے او راپنے رب کی طرف اس کی احتیاج شدید ہوجاتی ہے، تو وہ اپنے رب کی رحمت، فضل اور احسان طلب کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کو اٹھا دیتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفات کے ضمن میں ان کی یہ صفت بھی ذکر فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَبِٱلْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿١٨﴾...سورۃ الذاریات
کہ'' وہ لوگ رات کے پچھلے پہر (اُٹھ کر) استغفار کرتے ہیں۔''
اس وقت اللہ رب العزت توبہ و رحمت کے دروازے کھول کر اپنے بندوں کے قریب تر آجاتے ہیں:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ینزل ربنا تبارك و تعالیٰ کل لیلة سمآء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر فیقول من یدعوني فأستجیب له من يسئا لني فأعطیه من یستغفرني فأغفرله'' 1
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ ہر روز رات کو ، جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، پہلے آسمان پر نزول اجلال فرماتے ہیں2 او رپکارتے ہیں، ''کون ہے جو دعاء کرے اور میں اس کی دعاء قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے دوں او رکون ہے مغفرت کا طالب کہ میں اسے بخش دو؟''
''وعن أبي أمامة رضی اللہ عنه قال: حدثني عمرو بن عبسة أنه سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول: أقرب مایکون الرب من العبد في جوف اللیل الآخر فإن استطعت أن تکون ممن یذکر اللہ في تلك الساعة فکن'' 3
''حضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں، مجھ سے حضرت عمرو بن عبسہؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہوتے ہیں۔ اے انسان، اگر تو اس مبارک وقت میں اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہوسکتا ہے تو ضرور ہوجا۔''
ذرا تصور تو کریں اس وقت کا ، جب اللہ رب العزت اپنے بندوں کے انتہائی قریب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انہی میں سے کردے۔ آمین!
''وقد صح عن أبي سعید و أبي ھریرة قالا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إن اللہ یمھل حتی إذا ذھب ثلث اللیل الأوّل نزل إلی السمآء الدنیا فیقول: ھل من مستغفر؟ ھل من تائب ؟ ھل من سائل؟ ھل من داع؟ حتی ینفجر الفجر''4
''حضرت ابوسعید او رحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے صحیح سند سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ رات کے ابتدائی حصہ میں رُکے رہتے ہیں، جب رات کا پہلا 3؍1 حصہ گزر چکتا ہے تو پہلے آسمان پر نزول اجلال فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: ''ہے کوئی بخشش کا طلب گار؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ ہے کوئی مانگنے والا؟ ہے کوئی دعاء کرنے والا؟'' یہ سلسلہ صبح صادق تک جاری رہتا ہے۔''
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه یقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ینزل اللہ في السمآء الدنیا بشطر اللیل أو لثلث اللیل الآخر فیقول: من یدعوني فأستجیب له؟ أو یسئالني فأعطیه؟ ثم یقول: من یقرض غیر عدیم ولا ظلوم'' 5
''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''رات کے وقت اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاتے اور فرماتے ہیں ''کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مانگے تو میں اسے دوں؟ ''پھر فرماتے ہیں کہ ''کون اس ذات کو قرض دینے کو تیار ہے جو نہ تو خالی ہاتھ ہے اور نہ ظلم کرنے والا ہے۔''
2۔ اذان اور اقامت کے درمیان دعاء :
یہ وقت بھی بڑی فضیلت کا حامل ہے:
''عن أنس بن مالك رضی اللہ تعالیٰ عنه قال: قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الدعآء لا یرد بین الأذان والإقامة فادعوا''6
''حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، آنحضرتﷺ نے فرمایا: '' اذان او راقامت کے درمیان دعاء ردّ نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس وقت خوب دعائیں کیا کرو۔''
3 نماز میں دعاء کرنا :
نماز میں دعاء کرنا مشروع بلکہ مستحب ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : لینتھین أقوام عن رفع أبصارھم عند الدعآء في الصلوٰة ولتخطفن أبصارھم'' 7
''حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: '' لوگ نماز کے اندر دعاء کرتے وقت اوپر نظر اٹھانے سے یا تو باز آجائیں گے یا پھر اللہ تعالیٰ ان کی نظریں اُچک لیں گے۔''
پوری نماز میں کسی بھی موقعہ پر نگاہ کو اوپر اٹھانا حرام ہے۔ لیکن دعاء کے موقع کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا کہ بسا اوقات دعاء کرتے ہوئے انسان نگاہ اوپر کو اٹھا لیتا ہے۔
نماز کے اندر مندرجہ ذیل مواقع پر دعاء کرنا صحیح ہے:
1. نماز شروع کرتے ہوئے تکبیر تحریمہ کے بعد۔
2. وتروں اور قنوت نازلہ میں قراء ت کے بعد رکوع سے قبل۔
3. رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہوکر۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سراٹھاتے تو ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہہ کر یہ دعا پڑھتے:
''اللهم ربنا لك الحمد ملأ السمٰوات وملأ الأرض وملأماشئت من شيء بعد اللهم طھرني بالثلج والمآء والبرد اللهم طھرني من الذنوب والخطایا کما ینقی الثوب الأ بیض من الوسخ''
''یا اللہ، میں تیری اس قدر حمد و تعریف کرتا ہوں جو آسمانوں کو ، زمینوں کو او رجس چیز کو تُو چاہے ، بھر دے۔ یا اللہ ، مجھے برف ،پانی اور اولوں کے ساتھ پاک کر۔ یا اللہ، مجھے گناہوں او رغلطیوں سے یوں پاک کردے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتاہے۔''
رکوع میں:...........
