اغنیاء پر مساکین و غربا کی ذمے داری

اسلام نے ترکہ ''وراثت'' ''صدقہ و زکوٰۃ'' وغیرہ نظام کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا ہے درجاتِ معیشت میں گو تفاوت ہے مگر ایک ساتھ زندگی گزارنے کا حق سب کو یکساں ہے آج اگر کوئی رات کی روٹی اور جسم کے کپڑا کے لئے محتاج ہے اور کوئی ہزارہا یا لکھو کہا کا مالک ہے تو یہ محض اس لئے ہے کہ حق معیشت کی جو ذمہ داری کتاب و سنت نے ہم پر ڈالی ہے، اسے ہم نے نظر انداز کر دیا ہے۔ صدقات واجبہ عشر و زکوٰۃ کی ادائیگی آج مسلمانوں میں بند ہے۔

آٹھ مصارف: سورۂ توبہ میں عشر و زکوٰۃ کے مصرف آٹھ قسم کے آدمی ہیں۔ فقراء و مساکین، صدقات کے محصل اورجن کو اسلامی شعائر و عقائد کی طرف راغب کیا جائے۔ غلاموں کی آزادی، مقروض، مجاہد، مسافر۔اگر صدقات واجبہ عشر و زکوٰۃ کے ذریعہ تمام مصارف کی خانہ پوری کر دی جائے تو دوسری ضروریات کی طرح مسلمان ضعفا و فقراء کی بھی معاشی حاجت پوری ہو جائے گی لیکن با ایں ہمہ اگر ضرورت پوری نہ ہو تو قانون اسلام کے مطابق دولت مند مسلمانوں سے مزید صدقات نافلہ کا وصول کیا جانا لازم ہو گا۔

امام ابن حزم کا نظریہ: ۱۔ علامہ ابن حزم نے آنحضرتﷺ کا فرمان نقل کیا ہے۔ «من کان معه فضل ظھر فلیعدْ به علی من لا ظھر له ومن کان له فضلٌ مِن زادٍ فلیعدْ به علی من لا زاد له »(محلی ابن حزم جلد سادس ص ۱۵۷)

یعنی جس شخص کے پاس سواری زائد ہو یا سامان خوردو نوش زائد ہو تو وہ نادار حاجت مند کو دے دے۔

2۔ امام احمد بن حنبلؓ نے نقل فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے بال بچوں کے استعمال سے جو مقدار زائد ہو «فلیوجّه إلی من هو أحوج إلیه منه »(مسند احمد جلد ۵ صفحہ ۶۵) یعنی اسے اپنے سے زیادہ محتاج کے حوالے کر دے۔

حافظ ابن کثیر کا ارشاد: ۳۔ حافظ الحدیث علامہ ابن کثیرؒ سورہ نساء کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔" کان المؤمنون في ابتداء الإسلام وھم بمکة مأمورین بالصلوٰة والزکوٰة وإن لم تكن ذات نصب کانوا مأمورین بمواساة الفقراء" (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص ۵۲۵)

یعنی اہل ایمان نمازو زکوۃ کے پابند تھے اور صاحب نصاب نہ ہوتے تو بھی فقرا و غرباء  کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے .نفلی صدقات کے ذریعے امداد کرنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے .

حضرت عمر کے ا رادے 4 حضرت عمر ﷢ نے بھی فرمایا ہے  . ’’لو استقبلت من امرئ  مااستدبرت لأخزت فضول أموال الأغنیاء وقسمتھا علی فقراء المھاجرین (محلی ابن حزم  جلد سادس ص158)


یعنی اگر مجھے پہلے سے اندازہ ہو جاتا تو امراء کی فاضل دولت لے کر فقراء میں تقسیم کر دیتا۔

۵۔ ایک اور موقع پر فاروق اعظم نے فرمایا ہے۔ «ما ترکت بأھل بیت من المسلمین لھم سعة إلا أدخلت معهم أعدادهم من الفقراء» (مقدمۃ الجرح والتعدیل ص ۱۹۲ ،والادب المفردص ۸۳) ۔

یعنی وسعت والے امیروں کا کوئی گھر نہ چھوڑوں گا اور غرباء اور فقراء کا کھانا ان پر لازم کر دوں گا اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ ایک امیر خاندان میں جتنے نفر ہوں گے اتنے ہی فقراء کا کھانا ان پر لازم ہو گا کیونکہ ایک آدمی کا پورا کھانا بوقت ضرورت دو آدمیوں کو کفایت کر سکتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگر قومی بیت المال کافی نہ ہو اور قلمرو میں محروم المعیشت انسان موجود ہوں تو اس صورت میں اہل دولت کے سرمایہ سے حسب ضرورت ان کے معاش کا انتظام کیا جائے گا۔ خلیفۂ وقت ہنگامی ضروریات کے سبب اغنیاء کے اموال سے مال حاصل کر کے فقراء کی ضرورت اور کمی کو پورا کرے گا۔ معلوم ہوا کہ ادائیگی زکوٰۃ پر معاملہ ختم نہیں ہو گا بلکہ قوم و ملت کی ضرورت ہی اصل معیار ہے جب حکومت ان کی کفیل نہ بن سکے تو غرباء کی ضروریات کو پورا کرنا مسلمانوں ہی کا فرض ہے۔

