شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں ایک اصلاحی تحریک کا جائزہ
شادی بیاہ کی تقریبات او راس کے خود ساختہ لوازم و رسوم نے دور حاضر میں جس بڑے پیمانے پر معاشرتی بُرائی کی صورت اختیار کرلی ہے، اس کا شدید احساس ہر صاحب نظر اور ملک و ملّت کے بیشتر دردمند حضرات کو ہے۔آپ کو اپنے ہی علاقہ میں متوسط طبقہ کے ایسے بے شمار گھر مل جائیں گے جہاں مسلمان بیٹیاں او ربہنیں شادی کے بغیر صرف اس لیے بیٹھی اپنی عمریں ضائع کررہی ہیں کہ ان کے والدین اور سرپرست اپنی معاشی پسماندگی کے باعث شادی بیاہ کے رسم و رواج اور جہیز و دعوت کے جملہ لوازم و تکلفات سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت و ہمت نہیں رکھتے۔ اس سماجی بُرائی کو معاشرہ سے ختم کرنے کے لیے بعض مقامات پر انفرادی طور پر بعض جگہوں پر اجتماعی یا برادری کی سطح پرکچھ کوششیں کی گئی ہیں، جن کے مثبت اور کافی خوش آئند اثرا ت مرتب ہوئے ہیں۔ وقت کے اس اہم تقاضا کو پورا کرنے کے لیے جہاں یہ ضرورت ہے کہ خطبہ نکاح کا مطلب و مفہوم او راس کی غرض و غایت مقامی زبان میں سنائی جائے، وہیں زوجین کے باہمی فرائض و حقوق کی تعلیمات کو عام بھی کیا جائے اور سادگی و وقار کو اپناتے ہوئے تمام غیر شرعی و غیر مسنون رسموں کو ترک کردیا جائے۔
معاشرتی اصلاح کی اس سلسلہ کی ایک کڑی مؤسس انجمن خدام القرآن لاہور و امیر تنظیم اسلامی پاکستان جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی اصلاحی تحریک بھی ہے، موصوف کی اس تحریک کو ''شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں اتباع نبوی پر مبنی ایک اصلاحی تحریک'' کا عنوان دیا گیاہے۔تنظیم اسلامی پاکستان کے ترجمان ماہنامہ ''میثاق'' لاہو رکے معاون مدیر جناب شیخ جمیل الرحمان صاحب (جن کا شمار ڈاکٹر اسرار صاحب کے قریبی رفقاء میں ہوتا ہے) فرماتے ہیں کہ:
''الحمدللہ! اس تحریک کے رفتہ رفتہ اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس سے متاثر ہوکر پنجاب خاص طور پر لاہور میں بہت سے اہل ثروت حضرات نے اس پر عمل شروع کردیا ہے۔'' 1
اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک فکر انگیز تحریر اوّلا ماہناہ ''میثاق'' لاہور2 میں شائع ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہی تحریر چند صفحاتی ہینڈبل کی صورت میں شائع ہوکر تقسیم ہوئی۔ پھرمرکزی انجمن خدام القرآن لاہو رکے زیر اہتمام اڑتالیس صفحات پر مشتمل ایک مستقل کتابچہ کی شکل میں''مع خطبہ نکاح کا ہماری معاشرتی زندگی سے تعلق'' شائع کی گئی ہے۔کتابچہ مذکورہ کا ایک نسخہ (طبع مارچ 1985ء بار سوم) راقم کے پیش نظر ہے۔زیر نظر تحریر میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی اسی اصلاحی تحریک کاایک جائز پیش کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
''اتباع سنت کے پہلے قدم کے طور پرکم از کم شادی بیاہ کی تقریبات اور رسومات کے ڈمن میں تو ہمیں یہ طے کرہی لینا چاہیےکہ ان میں سے صرف وہی چیزیں باقی رکھی جائیں جن کا ثبوت آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مل جائے او رباقی تمام بعد کی ایجاد کردہ یا باہر سے درآمد شدہ رسومات کو پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ پاؤں تلے روند دیا جائے.............. الخ''3
