کل پاکستان مدارس اہل حدیث کنونشن
وحدت ِنصابِ وفاق المدارس کے سلسلہ میں تجاویز و آراء ......... اور مسئولین کی ذمہ داری!
''وفاق المدارس السلفیہ پاکستان '' کی اہمیت ظاہر و باہر ہے۔ گورنمنٹ پاکستان نے اس کے آخری امتحان کو ایم۔اے کے مساوی تسلیم کیاہے۔ تاہم اس کی سند کی معیاری حیثیت عملاً اسی وقت تسلیم کروائی جاسکتی ہے، جبکہ اس آخری امتحان سے قبل کے تین امتحانات مساوی میٹرک، ایف۔اے اور بی ۔ اے کی اسناد کا اجراء بھی کیا جائے او رجس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تمام اہلحدیث مدارس کےان چاروں تعلیمی مراحل یعنی میٹرک، ایف۔اے ، بی۔اے او رایم۔اے کےنصاب میں وحدت او ریکسانیت قائم ہو۔
گزشتہ دنوں''وفاق المدارس السلفیہ پاکستان'' نے اسی غرض سے ایک نصاب مرتب کرکے مدارس کے مہتممین اور شیوخ الحدیث کو برائے تجویز و مشورہ ارسال کیا۔ لیکن اس قدر اہم معاملات کے لیے چونکہ اجتماعی مشاورت ہی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے''رابطہ مدارس اہلحدیث'' نے 19 مارچ 1987ء کو جامع القدس اہلحدیث چوک دالگراں لاہور میں ''کل پاکستان مدارس اہلحدیث کنونشن'' کے نام سے ایک اجتماع کااہتمام کیا۔جو اپنی حاضری اور جملہ مدارس اہلحدیث کی نمائندگی کے اعتبار سے بلا شبہ ایک بھرپور اجلاس تھا۔کراچی سے پشاور تک کےاہم جامعات کے شیوخ الحدیث اورمسئولین کے علاوہ، متوسط درجہ کے مدارس کے نمائندگان نےبھی اس میں خاصی تعداد میں شرکت فرما کر مسئلہ زیربحث میں اپنی انتہائی دلچسپی کا ثبوت فراہم کیا۔حتیٰ کہ جو حضرات اپنی مجبوریوں کی بناء پر تشریف نہ لاسکے، انہوں نے اپنی بھرپور حمایت کے ساتھاہم تجاویز لکھ کر ارسال فرمائیں۔ فجزاهم اللہ خیراً
اگرچہ بعض شرکاء اجلاس نے اس اجلاس پر تنقید بھی کی، اور تجاویز کے بارہ میں بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ تجاویز ایجنڈا کےمطابق نہیں ہیں، کیونکہ اجلاس کامقصد تو نصاب کی اصلاح ہے ، لیکن دوسرے حضرات نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ نصاب میں اصل چیز طرز تعلیم اور نظام تعلیم ہوتی ہے۔ جہاں تک کتابوں اور نصاب کتب کی تبدیلی کامسئلہ ہے، یہ کام ایک چھوٹی کمیٹی ان تجاویز کی روشنی میں کرسکتی ہے۔ بہرحال اجلاس میں بہترین اور مفید ترین تجاویز پیش ہوئیں، جن کاخلاصہ ذیل میں درج کیاجاتا ہے:
1. وفاق المدارس کی مرکزی کمیٹی (Supreme Council) مشاہیر علماء او رماہرین تعلیم کو اپنے ساتھ شامل کرے، تاکہ ان کی راہنمائی میں نصاب ترتیب دیاجاسکے۔نیز یہ کہ اراکین حضرات غیرجانبدار ہوں اور جماعت دھڑےبندی کی سیاست سے ان کاکوئی تعلق نہ ہو۔
2. وفاق کا ایک تعلیمی بوڑد قائم کیاجائے، جو مدارس، انکےطریقہ تعلیم اور انداز تعلیم میں پائی جانے والی خامیوں کاجائزہ لے کر، ان کی اصلاح کامناسب حل تجویز کرے۔
3. وفاق کے لیے ایک مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے، جومشورہ کے بعد اہم تجاویز پیش کرے، او ران تجاویز پر عملدرآمد بھی ہو۔
4. ترتیب نصاب میں بنیادی طور پر سلفیت کو پیش نظر رکھاجائے۔اسی بنیاد پر درس نظامی میں اہم تبدیلیاں لانےکے علاوہ عصری علوم کو اس طرح شامل نصاب کیا جائے کہ اس سے خالص سلفی عقائد متاثر نہ ہوں۔
5. اس اجلاس کےبعد جونمائندہ نصاب کمیٹی مقرر کی جائے، ذمہ داران وفاق ان کی تجاویز سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
