أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، قَالَ: «لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِزُ عَنْ مَئُونَةِ أَهْلِي، وَشُغِلْتُ بِأَمْرِ المُسْلِمِينَ، فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا المَالِ، وَيَحْتَرِفُ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ» (بخاري باب کسب الرجل و عمله بیدہ)
(حضرت) عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب (حضرت ) بوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے تو فرمانے لگے کہ:
میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا پیشہ (کاروبار) میرے اہل و عیال کے معاش سے عاجز نہیں ہے اور (اب) میں مسلمانوں کے کام میں مصروف ہوگیا ہوں اس لیے (اب) ابوبکر کےاہل و عیال (بیت المال کے) اس مال سےکھائیں گے او روہ اس میں مسلمانوں کے کام کو انجام دے گا۔
طبقات ابن سعد (ص2؍130) کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ:
حضرت ابوبکرؓ کپڑے کی تجارت کرتے تھے، مدینہ میں بھی مقام سلخ میں ان کا کپڑے کا کارخانہ تھا (ارض القرآن:2؍130)
حضرت ابوبکر ؓ نے اسی اپنے پیشہ کی طرف اشارہ کیا ہے او راس وقت کیا ہے جب خلافت پرمتمکن ہونے کے بعد آپ کپڑوں کا گٹھڑ لے کردکان کو چلے تھے او رحضرت عمرؓ نے روکا تھا (فتح الباری) گویا روایت بظاہر موقوف (صحابی کا اپنا طرز عمل) روایت ہے، تاہم یہ حکماً مرفوع ہے ، کیونکہ انہوں نے اپنے جس پیشہ کا ذکر کیا ہے وہ رسول کریمﷺ کے مبارک عہد کا واقعہ ہے۔
حدیث ابن بکر ھذا وإن کان ظاہرہ الوقف لکنه بما اقتضاہ من أنه قبل أن یستخلف کان یحترف لتحصیل مؤنة أھله یصیر مرفوعاً لأنه یصیر کقول الصحابي کنا نفعل کذا علی عھد النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فتح الباري باب مذکور)
یہ کاروبار بالکافی وسیع تھا، چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے حضورؐ کے عہد میں کاروباری تاجر کی حیثیت سے بصرے کا سفر بھی کیا۔
وقدروی ابن ماجه وغیره من حديث أم سلمة: أن أبابکر خرج تاجرا إلی بصری في عھد النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم (فتح الباري باب مذکور)
کارخانہ اور بصرہ تک تجارت کا سلسلہ کسی فرد واحد کا کام نہیں ہے۔ ظاہر ہے کچھ خدام اور مزدور بھی درکار ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ کہہ کر کہ : یہ قدر زائد ہے، لہٰذا مزدوروں کا ہے، آپ کا اس میں کوئی حق نہیں۔ ان سے کارخانہ سرکاری تحویل میں نہیں لیا تھا۔
قدر زائد سوشلسٹوں کی ایک اصطلاح ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کارخانہ میں مزدو رمحنت کرکے جو پیدا کرتا ہے ، وہ ایسی زائد پیداوار ہے، وہ مزدور کا حق ہے کارخانہ دار کا نہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ: یہ کارخانہ اور وسیع کاروبار اس عہد کی بات ہے : جب دنیا ایک لقمہ لقمہ کو ترستی تھی اور تن ڈھانکنے کے لیے ایک ایک چیتھڑے کے لیے خون پسینہ ایک کردیتی تھی۔
اپنی کمائی پاکیزہ کمائی ہے:
عن عائشة رضی اللہ تعالیٰ عنها قالت:
قال النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم إن أطیب ما أکلتم من کسبکم الحدیث (رواہ الترمذي وغیرہ)
سب سے پاکیزہ تر وہ چیز جو آپ کھاتے ہیں ، وہ ہے جو آپ کی اپنی کمائی ہے۔
