دسمبر 1970ء

جائزے

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْن


مادری زبان میں بات: صدر ناصر انگریزی اور فرانسیسی بھی جانتے تھے لیکن غیر ملکی رہنمائوں سے بات ''عربی'' میں ہی کرتے تھے۔ ترجمانی کے لئے ترجمان رکھتے تھے (روزنامہ امروز)

اِدھر یہ حال ہے کہ:

ہماری ۹۹ فی صد آبادی بلکہ ہزار میں نو سو ننانوے فی صد آبادی انگریزی سے بالکل بے خبر ہے مگر ستم ظریفی دیکھیے! کہ ہمارے ارباب اقتدار جب اپنی اس قوم سے بھی خطاب کرتے ہیں تو عموماً انگریزی ہی میں کرتے ہیں۔ إنا لله وإنا  إلیه راجعون۔

عرب بیمار ہے اور مسیحا بد نیت: عرب بیمار ہے لیکن جن مسیحائوں کے ہاتھ میں ان کی نبض ہے وہ حد درجہ بد نیت ہیں۔ مگر ان پر ان کے اعتماد کا عالم یہ ہے کہ:

صدر ناصر کی وفات کے پہلے ہی دِن کو سیگن ماسکو سے قاہرہ پہنچتا ہے اور اس کی تدفین کے کئی دِن بعد تک وہاں پر معنی خیز قیام کرتا ہے اور یوں پر اسرار مصروف وقت گزارتا ہے جیسے کوئی شریک محفل ہو۔

فدائین اور شاہ حسین دونوں لڑ پڑتے ہیں، امریکہ نے شاہ حسین سے کہا کہ فکر نہ کیجیے! ہم تیرے ساتھ ہیں، اسرائیل کے راستہ سے کمک ارسال خدمت ہے یہ لو۔ إنا لله وإنا إلیه راجعون۔

جمعیۃ العلماء: علماء سب کے رہنما ہوتے ہیں، جب متحد ہو جائیں تو اس سے سوا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ڈھب کی تین جمعیتیں بنائی ہیں۔

مرکزی جمعیۃ علماء اسلام (تھانوی گروپ)

جمعیۃ علمائے اسلام (ہزاروی گروپ)

جمعیۃ علمائے پاکستان (بریلوی گروپ)

یہ تینوں علمائے کرم کی جمعیتیں ہیں۔ گو یہ سب علماء ہیں، لیکن ان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے۔ اس لئے عجیب سے موڑ کاٹ کر آرہی ہیں اور جو موڑ مڑ کر آرہی ہیں، وہ سب موڑ، موڑ ہی ہیں۔ دولتانہ موڑ، لاڑکانہ موڑ اور آستانہ موڑ۔ عوام سوچتے ہیں کہ علماء اور یہ موڑ؟

إنا لله وإنا إلیه راجعون

اس موقع پر اس کے سوا ہم اور کیا عرض کر سکتے ہیں کہ: ؎

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست        گربہ اور نہ رسیدی تمام بو لہبی است


افوہ! اتنی حاضری:

مسٹر بھٹو، جب کہیں خطاب کرنے کے لئے جات ہیں تو وہاں اتنی حاضری ہوتی ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ آخر اس میں کچھ راز ہی ہے۔ اتنے بڑے سواد اعظم کی زبانِ حال سے یہ شہادت بے معنی نہیں ہو سکتی۔

اس کا صحیح جواب تو ہمارے اہل تقلید دوست ہی کو دینا چاہئے کیونکہ وہ مسلک حنفی کی حقانیت کے لئے کچھ اسی قسم کے معیاروں کو بہت اچھالتے ہیں۔

ہمارے نزدیک یہ سب اتفاقات ہیں، معیارِ حق نہیں ہے۔ ورنہ دیکھیے! دنیا میں مسلم کی بہ نسبت غیر مسلم زیادہ ہیں، نیکوں کے مقابلہ میں بد بہت ہیں، مسجدیں ویران ہیں اور سینما آباد ہیں۔ غزوات نبوی میں بھی تقریباً تقریباً یہی کیفیت رہی ہے کفار زیادہ ہوتے تھے اور مجاہدین بہت کم۔ کربلا میں یزیدی زیادہ تھے، حسینی بالکل گنتی کے۔

