قتل ابناء بنی اسرائیل قرآن کریم کی روشنی میں
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہےکہ فرعون نے ولادت موسوی سے قبل ابنائے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا ظالمانہ سلسلہ شروع کر رکھاتھا اور خود قرآن مجید بھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے، مگر ''طلوع اسلام'' کے بانی غلام احمد پرویز کو اس سے انکار ہے۔قرآن مجیدکے ہراس مقام پر ، جہاں فرعون کے ہاتھوں ابنائے بنی اسرائیل کا قتل مذکور ہے، انہوں نے یہ تاویل، (بشرطیکہ اسے تاویل کہا بھی جاسکے) فرمائی ہے کہ فرعون ، فرزندان بنی اسرائیل کو ''جوہر انسانیت'' سے محروم رکھنےکی کوشش کرتا تھا، وہ انہیں ہرگز قتل نہیں کرتا تھا، چنانچہ ان کےدلائل حسب ذیل ہیں:
''یہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی قوم کی تعداد بہت بڑی تھی۔ اگر کسی قوم کی یہ حالت ہوجائے کہ اس کے تمام لڑکے مار دیئے جائیں اور صرف لڑکیاں زندہ رکھی جائیں تو کچھ وقت کے بعد وہ قوم ہی ختم ہوجائے گی۔''
اس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ:
''بعض تفاسیر میں ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے نوے ہزار بچوں کوقتل کیا تھا۔''
''حضرت موسیٰ کے بڑے بھائی حضرت ہارون بھی زندہ تھے اور حضرت موسیٰ بھی پیدا ہوتے ہی مار نہیں ڈالے گئے تھے۔اس سے بھی ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیداہوتے ہی مار نہیں دیا کرتے تھے۔''
''سورہ یونس میں ہے کہ ''فَمَآ ءَامَنَ لِمُوسَىٰٓ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِۦ'' (83؍10)''موسیٰ پراس کی قوم کی ذریّت ایمان لائی۔'' ذریّت نئی پود یا (نوجوانوں)کو کہتے ہیں۔اگربنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیاکرتے تو یہ ذریّت موجود ہی نہ ہوتی۔''
'' جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس آئے ہیں تو اس نے کہا کہ ہم نے تیری پرورش کی او راس قدر احسانات کیے اور تو ان احسانات کا یہ بدلہ دے رہا ہے؟ تو اس نے کے جواب میں حضر موسیٰ نے کہا کہ ''وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَىَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ'' (22؍27) ''یہ وہ نعمت ہے جسے تو مجھ پر جتاتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام (محکوم)بنا رکھا ہے۔''
''اب دیکھئے حضرت موسیٰ نے فرعوان کے خلاف جو الزام عائد کیاہے وہ بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھنے کا ہے۔اگر وہ ان کے لڑکوں کو قتل کرنےکامجرم بھی ہوتا ، تو آپ سب سے پہلے ان کاذکر کرتے، کیونکہ یہ جرم قوم کو غلام بنائے رکھنے سے زیادہ سنگین تھا، لیکن آپ سارے قرآن میں دیکھ جائیے حضرت موسیٰ نے کسی جگہ بھی فرعون او راس کی قوم کو اس جرم سے مطعون نہیں کیا۔'' 1
آئیے ! اب ہم ان دلائل کا تفصیل سےجائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے:
پہلی دلیل پربحث :
جاں تک مسٹر پرویز کی پہلی دلیل کا تعلق ہے، انہیں اگر یہاں شدید سوئے فہم لاحق نہیں ہوا تو یقیناً انہوں نے مغالطہ انگیزی سے کام لے کر یہ لکھا ہے کہ:
''اگر کسی قوم کی یہ حالت ہوجائےکہ اسکے تمام لڑکے مار دیئے جائیں اور صرف لڑکیاں زندہ رکھی جائیں تو کچھ وقت کے بعد وہ قوم ہی ختم ہوجائے گی۔''
سوال یہ ہےکہ یہ دعوےٰ کس نےکیا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے تمام لڑکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتاتھا؟ اور اپنی وسیع و عریض سلطنت کے کام کو چلانے کےلیے غلام قوم کے مردوں کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی تھی؟ یا حاکم قوم، اپنی زمینوں ، باغوں اور دیگر محنت مشقت کےکاموں کے لیے محکوم قوم کے جواں مردوں سےبے نیاز ہوگئی تھی؟ کیافرعون اپنے بیگار کیمپوں کے لیے اپنی ہی قوم کے نونہالوں کو جوت لیا کرتا تھا؟حقیقت یہ ہے کہ فرعون اپنی سلطنت کے ذمہ دارمناصب کے لیے تو یقیناً بنی اسرائیل کا محتاج نہ تھا، البتہ ادنیٰ درجہ کے کام کاج کے لیےوہ بنی اسرائیل کے غلاموں ہی سے کام لیتا تھا۔ بیگار کیمپوں میں، زرعی کھیتوں میں اور دیگر تعمیراتی کاموں میں جبری محنت و مشقت کا سارا کام وہ بنی اسرائیل ہی سے لیتا تھا، اس لیے خود اس کا اپنا مفاد اس میں تھاکہ اس محکوم قوم کی جملہ اولاد نرینہ کو موت کے گھاٹ نہ اتارے ، بلکہ بنی اسرائیل کے صرف ایسے سربرآوردہ خاندانوں کے بیٹوں کو لقمہ موت بنائے کہ:..............
کسی نوع کی بھی سیادت و قیادت جن کے ہاتھ آسکتی تھی او رجن سے فرعون کو سیاسی خطرہ لاحق ہوسکتا تھا کہ اگر انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا تو یہ لاکھوں افراد پرمشتمل اسرائیلیوں کو منظم کرکے اس کے اقتدار کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔چنانچہ خاندان موسیٰ انہیں خاندانوں میں سے ایک تھا، جن سے فرعون کو سیاسی خدشہ لاحق تھا۔ اس کے پیش نظر وہ ان خاندانوں کےچشم و چراغ کو گل کردیا کرتا تھا تاکہ اس قوم میں وہ دم خم نہ رہے جو کسی سیاسی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکے۔
قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ: ''فرعون بنی اسرائیل کے تمام مردوں کو قتل کرڈالتا تھا۔'' او رقرائن بھی یہ واضح کرتے ہیں کہ فرعون کی یہ کارروائی تمام اسرائیلی مردوں سے متعلق نہ تھی، بلکہ بعض اسرائیلیوں کے متعلق تھی جن سے فرعون کوئی سیاسی خوف محسوس کرتا تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ مسٹر پرویز جب ''قتل'' کا معنی ''ذلیل و خوار کرنا'' کرتے ہیں تو وہ خود بھی فرعون کے اس فعل قتل کو ''تمام'' کی بجائے ''بعض'' ابنائے بنی اسرائیل تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''وہ (فرعون)کرتا یہ تھاکہ قوم کا وہ طبقہ، جس میں اسے جوہر مردانگی نظر آتے جن کے متعلق وہ یہ سمجھتا کہ ان کا ابھرنا خطرناک ہے، وہ انہیں دباتا اور ہر طرح ذلیل و حقیر رکھتا۔'' 2
