وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا (32) كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا (33) وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا (35) وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا (36) قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا (37) لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا (38) وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَوَلَدًا (39) فَعَسَى رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِنْ جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا (40) أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا (41) وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا (42) وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا (43) هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا (44) وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا (پ15۔ الکہف ع5)
ترجمہ: ''اور (اے پیغمبرؐ) ان لوگوں سے ان دو شخصوں کی مثال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دے رکھے تھے او رہم نے ان کے گرد اگرد کھجور کے درخت لگا رکھے تھے او رہم نے دونوں (باغوں)کے بیچ بیچ میں کھیتی (بھی) لگا رکھی تھی۔دونوں باغ اپنے پھل (خوب)لائے او رپھل (لانے) میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور دونوں (باغوں) کے درمیان ہم نےنہر بھی جاری کررکھی تھی تو باعوں کے مالک کے پاس (ہمہ وقت طرح طرح کی) پیداوار موجود رہتی تھی۔ ایک دن یہ شخص اپنے (کسی ) دوست سے باتیں کرتے کرتے بول اٹھا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں او ر(میرا )جتھا (بھی) بڑا زبردست (جتھا) ہے اور (وہ یہ باتیں کرتا ہوا) اپنے باغ میں گیا اور وہ (ناحق غرور اور خدا کی ناشکری سے) اپنے نفس پر آپ ہی ظلم کررہا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت برپا ہو اور بالفرض (ہوئی بھی تو جب ) میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جاؤں گا (بہرحال اس) دنیا سے (تو اس جگہ کو )بہتر ہی پاؤں گا۔ اس کا دوست جو اس سے باتیں کرتا جاتا تھا (دوران گفتگو) بول اٹھا کہ کیا تو اس (پروردگار) کا منکر ہے جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھ کو پورا آدمی بنایا۔ لیکن میں تو (یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ) وہی اللہ میرا پروردگار ہے او رمیں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کرتا اور جب تو اپنے باغ میں آیا تو تو نے (یوں) کیوں نہ کہا کہ یہ (سب) خدا کے چاہے سے ہوا ہے (ورنہ مجھ میں تو) بے مدد خدا کچھ بھی طاقت نہیں، اگر مال اور اولاد کے اعتبار سے تو مجھ کو اپنے سے کم سمجھتا ہے تو عجب نہیں میرا پروردگار تیرے باغ سے (بھی) بہتر (باغ)مجھ کو عطا فرمائے اور تیرے باغ پر (تیری) ناشکری (کی سزا میں) آسمان سے کوئی (ایسی )بلا نازل کرے کہ وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے یا اس کا پانی بہت نیچے اتر جائے او رتو اس کو کسی طرح طلب نہ کرسکے( چنانچہ عذاب نازل ہوا) اور اس (کےباغ) کی پیداوار (عذاب الہٰی کے)پھیرمیں آگئی اور وہ لاگت پرجو باغ میں لگائی گئی، اپنے دونوں ہاتھ ملتا رہ گیا اور (باغ کا یہ حال ہوگیا کہ) وہ اپنی ٹیٹوں پرگرا ہوا پڑا تھا اور (مالک باغ) کہتا جاتا تھاکہ اے کاس! میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہکرتا اور اس کا کوئی جھتا ایسا نہ ہوا کہ خدا کے سوا اس کی مدد کرتا اور نہ وہ (خود ہی) انتقام لے سکا(اسی واقعہ) سے (ثابت ہوا کہ) سب اختیار خدائے برحق ہی کو ہے، وہی بہتر ثواب (دینے) والا ہے اور (وہی آخر کار) بہتر عوض دینے والا ہے۔''
ایک ایسا شخص جس کےپاس انگوروں کے دو باغ ہوں، ان میں کھیتی کا سلسلہ جدا ہو او رپھر اس قدر طویل سلسلہ ہو کہ ان میں نہر بھی ان کے لیے جاری ہو، اتنی بڑی زمینداری او رپھر حق تعالیٰ فرمائیں کہ ہم نے ان کو عطا کی تھی، اس امر کا بین ثبوت ہے کہ زمینداری اگر جائز کمائی او رمحنت کا نتیجہ ہے تو طیب او رپاک ہے۔ہاں اگر وہ زمینداری او رسرمایہ کے بل بوتے پرملک و ملت اور عوام کے ساتھ نامناسب معاملہ کرتا ہے تو اس کو جرمانے اور ان کے خلاف مناسب تعزیریں قائم کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی رضا کے بغیر ان کی جائیداد کو، کوئی بھی شخص اپنی تحویل میں لینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔
آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہوگا کہ: اتنی بڑی سرکشی ، طغیان اور غربا کے سلسلے میں ان کی اتنی بڑی بیدردی کے باوجود، حق تعالیٰ نے زمین کو اس کے حق ملکیت سے علیحدہ کرنے کا کوئی اعلان نہیں فرمایا۔