نماز ِ تراویح سے متعلق چند مسائل

مولانا منظور احمد سلفی میرپور خاص سےلکھتے ہیں:
درج ذیل سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں لکھ کرعنداللہ ماجور ہوں۔

1. ''کیا نماز تراویح رسول اللہ ﷺ سے مہینہ بھر پڑھنا ثابت ہے؟
2. اگر آپؐ سے پڑھنا ثابت نہیں ہے (سوائے تیندنکے) تو ہم مہینہ بھر کیوں پڑھتے ہیں؟
3. کیامہینہ بھر پڑھنے کا حکم حضرت عمر فاروقؓ نے دیاہے؟اگر یہ حکم عمر فاروقؓ کا ہے، تو کیاآپؓ بھی اس پر تاحیات قائم رہے یااس مسئلہ سے آپؓ نے رجوع فرما لیاتھا۔؟
4. کیا اس وقت بھی ایسے صحابہؓ موجود تھے، جنہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے فیصلے کے خلاف تین دن تراویج پڑھنا روا رکھا ہو او رہمیشہ اس پر کاربند رہے؟
5. اب امت مسلمہ کے لیےکیا حکم ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرے یا عمر فاروقؓ کے فیصلے پر؟ والسلام

الجواب بعون الوھاب وإليه المرجع والمآب أقول و باللہ التوفیق :
آپ نے اپنے بعض سوالات کا خود ہی جواب بھی دے دیا ہے ۔ بہرحال جو باتیں ابھی تک قابل ژکر ہیں، ان سے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ کرلینامفید رہے گا:
''عن عبدالرحمٰن بن عبدالقاری قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة في رمضان إلی المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسه و یصلي الرجل فیصلي بصلاته الرھط قال عمر:إني أریٰ لوجمعت ھٰؤلآء علیٰ قارئ واحد لکان أمثل ثم عزم فجمعھم علیٰ أبي بن کعب ثم خرجت معه لیلة أخریٰ والناس یصلون بصلوٰة قارئھم قال عمر :نعم البدعة ھٰذہ والتي تنامون عنھا أفضل من التي تقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون أوله'' 1
''حضرت عبدالرحمان بن عبدالقاریؓ کہتے ہیں، میں رمضان کی ایک رات حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا۔ اس وقت لوگ مختلف حالتوں میں (نماز پڑھ رہے) تھے۔کوئی تو اکیلے پڑھ رہا تھا او رکوئی چند آدمیوں کی معیت میں نماز پڑھ رہا تھا (یعنی ان کی امامت کرا رہاتھا) حضرت عمرؓ کہنے لگے، ''میں دیکھتا ہوں کہ اگر ان سب کو ایک امام پرجمع کردوں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔'' پھر یہ ارادہ کرکے آپؓ نے حضرت ابن بن کعبؓ کو ان کا امام بنا دیا۔ دوسری رات دوبارہ جب میں حضرت عمرؓ کے ساتھ (مسجد کی طرف )نکلا ، تو لوگ اپنے امام (ابی بن کعبؓ) کے پیچھےنماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ (یہ دیکھ کر )کہنے لگے، ''یہ نئی شکل (یعنی ایک جماعت)کیسی اچھی بات ہے، (تاہم)رات کے جس حصہ میں لوگ سو رہتے ہیں، وہ اس حصہ سے بہتر ہے، جس میں یہ قیام کرتے ہیں۔'' (راوی کہتے ہیں) حضرت عمرؓ کی اس سے مراد یہ تھی کہ رات کا آخری حصہ (قیام کے لیے بہتر ہے)جبکہ یہ لوگ رات کے اوّل حصہ میں قیام کرتے ہیں۔''

اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے:
(1) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کےبعد ، اگرچہ مختلف صورتوں میں(یعنی الگ الگ یا باجماعت ) تاہم بہرحال اس نماز کا اہتمام کرتے تھے۔
(2) حضرت عمرؓ نے متفرق (الگ الگ یاٹولیوں میں)نماز پڑھنے سے، باجماعت نماز پڑھنے کو بہتر خیال فرمایا۔
(3) درحقیقت یہ (باجماعت نماز اداکرنا)بھی سنت نبوی کی اتباع تھی۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی تھی۔لہٰذا حضرت عمرؓ کا یہ کوئی نیا حکم یا فیصلہ نہیں تھا۔
(4) نماز تراویح باجماعت پڑھنےکی یہ مستحسن صورت صرف ان نمازیوں کے لیے تھی، جو مسجدمیں یہ نماز رات کے پہلے حصہ میں ادا کرنا چاہتے تھے۔ ورنہ اکثر صحابہؓ یہ نماز رات کے آخری حصہ میں اپنے اپنے گھروں میں ادا کرتے تھے۔ خود اس حدیث کے راوی عبدالرحمان بن عبد او رحضرت عمرؓ بھی ایسے ہی صحابہؓ میں سے تھے جو اس نماز میں شامل نہ ہوتے تھے۔ تبھی تو یہ دونوں حضرات اس وقت مسجد گئے جب جماعت ہورہی تھی او راس جماعت کو دیکھ کر ہی حضرت عمرؓ نے یہ تبصرہ فرمایاتھا، ''نعم البدعة ھٰذہ'' پھر حضرت عمرؓ کے اس وقول (کہ رات کے جس حصہ میں لوگ سو رہتے ہیں، وہ اس حصہ سے بہتر ہے، جس میں یہ قیام کرتے ہیں) سے بھی ظاہر ہے کہ آپؓ اس نماز کا رات کے آخری حصہ میں پڑھنا بہتر خیال فرماتے تھے۔
(5) واضح رہے کہ یہاں لفظ ''بدعت'' سے اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے۔کیونکہ نماز تراویح کی جماعت تو خود رسول اللہ ﷺ نے بھی کروائی تھی ۔ گویا اس کی بنیاد سنت رسولؐ پر تھی۔لہٰذا یہاں بدعت سےمراد صرف وہ نئی شکل ہے جس کو حضرت عمرؓ نے از سر نو جاری کرکے اس سنت کا احیاء کیاتھا۔