مسٹر بھٹو کے ارد گرد جو لوگ جمع ہیں، وہ مسٹر بھٹو کا ہی دوسرا رخ ہیں۔ (إلا ما شاء اللہ وإن ھم إلا قلیل) کیا آپ کو ان کی یہی ادائیں پسند آتی ہیں۔

مسٹر قصوری:

لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ، محمود علی قصوری نامور اہل حدیث خاندان کے چشم و چراغ ہیں ان کو کیا ہو گیا ہے؟ بھئی! جو اہل حدیث خاندان میں پیدا ہو، اسے اہل حدیث نہیں کہتے۔ اہل حدیث وہ ہوتا ہے، جو قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر اپنے فکر و عمل کو ترتیب دیتا ہے۔ جس کو رسولِ عربیﷺ کے اسوۂ حسنہ کے بجائے ہیگل، کارل مارکس اور لینن کی زندگی میں زیادہ کشش اور جامعیت محسوس ہوتی ہو۔ اس کو کوئی کیسے اہل حدیث کہہ سکتا ہے۔ اگر کوئی اہل حدیث مرزائی ہو جائے تو کیا مرزائیت پاک ہو جائے گی۔ اگر جواب نفی میں ہے تو سوشلزم میں اہل حدیث خاندان کے ایک فرد کی شمولیت سے سوشلزم کیونکر پاک اور دین بن سکتا ہے؟

بارہ گھنٹے پہلے موت کی اطلاع مل جائے تو:

روزنامہ مشرق (۷ اکتوبر) میں ایک دلچسپ سوال شائع ہوا ہے کہ:

''اگر آپ کو موت کی اطلاع بارہ گھنٹے پہلے مل جائے تو .........''

اور اس کے ساتھ دلچسپ جوابات بھی شائع ہوئے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:

1۔ اگر پہلے پتہ چل جائے تو میں اس عرصے میں اپنی تمام خواہشات کو پورا کروں گی۔

2۔ میں ان بارہ گھنٹوں میں اپنے ماضی کو آواز دو گی۔

3۔ میرا ضمیر تو یہ کہتا ہے کہ میں مسلسل نمازیں پڑھتا رہوں اور توبہ و استغفار کرتا رہوں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ میں ان لمحات میں کلفٹن کی دیوار پر بیٹھ کر آئس کریم کھاتا رہوں۔

4۔ ایک موصوفہ فرماتی ہیں کہ میں یہ وقت فلم اسٹار زیبا کے ساتھ گزاروں گی، ان کے ساتھ ایک پکچر دیکھوں گ، پھر ان کو گھر لائوں گی اور سرہانے بٹھا کر سورۂ یٰسین سنوں گی۔

5۔ ایک صاحب فرماتے ہیں، میں یہ وقت فلم اسٹار ندیم کے ساتھ گزاروں گا۔ ایک اور نے کہ کہا: یہ وقت فلم اسٹار روزینہ کے ساتھ گزاروں گا۔ (مشرق ۷ اکتوبر، خواتین کا کالم)

إنا لله وإنا إلیه راجعون

اندازہ فرما لیجیے: کہ انسانی معاشرہ کو مزاج کس قدر بگڑ چکا ہے کہ:

موت کے تصور کی ترشی بھی ان کی بدمستی کو دور کرنے سے قاصر رہ گئی ہے۔ ایسے عالم میں اگر انسان کی بے ہوشی اور غفلت کا یہ حال ہے تو اس کی بد نصیبی کا کوئی کب تک رونا روئے اور کوئی کیا کرے؟

لڑکے لڑکیاں بھی قومی ملکیت میں:

اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ زنجبار کی سوشلسٹ ریاست کے صدر مسٹر عبید کردمے نے حال ہی میں ایک صدارتی فرمان جاری کیا ہے، جس کی رُو سے کسی بھی لڑکی کی شادی کسی بھی لڑکے کے ساتھ کرائی جا سکتی ہے اور جو شخص اس جبری شادی میں مزاحمت کرے گا اسے قید اور کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ اس فرمان کے ساتھ سابقہ تمام قواین کو سامراج کے بنائے ہوئے قوانین قرار دے کر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ (کوہستان ۱۱ ستمبر)

اب تک کا رونا یہ تھا کہ سوشلزم املاک کی انفرادی ملکیت کی نفی کرتا ہے اور تمام منقولہ و غیر منقولہ املاک کو قومی ملکیت قرار دیتا ہے۔ مندرجہ بالا خبر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف املاک تک محدود نہیں، بلکہ آپ کی آل اولاد بھی قومی ملکیت میں داخل ہے۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار۔