گویا اگر ''قتل'' بمعنی ''سلب جوہر مردانگی'' اور ''تحقیر و تذلیل'' ہوتو اُسے پوری قوم سے وابستہ کرنےکی بجائے بنی اسرائیل کے صرف ایک طبقے ہی سے وابستہ کیاجاسکتاہے۔لیکن اگر قتل بمعنی ''سلب حیات'' اور ''لقائے موت'' ہوتو یہ بات انہیں گوارا نہیں ہے۔چنانچہ اس صورت میں مسٹر پرویز کے نزدیک تمام ابنائے بنی اسرائیل پر اس کا اطلاق ہوگا۔ کیا ہی نرالی منطق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں مسٹر پرویز نے پہلے اپنے ذہن میں اس مفروضہ کو راسخ کیا کہ فرعون تمام ابنائے بنی اسرائیل کو قتل کیا کرتا تھا۔ پھر اس مفروضے پر قصر استدلال قائم کیا، کہ اگر ایساہوتا تو تھوڑی ہی مدت کے بعد اسرائیلی رجال کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔
دوسری دلیل پربحث :
رہی پرویز صاحب کی یہ دلیل ......... کہ حضرت ہارون (جو حضرت موسیٰ کے بڑے بھائی تھے) کا زندہ و سلامت رہنا خود اس امر کی شہادت ہے کہ عہد فرعون میں بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینے کی کوئی رسم و روایت نہیں تھی۔ تو یہ از حد کمزور دلیل ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت ہارون کی پیدائش کے وقت فرعون نے قتل ابنائے بنی اسرائیل کا حکم جاری نہ کیا ہو، مگر ان کی ولادت کے بعد یہ حکم نافذ کردیا گیا ہو اور حضرت موسیٰ کو اسی وجہ سے ان کی والدہ نے پیدا ہوتے ہی حکم ایزدی کے تحت دریا میں ڈال دیا ہو؟ یہ محض ہمارا قیاس ہی نہیں ہے ، تاریخ کا ریکارڈ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ قتل ابناء کا یہ فرعونی حکم، ولادت موسوی سے بہت زیادہ عرصہ قبل نافذ نہیں کیا گیا تھا، بلکہ کچھ ہیمدت قبل اس کا اجراء ہوا تھا۔ لیکن ہم تاریخی ثبوت سے صرف اس لیے صرف نظر کرتے ہیں کہ پرویز کے حواری یہ کہہ کر اسےدرخور اعتناء نہ جانیں گے کہ ''تاریخ ظنی چیز ہے لہٰذا ساقط الاعتبار ہے۔'' اس لیے ہم مسٹر پرویز کے چنداقتباسات پیش کرتے ہیں کہ ...ع
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
''حضرت موسیٰ کی پیدائش دارالسلطنت میں ہوئی، اس وقت بنی اسرائیل کے بچوں کی ہلاکت کا انسانیت کش حکم جاری تھا۔'' 3
اسی صفحہ پر مرقومہ حاشیہ میں فرماتے ہیں:
''ایسا معلوم ہوتا ہےکہ آپ کی پیدائش یتیمی کی حالت میں ہوئی تھی۔ کیونکہ اس سے بعد کے واقعات میں آپ کی والدہ ہی کاذکر آتا ہے، والد کا ذکر نہیں آتا۔ اس وقت آپؑ کی ایک بہن او رایک بھائی (حضرت ہارونؑ)بھی تھے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ قتل ابناء کا حکم زیادہ عرصے سے نفاذ پذیر نہ تھا تورات میں ہے کہ حضرت ہارون، حضرت موسیٰ سےبڑے تھے۔'' 4
اب اگر حضرت ہارونؑ کو پیدا ہوتے ہی اس وجہ سے قتل نہیں کیاگیا تھا کہ اس قتل ابناء کا یہ ظالمانہ حکم ابھی نافذ ہی نہیں ہواتھا تو پھر یہ کہنا کہ:
''حضرت موسیٰ کےبڑے ہارون بھی زندہ تھے اور حضرت موسیٰؑ بھی پیدا ہوتے ہی مار ڈالے نہیں گئے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی مار نہیں دیاکرتے تھے۔'' 5
......... صریح مغالطہ انگیزی ہے۔پھر حضرت موسیٰ کو قتل سے بچانے کی خاطر ہی تو ان کی ماں نے انہیں وحی خداوندی کےمطابق دریا میں ڈال دیا تھا۔
