ستمبر 1976ء

ماہِ رمضان ماہ ِ تطہیر ہے

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔

الدنیا مزرعة الآخرة (مناوی.....)

اس کی روایتی حیثیت جو کچھ ہو تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ: یہ دنیا کارگاہ عمل ہے ، جوکچھ آج یہاں بوئے گا کل وہی جاکر کاٹے گا۔

ولتنظر نفس ما قد مت لغد (پ28۔ حشر)

قرآن حکیم نازل ہوا کہ انسان اندھیرے میں نہ رہے اور اس کا جو بھی قدم اٹھے بے ہوشی میں نہ اٹھے،اور کل جب آنکھیں کھلیں گی تو وہ بے خبری کا بہانہ نہ بناسکے۔

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (58) بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ(پ24۔ زمر ع6)

''اور تمہارے رب کی طرف سے (نصیحت کی) جواچھی اچھی باتیں تم پرنازل ہوتی ہیں، ان کی پیروی کرو۔ اس سے پہلے کہ تم پر یکایک عذاب نازل ہو او رتم کو (اس کے آنے کی) خبر (بھی)نہ ہو (کہیں ایسا نہ ہو کہ کل)کوئی کہنے لگے کہ اے افسوس! میری اس کوتاہی پر جو میں نے پاس خد (ملحوظ رکھنے) میں کی اور میں تو ہنستا ہی رہا یا کہنے لگے کہ اگر خدا مجھ کو (نیک) ہدایت دیتا تو میں (بھی) متقیوں میں سے ہوتا یا جب عذاب کو دیکھ کر لگے کہنے کہ اے کاش! مجھے (دنیا میں) پھر لوٹ جانا (نصیب) ہو تو میں (بھی)نیکوں میں سے بنوں (اس وقت خدا ان سے فرمائے گا کہ ہاں) ہاں ہمارے احکام تجھ کو پہنچے اور تو نے اس کو جھٹلایا اور اکڑ بیٹھا او رمنکروں میں سے (ایک منکر تو بھی) تھا۔''

بہشت احکم الحاکمین کاایک مقام قرب او ربندگان خدا کے لیے جائے نزول اور مقام طمانیت ہے۔لیکن اس کی یہ خصوصیت ہے کہ:

اس کا ہر گوشہ بلکہ اس کا ذرہ باساری پن، غیر شائشتہ حرکت، معصیتوں کی آلائش باطل او رجھوٹ کی ساری ممکن قدروں سے پاک او رمنزہ ہے تو کجا وہاں اس کی بھنک بھی کانوں میں نہیں پڑے گی۔
لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا(پ27۔ الواقعہ ع1)

''وہاں نہ تو کوئی لغو بات سنیں گے او رنہ کوئی غیر شائستہ حرکت (دیکھیں گے)''

لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا(پ40۔ نبا ع2)

''وہاں وہ لوگ نہ تو کوئی بیہودہ بات سنیں گے او رنہ کوئی جھوٹ۔''

معصیت ، بازاری پن او رباطل کے چرکے تو دور کی بات ہے ۔ اس کی نزاکتیں او رلطافتیں تو ایسی کسی لغزش کے صدور کی بھی متحمل نہیں ہیں جوبشری کمزوری کے نتیجے میں ''بھولے'' سے انسان سےسرزد ہوسکتی ہے، جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے حادثہ میں آپ نے پڑھا ہے۔

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (پ16۔ طہٰ ع6)

''ہم نے اس سے پہلے آدم سے ایک عہد لیا تھا تو وہ اسے بھول گئے اور ہم نے اس سلسلے میں اس کا پختہ عزم نہیں پایاتھا۔''

ایسی پاک اور معصوم جگہ صرف انہی خوش نصیبوں کے لیے ہوسکتی ہے جن کی زندگیاں پاک اور صاف ستھری ہوں گی۔

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا(پ16۔مریم ع4)

