اُمّت کی حالتِ زار اور علماء کی ذمہ داری

و طن عزیز میں مسلم معاشرہ آج جس تنزل ، انحطاط اور پستیوں کا شکار ہے، زبان قلم اس کو کسی ایک ، یا کئی نشستوں میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ہاں مگر جس کی نت نئی اور خونچکاں داستانیں روزانہ اخبارات کے ہزاروں لاکھوں صفحات پر جا بجا بکھری پڑی ہیں اور جن کو پڑھ سن کر اس معاشرہ میں رہنے بسنے والوں کے طرز زندگی کے جملہ پہلوؤں کا رخ معین ہوجاتا ہے۔

عقیدہ توحید ، حسن عبادت، خوش معاملگی، پاکیزگئ اخلاق او ربلندئ کردار ایک مسلمان کی زندگی کا وہ زیور ہیں کہ جن کے باعث وہ سینکڑوں میں ایک پہچانا جاتا رہا، لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت ان صفات سے عاری ہوچکی ہے۔ عقائد کو لیجئے، تو شرک و بدعت، جو تمام تر اعمال انسانی اور اس کی عبادتوں اور ریاضتوں کے لیے ڈائنا میٹ کا درجہ رکھتے ہیں، اس کی گویا گھٹی میں پڑچکے ہی|ں او ران کی ہلاکت آفرینی کا اسے کوئی احساس و شعور ہی ہیں۔ عبادات کو لیجئے، تو فریضہ نماز میں تساہل ، فریضہ صیام میں تغافل اور فریضہ حج و زکوٰة میں تکاسل ہی نہیں، بلکہ ان چیزوں سے جیسے اُسے اب کوئی واسطہ ہی نہ رہا ہو، اور یوں وہ ''زندگی ، بے بندگی، شرمندی'' کا مصداق ہوکر رہ گیا ہے۔ معاملات کو لیجئے، تو اس کی بدمعاملگی کے حوالے سے آج کا غیر مسلم بھی اپنے ہم مذہبوں کو یہ کہہ کر عار دلاتا ہے کہ ''کہیں تم مسلمان تو نہیں ہوگئے؟''1 او رجہاں تک اخلاق و کردار کا معاملہ ہے، تو آج مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ، مسلمان ہی مسلمان کے زر و مال کا دشمن ، مسلمان ہی مسلمان کی عزت و عصمت کا ڈاکو اور مسلمان ہی مسلمان کے ہر لحآظ سے درپے آزار نظر آتا ہے۔ عقل حیران ہے اور انسانی ضمیر انگشت بدنداں،کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کیا یہ وہی مسلمان ہے کہ جس کے اسلاف نے اخوت و محبت، مؤدت و موانست، دیانت و امانت، تقویٰ و طہارت،عظمت و شرافت، عفت و نجابت، خلوص و صداقت، ہمدردی و غم گساری او رایثار کیشی و جاں نثاری کا وہ روشن، تابناک اور انمٹ مثالیں قائم کی تھیں کہ اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہب کا کوئی بھی نام لیوا ان کی نظیر پیش کرنےسے بہرحال عاجز رہا ہے۔ لیکن آج بازی الٹ چکی، اقدار بدل گئیں، خیر و شر کے پیمانے تک تبدیل ہوگئے او رمسلمان ہر جگہ ہر لحاظ سے ذلیل و رسوا ہے۔ (إلا ماشاء اللہ)................آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟

''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' وہ فریضہ ہے کہ امت مسلمہ جس کی مکلف قرار دی گئی اور جو ہر دور میں اس کا طرہ امتیاز رہا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ...﴿١١٠﴾...سورۃ آل عمران
''تم سب امتوں میں سے بہترین امت ہو کہ نیکی کا حکم کرتے ہو، بُرائی سے روکتے ہو او راللہ پر ایمان رکھتے ہو۔...............''

لیکن آج اگر نیکی منہ چھپائے پھرتی ہے او ربدی کا بھوت عین چوراہوں میں ننگا ناچ رہا ہے ، تو اس کی بڑی وجہ فریضہ ''امر بالمعروف و نہی عن المنکر'' سے کوتاہی اور اس سلسلہ میں مجرمانہ تغافل ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:
''من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانه فإن لم یستطع فبقلبه و ذٰلك أضعف الإیمان'' 2
کہ ''تم میں سے جو شخص بُرائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے (زور) بازو سے اسے مٹا ڈالے ، ہاں اگر اس کی سکت نہ رکھتا ہو تو زبان سے (منع کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ پائے تو (کم ازکم) دل سے (ہی اسے بُرا جانے) او ریہ (آخری درجہ) ضعیف ترین ایمان (کی علامت ) ہے۔''