کمائی کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں کی جائز محنت، زبان او رکلام کی جائز کمائی، فکر و نظر کا جائز کسب۔ اسلام کے نزدیک یہ سب کمائیاں تھوڑی ہوں یابہت ، رتیوں او رماشوں کے حساب سے ہوں یامنوں او رٹنوں کے حساب سے، سب پاکیزہ ، طیب، پاک، جائز او رحلال ہیں۔ جائز کی قید ہم نے اس لیے لگائی ہے کہ:
ناجائز طریقے سےمحبت کرکے جو کمائی کی جائے، او روہ محنت کتنی ہی محنت شاقہ ہو ، ناجائز او رحرام و ناپاک ہی رہے گی۔
کمیونسٹوں کاباوا آدم ہی نرالا ہے، ان کے نزدیک فکرونظر کی تو کچھ بھی قیمت نہیں، ہاں جانور کی طرح جوزور بازو کے ساتھ محنت کی جائے گی وہ کمائی اس کی ہوگی، ذہنی اور فکری کاوش کاجو نتیجہ ہوگی، وہ اس کی نہیں ہوگی۔ یہ وہ ہوائی نظریہ ہے جو خود ان کے گھر میں بھی بار نہیں پاسکا۔ ان کے ملک کا ایک وزیراعظم، اعلیٰ حکام ، صدر مملکت جیسے منصب پر فائز لوگ جو سرتا پا ذہنی اور علمی و سیاسی بصیرت کی وجہ سے اونچے عہدوں پر چلے گئے ہیں، ان کی تنخواہیں ایک عام مزدور کی کمائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
اس کے نظریے کے تو یہ معنی ہوئے کہ : گدھے کو مالک سے زیادہ ملنا چاہیے ، بلکہ جزوی اجرت توبیشک مالک کو ملنی چاہیے کیونکہ وہ بھار ڈھوتا ،جمع کرتا اور گدھے پر لادتا ہے، مگر جو مشقت اٹھانے جان جوکھوں میں ڈالنے او رمار کھانے کی گدھے کو برداشت کرنا پڑتی ہے ، مالک کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں اس لیے باقی سارا گدھے کا ہونا چاہیے، یہی حال اونٹ اور ہل جوتنے والے بیلوں اور دوسرے جانوروں کا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جس طرح دوسری محنتوں اور صلاحیتوں کا احترام کیاگیا ہے، وہاں فکری اورعلمی و ذہنی صلاحیتوں کو بھی خاص مقام بخشا گیا ہے۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ(زمر)
''آپ کہہ دیں کہ کیا اہل علم او رجاہل برابر ہوتے ہیں''
حضورﷺ کا ارشاد ہےکہ : نرے زاہد پرعالم کا ایسا درجہ ہے جیسا میرا تمہارے ایک آدمی پر۔
فضل العالم علی العابد کفضلي علی أدناکم (ترمذی۔ باہلی)
اس لیے اگر ایک شخص اپنی ذہنی صلاحیتوں اور بصرت کے ذریعے کارخانوں یا عظیم جاگیروں کی تخلیق کوپایا ہے تو اس کا بہرحال احترام کرنا چاہیے۔ باقی رہیں اس سلسلے کی حماقتیں؟ سو ان کو دور کرنےکے لیے ممکن ذرائع ضرور استعمال کرنا چاہیئں لیکن ایسے نادان حکیم کی طرح نہیں جو دردسر کا علام سر کو قلم کرنا ہی جانتا ہو۔
دودھ وہ بیچتی، آمدنی یہ لیتے:
عن أبي بکر بن أبي مریم قال کانت لمقدام بن معدیکرب جاریة تبیع اللبن ویقبض المقدام ثمنه فقیل له۔
سبحان اللہ أتبیع اللبن و تقبض الشمن وما بأس بذالك سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول لیأتین علی الناس زمان لا ینفع فیه إلا الدنیار والدرھم (رواہ احمد)
ابوبکر بن ابی مریم کہتے ہیں، حضرت مقدام بن معدیکرب کی ایک لونڈی تھی، دودھ وہ بیچتی تھی، پیسے اس کے حضرت مقدام لے لیتے تھے، کسی نے اعتراض کیا کہ : دودھ (تو وہ بے چاری)بیچتی ہے او رپیسے آپ لے لیتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا:ہاں! اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں نےرسول کریمﷺ سے سنا تھا، فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب پیسے دھیلے کے بغیر کام نہیں چلے گا۔
