ستمبر 1976ء

تراویح ........ نِعمتَ البِدعۃ ھٰذہ

ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:

رمضان المبارک آرہا ہے: یہ عبادت کا مہینہ ہے مگر لوگ رکعتوں کاجھگڑا کرکے بدمزہ کردیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ:

1۔ صحیح کتنی رکعتیں ہیں؟ کیا ان سے کم و بیش بھی پڑھی جاسکتی ہیں؟

2۔ حضرت عمر ؓ نے اس نماز کوبدعت کیوں کہا ہے۔اچھی سہی، بہرحال حضورﷺ نے جب پڑھی ہیں تو پھر بدعت کیوں؟

3۔ کیا صحابہ نے بیس پڑھی ہیں؟ کیا ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے؟

الجواب:

واقعی یہ ماہ، ماہ عبادت ہے لیکن لوگوں نے اسے اکھاڑہ بنا ڈالا ہے۔ ہم نے اس موضوع پر ان لوگوں کو بھی جھگڑتے دیکھا ہے جو تراویح تو کجا سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے او رجو پڑھتے ہیں وہ رکعتوں کی تعداد پوری کرتے ہیں۔ قیام لیل ( شب زندہ داری) کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ وہ بیس خواں ہوں یا آٹھ پڑھنے والے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں او ریہ بات کسی کو یاد نہیں کہ وہ نماز اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ان کو سحری کے فوت ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوجاتا تھا۔ (قیام اللیل) مگر ہمارے مدعیوں کا حال یہ ہے کہ تراویح کو صرف ایک گھنٹہ دیتے ہیں۔ إنا للہ

1۔ صحیح اور ثابت آٹھ رکعت ہیں:

(الف) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول سدا گیارہ رکعتیں تھا۔ آٹھ تراویح ، تین وتر۔

یصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلي ثلثا (بخاري باب قیام النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باللیل في رمضان وغیرہ: 1؍154)

''آپ چار رکعتیں پڑھتے، پر وہ کتنی حسین او رطویل ہوتیں؟بس نہ پوچھیئے! پھر چار پڑھتے، پر وہ کتنی حسین اور طویل ہوتیں؟ بس نہ پوچھئیے! پھر حضور ؐ تین رکعتیں پڑھتے ......الخ ''(بخاری شریف:1؍154)

اس میں ہے کہ : حضورؐ کا یہ معمول رمضان اور غیر رمضان ، دونوں میں یہی تھا ، رمضان میں ہوں تو انہیں قیام رمضان (تراویح) کہتے ہیں۔ اگر غیر رمضان میں ہوں تو انہیں نماز تہجد (قیال اللیل) کہتے ہیں۔ تہجد سو کر پڑھی جاتی ہے ۔ تراویح میں اس کی قید نہیں ہے۔ ہاں حضرت عمرؓ رات کے پچھلے حصے میں تراویح پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے (قیام اللیل) لیکن یار دوستوں نے رکعتوں پر تو حضرت عمرؓ کے نام کی بڑی تسبیح پڑھی ہے اور دونوں نے ہی حد کردی ہے لیکن اس روح اور اسوہ کی پرواہ نہیں کی، جو انہیں زیادہ محبوب تھی۔

سائل نے حضرت عائشہؓ سے نماز رمضان کا سوا ل کیا ہے مگر حضرت عائشہؓ نے مزید غیر رمضان کا بھی بتا دیا کہ فرق صرف نام کا ہے ، کام ایک ہے۔یعنی گیارہ رکعت، ایسا نہیں کہ تراویح پڑھ کر الگ تہجد بھی پڑھی ہو۔ (العرف الشذی شرح ترمذی علامہ انور شاہ کشمیری)

باقی رہا یہ مسئلہ کہ: انہوں نے صرف رکعتیں پوری کی تھیں یا ان پر جان بھی چھڑکی تھی؟ فرمایا: کہ یہ نہ پوچھیئے! بس اتنی لمبی کہ حد کردی تھی۔ اب یہ آپ غور فرمائیں کہ اس مسئلہ پر لڑنے مرنے پر اُتر آنے والوں نے کبھی اس روح اور سرور کی تلاش بھی کی کہ شروع کیں تو پھر چھوڑنے کو ان کا جی ہی نہ کرے؟

(ب) حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضورؐ تشریف لائے او رنماس پرھائی مگر ہلکی کرکے، پھر گھر تشریف لے گئے او رلمبی کرکے پڑھی، پھر تشریف لائے او رہلکی نماز پڑھائی، پھر گھر تشریف لے گئے اور لمبی کرکے پڑھی۔ صبح ہم نے پوچھا تو فرمایا:

أن النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خرج علیهم في رمضان فخفف بھم ثم دخل فأطال ثم خرج فخفف بھم ثم دخل فأطال .... الخ (مسنداحمد۔ مسند انس :3؍154)

حضورؐ کا ارشاد ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں ‎۔ (بخاری)

صلوٰة اللیل مثنیٰ مثنیٰ (صحیحین عن ابن عمر)

باقی کی روایت میں چار چار کا ذکر بطور استراحت کے ہے کہ ہر چار رکعت کے بعد آپ دم لیتے تھے۔

یصلي أربع رکعات في اللیل ثم یستریح فأطال حتی رحمته (بیہقی :2؍497)

حضرت انسؓ نے جس طرح دو پھیرے ذکر کیے ہیں اس حساب سے ان کو شمار کیا جائے تو آٹھ ہی رکعتیں بنیں گی، دو باہر آکر، دو گھر جاکر، پھر دو باہر آکر او رپھر دو گھر جاکر، آٹھ رکعتیں بنیں۔