6. تمام مدارس کے لیے جو نصاب تیار ہو، وہ کسی خاص ذہن، فرد یاگروہ کی تجویز نہ ہو، بلکہ یہ نصاب ، جملہ مدارس کے مسئولین کو اعتماد میں لے کر تیار کیاجائے اور وہ مفید و قابل عمل ہو۔
7. نصاب میں ایسے اسلامی علوم و فنون رکھے جائیں، جس سے متخصص علماء پیدا ہوں، تاکہ وہ پیش آمدہ مسائل کاتسلی بخش حل پیش کرسکیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہوسکیں۔
8. وفاق کی طرف سے جو سندات جاری ہوں، ان پراس مدرسہ کا نام بھی درج ہو، جہاں سے سند یافتہ نےاستفادہ کیاہو۔
9. طلباء و طالبات کے نصاب میں حسب احوال و ظروف مناسب فرق رکھا جائے ۔ ترجمہ قرآن کریم کو ابتداء ہی سے خصوصی اہمیت دی جائے۔
10. حفظ قرآن و حدیث کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ اسی طرح طلبہ میں ، عربی بول چال اور تحریر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے خصوصی مساعی بروئے کار لائی جائیں۔
11. وفاق کے منتظمین اپنے طور پر فیصلےکرنے کی بجائے مدارس پر مشتمل مجلس مشاورت کے ہمراہ بیٹھ کر فیصلہ کریں، تاکہ اعتماد کی فضا بحال رہے۔
12. وفاق کے سند یافتگان کو مشترکہ کوششوں سےصحیح گریڈ دلایاجائے اور جو سہولتیں اور مراعات دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں، ان کوبھی دلائی جائیں۔ اس سلسلہ میں موجود تفاوت کو دور کرنے کے لیے مناسب او ربھرپور کوششیں ہونی چاہیں۔
13. نصاب میں اس بات کا لحاظ رکھاجائے کہ طلبہ کو معلومات عامہ (جنرل نالج) کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی زبان سے بھی مناسب واقفیت حاصل ہوسکے۔
14. تعلیمی امور کےسلسلہ میں جماعتی سیاست اور اختلافات کو کوئی دخل نہ ہونا چاہیے تاکہ درس گاہیں غلط قسم کے سیاسی اثرات سےمحفوظ رہیں۔ وحدت نصاب کے لیے تمام مدارس کے موجودہ نصابوں کو سامنے رکھ کر ٹھوس او رجامع نصاب ترتیب دیاجائے۔
15. امتحانی مرکز صرف ایک نہ ہو، بلکہ کئی مراکز ہوں، جن کی نگرانی وفاق المدارس کے تحت ہو۔
16. طلباء کو تعلیم کے ساتھ ساتھ علم کے مناسب ٹیکنیکل امور (طبابت، ٹائپ، شارٹ ہیند، کتابت، جلد سازی) وغیرہ کو بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں دوسروں کے دست نگر نہ ہوں۔ اسی طرح صحت او ربدن کی درستگی کے لیے ورزش اور دیگر ایسی مشقیں کرائی جائیں ، جو میدان جہاد میں بالخصوص کام آئیں۔
17. درس نظامی کی بنیاد تصوف، اشعری ماتریدی عقائد اور یونانی فلسفہ پر ہے، اس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔
18. وفاق المدارس کی آخری سند پاکستان میں ایم۔ اے کے برابر تسلیم کی گئیہے۔ جبکہ بیرون ملک جامعات میں اس کی حیثیت ثانوی کے برابر بھی نہیں سمجھی جاتی ۔لہٰذا نصاب ایسی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے کہ ان جامعات میں بھی اسے کماحقہ اہمیت حاصل ہوسکے۔
یہ وہ تجاویز ہیں جو مذکورہ بالا اجلاس میں سامنے آئیں۔ آخر میں جید او رمعروف علماء پر مشتمل ایک پچیس رکنی رابطہ نصاب کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نےان تجاویز کو آخری شکل دی۔مزید غور و فکر کے لیے اس کمیٹی کا دوسرا اجلاس 26۔ اپریل بروز اتوار طے پایا۔ لیکن افسوس کہ 23 مارچ کو وہ اندوہناک حادثہ پیش آگیا کہ جس نے پوری جماعت کو ہلا کر رکھ دیا، ظاہر ہے ، اس کے باعث جہاں دیگر پروگرام متاثر ہوئے، اس اجلاس کامتاثر ہونا بھی لازمی تھا۔ بہرحال جیسے تیسے یہ اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کی تجاویز کی تفصیل ہم آئندہ صحبت میں پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
