آدابِ دُعاء
دعاء کے بہت سے آداب ہیں۔دعاء کو بہتر او رکامل بنانے کے لیے دعاء میں ان آداب کوملحوظ رکھنا چاہیے:
1۔ دُعاء سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا اور آنحضورﷺ پر درود پڑھنا:
چونکہ دُعاء میں اللہ تعالیٰ سے اس کے انعامات، احسانات ، رحمت اور مغفرت طلب کی جاتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ دعاء سے پہلے اللہ رب العزت کے شایان شان اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔
''عن فضالة بن عبید قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قاعد إذا دخل رجل فصلیٰ فقال: ''اللھم اغفرلي وارحمني'' فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ''عجلت أیھا المصلي إذا صلیت فقعدت فاحمد اللہ بما ھو أھله و صل علي ثم ادعه'' فقال : ثم صلی رجل آخر بعد ذٰلك فحمد اللہ وصلی علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ فقال له النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ''أیھا المصلي ادع تجب'' 1
''حضرت فضالہ بن عبیدؓ کابیان ہے ، ایک دفعہ آنحضرتﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکرنماز پڑھی اور دعاء کی ''اللھم اغفرلي وارحمني.......'' (یا اللہ! میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر)
تو آپ نےؐ نے فرمایا: اے نمازی، تو نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اوّلا اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر، اس کے بعد مجھ پر درود بھیج، پھر دعاء کر ''حضرت فضالہؓ فرماتے ہیں کہ پھر ایک اور شخص آیا۔ اس نے اللہ کی حمد کی او رنبی ﷺ پر درود بھیجا۔ اسے آنحضرتﷺ نے فرمایا: نمازی ، دعا کر ، قبول ہوگی''
یہی حدیث انہی فضالہؓ سے ایک دوسری سند سےبھی آئی ہے:
''سمع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رجلا یدعو في صلاته فلم یصل علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔فقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: عجل ھٰذا'' ثم دعاہ فقال له أو لغیرہ: إذا صلی أحد کم فلیبدأ بتحمید اللہ والثناء عليه ثم لیصل علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم لیدع بعد بما شاء'' 2
'ّآنحضرتﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعاء کرتے سنا، اس نے آنحضرتﷺ پر درود نہیں بھیجا تھا۔ آپؐ نے فرما: ''اُس نے جلدیکی'' پھراسےبلا کر اسے یا کسی دوسرے کومخاطب ہوکر فرمایا: ''جب تم میں سےکوئی نماز پڑھے تو اللہ کی حمد وثناء سے ابتداء کرے، پھرنبی ﷺ پر درود بھیجے، پھر جو چاہے دعا کرے۔''
چونکہ اس نماز ی نے دُعاء کی قبولیت کا وسیلہ (حمد اور درود)پیش کرنےسے پہلے دعاء کی تھی اس لیے آنحضرتﷺ نے اسے جلدی سے تعبیر کیا۔
حضرت عمرو بن مرہ فرماتے ہیں، میں نے ابووائل کو سنا وہ کہہ رہے تھے، میں(ابووائل) نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سنا، تو میں (عمرو بن مرہ) نے ان سے کہا: ''کیا واقعی آپ (ابووائل) نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سنا؟'' تو انہوں نےکہا: ''ہاں! ابن مسعودؓ نے بیان کیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا:
''لا أحد أغیرمن اللہ ولذٰلك حرم الفواحش ما ظھر منھا وما بطن ولا أحد أحب إليه المدح من اللہ ولذٰلك مدح نفسه'' 3
''اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی صاحب غیرت نہیں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی ظاہری اور پوشیدہ فواحش(برائیوں) کو حرام قرار دیاہے۔ اور اللہ تعالیٰ سےبڑھ کر کسی کو اپنی مدح پسند نہیں، تبھی تو اس نے اپنی مدح خود فرمائی۔''
چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٢﴾ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ ﴿٤﴾...سورۃ الفاتحہ
''تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کو سزاوار ہیں، جو رحمان و رحیم ہے اور قیامت کے دن کا مالک۔''
نیز ارشاد فرمایا:
﴿وَهُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلْوَدُودُ ﴿١٤﴾ ذُو ٱلْعَرْشِ ٱلْمَجِيدُ ﴿١٥﴾ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٦﴾...سورۃ البروج
''وہ بخشنے والا او رنہایت مہربان ہے، بزرگی والا، عرش کامالک ہے او رجو چاہے کرتا ہے۔''
نیز فرمایا:
﴿وَمَا قَدَرُواٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦ وَٱلْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَٱلسَّمَـٰوَٰتُ مَطْوِيَّـٰتٌۢ بِيَمِينِهِۦ...﴿٦٧﴾...سورۃ الزمر
''ان لوگوں نے صحیح طور پر اللہ کا مقام نہیں پہچانا، قیامت کے روز ساری زمین اس کے قبضہ (مٹھی) میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔''
اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد و تعریف بڑی محبوب اور پسند ہے۔ لہٰذا بندہ جب اس کی مدح و توصیف کرکے دعا کرتا ہے تو یہ قبولیت دعا کا وسیلہ بن جاتی ہے۔چنانچہ ایک بار آنحضرتﷺ نے ایک آدمی کوسنا، اس نےکہا ''یاذاالجلال والإکرام'' تو آپؐ نے فرمایا: ''تو مانگ تیری دعاء قبول ہے۔'' 4
واضح رہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف و تمجید کی غرض و غایت یہ ہےکہ اس کی تعریف و تمجید پر اللہ رب العزت اپنےبندوں کو بدلہ اور ثواب عطا فرمائیں۔ورنہ اللہ رب العزت تمام جہانوں سے بے پرواہ اور بےنیاز ہے۔کوئی انسان اللہ رب العزت کو نہ نفع پہنچا سکتا ہے او رنہ نقصان۔
اسم اعظم :
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں، اللہ کے رسولﷺ نے ایک آدمی کو یہ دعا کرتے سنا:
''اللھم إني أسألك بأني أشھد أنك أنت اللہ لا إلٰه إلا أنت الأحد الصمد الذي لم یلد و لم یولد ولم یکن له کفوا أحد''
''یا اللہ! چونکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی دوسرا عبادت کےلائق او رمستحق نہیں، تواکیلا او ربے نیاز ہے، جس نے نہ کسی کو جنا او رنہ اسے کسی نے جنا او رجس کا کوئی ہمسر نہیں،لہٰذا میں سوال کرتا ہوں کہ .............. الخ''
یہ سن کر آپؐ نے فرمایا: ''اس آدمی نے اللہ کا ایک بہت بڑا نام لےکر دعاء کی ہے۔یہ نام لے کر جب سوال کیا جائے تو پورا ہوتا ہے اور جودعاء کی جائے قبول ہوتی ہے۔'' (i)
امام طیبی فرماتے ہیں: ''اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک نام بڑا عظمت والا ہے، جس کے واسطہ سے جو دعاء کی جائے قبول ہوتی ہے۔''
یہ بات بہت سی دوسری احادیث میں بھی ہے، چونکہ دیگر احادیث میں بہت سے ایسے اسماء ہیں جواس حدیث میں نہیں، البتہ ''اللہ'' نام تمام روایات میں ہے، اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہی ''اسم اعظم'' ہے۔ 5
سوال اور دُعاء میں فرق :
مذکورہ حدیث میں سوال اور دعاء کا فرق بیان ہوا ہے:
سوال یوں ہوتا ہےکہ انسان کہے: یا اللہ! مجھے فلاں چیز دے'' اور اُسےمل جائے۔
اور دُعاء پکار ہوتی ہے۔ مثلاً انسان کہے :''یارب'' اور اللہ اپنے بندے کی اس پکار کا جواب دیں۔پس سوال کا نتیجہ عطاء اور اور دُعاء کا نتیجہ قبولیت ہوتی ہے۔
سوال اور دعاء میں یہی فرق ہے۔
نیز اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اپنا ایمان بطور وسیلہ پیش کرسکتا ہے کیونکہ ''بأني أشھد'' میں صرف ''باء'' سبب کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی ''یا اللہ! چونکہ میں تیری الوہیت و وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں، اس کے سبب مجھے فلاں چیز عطا فرما۔''
ایمان بھی اعمال صالحہ میں سے ہے۔جیسا کہ غار والے تین آدمیوں کے واقعہ میں ہے کہ انہوں نے پتھر ہٹائے جانے کی دعاء کرتے ہوئے اپنے اپنے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے بطور وسیلہ پیش کئے تھے۔
اس مسئلہ کی مزید تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔ ان شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حُسن ظن:
دُعاء کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کےبارہ میں حسن ظن اور دعا کی جلد خواہ بدیر (بہرحال)قبولیت کی امید رکھے۔کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ...﴿١٨٦﴾...سورۃ البقرۃ
''(اے نبیؐ) جب میرے بندے آپؐ سے میرے بارے میں پوچھیں، تو (آپؐ فرما دیجئے)میں قریب ہی ہوں، پکارنے والے کی پکار، جب بھی وہ مجھے پکارے، میں قبول کرتا ہوں۔''
نیز فرمایا:
﴿إِنَّكَ سَمِيعُ ٱلدُّعَآءِ ﴿٣٨﴾...سورۃ آل عمران
''تو ہی دعاؤں کا سننے والا ہے۔''
سمیع، فعیل کے وزن پرمبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے، ''خو ب اور بہت سننے والا ۔''
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَٱسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّى لَآ أُضِيعُ عَمَلَ عَـٰمِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ...﴿١٩٥﴾...سورۃ آل عمران
''اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاء قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی بھی مرد یا عورت کے کسی بھی عمل کو ضائع نہیں کرتا۔''
اسی طرح فرمایا:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴿٦٠﴾...سورۃ الغافر
''تمہارے رب کا کہنا ہے ، تم مجھے پکارو (تو سہی)، میں قبول کروں گا۔''
نیز فرمایا:
﴿فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓاإِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴿٦١﴾...سورۃ ھود
''تم اللہ رب العزت سے استغفار کرو، پھراسی کی طرف رجوع کرو، بیشک میرا رب قریب ہے اور قبول فرمانے والا ہے۔''
سورہ صٰفٰت میں فرمایا:
﴿وَلَقَدْ نَادَىٰنَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ ٱلْمُجِيبُونَ ﴿٧٥﴾...سورۃ الصافات
''نوح ؑ نے ہمیں پکارا، پس ہم بہترین قبول فرمانے والے ہیں۔''
اللہ تعالیٰ ہمارے قریب ہیں، او رعلم، احاطہ او رحفاظت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں آنحضرتﷺ نے حکم دیا ہ ےکہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام تسلیم کریں اور اپنی مانگی ہوئی چیزوں کے ملنے کا یقین رکھیں۔
''عن أبي هریرة رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ادعوا اللہ وأنتم موقنون بالإجابة'' 6
''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: '' تم اللہ تعالیٰ کو پکارو تو تمہیں دعاء کی قبولیت کا یقین ہونا چاہیے۔''
یعنی اس بات پر مکمل یقین اور اعتماد ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے وسعت کرم اور عظیم فضل کی بناء پرتمہیں محروم نہیں رکھیں گے۔جب دعاء کرنے والے کو پختہ یقین ہو اور دعاء اخلاص کے ساتھ کی گئی ہوتو قبولیت یقینی ہے ۔ کیونکہ اگر داعی کا یقین پختہ نہ ہو تو دعاء بھی سچی نہیں ہوتی۔
حضرت سلمان فارسیؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
''إن ربکم حیي کریم یستحیي من عبدہ إذا رفع یدیه إلیه أن یردھما صفرا'' 7
''کہ تمہارا رب بڑا باحیا او رمہربان ہے، اُسے شرم آتی ہ ےکہ بندہ جب اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی لوٹا دے۔''
مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ ایسا انداز اختیار فرماتے ہیں جیسے شرم و حیا کرنے والا کرتا ہے اور ''کریم'' وہ ہوتا ہے جو بن مانگے عطا کرے اور خصوصاً جب اسی سے مانگا جائے گا تو وہ کیوں نہ دے گا؟ اللہ تعالیٰ کو اپنے مومن بندے سے شرم آتی ہے کہ وہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے اور اللہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹائیں۔''
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:یقول اللہ عزوجل أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حین یذکرني'' 8
کہ ''آنحضرتﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ''میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے پاس ہوتا ہوں او ربندہ جب مجھ یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔''
اگر آپ کا گمان اللہ کے بارہ میں اچھا اور یقینی ہوگا تو اللہ تعالیٰ بھی آپ کے گمان اور امید کو ردّ نہیں کریں گے بلکہ دعاء قبول فرمائیں گے اور اگر خود دعاء کرنے والے ہی کو قبولیت کا یقین نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔
اس موقعہ پر امام ابن القیم لکھتے ہیں:
''کوئی شخص اس بات کو کماحقہ سمجھنے کی کوشش کرے تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے بارہ میں حسن ظن سے مرا دخود عمل کا اچھا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حُسن ظن ہی انسان کو حسن عمل پر آمادہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائیں گے ۔ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حُسن ظن ہوگا، تو عمل بھی اچھے کرے گا۔'' 9
(جاری ہے)
حوالہ جات
1. ترمذی 9؍449
2. ترمذی 9؍450، ابوداؤد حدیث نمبر 1498
3. بخاری 13؍383، ترمذی 9؍508
4. ترمذی 9؍512
5. تحفة الاحوذی
6. ترمذی 9؍450
7. ترمذی 9؍544، ابوداؤد حدیث نمبر 1474، ابن ماجہ حدیث نمبر 3865
8. صحیح مسلم 12؍2، مسنداحمد 2؍156
9. الجواب الکافی، ص 23
i. ترمذی 9؍445، ابن ماجہ، حدیث نمبر 385، ابوداؤد و حدیث نمبر1479