(ج) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے شب رمضان ہمیں آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔

صلی بنا رسو ل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم لیلة في رمضان ثماني رکعات و الوتر الحدیث (میزان الاعتدال)

امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد درمیانی ہے (اسناد وسطہ :2؍311)

امام طبرانی کہتے ہیں، اس روایت میں یعقوب منفرد ہے مگر وہ ثقہ ہے۔معلوم ہوا کہ عیسیٰ بن جاریہ منفرد نہیں ہے۔اس لیے ذہبی ن ےاسنادہ وسطہ کہا ہے۔

(د) حضرت ابی بن کعب کا ارشاد ہے کہ میں نے حضورؐ سے ذکر کیا کہ حضورؐ میں نے خواتین کو آٹھ رکعتیں پڑھائی ہیں، آپ راضی رہے۔

فصلیت بھن ثمان رکعات و أوترت فکانت سنة الرضا (أبویعلی قال الهیثمی إسنادہ حسن، تحفة الاحوذي :2؍74)

آثار صحابہ و تابعین :

حضرت عمرؓ، حضرت ابی بن کعب: او رحضرت تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

أمر عمر أبي بن کعب، تمیما الداري أن یقوما للناس في رمضان بإحدی عشرة رکعة (رواہ مالک فی الموطا)

(ی) حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دو رمیں کچھ بزرگ سنت سے مشابہت کے لیے آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے۔

إنه کان بعض السلف في عمر بن عبدالعزیز یصلون بإحدی عشرہ رکعة قصدا التشبیه برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ماثبت من السنة محدث دہلوی، ص158)

باقی رہا کم و بیش پڑھنا، بہرحال منع نہیں ہے۔ ہاں زیادہ ثواب اسی میں ہے کہ حضورؐ کی سنت کا اتباع کیا جائے اور رکعتوں کی تعداد پر زور دینے کے بجائے اس کی کیفیت پر زور دیا جائے تو اور بہتر رہے گا۔ کیونکہ جو چیز مطلوب ہے۔ وہ یہی روح ہے کہ یوں چمٹ جائیں کہ سحری کے فوت ہوجانے کا انیشہ لاحق ہوجائے۔ یہ وہ تراویح ہیں جو رنگ لاتی ہیں۔ بہرحال اسلاف میں کم و بیش جو تراویح پڑھی گئی ہیں صرف اس لیے کہ بندش نہیں ہے۔ بعض آثار میں تراویح چار رکعت بھی آئی ہیں۔ لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اتنی لمبی پڑھیں کہ انہیں میں سحری ہوگئی۔

چار رکعت : عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَرَكَعَ فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ» مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ جَلَسَ يَقُولُ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي» مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ سَجَدَ فَقَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، فَمَا صَلَّى إِلَّا أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، حَتَّى جَاءَ بِلَالٌ إِلَى الْغَدَاةِ (النسائی :1؍198، قیام اللیل ص90)

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رمضان میں ایک رات حضورؐ کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر رکوع کیا، اس میں قیام کے برابر سبحان ربی العظیم پڑھی، پھر سجدہ کیا اس میں بھی قیام کے برابر سبحان ربي الأعلیٰ پڑھی، پھر اُٹھے اور درمیان میں بیٹھ کر ''رب اغفرلي رب اغفرلي'' قیام کے برابر پڑھتے رہے پھر اسی طرح سجدہ میں ''سبحان ربي الأعلیٰ'' پڑھی، بس چار ہی رکعت پڑھ پائے تھے کہ سحری کے لیے حضرت بلال آگئے۔

امام نسائی فرماتے ہیں یہ روایت منقطع ہے۔ہاں روات سب ثقہ ہیں۔ واللہ اعلم ۔ بہرحال تابعین اور صحابہ کے عہد میں کم و بیش پڑھی گئی ہیں۔ اس کی تعداد پر سر پھٹول اچھی نہیں بلکہ رات بھر قیام کرکے اور سنت کے مطابق ان کو ادا کرنےکی کوشش ہونی چاہیے۔

دوستوں نے بیس رکعت کے لیے جو مرفوع احتجاج پیش کی ہیں وہ ایک بھی صحیح نہیں ہیں، ہم نے جو ذکر کی ہیں، ان میں زیادہ تر مرفوع اور قابل احتجاج روایات ذکر کی ہیں۔ اس لیے حضور کے عمل کے مقابلے میں دوسرے کا عمل پیش کرنا اصولاً اور دیانۃً غلط ہے۔ ایسے بھی جب صحیح حدیث موجود ہو تو بہانےبنا کر اس سے گریز کرنا خدا کے ہاں انسان اس سے بری الذمہ نہیں ہوجاتا۔

اس موضوع پر ہمارے دو رسالے موجود ہیں، منگوا کر مزید مطالعہ فرمالیں۔ ایک کا نام (1) القول البدیع في مسئلة التراویح (2) دوسرے کا نام التلویح بتوضیح التراویح ہے۔

اچھی بدعت، نعمت البدعۃ:

بدعت کے جو معنی یہاں بیان کیے گئے ہیں ،ہم ان سے مطمئن نہیں ہیں، ہمارے نزدیک اس کے معنی صرف معروف بدعت کے نہیں بلکہ واہ وا کے بھی ہیں کہ کیا ہی کمال شے ؟ لسان العرب میں ہے:

رجل بدع و امرأة بدعة إذا کان غایة في کل شيء(لسان العرب)

یہی معنی یہاں ہیں کہ : نعمت البدعۃ ہذہ یعنی یہ کیا ہی کمال شے ہے۔

اس لیے جو بات ذہن میں کھٹکتی تھی، وہ صحیح نہیں تھی۔