''یہی وہ جنت ہے جس کا ہم صر ف ان لوگوں کو وارث بنائیں گے جو پرہیزگار ہوں گے۔''

گویا کہ: یہ جنت ان کے حصہ میں آئے گی جو خود یہاں سے جنت لے کرجائیں گے ، جن کی زندگیاں یہاں جنتیوں جیسی نہیں ہوں گی، ان کے لیے وہ جنت کہا؟ سورہ بنی اسرائیل میں آیا ہے۔

وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى(ع8)

''جو اس (دنیا) میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔''

یعنی جس شخص نے حقائق دینیہ سے آنکھیں بند کیے رکھیں ، اس کا یہاں بھی بُرا حال ہوگا اور وہاں بھی۔

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى(طہٰ ع7)

''اور جس نے ہماری یاد سے روگردانی کی تو اس کی زندگی ''گھٹن'' میں گزرے گی او رقیامت میں بھی ہم اس کو اندھا کرکے اٹھائیں گے۔''

بعض علماء نے آیت:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (سورہ رحمٰن)

''(او رجو شخص اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرتا رہا، اس کے لیے دو (باغ) بہشت ہیں '' کے تحت لکھا ہے کہ حضرت امام ابن تیمیہ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے۔

إن في الدنیا جنة من لم ید خلھالم یدخل جنة الآخره۔

''اس دنیا میں (بھی) بہشت ہے، جو اس میں داخل نہ ہوا وہ اخروی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔''

یعنی وہ جنت وہی ہے جو یہاں سے لے کر جائے گا۔ جو جنت صرف وہاں کی پیداوار ہوگی، وہ تو بہت ہی مہنگی پڑے گی، پہلے دوزخ کی کٹھالی میں پڑنا ہوگا، جب وہ تمام میل کچیل اور نامناسب الائشیں چھٹ جائیں گی جن کی وہ پاک سرزمین متحمل نہیں ہوسکتی تو پھر کہیں حکم ہوگا کہ اب اس میں داخل ہوسکتے ہو۔ غور فرمائیے کہ اب وہ کس بھاؤ پڑی۔

باقی رہی فی سبیل اللہ کی بہشت؟ سو وہ آپ جانتے ہیں کہ وہ تو ہمارے بابا آدم کو بھی راس نہیں آئی تھی ان کی اولاد کو کب راس آئے گی۔

ماہ رمضان کے روزے بس اسی تطہیر (تقویٰ) کا فریضہ انجام دینے میں آپ کی مدد کو آئے ہیں کہ آپ ''بچ بچاؤ'' کی پالیسی کے خوگر ہوجائیں، تاکہ جب آپ خدا کے حضور حاضر ہوں تو آپ صاف ستھرے ہوں او ران تمام آلودگیوں اور تلویثات سے پاک ہوں جودخول جنت میں کسی بھی درجہ میں بریکیں لگا سکتی ہیں۔چنانچہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (پ2۔ بقرہ ع23)

''مسلمانو! جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا، ویسے ہی تم پر فرض کیا گیا ہے تاکہ (نامناسب امور کے ارتکاب سے)بچو۔''

روزوں کے سلسلے میں بعض امور سے پرہیز کرنے کے بعد فرمایا:

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (ع2)

''اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام لوگوں کوکھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ (خلاف حکم کرنے سے )بچیں۔''

یہ ''بچ بچاؤ'' کیاہے؟ وہی عمل تطہیر جس کے ذریعے ایک انسان اپنے آپ کو گھٹیا طرز حیات سے پاک رکھ سکتا ہے۔اس لیے رحمت عالم ﷺ نے رمضان المبارک کا نام شہر صبر بھی رکھا ہے۔ وھو شہر الصبر والصبر ثوابه الجنة (ابن خزیمۃ عن سلمان) صبر کے معنی ضبط نفس، برداشت او رہمت نہ ہارنے کے ہیں۔ حضرت امام ابن رجب لکھتے ہیں:

صبر تین قسم کا ہے: ایک کا تعلق اللہ کی اطاعت سے ہے (کہ ہمت نہ ہارے اور ڈٹا رہے) دوسرے کا تعلق اللہ کے محارم سے ہے (کہ جن) امور کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ وہاںضبط نفس سے کام لے، ان کا ارتکاب نہ کرے۔ تیسرے یہ کہ راہ حق میں جو تکالیف پیش آتی ہیں، ان کو برداشت کرے۔

الصبر ثلاثة أنواع: صبر علی طاعة اللہ و صبر علی محارم اللہ و صبر علی أقدار اللہ المؤلمة (بقیۃ الانسان ص4)

جو روزے رکھ کر تطہیر کے اس فریضہ میں ناکام رہتے ہیں، ان کے متعلق رحمت عالمﷺ فرماتے ہیں:

عطائے تو برتعائے تو، یہ روزے اپنے گھر لے جاؤ، خدا کو ان روزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

من لم یدع قول الزور والعمل به فلیس اللہ حاجة في أن یدع طعامه و شرابه (رواہ البخاری)

''جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے سے کوئی دلچسپی نہیں۔''

ابن ماجہ میں مزید ہے:

من لم یدع قول الزور والجھل و العمل به۔

''جس شخص نےجھوٹ بولنا او رجہالت (کا نہج) او راس کے مطابق عمل نہ چھوڑا ۔ تو خدا کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔''

زُور سے مراد ہر باطل اور خلاف حقیقت بات ہے، مومن کا اصل کام حقائق کی رہنمائی اور حقیقت کے خلاف جو راہ جاتی ہو اس کا سدباب کرنا ہے۔اس کے برعکس اگر وہ خود ہی اس پر عمل پیرا ہے تو ظاہر ہے کہ روزہ سے اس کو کچھ حاصل نہ ہونا چاہیے! کیونکہ روزہ سے غرض بھی تطہیر اور امساک عن الباطل تھی، اگر وہ زُور اس کی زندگی میں اب بھی بدستور زندہ و تابدنہ ہے تو یہی کہنا پڑے گا کہ :یونہی بھوکے مرنے والی بات ہے۔

جھل۔ نادانی او رجہالت کو ''جہل'' سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کی چند قسمیں ہیں۔

1۔ زہن کا علم سے خالی ہونا۔

2۔ وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوں وہ بھی جہل کی شاخ ہیں۔

3۔ خلاف واقعہ کسی چیز کے متعلق رائے رکھنا۔

4۔ کام کو جس طرح کرنا چاہیے، اس کے برعکس کرنا (راغب)

یہاں مؤخر الذکر تینوں مراد ہیں، اگر روزہ کے باوجود ان کاسلسلہ جاری ہے تو سمجھ لیجئے! سب کو پاکر کھودیا۔

ایک اور روایت میں ہے:

من لم یدع الخنا والکذب (طبرانی۔ ابوہریرہ)

''جس نے فحش گوئی ، بکواس اور جھوٹ نہ چھوڑا۔''

خناء : اصل میں ''خنی'' ہے جس کے معنی فحش گوئی ہے۔یعنی ایسی عریانی بات کہنا جو سنجیدگی ،متانت او رمقام عبدیت کے منافی ہو خنا کہلاتا ہے۔روزہ کے بعد اگر سنجیدگی او رحیا کا دامن چھوٹ چھوٹ گیا تو اس نے خاک روزہ رکھا۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے:

لیس الصیام من الأکل والشرب إنما الصیام من اللغو والرفث (ابن حبان۔ابوہریرہؓ)

''روزہ کھانے پینے سے باز رہنے کانام نہیں ہے، اصل روزہ لغو اور رفث سے باز رہنے کا نام ہے۔''