بہرحال ہماری یہ بحث واضح کرتی ہے کہ قتل ابناء بنی اسرائیل کا یہ حکم، حضرت ہارونؑ او رحضرت موسیٰؑ کی ولادت کے درمیانی زمانے میں نفاذ پذیر ہوا تھا۔اس پر عمل درآمد کی واقعی پوزیشن کیا تھی؟ یہ ایک الگ بحث ہے کہ مقصود واضح ہوجانے کے بعد جس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
تیسری دلیل پر بحث:
مسٹر پرویز کی تیسری دلیل یہ ہے کہ .......... ''دعوت موسوی پر نئی نسل کے نوجوان ایمان لے آئے تھے۔اگر بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تو اس ذریّت کا وجود ہی نہ ہوتا جو موسیٰ پر ایمان لائی تھی۔''
ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ قتل انباء کا فرعونی حکم تمام ابنائے بنی اسرائیل کے لیے نہیں تھا، بلکہ صرف ان مردوں کے لیے تھا جن سے فرعون خطرہ محسوس کرتا تھا کہ کہیں وہ ابھر کر اس کے اقتدار کو نہ چھیں لیں۔ اس طرح جو زندہ بچے ان ہی میں سے یہ ذریّت بھی تھی، جن کےایمان کاذکر قرآن مجید نے﴿فَمَآ ءَامَنَ لِمُوسَىٰٓ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِۦ الآیة'' (یونس :83) میں کیا ہے۔
علاوہ ازیں قتل ابناء کا یہ حکم ، فرعون نے نافذ کرنے کو تو کردیا تھا، مگر اس پر پوری پابندی سے بوجوہ عملدرآمد نہ ہوسکا تھا، خود مسٹر پرویز ایک مقام پر فرماتے ہیں:
''فرعون نے اگرچہ مصری دائیوں کو حکم دے رکھا تھاکہ وہ بنی اسرائیل کےبچوں کو پیدا ہوتے ہی ہلاک کردیا کریں، لیکن اس حکم پر شدت سے پابندی نہیں ہورہی تھی۔''
اس کے بعد پرویز نے تورات کا یہ حوالہ دیا ہے:
''پردائی جنائیاں خدا سے ڈریں او رجیسا کہ مصر کے بادشاہ نے انہیں حکم دیا تھا، نہ کیا اور لڑکوں کو جیتا رہنے دیا۔ خروج 17؍1'' 6
لہٰذا اگر موسیٰ پرایمان لانے والی یہ ''ذریّت'' ان نفوس پر مشتمل ہو، جو اس ہلاکت خیز قانون سے، اس کی کماحقہ پابندی نہ کرسکنے کی بناء پر بچ نکلے ہوں، یا وہ اس حکم کے دائرہ نفاذ سے اس وجہ سے خارج ہوں کہ فرعون کے نزدیک اگر وہ زندہ بھی رہ جائیں تو اس کے اقتدار کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، تو اس میں کون سا عقلی استبعاد ہے؟
چوتھی دلیل پر بحث:
اس سلسلہ میں مسٹر پرویز کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ .............''اگر فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا مجرم ہوتا تو حضرت موسیٰ سب سے پہلے دربار فرعون میں اس کا ذکر کرتے نہ کہ قوم کو غلام بنانے کا۔کیونکہ یہ جرم قوم کو غلام (محکوم) بنانے سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔''
یہ دلیل تو مکڑی کے جالے سے بھی ضعیف تر ہے۔مسٹر پرویز کی یہ انتہائی کوتاہ نظری او رکم سوادی ہے کہ وہ مجرد قتل کو غلامی و محکومیت سے زیادہ سنگین سمجھےبیٹھے ہیں۔ حالانکہ غلامی و محکومیت ایک ایسی لعنت ہے کہ قتل و ہلاکت ، اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ یہاں ہم اس لعنت کبریٰ کے نتائج و عواقب او رانسانی ذہن پراس کے اثرات و علائم کی تفصیل میں جانے کی بجاوے مسٹر پرویز ہی کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ان کی روشنی میں قارئین خو داندازہ لگا لیں کہ کسی کو قتل و ہلاک کردینے کی نسبت، اسے غلامی و محکومی کی زنجیروں میں جکڑ دینا، کیسا گھناؤنا جرم اور سنگین ظلم ہے؟