کمائی کوئی کرتا ہے مگرکھاتا کھلاتا کوئی ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ لوندی بجائے خود حضرت مقدام کی کمائی ہے۔ حضرت مقدام رسول کریمﷺ کے عظیم صحابی ہیں۔ ان کا طرزعمل اس امر پر شاہد ہے کہ جائز کمائی صرف بازؤں کی کمائی کا نام نہیں، انسانی صلاحیتوں میں سے جس صلاحیت کا بھی نتیجہ ہو، وہ اس کی کمائی شمار ہوتی ہے اور پاک اور اس کا حق بنتی ہے۔
غلام کی کمائی کھاتے تھے:
عن عائشة رضی اللہ تعالیٰ عنها قالت کان لأبي بکر غلام یخرج له الخراج فکان أبوبکر یأ کل من خراجه (رواہ البخاری)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں، حضرت ابوبکر کے ایک غلام تھے جو ان کو مقررہ رقم دیتا تھا تو ابوبکر اس کی کمائی کھاتے تھے۔
اگرایک انسان اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ لوگوں کو مزدوری مہیا کرکے کام لیتا اور کمائی کرتا ہے تووہ بالکل جائز ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت کبریٰ ہے جس کو کسی سے بھی مفر نہیں ہے، جو چیز جزوی طور پر جائز ہے، وہی شے اگر اجتماعی صورت اختیار کرے تو آخر وہ کیوں جائز نہ ہو۔
حضورؐ کے عہد کا عظیم تاجر اور کروڑ پتی:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ العُسْرَةِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلَيَّ ثَلاَثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلاَسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللهِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ، مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ. (ترمذی)
حضرت عبدالرحمٰن بن خباب فرماتے ہیں: میں رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ غزوہ تبوک کے سلسلے میں لوگوں کو ترغیب دلا رہے تھے تو حضرت عثمان ؓ اٹھے او رکہا:
(حضورؐ!) جھولوں او رکجادوں سمیت سو اونٹ محض رضائے الہٰی کے لیے میرے ذمے۔
آپ نے پھر لشکر کو مسلح کرنے کے لیے ترغیب دلائی تو (دوبارہ) حضرت عثمان اٹھے او رکہا:
(حضورؐ!) جھولوں او رکجادوں سمیت دو سو اونٹ اللہ کی راہ میں میرے ذمے۔
آپ نے پھر لشکر کو تیار کرنے کے لیے ترغیب دلائی! تو حضرت عثمان ؓ (تیسری بار پھر) اٹھے او رکہا۔
(حضورؐ!)جھولوں او رکجادوں سمیت تین سو اونٹ اللہ کی راہ میں میرے ذمے۔
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ یہ کہتے ہوئے منبر سے اتر رہے ہیں کہ اس کے بعد اگر عثمان اور کوئی (نفلی صدقہ خیرات جیسے) کام نہ بھی کریں ان کا کوئی حرج نہیں ہوگا (دوبارہ ایسا ہی فرمایا)
مسند احمد کی ایک اور روایت ہے کہ انہوں نے جیش کی تیاری کے لیے ایک ہزار اشرفی کی تھیلی بھی حضور کو پیش کی تھی ، جسے حضور خوش ہوکر جھولی میں لے کر اچھالتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے بعدعثمان او رکچھ نہ بھی کریں تو ان کاکچھ حرج نہیں ہوگا۔
یہ 9 ہجری کا واقعہ ہے: جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کرنے والا ہے۔ یہ دن سخت تنگی ترشی کے تھے۔ اس لیے اس کانام''جیش العسرۃ'' کانام پڑ گیا، اس مرحلہ پر انہوں نے ایک تہائی فوج کو پوری طرح مسلح کرنے کا ذمہ لیا تھا۔ چنانچہ ایک ایک تسمہ تک ان کی رقم سے خریدا گیا، اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور رسد کے لیے ایک ہزار اشرفی پیش کی (مستدرک حاکم و ترمذی)