محترم ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت پر مرتب کتابچہ جناب جمیل الرحمٰن صاحب نے ایک حاشیہ اس طرح درج فرمایا ہے:
''یہ بات بہت قابل توجہ ہے۔ اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ اصلاح الرسوم کے لئے واحد ممکن اور ٹھوس بنیاد صرف اور صرف اتباع سنت کا اصول ہے، اس کے سوا جو کوشش کی جائے گی وہ اسی طرح غیر مؤثر ہوکر رہجائے گی جس طرح سادگی کا وعظ''4
محترم ڈاکٹر صاحب نے اصلاح الرسوم کے لیے اتباع سنت کی ٹھوس اور مؤثر بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو چند تجاویز پیش فرمائی ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں:
''مثلاً یہ کہ نکاح مسجد مین ہونا چاہیے، جہیز اور بَری وغیرہ کی فرمائش بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ گھروں کی تزئین و آرائش او ربالخصوص روشنی وغیرہ پر اسراف سے بچنا چاہیے اور دعوت طعام صرف ایک ہونی چاہیے ، یعنی دعوت ولیمہ، لڑکی والوں کی جانب سے نکاح کے موقع پر دعوت طعام کاسلسلہ بالکل بند ہوجانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔''5
ایک اور مقام پر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
''اس مرحلے پر پہلے اقدام کے طور پر راقم نے تین چیزوں پر زور دینےکا فیصلہ کیا۔ ایک یہ کہ نکاح مسجد میں منعقد ہو، دوسرے یہ کہ لڑکی والوں کی طرف سے کوئی دعوت طعام نہ ہو، اور تیسرے یہ کہ بارات کا تصور بالکل ختم کردیا جائے..... الخ'' 6
ڈاکٹر صاحب کی مندرجہ بالا تجاویز میں سے دو چیزیں واقعتاً محل نظر ہیں:
(1) ''یہ کہ نکاح مسجد میں ہونا چاہیے۔''
(2) ''دعوت طعام صرف ایک ہونی چاہیے یعنی دعوت ولیمہ ۔لڑکی والوں کی جانب سے نکاح کے موقع پر دعوت طعام کا سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے۔''
اس میں کوئی شک نہیں کہ دین میں نئی چیزوں کے داخل کرنے کو ''محدثات'' یا''بدعات'' کے نام سے پکارا جاتا ہے اور تمام محدثات کو پاؤں تلے روند دینے میں ہی دین و ملّت کی فوز و فلاح مضمر ہے۔لیکن ان ہردو تجاویز کے متعلق اصل قابل غور بات یہ ہےکہ اتباع سنت کی ٹھوس اور مؤثر بنیاد کے پیش نظر یہ کہاں تک درست ہیں؟
اس سلسلہ میں چند امور پر گفتگو کی جائے گی، وہ یہ ہیں:نکاح کامسنون مقام کیا ہے؟ کیاگھروں، مدرسوں، شادی خانوں(Marriage Hall) یا کسی اور مقام پر نکاح منعقد کرنا غیر مسنون اور بعد کی ایجاد ہے؟ مساجد میں نکاح کی شرعی دلیل اور اس کا مقام کیا ہے؟ مساجد میں نکاح کے فوائد، ولیمہ کی تعریف کیا ہےاور لڑکی کے گھر دعوت طعام میں شرکت کرنا آیا شرعاً درست ہے یا مکروہ یا حرام وغیرہ۔
سنت نبویؐ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انعقاد نکاح کے لیےکوئی خاص وقت، حالت اور مقام مقرر نہیں ہے۔دن رات میں کسی بھی وقت قیام و سفر ہر دو حالت میں، اسی طرح جائے رہائش، مساجد یاکھلے میدانوں میں سے کسی بھی مقام پر بلا کسی تردد نکاح کیاجاسکتا ہے۔ حالت سفر میں، وطن سےدور، کھلے میدانوں میں نکاح کے متعلق ایک صحیح حدیث میں مروی ہے:
''أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أقام بین خیبر والمدینة ثلاث لیال یبنٰی عليه بصفیة فدعوت المسلمین إلیٰ ولیمته.... الخ''7
''نبی ؐ خیبر اور مدینہ کے درمیان حضرت صفیہؓ سے شادی کرنے کے لیے تین دن ٹھہرے، میں نے مسلمانوں کو آپؐ کے ولیمہ کی دعوت دی۔ الخ''