لغو: واہی اوربے ہودہ بولنا اوربے ہودہ کام کرنا لغو کہلاتا ہے۔

رفث: رفث ہر وہ ناشائستہ حرکت ہے جو غلط اور ناجائز امور کے لیے انگیخت کرتی ہے۔ بالخصوص جو بات ناجائز جنسی تحریک کی موجب بنتی ہے، اس کےارتکاب کو ''رفث'' کہتے ہیں۔ر وزہ جس ضبط نفس کی داغ بیلنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب حرکتیں اس کے سخت منافی ہیں۔

یہ کہنا کہ روزہ سے غرض ''کھانا پینا'' چھڑانا نہیں ہے۔ اس سے غرض یہ ہےکہ کھانا پینا بُرا نہیں ہے۔ اب نہیں تو ذرا ٹھہر کر آخر کا کھانا ہی پڑےگا۔ اصل میں کھانا پینا کم کرکے ان طبعی میلانات کازور توڑنا مقصود ہے ، جو فطری حدود کو پامال کرسکتاہے۔ گویا کہ چند ثانیہ کے لیے ان کا چھوڑنا، ضبط نفس کے لیے ایک معاون مہیا کرنا ہے۔

غیبت: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےمبارک عہد میں دو خواتین نے روزہرکھا مگر شدت روزہ سے مرنے کو تھیں، حضور کو ان کاماجرہ سنایا گیاتو آپؐ ن ان سےمنہ پھیر لیا۔ پھر صحابی نے کہا: حضورؐ! مرنے کو ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ان دونوں کو بلا لاؤ، جب آگئیں تو آپؐ نے ایک برتن منگوایا۔ پھر دونوں سےفرمایا کہ :: اس میں قے کرو ، انہوں نے قے کی تو اس میں پیپ ، لہو اور گوشت کے تازہ ٹکڑےنکلے۔ آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا:

إن هاتین صامتا عما أحل اللہ لھما و أفطرتا علی ماحرم اللہ علیھما جلست أحدهما إلی الأخریٰ فجعلتا تأ کلان من لحوم الناس (رواہ أحمد عن رجل لم یسمع عن أ بید)

''ان دونوں نے ان چیزوں سے روزہ رکھا تھا جن کو اللہ نے ان کے لیے حلال کیا ہے او ران چیزوں سے روزہ توڑا ہے جن کو خدا نے ان پر حرام کیا ہے،وہ ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں (یعنی گلہ کرتی رہیں)''

گو فقہاء نے چغلی کو مفسد روزہ قرار نہیں دیا تاہم ان کے نزدیک یہ ضیاع اجر کاموجب ضرور ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات عالیہ سے واضع ہوتا ہے کہ روزہ سے اصل غرض زندگی کے ان ذمائم اور رذائل کی تطہیر ہے جن کی وجہ سے ایک انسانیت داغدار آخرت بوجھل او رخدا سے بے تعلقی بڑھتی ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ : اگر کوئی شخص روز ہ دار کو بُرابھلا کہے تو جوابی کارروائی سے پرہیز کرے او ریہ کہہ کر کترا جائے کہ :بھئی میں روزہ سے ہوں۔

فإن سابك أحد فقل إني صائم (ابن خزیمۃ۔ابوہریرہ)

ایک اور روایت میں ہے کہ: اگر کوئی آپ کو بُرا بھلا کہے یا کوئی زیادتی کرے او رجہالت سے پیش آئے تو کہے کہ : میں توروزہ سے ہوں۔

فإن سابك أحد أو جھل علیك فقل إني صائم (ابن خزیمۃ۔ابوہریرہ)

دراصل ضبط نفس کا یہ اہم موقع ہے، جب جذبات مشتعل ہوں، اس وقت سنجیدگی، انسانیت اور رضائے الہٰی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کرنا نفس سے ایک بہت بڑا جہاد ہے۔ اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : روزہ ایک ڈھال ہے۔ جب تک کوئی اسے خود نہ پھاڑ ڈالے۔

الصیام جنة مالم یخرقھا (رواہ النسائی۔ ابوعبیدۃ)