ان روایات کے پیش کرنے سے غرض یہ ہے کہ رسو ل کریمﷺ کے عہد مبارک میں جب کہ دنیا نان جویں کو ترستی تھی اس وقت بھی اتنے اونچے درجے کے مالدار اور سیٹھ موجود تھے جن کے پاس تجارتی ذرائع کے علاوہ زمینیں تھیں، نیک خدمات کے عوض کچھ تو بطور جاگیر سرکار کی طرف سے ان کو زمینیں ملی تھیں اور کچھ انہوں نے خود بھی خرید لی تھیں، مدینہ منورہ میں ان کا نہایت عالی شان ایک مکان تھا۔ یہ صرف حضرت عثمانؓ کی بات نہیں او ربھی بیسیوں صحابہ اور بھی متمول لوگ تھے۔
حضرت زبیر کےایک ہزار غلام تھے (اصابہ) حضرت زبیر کی چار بیویاں تھیں۔ ان کوبتیسواں حصہ میں گیارہ گیارہ لاکھ درہم ملا تھا اور تین کروڑ باون لاکھ کی جائیداد چھوڑی تھی (ابن کثیر) حضرت طلحہ بہت بڑے تاجر ہونے کے ساتھ عظیم زمیندار بھی تھے، عراق میں ان کا زراعتی کاروبار بہت بڑاتھا (ابن سعد) حضرت حاطب بن ابی بلتعہ جب فوت ہوئے تو بہت بڑی نقدی اور متعدد مکانات چھوڑے تھے (طبقات ابن سعد) جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کا انتقال ہوا تو ایک ہزار اونٹ ، تین ہزا ربکریاں سو گھوڑے او رلاکھوں اشرفیاں ورثہ میں چھوڑیں۔ آپ کی چار بیویاں تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کو ترکہ میں صرف بتیسواں حصہ ملا او رہر ایک کے حصہ میں ایک ایک لاکھ آیا اور یہ دولت تھی جو راہ خدا میں لٹانے سے بچ رہی تھی۔(ابن سعد) لیکن ان کے باوجود ان کی کسی بھی شے کو سرکاری تحویل میں نہ لیا تھا او رکسی نے ان سے یہ مطالبہ نہ کیا کہ : یہ ''قدر زائد'' ہے مزدوروں کا حق ہے۔ آپ کا نہیں ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنی سرکاری حیثیت میں انے عہد میں تعرض نہ کیا ، نہ حضرت ابوبکر و عمر وعثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے اپنے دور خلافت میں ان کو چھیڑا ، نہ کسی سے زمین کا کوئی ٹکڑا چھینا، نہ کارخانے دار سے کارخانہ بھی ، نہ سرمایہ دار کا سرمایہ ضبط کیا، نہ مکانات کے مالکوں سےمکان چھین کر غریب پروری کا ڈھونگ رچایا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے جنہوں نے اپنے ملکی آئین کو انہی کے نقش قدم پر قائم کرنے کا اعلان کیاہے وہ اگر اُٹھ کر اس کی نئی طرح ڈالتے ہیں تو ہم دعا کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
باقی رہاسرمایہ داروں ، جاگیرداروں او رکارخانہ داروں کی دھاندلیوں کا قصہ؟ سو اس کا یہ حل نہیں کہ ناجائز صورت حال کو کسی ناجائز طریقے سے ہی حل کیا جائے، حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ :
إن اللہ لا یمحو السيء بالسيء ولکن یمحوا السيء بالحسن إن الخبیث لا یمحوا الخبیث (رواہ احمد عن بن مسعودؓ)
''اللہ تعالیٰ بُرائی کو بُرائی کے ذریعہ نہیں مٹاتا بلکہ بُرائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے۔ کیونکہ خباثت خباثت سے دور نہیں ہوتی ۔(بلکہ وہ اور بڑھتی ہے)''
ان دھاندلیوں کو خود ڈھاندلیاں کرکے ختم کرنا، کوئی معقول اور شرعی حل نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ظلم تھیں تو یہ بھی ان سے مختلف نہیں رہیں، ظلم بہرحال ظلم ہوتا ہے، خواہ کس بھیس میں ہو، حضورﷺ کا ارشاد ہے ایسا مال حلال نہیں ہے۔
خوش دلی کے بغیر مال حلال نہیں:
عن أبي حرة السرقا شي عن عمه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ألا لا تظلموا أحدا ألا لا یحل مال امرء إلابطیب نفس منه (مشکوٰۃ بحوالہ شعب الإیمان للبیهقي والمجتبی للدارقطني)
''حضورﷺ نے فرمایا:خبردار! کسی پر زیادتی نہ کرو! خوش دلی اورمرضی کے بغیر کسی شخص کا مال کسی شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔''
ساتوں طبق گلے میں ڈال دیئے جائیں گے:
عن سعیدبن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم: من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه یطوقه یوم القیامة من سبع أرضین (بخاری و مسلم)
حضرت سعید بن زید فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے:
جس شخص نے بھی ظالمانہ طریقے سے کسی کی بالشت بھر زمین بھی لی تو قیامت میں وہ زمین ساتوں طبق تک اس کےگلے میں ڈال دی جائے گی۔
ان دونوں احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ لین دین کے معروف اور شرعی طریقے کے بعیر، مالک کی خوش دلی اورمرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی کے لیے بھی اس کا مال جائز نہیں ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت بھی مملکت کےہر فرد کی ذاتی ملکیت کی حفاظت کی ذمہ دار اور ضامن ہوتی ہے، خواہ وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ نایہ کہ خود ہی دھاندلیوں کادروازہ کھولے۔ زمین او رکارخانے تو دُور کی بات ہے، اسلام او راسلامی حکومت اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شخص کسی کی بکری کا دودھ بھی مالک کی مرضی کے بغیر دوہنے کی کوشش کرے۔
لا یحلبن أحدما شیة امرئ بغیرإذنه(مسلم عن ابن عمر)
''اگر مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی زمین میں کسی نے کاشت کر بھی لے تو کاشت اسے نہیں دی جائے گی۔''
من زارع في أرض قوم بغیرإذنھم فلیس له من الزرع شيء (ترمذی عن رافع)
دولت اور سرمایہ او ران کےذرائع کو اگر معصوم او رپاکیزہ رکھا جائے تو وہ رحمت بردوش ثابت ہوتے ہیں، اگر وہ خبیث ہونے لگے ہیں تو ان کو پاک رکھنےکے لیے تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ ملک و ملت کو ان سے فائدہ پہنچے۔ اگر اس کے بجائے ان کو یک قلم ختم کردیاجائے تو حکومت کے کام بھی بڑھ جاتے ہیں۔ او رکاروباری ذہن کے لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ویسے بھی پوری قوم ایک ذہنی غلامی او رگٹھن میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
صحیح علاج یہ ہے کہ ملکی فضاؤں کو پاک رکھنے کے لیے مومنانہ محنت کی جائے، خدا خوفی، غریب پروری او راللہ ترسی کی اقدار پیدا کی جائیں او رایسے حالات نہ پیدا کیے جائیں جن کی وجہ سے ایک کاروباری ناجائز ہتھکنڈوں پر مجبور ہوجائے۔
روٹی، کپڑا او رمکان کی نوید کے اب تک یہی معنی لیے گئے تھے کہ حکومت ایسے حالات اور ذرائع پیداکرپائے گی، جس سے لوگوں کےلیے روٹی کمانے کے دروازے کھل جائیں گے یہ تو کسی کے بھی ذہن میں بات نہیں آتی تھی کہ :لوگوں سے چھین کر لوگوں کوممنون کیا جائے گا۔ ویسے بھی یہ عجیب منطق ہے کہ ایک چور اس لیے چوری کرے کہ میں غریبوں کی مدد کرناچاہتا ہوں، ایک جیب تراش یہ فلسفہ پیش کرے کہ اس سے لے کرمیں یتیموں کی اعانت کروں گا، رشوت کا یہ فلسفہ بیان کیا جائے کہ میں غریب طلبہ کی تعلیم کے لیے وظیفے مہیا کروں گا تو کیا حکومت یاکوئی عقل مند ان کی اس حکمت او رفلسفہ کی داد دے گا؟