(1) ''دنیا میں غلامی ، ہزار لعنتوں کی ایک لعنت او رلاکھ نحوستوں کی ایک نحوست ہے۔غلامی میں تمام عیوب و نقائص، جنہیں جسم انسانیت کےلیے جذام کہنا چاہیے، اس انداز سے پیداہوجاتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے تباہ کن جراثیم کب او رکن راہوں سے خون کے اندر حلول کرگئے ہیں؟ غلامی میں انسان ، زندگی کے حقائق کے مقابلہ سے جی چراتا ہے او رقفس کے خوگر پرندے کی طرح اس عافیت کوشی کی زندگی کو عین حیات سمجھ کر اپنے آپ کو فریب دے لیتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ ذاتی سیرت کی خوبیاں او راجتماعی کریکٹر کے تمام محاسن ایک ایک کرکے چھن جاتے ہیں۔'' 7
(2) ''یہ قوم (بنی اسرائیل)ایسی عبرت ناک سزا میں ماخوذ ہوئی کہ طبعی طور پرتو زندہ رہی لیکن ملّی اعتبار سے یکسر مردہ، بلکہ مُردوں سے بھی بدتر، یہ عذاب کیا تھا؟ غلامی اور محکومی کا عذاب ، وہ عذاب جس سے انسانیت کی روح کانپ اٹھے، جس سے زمین تھر تھرا جائے، جس سے آسمان میں لرزہ آجائے۔ محکومی! ہزار لعنت کی ایک لعنت او رلاکھ بدبختیوں کی ایک بدبختی، نہ صرف مجبوری کی غلامی بلکہ اس غلامی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانے کی لعنت۔'' 8
(3) ''انسانی تاریخ کیاہے؟ صیدو صیاد کی ایک خونچکاں داستاں۔ یوں تو اس داستان کی ہرکڑی زہرہ گداز و الم انگیز ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ المیہ ٹکڑا وہ ہے جسے غلامی کے نام سے تعبیر کیاجاتا ہے۔غلامی یعنی انسانیت کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ۔ ایک انسان کا دوسرے انسان کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی ملکیت تصور کرلینا۔ اس سے بڑھ کر ننگ انسانیت اور کون سی لعنت ہوگی؟ ہم نے لکھا ہےکہ انسان کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی ملکیت میں رکھنا غلامی ہے۔ لیکن اس سے بھی غلامی کی صحیح تصویر سامنے نہیں آسکتی۔ آپ نے کبھی یہ نہ دیکھا ہوگا کہ بھیڑ بکریوں کا مالک انہیں خونخوار بھیڑیوں کے آگے ڈالدے، لیکن یہ تماشا آپ کو انسانوں کی دنیا ہی میں نظر آئے گا کہ روما کے ایمپی تھیڑوں میں بھوکے شیروں کو کھلا چھوڑ کر غلاموں کو اندر دھکیل دیا جاتا تھا او رسبعیت و درندگی کا یہ انسانیت سوز منظر، ان غلاموں کے آقاؤں اور دوسرے تماشائیوں کے لیے سیر و تفریح کا ذریعہ بنا کرتا تھا۔'' 9
مسٹر پرویز کے یہ اقتباسات غلای ومحکومی کو ''ہزار لعنتوں کی ایک لعنت، لاکھ نحوستوں کی ایک نحوست ، لاکھ بدبختیوں کی ایک بدبختی اور صید و صیاد کی خونچکاں داستان کی سب سے زیادہ زہرہ گداز او رالم انگیز کڑی'' قرار دے رہے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں آخر قتل و ہلاکت کی کیا حقیقت ہے، کہ دربار فرعون میں پہنچ کر حضرت موسیٰ ، غلامی و محکومی میں بنی اسرائیل کو جکڑ دینے کے سنگین جرم سے مطعون کرنےکی بجائے فرعون کوصرف ان کے قتل وہلاکت کے ذکر سے مطعون کرتے؟ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ خلاف حکمت و دانش ہوتا کہ فرعون کے سنگین ترین جرم سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کے ہلکے جرم کاذکر کردیاجاتا۔ پس موسیٰ نے جو جواب فرعون کو دیا وہی انسب او رمعقول ترین جواب تھا۔ کیونکہ اس میں ایک طرف تو قتل ابناء کے مقابلے میں، فرعون کے اس سے کہیں زیادہ گھناؤنے جرم کاذکر ہے جو ہزار لعنتوں کی ایک لعنت او رلاکھ نحوستوں کی ایک نحوست ہے کہ ''قتل ابناء '' خود اس میں داخل ہے او ردوسری طرف فرعون کے ''احسان پرورش'' جتلانے کا بھی یہ بہترین جواب تھا۔
مزید برآں حضرت موسیٰ کےاس جواب سے انسانی نفسیات کا یہ گوشہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کوئی شخص ، کسی کا جرم بیان کرتا ہےتو وہ بڑے جرم کے مقابلے میں چھوٹے جرم کو نظر انداز کردیتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی کے ہلکے جرم کو نظر انداز کرکے اس کے سنگین ترین جرم کے ذکر کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ قائل کے نزدیک ذکر کردہ جرم کے علاوہ سرے سے کوئی دوسرا جرم وجود ہی نہیں رکھتا۔
قتل ابناء کے دلائل:
مسٹر پرویز کے مذکورہ دلائل کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم وہ دلائل پیش کرتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فرعون نے بنی اسرائیل کی اولاد کو سچ مچ قتل کردینے کا قانون ، اپنی ملکیت میں جاری کررکھاتھا۔
دلیل اوّل :
اس سلسلے میں پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے انہیں اس خطرے کے پیش نظر کہ فرعونی کارندے بچے کوموت کےگھاٹ نہ اتار دیں، دریا میں ڈال دیا۔ یہ کام انہوں نےفرمان ایزدی کی تعمیل میں کیا۔ اب اگر مسٹر پرویز کے نزدیک ، بچوں کےقتل و ہلاکت کی ایسی کوئی صورت حال موجود ہی نہیں تھی، تو ولادت موسیٰ پر ان کی والدہ کو وہ کون سا خوف لاحق تھا؟ جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ: ''فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِى ٱلْيَمِّ'' (القصص:7) کہ ''جب تمہیں موسیٰ کے متعلق خو ف لاحق ہو تو اسےدریا میں ڈال دو۔'' کیا کوئی ماں پُرامن حالات میں اپنے معصوم او رنوزائیدہ جگر گوشے کو دریا میں ڈال دینے پر آمادہ ہوتی ہے۔؟
مسٹر پرویز اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
''سب سے پہلے تو یہ دیکھیےکہ خود قرآن کریم میں اس کی تصریح موجود ہے کہ فرعون نے یہ حکم (کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کردیاجائے) اس وقت دیاتھا۔ جب حضرت موسیٰ اپنی دعوت انقلاب لےکر آئے تھے۔ چنانچہ سورہ اعراف میں ہے کہ حضرت موسیٰ کی انقلابی دعوت کا عالمگیر اثر دیکھ کر فرعون کے امیروں اور وزیروں نے فرعون سے کہاکہ ان کے خلاف کوئی سخت اقدام کیوں نہیں جاتا؟ انہیں اس طرح کیوں کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ یہ جو جی میں آئے کرتے جائیں؟ اس کےجواب میں فرعون نے کہا کہ نہیں! میرے سامنے ایک تجویز ہے او روہ یہ کہ ﴿سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ'' (127؍7)''عنقریب ہم ان کے لڑکوں کوقتل کریں گے او را ن کی عورتوں کوزندہ رکھیں گے۔'' اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تدبیر اس وقت عمل میں لائی گئی تھی جب حضرت موسیٰ کی دعوت پھیلی ہے۔ حضرت موسیٰ کی پیدائش کے وقت یہ حکم موجود نہیں تھا۔'' 10