قوم سے مذاق:

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گزشتہ دِنوں فیکٹری ایریا لائل پور کے اجلاس میں قرآن مجید کی جو جلد سر پر اٹھا کر حاضرین کو اپنے خلوص کا یقین دِلانے کی کوشش کی تھی اس کے متعلق اچانک اسی پارٹی کے پرجوش اور سر کردہ رکن نے اپنے دستوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے انکشاف کیا کہ جزدان میں قرآن مجید نہیں تھا بلکہ ٹیلیفو کی ڈائریکٹری کی جلد تھی۔ (کوہستان ۱۱ ستمبر)

یہ صرف اہالیان لائل پور سے نہیں بلکہ پوری قوم سے انہوں نے ایک مذاق کیا ہے اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کے نزدیک قوم اور قرآن کی کیا قدر و منزلت ہے؟ یا آگے چل کر وہ پوری قوم اور قرآن پاک کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟

غریبوں کے حامی:

بھٹو اور ان کے ہم سفر کا سارا کاروبار ہی یہ ہے کہ قوم کو اُلو بنایا جائے، غور فرمائیے! نعرہ یہ ہے کہ ہم غریبوں کے لئے لڑ رہ ہیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں جتنے سر کردہ لوگ ہیں سب سرمایہ دار، جاگیر دار اور بڑے زمیندار ہیں۔ مثلاً دیکھیے:

بھٹو

۳۶ ہزار ایکڑ

سارق علی میمن

۲۲ ہزار ایکڑ

میر رسول بخش تالپور

۲۵ ہزار ایکڑ

ممتاز علی بھٹو

۲۲ ہزار ایکڑ

مخدوم طالب الموئی

۹۰ ہزار ایکڑ

جتوئی

۲۵ ہزار ایکڑ

میر علی احمد تالپور

۳۲ ہزار ایکڑ

مصطفیٰ کھر

۳ہزار ایکڑ

پیر رسول شاہ

۲۶ ہزار ایکڑ

قصوری

لکھ پتی

قمر الزمان شاہ

۱۹ ہزار ایکڑ

مبشر

لکھ پتی

میر اعجاز علی

۳۲ ہزار ایکڑ

پگانوالہ

کروڑ پتی

حاکم علی زرداری

۲۰ ہزار ایکڑ

(ملخصاً ندائے ملت ۱۳ اگست ۱۹۷۰)

آپ سوچیں کہ کیا یہ لوگ اس لئے پیپلز پارٹی میں شریک ہو رہے ہیں کہ اس میں شمولیت کئے بغیر ان کی جاگیریں غریبوں میں تقسیم نہیں ہو سکتیں یا وہ اب اس لئے بے چین ہو گئے ہیں کہ کسی طرح ان سے ان کی املاک لے لی جائیں؟

غیر سرکاری فوجی تنظیمیں:

ملک کے ہر شہری کا سپاہی اور فوجی ہونا ملک کی بڑی خوش نصیبی ہوتی ہے لیکن اندرون ملک ان کی ایسی غیر سرکاری آزاد فوجی تنظیمیں، جیسی کہ عرب میں ''فدائین'' کی چھاپہ مار تنظیمیں ہیں، کسی بھی ملک کے لئے اچھی فال نہیں ہو سکتیں۔ عرب حریت پسند یعنی فدائیوں کی غرض و غایت یہ تھی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرائیں گے، چنانچہ سارے ملک میں ان کو خوش آمدید کہا گیا اور ہر عرب ریاست نے ان کی پوری حوصلہ افزائی کی۔ مگر افسوس!اس کے لئے وہ یکسو نہ رہ سکے اور اندرون ملک، ملکی سیاست سے بھی دلچسپی لینے لگ گئے جس کا نتیجہ اردن اور فدائیں کی جنگ میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ دراصل یہ بھی ایک سوشلسٹ تحریک ہے اور اس کے عزائم اچھے نہیں ہیں۔ بہرحال ہم اپیل کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو بھی اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے مرزائیوں کی فاروق رجمنٹ جیسی عسکری یک جہتی سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔

یہ پیپلز پارٹی ہے اور وہ اس کے رہنما!