کسی نے پوچھا: پھاڑنا کیا ؟ فرمایا: جھوٹ بول کر یا غیبت او رگلہ کرکے۔

وقیل بم یخرقھا؟ قال بکذب أوغیبة (طبرانی۔ ابوہریرہ)

آپ نے دیکھا ہوگا کہ:

روزہ بظاہر صرف کھانے پینے او رجنسی خواہشات کی تکمیل سے پرہیز کرنے پر زور دیتا ہے او ریہ سب جانتے ہیں کہ یہ سب امور ''سلبی اور منفی'' قسم کے ہیں۔ رات کا قیام مسنون اور مفید ضرور ہے مگر روزہ کا حصہ نہیں ہے۔ ہاں ''ضبط نفس ''او رتطہیر کے لیے معاون ضرور ہے جیسے دوسرے اور اد وصدقات ۔ یہ دوسری شے ہے۔

بہرحال بہشت پاک سرزمین ہے، دیدار الہٰی کا مرحلہ اس سے بھی پاک تر۔ اس لیے جو لوگ ان کے خواہش مند ہیں، انہیں، اپنےاندر ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا پڑے گا، جو ان کو ایسی پاکیزہ ترین دولت کا اہل بنا سکے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا تو پھر سمجھ لیجئے کہ وہ احکم الحاکمین کے مقدس دربار میں گندگی میں ملوث جسم کے ساتھ حاضری دینا چاہتا ہے۔ اگر ایک شخص ایک معزز شہری کی مصفی اور ستھری قیام گاہ پرمیلے کچیلے لباس اور متعفن جسم کے ساتھ جانے کو عقل و ہوش اور ٍذوق کا ماتم تصور کرتا ہے تو آخر وہ اس کو کیسے تصور کرسکتا کہ رب العالمین کے پاک دربار میں انبیاء او راتقیاء کے پاک دربار میں ، بایں رُوسیا ہی و رذاول ، حاضر ہونے میں کچھ باک نہیں ہے؟

بہرحال روزہ بندوں کوبھوکوں مارنے کی سکیم نہیں ہے، بلکہ ان کو ''بندہ'' بنانے کی ایک مبارک تقریب ہے، تاکہ جب وہ خدا کے حضور حاضر ہوں، تو صاف ستھرا او رپاک و منزہ ہوں ایسی عفونت اور غلاظت کو دنیا میں ہی فنا کرکے پیش ہوں جو پاک ہستی کے پاک دیار اور قدسی صفات شہر کی لطیف نزاکتوں کے لیے غارت گر ہوسکتی ہے۔

اگر روزہ دار نے روزہ کی اس حکمت او رروح کوسمجھ کر روزہ کو سینے سےلگایا تو یقین کیجئے! ماہ رمضان کی یہ مبارک گھڑیاں ان کو وہ بال و پر عطا کردیں گی جو ان کو اُڑا کر جنت الفردوس کے مقام رفیع پر فائز کردیں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ

یہ تطہیر، ابن آدم کی آدمیت او رانسان کی انسانیت کو جلا بخشتی ہے۔ قرب و وصال کی منزلیں طے کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے او رحق تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے سازگار فضا پیدا کردیتی ہے۔

جو لوگ روزہ کی اس غرض و غایت سے غافل رہ کرروزے رکھتے ہیں وہ شائد اس امر سےبے کبر ہیں کہ وہ صرف بھوکے او رپیاسے مر رہے ہیں۔اس لیےرسول کریمﷺ نے نہایت افسوس سے فرمایا کہ:

بہت سے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزوں سے صرف بھوک او رپیاس حاصل ہوتی ہے او ربہت سے قیام کرنے والے ہیں جن کو صرف شب بیداری کی زحمت ہی نصیب ہوتی ہے۔

رب صائم لیس له من صیامه إلا الجوع و رب قائم لیس له من قیام إلاسھر (ابن ماجہ۔ ابوہریرۃ)