جائے رہائش پر انعقاد و نکاح بعد کی ایجاد یا درآمد شدہ رسم نہیں ہے، بلہ علماء و صلحاء کا قرناً بعد قرن اس پر تعامل چلا آرہا ہے۔ البتہ شادی خانوں کا پہلے زمانوں میں کیں وجود نہ تھا۔ بڑے شہروں میں موجودہ دو رکی رہائشی قلت کے پیش ان کا قیام وجود میں آیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں انہیں گھروں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
مساجد کی غرض و غایت چونکہ صرف نماز و اعتکاف ، وعظ و نصیحت ، دعا و ذکر، استغفار وغیرہ کی نہیں ہوتی، بلکہ مساجدکو ہر مسلم معاشرہ میں اس علاقہ کی، جہاں وہ موجود ہو، اجتماعی اور مرکزی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔لہٰذا اللہ کے گھر کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تمام جائز سیاسی، تعلیمی، معاشرتی، تجارتی، فوجی اور مذہبی امور انجام دینے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ایسا کرنا خیر و برکت کا باعث بھی ہے۔ مرد و عورت کے نکاح سے معاشرہ میں ایک نئے خاندان کااضافہ ہوتا ہے۔ اس نئے خاندان کی ابتداء سنت نبویؐ کے طریقہ پر خطبہ نکاح او رایجاب و قبول سے انجام پاتی ہے۔ مساجد میں نکاح او رایجاب و قبول کو کوئی اگر اپنے لیے باعث عار سمجھے تو وہ اس شخص کی غلط فہمی ہے۔مساجد میں نکاح منعقد کرنے کے لیےعموماً جو حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے، اس کا ذکر مرتب کتابچہ جناب شیخ جمیل الرحمٰن صاحب نےبھی اپنےمقدمہ میں فرمایا ہے۔ یہ حدیث اس طرح ہے:
''عن عائشة قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أعلنوا ھٰذا النکاح واجعلوہ في المساجد....... واضربوا عليه بالدفوف''8
''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نکاح کا اعلان کرو، اسے مساجد میں منعقد کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ''
مذکورہ بالا حدیث کو امام ترمذی او رامام بیہقی نے بطریق احمد بن منیع عن یزید ابن ہارون عن عیسیٰ ابن میمون الانصاری عن القاسم بن محمد عن عائشہ رضی اللہ عنہا مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے متعلق امام ترمذی فرماتے ہیں کہ: ''یہ حدیث حسن غریب ہے او رعیسیٰ بن میمون الانصاری احادیث روایت کرنے میں ضعیف ہے۔''9 امام بیہقی فرماتے ہیں کہ ''عیسیٰ بن میمون ضعیف ہے۔'' حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ''عیسیٰ بن میمون، جو طبقہ سادسہ سے تعلق رکھتا ہے، ضعیف ہے۔'' امام بخاری فرماتے ہیں کہ ''منکر الحدیث ہے۔'' ابن حبان کاقول ہے کہ : یہ جو احادیث بیان کرتا ہے ، وہ سب موضوع ہوتی ہیں۔'' ابن حبان کا ایک دوسرا قول ہے کہ : ''''اس کی روایات کچھ نہیں بھی ہوتیں۔'' امام ذہبی تلخیص مستدرک میں فرماتے ہیں کہ :''متہم'' ہے۔ امام ذہبی بیان کرتے ہیں کہ: امام بخاری نے فرمایا: 'ّعیسیٰ بن میمون، جس نے ''أعلنوا النکاح'' والی حدیث روایت لی ہے، ضعیف بلکہ کچھ بھی نہیں ہے۔'' ابن معینکا قول ہے:اس کی حدیثیں کچھ بہی نہیں ہوتیں۔'' اور ایک مرتبہ فرمایا: ''اس میں کوئی حرج نہیں ہے، فلاس کا قول ہ ےکہ ''متروک ہے۔'' ابن عدی بیان کرتے ہیں: ''عام طور پر وہ جو روایت کرتا ہے اس کی کوئی متابعت نہیں ہوتی۔'' نسائی فرماتے ہیں کہ ''ثقہ نہیں ہے۔'' ابوحاتم کاقول ہے کہ ''وہ متروک الحدیث ہے۔'' علامہ ہیثمی فرماتے ہیں''متروک ہے، لیکن حماد بن سلمہ نے اس کی توثیق کی ہے۔'' امام دارقطنی، علامہ زیلعی، ابن عراق الکنانی، ابوالوزیر احمد حسن دہلوی، ابوسعید محمد شرف الدین دہلوی او رعلامہ محمد ناصر الدین الالبانی وغیرہ بھی عیسیٰ بن میمون کو ضعیف بتاتے ہیں۔10