اسلام فرسودہ ہے: تھرپارکر ڈسٹرکٹ پیپلز کارڈ کے کمانڈر سید مبارک علی قادری اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام کی محبت اور اسلامی مساوات کے کھوکھلے نعرے بلند کرنے والے یہ عناصر اپنے خفیہ اجلاس میں کچھ اور نظر آتے ہیں اور اسلام کو ایک فرسودہ مذہب قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی کے بیشتر لیڈر مہاجرین کے دشمن ہیں اور انہوں نے مزید بتایا کہ مجھے پارٹی کے خفیہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک سوشلسٹ کامریڈنے کہا کہ اسلام موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ اس کی جگہ اس دور میں مائو کی کتاب سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے صاحب کہتے ہیں کہ عربوں نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں ذوالفقار لے کر فتح حاصل کی۔ آج ذوالفقار علی ہمارے قبضے میں ہے اور دوسرے ہاتھ میں مائو کی کتاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے اس پر احتجاج کیا تو مجھے جیل میں بھجوانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے بعض نے مہاجرین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے تمام ساتھیوں سمیت پارٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (کوہستان ۱۴ اکتوبر ۱۹۷۰؁ء صفحہ ۲)

بھٹو کی اسلامی مساوات کا نمونہ:

مسٹر بھٹو کے ایک صاحبزادے ایک حادثے سے بال بال بچ گئے جس پر انہوں نے جشن خوشی منایا۔ کوہستان نے اس کی تفصیل پیش کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔

انہوں نے اس موقع پر اپنے دربارِ خاص اور دربارِ عام میں الگ الگ دعوتوں کا انتظام کیا۔ خاص مہمانوں کو ذاتی رہائش گا ''المرتضیٰ'' میں اور عام لوگوں کو لاڑکانہ کلب کے کھلے میدان میں بلایا گیا۔ امراء کے لئے ۵۰۰ مرغیاں اور ۱۰ من بکرے کا گوشت، متوسط لوگوں کے لئے ۳ من کرے کا گوشت اور عوام کے لئے ۳ من گائے کا گوشت پکایا گیا۔ کیا یہی مساواتِ محمدی ہے جس کے نفاذ کا وعدہ اُٹھتے بیٹھتے کئے جا رہا ہے؟ (کوہستان ۱۴ اکتوبر صفحہ ۳۔ آج کی باتیں)

علمائے حق کے نام پر خیانت:

پیپلز پارٹی سندھ کے چیئرمین میر رسول بخش تالپور نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ بانی دار العلوم دیو بند، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور شاہ رفیع الدین محدث دہلوی نے اپنی تفسیر میں ''اسلامی سوشلزم'' کی حمایت کی ہے۔ علماء کرام نے میر تالپوری کے اس دعوے کو گمراہ کن اور بہت بڑا فریب قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت نانوتوی نے اپنی زندگی میں نہ کوئی تفسیر لکھی ہے نہ ترجمہ کیا ہے بلکہ گزر اوقات کے لئے وہ مطبع مجتبائی میں قرآن کے نسخوں کی صحت الفاظ جانچنے کے لئے سات روپے ماہوار پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے جس نسخے میں تین قرآن پاک کی صحت کی تصدیق کی تھی وہ ۱۳۰۵؁ھ میں شائع ہوا تھا اور اس کی کتابت منشی ممتاز علی دہلوی نے کی تھی جبکہ حضرت نانوتویؒ ۱۲۹۶؁ھ میں انتقال کر گئے تھے اور اسی میں یہ بھی لکھا ہے کہ حواشی مولوی حنیف ندوی نے لکھے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حنیف ندوی صاحب سوشلزم کے ایک بڑے دعوے دار ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کے ادارۂ ثقافت اسلامی میں ملازم تھے۔ جماعت اسلامی کے مشہور رہنما جناب نعیم صدیقی صاحب نے تو ''اسلامی سوشلزم'' کی کتابت کو جعلی اور الحاقی قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حاشے پر اسلامی سوشلزم کے الفاظ جس انداز کتابت میں لکھے ہوئے ہیں وہ عام عبارت کے مقابل میں ان الفاظ کی صفاتی تحریر اور ان کی روشنائی تین سے مختلف ہے۔ ان باتوں پہ غور کرنے سے میر رسول بخش صاحب کا دعوٰے مشکوک ہو جاتا ہے۔ (کوہستان ۱۶ اکتوبر۔ ملخصاً)