اب ہم مستفسر کے سوالات کابالترتیب جواب دیتے ہیں:
(1) قیام اللیل، صلوٰة اللیل، قیام رمضان ، صلوٰة تہجد۔ یہ سب ایک ہی نماس کے مختلف نام ہیں کہ مہینہ بھر تو کیا ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس کا التزام فرمایا۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعات سےزائد نہیں ہوتی تھی۔ اس سے جہاں نماز تراویح آٹھ رکعت (+ تین وتر) سنت ہونےکا ثبوت ملتا ہے۔ وہاں یہ بھی معلوم ہواکہ رمضان میں آپؐ کی رات کی نماز، صلوٰة تہجد سے کوئی الگ نماز نہ تھی۔ ورنہ رمضان میں اور غیر رمضان میں آپؐ کی رات کی نماز کی یہ تعداد رکعات یکساں نہ ہوتی۔رمضان چونکہ ذکر و قیام کا خصوصی مہینہ ہے اس لیے آپؐ نے اس نماز کا اہتمام سب مسلمانوں کےلیے بھی ضروری سمجھا اور انکی سہولت کیلیے یہ نماز رات کے اوّل حصہ میں ان کو پڑھائی ۔چنانچہ قیام رمضان، صلوٰة تہجد یا نماز تراویح وغیرہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں، لہٰذا یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ سے اسکا مہینہ بھر پڑھنا ثابت ہے؟ بے معنی ہوجاتا ہے ۔ بلکہ آپؐ نے یہ نماز ہمیشہ پڑھی ہے۔

(2) آپؐ نے خود تو یہ نماز ہمیشہ پڑھی، البتہ رمضان میں تین دن ، صحابہؓ کو بھی باجماعت پڑھائی۔ اس پر یہ سوال کہ''پھر ہم مہینہ بھر کیوں پڑھیں؟'' تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپؐ کی تمنا بہرحال مہینہ بھر یہ نماز پڑھانے کی تھی۔ اس کے باوجود اگر آپؐ نے تین دن سے زائد نہیں پڑھائی ، تو اس کی وجہ بھی آپؐ نے خود ہی بیان فرما دی:
''إني خشیت أن تفترض علیکم فتعجزواعنھا'' 2
کہ ''(اللہ رب العزت کے ہاں یہ عمل انتہائی پسندیدہ ہونےکی بناء پر) میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ تم پرفرض نہ ہوجائے او رتم (اس کی ادائیگی سے )عاجز رہ جاؤ۔''

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے فرض ہوجانے کاڈر آپؐ کو نہ ہوتا تو آپ ؐ مہینہ بھر یہ نماز پڑھاتے۔لہٰذا جب یہ وجہ زائل ہوگئی، تو اس کے بعد آپؐ کی تمنا کے پیش نظر ، مہینہ بھر اس نماز کاادا کرناسنت ہے۔

(3) جب یہ طے ہوگیا کہ مہینہ بھر اس نماز کا پڑھنا سنت ہے ، تو یہ حضرت عمر فاروقؓ کا کوئی الگ حکم نہیں ہے کہ آپؓ کے اس سے رجوع کرلینے کاکوئی سوال پیداہوتا۔

(4) حضرت عمر فاروقؓ کا یہ فیصلہ، سنت سے ہٹ کرنہ تھا۔ پھر صحابہؓ اس سے اختلاف کیوں کرتے؟ وہ نبیﷺ کی سنت کو بخوبی سمجھتے تھے، اور آپؐ کی اس تمنا سے واقف کہ اگر اس کے فرض ہوجانےکا ڈر آپؐ کو نہ ہوتا تو آپؐ مہینہ بھر اسے پڑھاتے۔ تبھی تو وہ مختلف صورتوں میں یہ نماز بہرحال ادا کررہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اگر اسےباجماعت کی شکل دے دی تو یہ بھی از سرنو سنت کا احیاء ہی تھا۔

(5) حضرت عمرؓ کا فیصلہ سنت رسول ﷺ پرمبنی ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو اس سنت پرعمل کرتے ہوئےمہینہ بھر یہ نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں جو کوئی رات کے آخری حصہ میں پڑھنا چاہیے تو وہ الگ بھی پڑھ سکتا ہے۔ آپؐ نے اس نماز کی بڑی ترغیب دلائی ہے۔ بلکہ یہاں تک فرمایا: ''من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ'' 3
کہ ''جس نے ایمان کی حالت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے رمضان میں قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔''

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان
2. حوالہ ایضاً
3. صحیح بخاری ، حوالہ مذکور