اللہ کے رسولﷺ رکوع میں یہ دعاء پڑھتے تھے:
''سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي''
''یا اللہ ، تو عیوب سے پاک او رمنزہ ہے، میں تیری حمد کرتا ہوں، یا اللہ، مجھے بخش دے۔''
آنحضرتﷺ اکثر دعائیں سجدہ میں کیا کرتے تھے۔
سجدوں کے درمیان بیٹھ کر۔
تشہد کے بعد اسلام پھیرنے سے پہلے 8
نماز کے اندر قراء ت قرآن کے دوران بھی اللہ کے رسول ﷺ دعائیں کیا کرتے تھے۔
''عن حذیفة قال: صلیت مع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات لیلة فافتتح البقرة، فقلت یرکع عند المأة، ثم مضیٰ، فقلت : یصلي بھا في رکعة فمضیٰ فقلت یرکع بھا، ثم افتتح النسآء، فقرأ ھاثم افتتح آل عمران فقرأھا یقرأ مترسلا إذا مربآیة فیھا تسبیح سبح ، و إذا مربسؤال سأل، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم رکع فجعل یقول: ''سبحان ربي العظیم'' فکان رکوعه نحوا من قیامه ثم قال ''سمع اللہ لمن حمدہ'' ثم أقام طویلا قریبا من قیامه'' 9
''حضرت حذیفہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک رات میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ مل کر نماز پڑھی، آپؐ نے سورة البقرہ شروع کی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپؐ سو آیات پڑھ کر رکوع کرلیں گے، مگر آپؐ پڑھتے چلے گئے۔ میں نے سوچا، آپؐ سورة البقرہ ختم کرکے رکوع کریں گے، لیکن آپؐ نے سورت نساء شروع کرلی او راسے (مکمل) پڑھا۔ پھر آپؐ نے سورت آل عمران شروع کرکے (مکمل) پڑھی۔ آپؐ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتے تھے۔ جب آپؐ کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا، تو آپؐ تسبیح کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے۔ اس کے بعد آپؐ نے رکوع کیا اور رکوع میں آپؐ نے دعاء ''سبحان ربي العظیم'' پڑھی۔ آپؐ کا یہ رکوع قیام کے تقریباً برابر تھا۔ پھر ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہا اور پہلے قیام کے تقریباً برابر قیام کیا۔''
معلوم رہے کہ قراءت قرآن کے دوران دعاء کا ذکر جن احادیث میں آیا ہے، ان سے مراد رات کی نماز ہے۔
4۔ سجدوں میں دعاء کرنا:
نماز کی تمام کیفیات و احوال میں سب سے افضل اور بارگاہ ربانی میں ا س کی عبودیت کے اظہار کی انتہاء، سجدہ ہے۔
او رکیوں نہ ہو، جب انسان اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار میں اپنی پیشانی کوجھکا کر زمین پر رکھ دیتا ہے تو اللہ رب العزت بھی اپنے بندے کو ثواب اور اپنا انتہائی قرب عطا فرماتے ہیں:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: أقرب مایکون العبد من ربه وھو ساجد فأکثرو الدعآء'' 10
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''انسان تمام حالتوں میں سجدہ میں اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا (سجدوں میں) کثرت سے دعائیں کیا کرو۔''
شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رکوع میں قرآن کی قراء ت سے منع فرمایا ہے، تاکہ انسان صرف اور صرف اس کی تعظیم و تمجید کرے۔اسی طرح سجدہ میں بھی تلاوت سے ممانعت آئی ہے، تاکہ بندہ اس پُرکیف حالت میں اپنے رب سے کچھ مانگ لے:
''عن ابن عباس رضی اللہ عنهما قال کشف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الستارة والناس صفوف خلف أبي بکر و ذٰلك في مرض النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الذي توفي فیه فقال : أیھا الناس إنه لم یبق من مبشرات النبوة إلا الرؤیا الصالحة أرھا المسلم أوتری له، ألا وإني نھیت أن أقرأ القرآن راکعا أو ساجدا فأما الرکوع فعظموا فيه الرب عزوجل وأما السجود فقمن أن یستجاب لکم '' 11
''حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ کے مرض وفات کے دنوں کا واقعہ ہے، آپؐ نے ایک روز پردہ اٹھایا (تو دیکھا کہ ) لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے صفیں باندھے کھڑے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ''لوگو، نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں، کہ انہیں کوئی مسلمان خود دیکھے یا اس کے حق میں دوسرا کوئی مسلمان دیکھے۔ خبردار، مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قراء ت قرآن سے منع فرمایا گیاہے۔ تم رکوع کی حالت میں اللہ کی عظمت بیان کیا کرو اور سجدوں میں (دعائیں زیادہ کیا کرو) امید ہے کہ تمہاری دعائیں قبول ہوں۔''
5۔ نمازوں کے بعد دعاء کرنا:
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار ''استغفراللہ'' کہتے اور یہ دعاء پڑھتے:
''اللھم أنت السلام و منك السلام تبارکت یا ذوالجلال والإکرام'' 12
''یا اللہ، تو سلامتی والا ہے اور سلامتی تیری طرف سے ہی ہے، تو برکتوں والا ہے، اے بزرگی اور عزت والے۔''
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ''معاذ ، بخدا ! مجھے تم سے محبت ہے۔ تم کسی نماز کے بعد یہ دعاء نہ چھوڑنا۔
''اللھم أعني علیٰ ذکرك و شکرك و حسن عبادتك'' 13
''یا اللہ ، اپنا ذکر، شکر، اور اچھی عبادت کرنے میں میری اعانت فرما۔''
نماز کے بعد ذکر کی مشروعیت پر او ربھی بہت سے دلائل احادیث میں موجود ہیں۔
6۔ اذان او رجہاد کے وقت دعاء کرنا:
نماز کے لیے اذان اور جہاد کے وقت لشکروں کے ایک دوسرے کے روبُرو صف آراء ہونا، یہ دو وقت بھی بہت عظمت والےہیں۔
''عن سھل بن سعد رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ثنتان لا تردان أو قلما تردان، الدعآء الندآء و عند البأس حین یلحم بعضھم بعضا'' 14
''حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''دو وقت (اس قدر فضیلت والے ہیں) کہ ان میں جو دعاء کی جائے رد نہیں ہوتی'' یا فرمایا ''بہت کم رد ہوتی ہے'' اوّلاً، اذان کے وقت۔ ثانیاً، لڑائی کے وقت ، جب لوگ ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہوں۔''
7۔ جمعہ کے دن کی ایک افضل گھڑی:
احادیث میں آیا ہےکہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی مبارک او رافضل ساعت (وقت، گھڑی) ہے کہ اس میں جو دعاء بھی کی جائے، قبول ہوتی ہے۔
''عن أبي هریرةضی اللہ عنه قال: قال أبوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: في یوم الجمعة ساعة لا یوافقھا مسلم وھو قائم یصلي یسأل اللہ خیرا إلا أعطاہ وقال بیدہ قلنا یقللھا یزهدھا'' 15
''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جمعہ کے دن میں ایک ایسی (مبارک اور افضل) گھڑی ہے کہ اس میں نماز پڑھتا مسلمان جو دعاء بھی کرے او ربھلائی طلب کرے، اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتے ہیں۔''
اور آپؐ نےہاتھ سے اس وقت کی قلت او رکمی کا اشارہ فرمایا۔ اس وقت کی تعیین میں علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ، زاد المعاد 1؍104) یہ اس دن کی ایک فضیلت ہے، جو اللہ رب العزت نے ہفتے کے باقی دنوں پراس دن کو عطا فرمائی ہے۔''
8۔ عرفہ16کے دن کی دعاء
یہ دن بھی بڑی عظمت کا حامل ہے، جس میں تمام روئے زمین سے آئے ہوئے مسلمان ایک ہی جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی بندگی (عبادت حج) بجا لاتے ہیں او ران بندوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے خوشی کا اظہار فرماتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دن کی دعاء کو تمام دعاؤں سے افضل قرار دیا ہے:
''عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: خیر الدعآء دعآء یوم عرفة و خیرما قلت أنا والنبیون قبلي، لا إلٰه إلا اللہ وحدہ لا شریك له، له الملك وله الحمد وھو علیٰ کل شيء قدیر''17
''حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: ''بہترین دعاء عرصہ کے دن کی ہے۔ میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے جو دعائیں کیں، ان میں سب سے افضل یہ دعاء ہے: ''لاإلٰه إلااللہ وحدہ لا شریك له ، له الملك وله الحمد وھو علیٰ کل شيء قدیر'' ''اللہ اکیلے کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت و بادشاہی اسی کو سزاوار ہے، ہمہ قسم کی تعریفوں کا وہی مالک ہے او روہ ہر چیز پر قادر ہے۔''
