خار بھی تیری راہ کے پھول ہیں تیری راہ میں

تجھ سا کریم و مہربان کوئی نہیں نگاہ میں لایا مجھے کشاں کشاں دل تیری بارگاہ میں
لطف ِگناہ قلیل تر رنج گناہ طویل تر ایک گناہگار نے پایا یہی گناہ میں
دین بہت ہے قیمتی جاہ و جلال دہر سے دین نہ دے تو ہاتھ سے شوق جلال و جاہ میں
دل میں نہ کوئی مدّعا لب پہ نہ کوئی التجا غرق ہوئی ہیں چاہتیں آپ کی ایک چاہ میں
حسنِ یقین سے دل ترا اب بھی جو بہرہ مند ہو اب بھی فغاں میں رنگ ہو اب بھی اثر ہو آہ میں
تیرے ہرایک کام سے ہے وہ خبیر باخبر دن کی وہ روشنی میں ہو یا وہ شب سیاہ میں
دونوں جہاں کے خوف سے اس کو پناہ مل گئی تیرے کرم سے آگیا جوبھی تیری پناہ میں
شاہ و گدا ہرایک پر طاعت حکم فرض ہے فرق نہیں خدا کے ہاں کچھ بھی گدا و شاہ میں
گرد بھی تیری راہ کی سرمہ ہے میری آنکھ کا خار بھی تیری راہ کے پھول ہیں تیری راہ میں
تیری خوشی کے واسطے دشمن دیں کےسامنے عاجز خوش نوا بھی اب آگیا رزم گاہ میں