اس حدیث میں تین اہم باتوں کاذکر ملتا ہے:
1۔ نکاح کا اعلان عام کرنا۔ 2۔ مساجد میں نکاح کا انعقاد اور 3۔ نکاح کے موقع پر دف اور غربال بجانا۔
''أعلنوا ھٰذا النکاح'' کا حکم بہت سی دوسری روایات میں بھی ہے، جنہیں امام بیہقی اور ترمذی کے علاوہ امام احمد ، بزار، طبرانی (فی الکیر والاوسط) اور ابن ماجہ وغیرہ رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے۔11 ان روایات میں سے امام احمدکی روایت کے رجال ثقات ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت12 کی تخریج بیہقی او رابونعیم اصفہانی 13 نے بطریق نصر بن علي الجهضمي عن عیسیٰ بن یونس عن خالد بن إلیاس عن ربیعة ابن فروخ عن القاسم عن عائشة مرفوعاً ہے۔لیکن ابو نعیم اصفہانیفرماتے ہیں کہ ''اس کی اسناد میں خالد بن الیاس کا تفرد ہے۔'' امام بیہقی فرماتے ہیں''زوائد میں ہے کہ وہ ضعیف ہے۔'' اور ''اس کے ضعف پر اتفاق ہے ، بلکہ ابن حبان ، حاکم اور ابوسعید النقاشنے اس کی نسبت وضع احادیث کی طرف بھی کی ہے۔''14
بعص روایات میں ''أعلنوا النکاح'' کی جگہ''أظهر واالنکاح'' کے الفاظ بھی مروی ہیں۔15 علامہ ابن قدامہ مقدسی بیان کرتے ہیں کہ ''امام احمد نے فرمایاکہ نکاح کااظہار و اعلان کرنامستحب ہے او ریہ بھی کہ اس موقع پر دف بجائی جائے تاآنکہ لوگوں میں یہ نکاح معروف و مشتہر ہوجائے۔''16
ان تمام روایات سے یہ حکم تو قطعاً ثابت ہوگیا کہ نکاح کااعلان عام او راظہار ، نکاح کے انعقاد کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے او رمساجد کی اجتماعی و مرکزی حیثیت کے پیش نظر نمازیوں کی موجودگی میں مساجد میں نکاح کرنا اعلان عام کی شرط بطریق احسن پوری کردیتا ہے، لیکن صرف مساجد میں ہیں نکاح کرنےکو انعقاد نکاح کی دوسری شرط بنا دینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ کیونکہ :
(1) ترمذی و بیہقی کی مندرجہ بالاحدیث، جس میں مساجد میں نکاح کرنے کا حکم ملتاہے، وہ روایت ضعیف ہے۔
(2) مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات پرنکاح کرنا بھی خیرالقرون سے آج تک امت میں نسلاً بعد نسل چلا آرہا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مذکورہ بالا حدیث متفقہ طور پر ضعیف ہے۔ جہاں تک امام ترمذی کی تحسین کاتعلق ہے، تو اوّلا امام ترمذی کی تحسین کوئی حجت نہیں ہے۔کیونکہ آں رحمہ اللہ اس معاملہ میں کافی متساہل واقع ہوئے ہیں۔17 ابن دحیہ بیان کرتے ہیں کہ : ''امام ترمذی نے کتنی احادیث موضوعہ اور اسانید واھیہ کی تحسین فرمائی ہے۔'' او رامام ذہبی فرماتے ہیں کہ: علماء امام ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔''18 ثانیا امام ترمذی کی تحسین اس حدیث کے فقرہ اولیٰ کے لیے ہے جس کےلیے عبداللہ بن زبیرؓ کی مرفوع حدیث شاہد و مؤید ہے، جسے خود امام ترمذی نے ''باب ماجآء في إعلان النکاح'' میں وارد کیاہے۔ اس پہلے فقرہ کی شہادت کتاب ''آداب الزفاف''19 اور ''إروا ء الغلیل''20 میں بھی مذکور ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ مسجدمیں انعقاد کوئی ثابت شدہ شرط نہیں ہے۔ مساجد میں نکاح سے بلا شبہ معاشی طو رپر پسماندہ اور متوسط طبقہ کے لوگ اپنی بہن بیٹیوں کی شادی کے بہت سے تکلفات اور اخراجات مثلاً استقبالیہ، شامیانوں، قناتوں، قالینوں، صوفوں، کرسیوں، رنگا رنگ آرائشوں اور قمقموں وغیرہ سے بچ جائیں گے۔ نیز مسجد بہرحال جائے رہائش یا کسی او رمقام سے بدرجہا بہتر او ربابرکت مقام ہے۔جہاں کے پاکیزہ ماحول میں اگر نئے شادی شدہ جوڑے کی خوشحالی ، دین و ایمان کی سلامتی او رباہمی الفت و مفاہمت کی دعاء کی جائے تو زیادہ امید ہےکہ مقبول و مؤثر ہوسکتی ہے۔لہٰذا حصول21 برکت کے لیے مسجدکو ترجیح دینا تو درست ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے تمام مقامات کو قطعاً حرام سمجھنا بھی ایک فاش غلطی ہے۔ چنانچہ اس معاملہ میں کسی طرح کی شدت اور افراط و تفریط کا معاملہ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ جس طرح کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے انتہائی شدت کا مؤقف اختیار کیا ہواہے:
(1) ''ان سب کو قرآن کی ہدایت او رنبی اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق انجام دینابھی سنت ہے۔شادی بیاہ کی تقریبات کو صرف مسجد میں نکاح کے انعقاد تک محدود رکھنا ہی سنت نہیں بلکہ اس معاملے میں یہ دیکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہےکہ شادی بیاہ کے سلسلہ میں ہم کون کون سی ایسی رسومات کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جن کا اللہ کے دین او رنبی اکرمﷺ کی سنت سے نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ سراسر غیراسلامی او رخلاف سنت ہیں۔''22
(2) ''راقم الحروف آئندہ ............. نہ کسی ایسی تقریب نکاح میں شرکت کرے گا جو مسجد میں منعقد نہ ہو............!''23
(3) ''کسی ایسی نکاح کی تقریب میں شرکت نہیں کروں گا جو مسجد میں منعقد نہ ہو۔'' 24
اس کے بعد اب نکاح کے موقع پر دلہن کے گھر والوں کی طرف سے دولہا اور باراتیوں ۔(دوست، احباب، اعزاء ، اقارب، زور و ضیوف)کی ضیافت کرنے کا مسئلہ پیش نظر ہے۔اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شادی کے ضمن میں دعوت ولیمہ کی تاکید فرمائی ہے (جوعموماً دولہا یا اس کے گھر والوں کی جانب سے ہوتی ہے) لیکن دلہن یااس کے گھر والوں کی جانب سے دعوت طعام اور مہمانوں کی ضیافت کرنا سنت سے ثابت نہیں۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
(1) ''نکاح کے موقع پر دعوت طعام سےاحتراز کامعاملہ البتہ ذرا کڑوی گولی ہے جو آسانی سے حلق سے نہیں اترتی، لیکن ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ پہلے معاملے سے بھی زیادہ صاف اور واضح ہے۔'' 25
(2) ''پس اگر نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے یہاں بھی دعوت طعام کوئی اچھا کام ہوتا اور اس میں کوئی بھی خیر کا پہلو موجود ہوتا تو کیا اللہ کے رسولﷺ ہمیں اس کا حکم نہ دیتے؟ یا کم از کم درجہ استحباب ہی میں اس کاذکر نہ فرماتے؟ اورجب اس کا کوئی ذکر ہمیں کسی حدیث میں نہیں ملتا تو کیا یہ ایک خواہ مخواہ کی بدعت نہیں۔؟...... الخ''26
(3) ''راقم الحروف آئندہ .............. نہ نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں کسی دعوت طعام میں شریک ہوگا.......الخ''27