تاہم اس اجلاس میں سابقہ کارروائی کی توثیق کے طور پر کہا گیا کہ چونکہ وفاق المدارس السلفیہ کی اہمیت و ضرورت کسی پر مخفی نہیں او رحکومت کے نوٹیفیکیشن کے بعد اس کی حیثیت اور زیادہ ہوگئی ہے ، اس لیے اب اسے مربوط او رمنظم کرنےکی بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ تاکہ ان مدارس کےمختلف تعلیمی مراحل میں طلباء کو پبلک سروس کمیشن کی سلیکشن اور مقابلہ کے امتحان کے وقت، سندات کی بنیاد پرانتخاب میں معقول نمبر حاصل ہوسکیں۔ورنہ صرف وفاق کی ایک سند کی بنیاد پر مذکورہ کمیشن کے امتحانات میں کامیابی کے امکانات تقریباً معدوم ہوتے ہیں۔
لیکن اندریں صورت، یعنی وفاق المدارس کی مرحلہ وار اسناد کی موجودگی میں، مدارس کی ذاتی اسناد کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے گی۔ جبکہ قبل ازیں ان اسناد کی اہمیت بہرحال دو لحاظ سے مسلّم ہے۔
اوّلاً: اس لیے کہ وفاق کے آخری امتحان کے لیےمدرسہ کی سند ضروری ہے۔ او رثانیاً یہ کہ مختلف مدارس کی اسناد کا عرب ممالک کی یونیورسٹیوں سے معادلہ قائم ہے جبکہ وفاق المدارس کی اسناد کی یہ پوزیشن نہیں۔
یہ صورت حال سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ وفاق المدارس کے مسئولین اور ذمہ داران وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے وحدت نصاب اور اصلاح نصاب کےسلسلہ میں تمام اہم جامعات اور مدارس کے مسئولین و شیوخ الحدیث کو اعتماد میں لےکرٹھوس اقدام کریں۔
وفاق المدارس کی نمائندہ حیثیت او راہمیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا اور وحدت نصاب اس سلسلہ میں سونے پر سہاگہ کاکام دے گا۔ اسسے جہاں ہمارے مدارس منظم اور متحد ہوسکتے ہیں، وہاں ہمارے اسلاف اور بزرگوں کی وحدت نصاب کےبارہ میں بہترین خواہشات کی تکمیل بھی عین ممکن ہے۔ اس لیے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسلہ میں ہر ممکن کوشش اور تعاون کریں او راس سنہری موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، اس کو کسی صور ت بھی ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ ورنہ ہماری معمولی سی غفلت او رتساہل ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دے گا۔اس وقت دوسرے وفاق بھی انتہائی مستعد ہیں، ہمیں بھی وقت کی رفتار پر نظر رکھنی چاہیے اور متحد و منظم ہوکر، ایک دوسرے کو اعتماد میںلیتے ہوئے ایسا نصاب مرتب کرنا چاہیے جو نہ صرف ٹھوس بنیادوں پر استوار ہو اور اس سے تعلیمی کمی کو پورا کیا جاسکے ، بلکہ اس کےنتیجہ میں ایسے علماء پیدا ہوں جو ثقہ اور پختہ کار ہوں۔ جو نت نئے پیش آمدہ مسائل کامعقول حل پیش کرسکیں اور وقت کےہرچیلنج کا مقابلہ کرنےکے لیے ہر دم تیار ہوں۔
ترتیب نصاب کے سلسلہ میں نمائندہ نصاب کمیٹی کی ابتدائی تجاویز :
ترتیب نصاب میں حسب ذیل امور کو بالخصوص پیش نظر رکھا جائے:
(1) جملہ علوم میں کتابی مہارت کی بجائے علمی اور فنی مہارت کا لحاظ رکھا جائے۔
(2) مدارس میں سلفی عقیدہ کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ تصوف ، فلسفہ، منطق، کلامی عقائد کا پوسٹ مارٹم ہو، فقہ حنفی اور اصول فقہ حنفی کی بجائے فقہ اور اصول فقہ مقارن پر خاص توجہ دی جائے۔ اس سلسلہ میں خصوصی محاضرات کا اہتمام ہو اور پختہ کار اساتذہ، طلباء و ٹھوس دلائل اور وافر معلومات مہیا کریں، ہر تعلیمی مرحلہ کوخصوصی اہمیت دی جائے، محض آخری سال پر اکتفاء نہ کیاجائے۔