لیکن آج یہ ضعیف ترین ایمانی جذبہ بھی مسلمان کھو بیٹھا، کہ نیکی کے نیکی ہونے اور بُرائی کے بُرائی ہونے کا تصور ہی اس کی نظروں میں معدوم ہوکر رہ گیا ہے۔ چنانچہ اوّلاً تو خود نیکی کرنے کی توفیق بہت کم خوش نصیبوں کو میسر ہے، ثانیاً ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ جو خلاف شرع امور کو دیکھ کر ''ہمیں کیا؟'' بلکہ اس سے منع کرنے والوں کو ''چھوڑو جی'' کا انداز بے نیازی اپنائے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی ''مصلحت کیشوں'' کی آنکھیں کھول دینے کو ، اس افسوسناک طرز عمل کے انجام بد سے ، انہیں یوں ڈرایا تھا:
''عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المدھن في حدود اللہ والواقع فیھا مثل قوم۔ استھموا و صاربعضھم في أسفلھا وصار بعضھم في أعلاھا فکان الذي في أسفلھا یمر بالمآء علی الذین في أعلاھا فتأذوا به فأخذ فأسا فجعل ینقر أسفل السفینة فأتوہ فقالوا مالك قال تأذیتم بي ولاید لي من المآء فإن أخذوا علی ٰ یدیه أنجوہ و نجو اأنفسھم وإن ترکوہ أھلکوه وأھلکوا أنفسھم'' 3
''حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حدود اللہ میں مداہنت کرنے والے، یا ان میں جا پڑنے والے کی مثال اس قوم (کے افراد) کی مانند ہے، جو کشتی میں بیٹھے اور قرعہ ڈال کر بعض تو کشتی کے نچلے حصے میں چلے گئے اور بعض اوپر والے حصے میں۔ اب نیچے والے پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے ہیں، جس سے (اوپر والوں کو )کوفت ہوتی ہے۔ لہٰذا (نیچے والوں میں سے) ایک نےکلہاڑا پکڑا او رکشتی کے پیندے میں سوراخ کرنا شروع کیا۔ اس پر (اوپر والے) اس کے پاس گئے کہ یہ کیا؟ تو اس نے جواب دیا: میرے اوپر آنے کی وجہ سے تم نے تکلیف محسوس کی او رمجھے پانی کی (بہرحال) ضرورت ہے۔ پس اگر یہ |(اوپر والے) اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے (اور اس حرکت سے اسے باز رکھیں گے) تو اسے بھی اور خود اپنے تئیں بھی ہلاکت سے بچا لیں گے، لیکن اگر وہ اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیں گے تو خود بھی ڈوبیں گے او راسے بھی لے ڈوبیں گے۔''

''والذي نفسي بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیو شکن اللہ أن یبعث علیکم عذابا من عندہ ثم لتد عنه ولا یستجاب لکم'' 4
''قسم ہے اس ذات کی، جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کا حکم کرو گے اور بُرائی سے روکو گے ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب مسلط کردے، پھر (یہ وہ وقت ہوگا کہ ) تم دعاء کرو گے او روہ قبول نہ ہوگی۔''

قرآن مجید سے ثابت ہے کہ عذاب الٰہی کی متعدد صورتوں میں سے ایک صورت لوگوں کی باہمی لڑائی ، قتل و غارت اور خوں ریزی بھی ہے۔ یہ عذاب آج ہم پر مسلط ہے، اور اس کا بڑا سبب فریضہ ''أمر بالمعروف و نهي عن المنکر'' سے مجرمانہ تغافل ، اور ''مجھے کیا؟'' ''چھوڑو جی'' کا انداز استغناء ہے۔ جس کا نتیجہ ظاہر و باہر ہے کہ ع


خود تو ڈوبے ہیں صنم ، تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے!



اور کسے معلوم نہیں کہ ''أمر بالمعروف و نهي عن المنکر'' کے مکلف، عوام الناس سے زیادہ علمائے امت ہیں۔ علمائے امت کا مقام وہی ہے ، جو انسانی جسم میں اعضائے رئیسہ کا۔ اگر یہ اعضائے رئیسہ اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دے رہے ہوں تو جسم کسی اندرونی مرض کا شکار نہیں ہوتا اور بیرونی صدمات کے مقابلہ میں بھی وہ پوری قوت مدافعت رکھتا ہے، جبکہ عام اعضائے انسانی کا قص، اعضائے رئیسہ کے اختلال کی نشاندہی کرتا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ عوام الناس کے اعمال و اخلاق او رکردار میں خوبی، علماء کی خرابی وفساد کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے۔ ایک تو اس لیےکہ جب علمائے امت اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو عوام الناس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ من مانی کرنے لگتے ہیں اور دوسرے اس لیے کہ جب خود علماء ہی میں نقص آجائے تو خود ان کا وجود او ران کا طرز عمل عوام الناس کی آوارگیوں کے لیے سند جواز مہیا کردیتا ہے، جس کے نتیجہ میں پوری امت فساد اور بدعملی کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔

یاد رہے کہ خیر و شر کے پیمانے کتاب و سنت نے متعین کیے ہیں۔ ''معروف'' صرف وہ ہے کہ کتاب و سنت نے جسے ''معروف'' قرار دیا ہے، اور ''منکر'' وہ کہ کتاب و سنت نے جس سے منع فرمایا ہو، یا کتاب و سنت سے اس کی کوئی نظیر نہ ملے۔ لہٰذا علمائے امت میں سے بھی اس فریضہ ''امر بالمعروف و نہی عن المنکر'' کی زیادہ تر ذمہ داری ان علماء پر عائد ہوتی ہے، جو کتاب وسنت کے چمن سے ''قال اللہ و قال الرسول'' کے سدا بہار اور رنگا رنگ پھول چننے کے عادی ہیں۔ یا بالفاظ دیگر اصلاح احوال کے لیے ''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' کی جملہ کوششیں کتاب وسنت کی روشنی میں ہونی چاہئیں، ورنہ نہ صرف ان کے مثبت نتائج برآمد نہ ہوں گے، بلکہ اللہ رب العزت کے نزدیک بھی ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔

پس آج جب کہ پاکستانی معاشرہ ہر قسم کے جرائم، نے عملیوں او ربدعملیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے، علمائے امت کا یہ فرض ہے کہ پہلے وہ خود صحیح ہوں، اپنے تئیں ایمان و تقویٰ او راخلاق و اعمال صالحہ سے آراستہ کریں، پھر امت کی خیر خواہی او راصلاح احوال کا فریضہ انجام دینے کے لیے میدان میں نکلیں۔ صراط مستقیم کی طرف امت کی راہنمائی کریں او رہر قسم کے اعتقادی،عملی، اخلاقی، اور سماجی بُرائیوں کے خاتمہ کے لیے بے چین ہوجائیں کہ عافیت و سلامتی کا راستہ تو بس یہی ہے ۔ ورنہ خدانخواستہ یہ بداعمالیاں، جو ہمارے معاشرہ میں روز افزوں ہیں، نہ صر ف اس دنیا میں ہمیں چین نہیں لینے دیں گی بلکہ یہ ہماری عاقبت کی تباہی و بربادی کا پیغام بھی لائیں گی۔ اور جس سے علمائے امت ہر گز ہرگز بری الذمہ نہیں ہوں گے۔ وما علینا إلا البلاغ۔


حوالہ جات
1. چند دن قبل ملتان میں چھپنے والے ایک رسالہ میں ایک عیسائی ملک کے، عیسائی باشندے کا واقعہ پڑھا تھا کہ اس نے اپنے ایک ہم مذہب کو کچھ رقم قرض دی، جب قرض کی وصولی کا وقت آیا تو مقروض نے ٹال مٹول شروع کردی۔ بار بار کے مطالبوں کے باوجود جب وہ قرض وصول کرنے میں ناکام رہا تو کچھ دوستوں کو اس نے اپنی بپتا سنائی۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ پادری سے ملو۔ یہ شخص پادری کے پاس گیا اور صورت حال اس کو بتلائی۔ پادری نے کاغذ قلم منگوا کر ایک دوسطری رقعہ لکھا او راس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقعہ مقروض کو جاکر دے دو ۔مقروض نے رقعہ وصول کرکے اسے پڑھا اور جھٹ سے پوری رقم گن کر اس کے حوالے کردی۔ دیکھنے سننے والوں نے تعجب کا اظہار کیا اور پوچھا کہ اس رقعہ میں ایسی کون سی کرامت تھی کہ یوں فی الفور اس نے رقم ادا کردی؟ اس شخص نے جواب دیا، پادری نے مکتوب الیہ کو لکھا تھا:
''تم اس شخص کی رقم دبائے بیٹھے ہو، کہیں تم مسلمان تو نہیں ہوگئے ؟''
اس پر اسے غیرت آئی تو اس نے رقم ادا کردی۔ (فاعتبروایا أولی الأبصار)
2. صحیح مسلم، عن ابی سعید خدریؓ
3. صحیح بخاری، بحوالہ مشکوٰة ، باب امر بالمعروف
4. ترمذی، عن حذیفہؓ