9۔ مُرغ کی اذان کے وقت :
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ''جب تم مرغ کی آواز (اذان) سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل و رحمت طلب کرو، کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھ کر آواز لگاتا ہے۔ او رجب تم گدھے کی چیخ سنو تو شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ اس نے اس وقت شیطان کو دیکھا ہوتا ہے۔ 18
قاضی عیاض اس حدیث پر تعلیق میں لکھتے ہیں کہ:
''(مرغ کی آواز سن کر اس لیے دعاء کریں کہ ) امید ہے ، فرشے اس بندے کی دعاء پر آمین کہیں، اس کے لیے مغفرت کی دعاء کریں او ر( اللہ کے ہاں) اس کے اخلاص اور عاجزی کی گواہی دیں ۔ (اور گدھے کی آواز پر) تعوذ (پناہ مانگنا) اس لیے ہے کہ شیطان کے شر اور وسوسہ سے ڈرنا چاہیے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
10۔ میّت کی آنکھیں بند کرتے وقت:
انسان کی روح جسم کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد جنتوں کی طرف ، یا جہنم اور عذاب کی طرف سفر کرجاتی ہے اور اس وقت فرشتے روح کے جسم سے باہر نکلنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ وقت انتہائی پُر ہیبت ہوتا ہے۔ اس وقت حاضرین کو چاہیے کہ اچھی او رخیر کی باتیں کریں، کیونکہ فرشے ان کی باتوں (دعاؤں) پر آمین کہتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
''عن أم سلمة قالت: دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیٰ أبي سلمة وقد شق بصرہ فأغمضه ثم قال: إن الروح إذا قبض تبعه البصر فضج ناس من أھله، فقال: لا تدعوا علیٰ أنفسکم إلا بخیر فإن الملائکة یؤمنون علیٰ ما تقولون، ثم قال اللهم اغفرلأبي سلمة وارفع درجته في المھدیین واخلفه في رعقبه في الغابرین و اغفرلنا وله یارب العٰلمین و افسح له في قبرہ و نورله فیه''19
''حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں، ابوسلمہ ؓ فوت ہوئے تو اللہ کے رسول ﷺ تشریف لائے، ان (ابوسلمہؓ) کی آنکھیں کھلی تھیں، آپؐ نے بند کردیں اور فرمایا ''جب روح قبض ہوتی ہے تو نظر اس کا پیچھا کرتی ہے۔'' یہ سن کر گھر والے رونے لگے تو آپؐ نے فرمایا: ''اپنے اوپر بدعائیں نہ کرو، کیونکہ تم جو کچھ کہتے ہو، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔'' پھر آپؐ نے دعا کی: ''یا اللہ، ابوسلمہؓ کی مغفرت فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجات بلند فرما، یا اللہ تو اُس کے پس ماندگان میں اس کا خلیفہ بن۔ رب العالمین، ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اس کی قبر کو کشادہ اور منور فرما۔''
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کی وفات کے وقت جوبھی کہا جائے، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ لہٰذا نیکی اور بھلائی کی دعاء کرنا ضروری ہے۔
انسان کی وفات کے وقت اس کے لیے اور اس کے اہل و عیال اور والدین کے لیے دین و دنیا کی بھلائی کی دعائیں کرنی چاہییں۔ (جاری ہے)
حوالہ جات
1. صحیح بخاری 11؍128، ترمذی 9؍471، مسند احمد 4؍16
2. اللہ تعالیٰ کا رات کو پہلے آسمان پر تشریف لانا حقیقت پر محمول ہے۔ البتہ ہمارے لیے اس کا تصور و ادراک ناممکن ہے۔ اس پر ایمان لانا اہلسنت کے عقائد میں سے ہے۔
3. ترمذی :39
4. صحیح مسلم 6؍39
5. صحیح مسلم 6؍38
6. صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، الکلم الطیب ص54
7. صحیح مسلم 4؍152
8. زاد المعاد 1؍65
9. صحیح مسلم 5؍61
10. صحیح مسلم 4؍200
11. صحیح مسلم 4؍196
12. صحیح مسلم 5؍89،ابوداؤد حدیث نمبر 1498
13. ابوداؤد حدیث نمبر 1508، مسند احمد 5؍245
14. ابوداؤد، حدیث نمبر 2523
15. صحیح بخاری 11؍199
16. عرفہ ماہ ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو کہتے ہیں، اس دن حج ہوتا ہے۔
17. ترمذی 10؍44
18. صحیح مسلم 17؍46، ترمذی 9؍426
19. صحیح مسلم :6؍222