(3) حدیث تفسیر اور فقہ میں بشمول ان کے اصولوں کے ، تخصص کی شدید ضرورت ہے۔ تاکہ ان علوم کے ایسے ماہر علماء تیار ہوں جو مختلف شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں نباہ سکیں۔ یہ علوم مسلسل شامل نصاب رہیں۔
(4) معلومات عامہ (جنرل نالج) کا خصوصی اہتمام ہو، نصاب میں تاریخ و جغرافیہ اور معاشرتی علوم کا بھی اضافہ کیاجائے۔
(5) علوم حاضرہ (عمرانیات، سیاسیات، معاشیات)کوبھی اہمیت دی جائے او راسلام کی روشنی میں اہم تحقیقات سے طلباء کو واقفیت بہم پہنچائی جائے۔
(6) تقابل ادیان کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستان میں الحاد و زندقہ کے داعی انتہائی منظم اور جارحانہ انداز میں مصروف کار ہیں۔اس خطرناک صورت حال کا مقابلہ تقابل ادیان کے مطالعہ ہی سےممکن ہے۔
(7) عصری تحریکات کو سمجھنے کےلیے سلفی فکر و منہاج پر مشتمل کتابیں شامل نصاب کی جائیں اس سلسلہ میں ائمہ اربعہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی مساعی کا خصوصی مطالعہ کرایا جائے۔ گویا تاریخ اسلام کو سیاسی اور ثقافتی دونوں حیثیتوں سے شامل نصاب کیا جائے۔
(8) املاء کا قدیم طرز (لیکچر سسٹم) رائج کیا جائے۔
(9) قرآن و حدیث کے حفظ کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے۔نیز قرآن فہمی کے لیے احادیث پاک کے علاوہ جاہلی ادب اور اسلامی دور کے عربی ادیبوں کے کلام کاضرور مطالعہ کیا جائے۔اس طرح جہاں طلبہ میں قرآن فہمی کا ملکہ پیدا ہوگا، وہاں عربی بول چال، گفتگو اور تحریر کی کمزوریاں بھی دور ہوسکتی ہیں۔
(10)طلبہ کی تربیت کے لیے معلومات کتب کےساتھ اخلاقی کتب بھی ضرور شامل نصاب کی جائیں۔
(11) قواعد (صرف و نحو) کو بطریق مباشر اور تطبیقی شکل میں پڑھایا جائے تاکہ مبتدی طلباء انہیں محض رٹنے یازبانییادکرنےتک محدود نہ رہیں، اور عبارت کےسلسلہ میں روانی و اجراء پیدا ہو۔
دینی علوم کے ساتھ مجوزہ مضامین اور کتابوں کے اضافہ سے نصاب خاصا بوجھل تو ہوجائے گا، تاہم بعض پیچیدہ اور غیر ضروری کتابوں کی کمی سے اسے متوازن بنایاجاسکتاہے۔ اس توازن کے لیے مضامین کی تقسیم اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ ''اہم فالاہم'' کے اعتبار سے کچھ تو لازمی ہوں اور مسلسل زیر تدریس رہیں، کچھ اختیاری قرار پائیں او رکچھ صرف برائےمطالعہ باقی رکھے جائیں۔
البتہ نصاب میں تبدیلی او رتدوین ایک بہت اہم کام ہے، جس کی فوری تکمیل نہیں ہوسکتی بلکہ ابتدائی طور پر سمت کی درستگی کافی ہے جو اجتماعی سطح پر ہو، کتابیں مدون کرنا، شائع کرنا، رائج کرنا بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔بالخصوص اس لیےکہ مدارس عربیہ میں کسی کتاب کے ترجمے ، خلاصے یا کلید وغیرہ کی بھی گنجائش نہیں جبکہ سرکاری نظام تعلیم میں آخری امتحان میں بھی اصل کتابوں کی بجائے صرف خلاصے، ترجمے، کلیدی بلکہ آزمائشی پرچے تک رٹنے پر اکتفاء کیاجاتاہے۔ پھر اس سلسلہ میں ملک کے اہم اورمرکزی شہروں میں اساتذہ کرام کےلیے تربیتی مراکز کا قیام بھی ضروری ہےاور تربیتی نصاب بھی تیار کرنا ہوں گے۔ یہ سب کام نہ کوئی فرد واحد کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک مدرسہ یاادارہ یہ بارگراں برداشت کرسکتا ہے۔ ہاں اگر چند مخلص مردان کار، ان مقاصد کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور شبانہ روز مساعی وقف کردیں اور جماعت کی اجتماعی قوت ان کی پشت پر ہو، تاکہ ضروری وسائل انہیں ہروقت اور بروقت میسر آسکیں تو یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔واللہ الموفق لما یحب و یرضی