پھر چند سطروں کے بعد یہ عبارت درج ہے:
''حضرت موسیٰ کی پیدائش کے وقت یہ حکم نافذ نہیں تھا، لہٰذا جب یہ حکم ہی نہ تھا تو یہ سمجھنا صحیح نہیں ہےکہ حضرت موسیٰ کو اس لیے دریا میں بہا دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس تدبیر11سے زندہ رکھنا چاہتا تھا۔''
اب قطع نظر اس سے کہ اندریں صورت، ہمارا یہ سوال اور بھی زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے کہ آخر کوئی ماں پُرامن حالات میں اپنےجگر گوشے کو کیوں دریا میں بہا دے گی، یہ پرویزی دلیل، قرآنی الفاظ سے، قرآنی تعلیمات کے خلاف مفہوم تراشنے کی بھی شرمناک مثال ہے، اس دلیل کی اساس یہ ہے کہ ولادت موسوی کے وقت قتل ابناء کافرعونی حکم نافذ نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ حکم اس وقت دربار فرعون سے جاری ہوا، جب آپ منصب نبوت پرفائز ہوئے او ردلائل میں سورہ اعراف کی وہ آیت پیش کی ہےجو یہ تو ظاہر کرتی ہے کہ فرعون نے یہ حکم اس وقت دیا جب لوگ حضرت موسیٰ کی دعوت سے متاثر ہورہے تھے، مگر یہ کہ ولادت موسوی کے وقت یہ حکم موجود تھا یا نہیں؟ اسامر سے یہ آیت اور سورہ مومن کی آیت (25) قطعی غیر متعلق ہے، حالانکہ زیربحث یہی چیز ہے،سوال یہ ہے کہ دعوت موسوی کے دوران اگر فرعون قتل ابناء بنی اسرائیل کا حکم دیتا ہے، تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ یہ حکم صرف ایک مرتبہ ہی دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ (اس سے قبل)کسی مقام او رکسی صورت میں یہ حکم نہیں دیا گیا؟ افسوس کہ عمر بھر کے قرآنی مطالعے کے بعدبھی مسٹر پرویز کو یہ علم نہ ہوسکاکہ خود قرآن ہی یہ بیان کرتاہے کہ ولادت موسوی سے قبل بھی فرعون ابنائے بنی اسرائیل کو قتل کیاکرتا تھا او ران کی عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا۔ سورة القصص میںولادت موسوی سے قبل اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس مردم کش حکم کا تذکرہ اس طرح کیا ہےکہ یہ امر شک و شبہ سے قطعی بالاتر ہوجاتا ہے کہ ولادت موسوی سے قبل اسرائیلی فرزندوں کو قتل کرنے کی ظالمانہ کارروائی جاری تھی(یہ علیحدہ بات ہے کہ اس پر بشدت عملدرامد نہیں ہورہا تھا) ۔ ( جاری ہے)
حوالہ جات
1. لغات القرآن، ص90۔689
2. لغات القرآن ، ص693
3. معارف القرآن ، ج3 ص189
4. معارف القرآن، ج3 ص189
5. لغات القرآن، ص689
6. معارف القرآن ج3 ص190
7. معارف القرآن ، ج3 ص270
8. معارف القرآن، ج3 ص327
9. معارف القرآن، ج4 ص504
10. لغات القرآن، ص690
11. نہ صرف یہ کہ زندہ رکھنا چاہتا تھا بلکہ اسی تدبیر سے اللہ تعالیٰ ان کے پالنے پوسنے کا انتظام، فرعونی محلات میں کرنا چاہتا تھا، تاکہ اسی ذریعے سے انہیں غوامض سیاست اور رموز مملکت کی تعلیم و تربیت کا موقع بھی مل جائے۔