اصل میں''غربا'' کا یہ جو علاج تشخیص کیا گیا ہے غریب پروری کے جذبہ پر کم ، سیاسی مصالح پر زیادہ مبنی ہے۔ ہاں قرآن حکیم نے اس کا صحیح علاج یہ بتایا ہے کہ:
دولت کو گردش میں رکھا جائے تاکہ وہ کسی مخصوص طبقہ میں دائر ہوکر نہ رہ جائے۔
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ (پ28۔ حشر ع1)
اس کی متعدد شکلیں ہیں، ان میں سے ایک وراثت کی ہے، دوسری زکوٰۃ کی ہے، تیسری عشر کی ہے، چوتھی خراج کی ہے، پانچویں جزیہ کی ہے، چھٹی وقف کی ہے، ساتویں ہبہ کی ہے، آٹھویں وصیت کی ہے، نویں حرمت سُود کی ہے، دسویں ممانعت قمار اور سٹہ بازی کی ہے، گیارہویں بیع و شرا میں حرمت فریب کی ہے۔
وراثت :
اگر یہ جاری رہ جائے تو یہ دولت کسی ایک کی لونڈی بن کر نہیں رہ سکے گی۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی علی ٰ ہذا القیاس یہ ایک چکر ہے، جس سےبچ کر دولت کسی گوشہ میں سمٹ نہیں سکے گی۔ خاص کر اگر رشتہ ناطوں کا دائرہ مومنانہ حدود تک وسیع کردیا جائے تو پھر بات اور کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔
زکوٰۃ :
جمع شدہ دولت کا چالیسواں حصہ نکلتا رہے تو بتائیے ! وراثت کے بعد دولت اور کتنا کسی کے پایس سرچھائے گی؟
عشر:
زمین کی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ دے دیا جائے تو پھر کوئی کتنا قارون بن سکے گا ؟ وراثت اور زکوٰۃ کے بعد اب زمین میں کتنی شوخی باقی رہ جائے گی۔
خراج اور جزیہ :
یہ غیر مسلم اور مفتوحین پرعائد کردہ ٹیکس کا نام ہے۔ یہ حکومت اپنی صوابدید کے مطابق ان پر عائد کرسکتی ہے۔
وقف :
وقف کے ذریعے ہزاروں او رلاکھوں مالیت کی جائدادیں عامۃ المسلمین کی دینی اورملّی ضروریات کے لیے اور محض اللہ کی رضا کے لیے وقف کردی جاتی ہیں۔غور کیجئے ! اس کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔
ہبہ :
حقوق واجبہ کے بعد یہ ایک رضا کارانہ ملّی خدمت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردانہ معاملہ ہے ، یہ کوئی جتنا چاہے اور جتنوں کوچاہے دے سکتا ہے۔
سُود اور قمار:
یہ وہ سفید ہاتھی ہیں۔ جنہوں نے بغیر کسی استحقاق کے دنیا کی دولت سمیٹنے کا فریضہ انجام دیاہے۔ اسے اگر ختم کرکے بیع مضاربت، بیع معاوضہ، بیع شرکت صنائع اور شرکت وجوہ جیسی ، فقہی سفارشات کو رواج دیا جائے تو قوم کے بہت خاندان اور افراد بھوکوں سے مرنے سے بچ جائیں بلکہ خوشحالی ہوجائیں۔
فریب:
بیع میں کم تولنا، ملاوٹ، کم نانا او ردوسری بددیانیتوں کے سدّباب کے لیے حکومت پورے اور مؤثر ذرائع استعمال کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک کی جھولی خالی رہے اور دوسرا تجوریاں بھر کر گھر کو لوٹے۔
الغرض: دولت شرعی سفارشات کے مطابق گردش کے راستہ پر ڈال دی جائے گی تو اپ کو سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف کسی اور دشمن کی تلاش کی ضرورت نہیں رہے گی، ورنہ بدنامی کے علاوہ پرنالہ بھی وہیں رہے گا جہاں کبھی تھا۔
دس سال صرف روٹی کپڑا:
عن عتبة بن الندر قال: کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: فقراو طسم حتی بلغ قصة موسیٰ علیه السلام قال إن موسیٰ علیه السلام أبحر نفسه ثمان سنین أو عشرا علی عفة فرجه و طعامه بطنه (رواہ ابن ماجہ)