(4) ''میں نکاح کے موقع پر کسی دعوت طعام میں شامل نہیں ہوں گا، کیونکہ خیر القرون سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ شادی کے ضمن میں لڑکے والوں کی طرف سے دعوت ولیمہ مسنون ہے، جس کا ثبوت ہی نہیں بلکہ نبی اکرم ﷺ کا تاکیدی حکم ملتا ہے۔''28
اس سلسلہ میں بھی محترم ڈاکٹر صاحب نے انتہائی شدت اور افراط و تفریط کامؤقف اپنایا ہے۔ذیل میں پہلے یہ بتایا جائے گا کہ اصحاب لغت و فقہاء کے نزدیک ولیمہ کی تعریف کیا ہے؟ پھر دلہن کے گھر نکاح کے وقت یا رخصتی کے وقت دعوت طعام کی تشریعی حیثیت پر بحث ہوگی، اس کے بعد اس دعوت طعام کےجواز کی علتیں اور سنت نبوی ؐو خیرالقرون میں اس دعوت کا ثبوت پیش کیاجائےگاو راختتام پربعض معروف علماء کے فتاوے بھی نقل کئےجائیں گے۔ وما توفیقي إلا باللہ۔
(جاری ہے)
حوالہ جات
1. ''شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں اتباع نبویؐ پر مبنی ایک اصلاحی تحریک'' ص2
2. ماہنامہ ''میثاق'' ماہ فروری 1974ء
3. ''شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں.......الخ'' صفحہ 6
4. ایضاًصفحہ 6 حاشیہ نمبر 1
5. ایضاً صفحہ 6
6. ایضاً صفحہ 7
7. متفق علیه و کذٰا في المنتقی الأخبار لشیخ الإسلام ابن تیمیةمترجم ج2، صفحہ 312، 313 طبع لاہور
8. رواہ الترمذی ج1،ص202 و أخرجه البیهقي ج7 ص290 وکذا في المشکوٰة
9. جامع الترمذی مع تحفة الأحوذي
10.تاریخ ابن معین ج4 ص89، تاریخ الکبیر للبخاری ج3 ص401، تاریخ الصغیر للبخاری ج2 ص139، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 86، الضعفاء الکبیر للعقیلی ترجمہ نمبر1427، الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم ج3 ص287، مجروحین ابن حبان ج2 ص120، کامل في الضعفاء لابن عدی ج5 ترجمہ 1881، ضعفاء والمتروکین للنسائي ترجمہ 425، ضعفاء والمتروکین للدارقطنی ترجمہ نمبر 414، میزان الاعتدال للذھبی ج3 ص325، تهذیب التهذیب لابن حجر نمبر8 ص236، تقریب التہذیب ج2 ص102، تنزيه الشریعة المرفوعة للکناني ج1 ص94، نصب الرایة للذیلعی ج3 ص167۔ 168، تنقیح الرواۃةج3 ص13، مجمع الزوائد للهیثمي ج1 ص150 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة للألباني ج2 ص409۔ 410
11.منتقی الأخبار للشیخ ابن تیميةمترجم ج2 ص321، مجمع الزوائد للهیثمی ج4 ص289
12.سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1895
13.حلیة الأولیاء أبونعیم اصفهانی ج3 ص265
14.نصب الرایة للزیلعي ج3 ص167۔ 168 وحلیة الأولیاء أبونعیم اصفهانی ج3 ص265 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة للشیخ الألباني ج2 ص409
15. المغني لابن قدامةج6 ص538
16.یضاً ج6 ص537
17.مقدمة تحفة الأحوذي للشیخ عبدالرحمٰن المبارکفوري
18.مقالات الکوثری ص 311 و سلسلة الأحادیث الضعیفة و الموضوعة للألباني ج1 ص36
19.آداب الزفاف ص97
20.ارواء الخلیل 2053
21. تنقیح الرواة ج3 ص13 بحوالہ کشف و کنزالعمال و فتح الباري و نیل و میزان و فیض القدیر
22.شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن ............... الخ ص44
23.ایضاً ص12
24.ایضاً ص45
25.شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن ...........الخ ص8۔9
26.ایضاً ص9۔10
27.ایضاً ص12
28.ایضاً ص45