کہا حضرت عتبہ نے ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے (سورت) طسم پڑھی یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے تک جا پہنچے، (اس پر) فرمایا: اپنی پاکدامنی اور روٹی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ یا دس سال کے لیے اپنے آپ کو مزدوری میں لگایا۔
حضرت شعیب علیہ السلام پیغمبر اور حضرت موسیٰ ہونے والے پیغمبر، دونوں نے اس امر پر معاہدہ کیا کہ آٹھ دس سال میری نوکری کرو تو ایک لڑکی نکاح کردوں گا، حدیث سے پتہ چلا کہ اسی میں روٹی بھی طے پائی۔
غور فرمائیے! آٹھ دس سال کی نوکری او رایک نوجوان، اپنی پوری ہمت کے ساتھ ان کی خدمت کرتا ہے، بکریاں چراتا ہے۔ گھر کے دوسرے کام کاج علاوہ کرتا ہے، کیا اس کا اتنا ہی بنتا ہے کہ اس کا اپنا ہی پیٹ پلے یا مزید اس امر کے سامان بھی تھے کہ اصل مالکوں کے دھندے بھی پورے ہوں؟ صحیح یہ ہے کہ مزدوری فرد کرے یا ایک جمعیت ، وہ اپنی مزدوری کے عوضانہ کی حق دار تو ضرور ہے مگر اس سلسلے کا جو جائز منافع مالک کو ملتا ہے، وہ بھی اس کا جائز حق بنتا ہے ۔ اس کا بھی احترام شرعا لازم ہے۔
زائد زمین کاشت پر دینا جائز ہے:
عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ علیہ وآله وسالم عامل خیبر بشطرما یخرج منھا من ثمرأو زرع (بخاری)
رسول کریمﷺ نے یہود خیبر سے پھل اور اناج کی پیداوار کے آدھے حصے پر معاملہ کیا۔
چونکہ مدینہ کے لوگ زراعت پیشہ تھے اور وہ سب اپنی کاشت سے زیادہ زمینیں دوسروں کو کاشت پر دیا کرتے تھے او رمہاجر صحابہ ہی بٹائی پر زمینیں لیتے تھے۔
ما بالمدینة أھل بیت ھجرة إلا یزرعون علی الثلث والربع و زارع علی وسعد ابن مالک و عبداللہ بن مسعود و عمر بن عبدالعزیز والقاسم والعروةوآل أبي بکر و آل عمر و آل علي و ابن سیرین الحدیث (بخاری)
''مدینے میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی اور چوتھائی پر بٹائی نہ کرتا ہو، حضرت علی، سعد بن مالک، عبداللہ بن مسعود، عمر بن عبدالعزیز، حضرت قاسم، عروہ، خاندان ابوبکر، خاندان عمر، خاندان علی اور ابن سیریں (سب) بٹائی کرتے تھے۔ ''(بخاری)
صحیح مسلم میں ہے کہ: صحابہ کے پاس کچھ زائد زمینیں تھیں۔
قال جابر بن عبداللہ: کان لرجال فضول أرضین من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مسلم باب کراء الأرض)
ان روایات سے پتہ چلا کہ زمینیں یا دوسری املاک زائد بھی ہوں تو انہی مالکوں کا حق ہے جنہوں نے کمائیں۔ وہ چاہیں تو مزدوروں، مزارعوں یا دوسرے اجیروں سے کام کرائیں یا خود ہی سارا سنبھالیں۔ زائد املاک دیکھ کر لوگوں کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھتے ہیں وہ ان کی تنگ ظرفی کی نشانی ہے کوئی علمی یا اصولی بات نہیں تھی۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ نے مزارعت یا ٹھیکے پر دینے سے منع فرمایا تھا مگر وہ بعض جزوی خرابیوں کے انسداد کے لیے تنبیہاً اور تہدیداً فرمایا تھا تاکہ وہ باہم جھگڑیں نہیں یا مال بٹائی کے حصہ کے علاوہ پیداوار کا محض حصہ لے کر جو زیادتی کیا کرتے تھے، اس سےمنع فرمایا تھا۔ صحابہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ ہاں اگر حکومت جائز خدمات کےعوض کسی کو کچھ زمین یا خطہ عطا کرتی ہے اور وہ شخص اسے آباد نہیں کرسکا تو حکومت کو اب اپنے فیصلے پر نظرثانی کا حق حاصل ہے جیسا کہ حضرت مازنؓ کے واقعہ سے مترشح ہوتا ہے۔