اغنیاء پر فرض ہے: 6۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے۔ «إن اللّٰه فرض علی الأغنیاء في أموالھم ما یکفي الفقراء فإن جاعوا أوعروا أوجھدوا فبمنع الأغنیاء حق علی اللّٰه تبارک و تعالٰی أن یحاسبھم ویعذبھم» (کتاب الاموال ص ۵۹۶)

یعنی اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں اس قدر ڈیوٹیاں اور ٹیکس زکوٰۃ و صدقات کی شکل میں غرباء کے لئے مقرر فرمایا ہے جو فقراء کی ضروریات کے لئے کافی ہو سکتی ہیں۔ پس اگر غریب مسلمان بھوکے یا ننگے رہ گئے اور کسی طرح کے تعب و مشقت میں پڑے مثلاً مکان سے محروم ہو گئے صحت و تندرستی کے اخراجات اور اولاد کو تعلیم دلانے کے مصارف سے مجبور ہو گئے تو چونکہ یہ دولت مندوں کی کوتاہی اور عشر و زکوٰۃ و انفاق و سخاوت نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے امراء پر اللہ کی طرف سے سخت محاسبہ اور ابدی لعنت و سخت عذاب لازم ہو گا۔

اغنیاء کے لئے مقامِ غور: ۷۔ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے،« من کثرت نعم اللّٰه علیه کثرت حوائج الناس إلیه فإن قام بما یجب للّٰه فیھا عرضھا للدوام والبقاء وإن لم یقم فیھا بما یجب للّٰه عرضھا للزوال» (مستطرف جلد اول صفحہ ۱۱۴)

یعنی جس پر اللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرف لوگوں کی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں پس اگر واجبات الہیہ ادا کرتا ہے تو ان نعمتوں کو قرار و دوام نصیب ہوتا ہے ورنہ نعمتیں دیر سویر ضرور زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔

ارباب اقتدار کے لئے درسِ عبرت: خلفائے اسلام بلا شبہ عہدۂ خلافت کو خدا کی جانب سے ایک عظیم عطیہ و عظیم اعانت سمجھتے تھے وہ ہر وقت خدا کی اعلیٰ ترین حکومت کے سامنے جواب دہی کو پیش نظر رکھتے تھے۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے سفر حج سے واپسی میں فرمایا کہ آج میرا وہ مقام ہے کہ خدا کے سوا اور کسی اقتدار اعلیٰ کا مجھ پر خوف و ہراس نہیں ہے۔ اس کے بعد سلطانی و شاہی کے انجام و فنا پذیری پر ان شعروں کو پڑھا۔

این الملوک التي کانت لعزتھا         من کل أوبٍ إلیھا وافد یفدٗ
لم تغن عن هرمز یوما خزائنه              والخلد قد حاولت عاد فما خلدوا
ولا سلیمان إذ تجري الریاح له         والجن والإنس فیما بین ترد
حوض ھنالک مورود بلا کذب         لابد من وردہ یوما کما وردوا
(الإستیعاب لابن عبد البر جلد ثانی ص ۴۲)


یعنی شاہان سلف و اقوام عالم عاد و ہرمز و سلیمان وغیرہ جس طرح موت کے گھاٹ اُتر گئے، اِسی طرح سب کا خاتمہ موت کے گھاٹ پر ہو گا۔ کیا سچ ہے۔

؎ گو سلیمان زماں بھی ہو گیا        پھر بھی اے سلطان آخر موت ہے


مختصر یہ کہ حضرت عمرؓ اور خلفاء کرام نے دورِ خلافت میں بیت المال کو ہمیشہ قوم کی ایک عظیم امانت تصور فرمایا اور خدا ترسی اور استحضار آخرت کے ساتھ ہمیشہ مفادِ عوام کو پیش نظر رکھا۔ یہ احساس کہ بیت المال کا خزانہ عام مسلمانوں کا ہے۔ مدت دراز تک قائم رہا۔ علامہ شاطبی لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ حکم نے رمضان میں عورت سے وطی کر لی تو علماء نے فتویٰ دیا کہ ساتھ مسکین کو کھانا کھلاویں۔ محدث اسحٰق بن ابراہیم خاموش تھے۔ خلیفہ نے پوچھا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا آپ دو ماہ کے دوزے رکھیں۔ علماء نے کہا امام مالک کا مذہب تو اولا! کھانا کھلانے ہی کا ہے۔ فرمایا ہاں یہ مسلک اس کے لئے ہے جس کے پاس مال ہو۔ امیر المؤمنین کے پاس مال کہاں؟ بیت المال میں بے شک مال موجود ہے مگر وہ عام مسلمانوں کا ہے۔ خلیفہ حکم نے محدث اسحاق بن ابراہیم کا شکریہ ادا کیا اور انہی کے قول پر عمل کیا۔ (کتاب الاعتصام جلد ثانی ص ۲۸۳)

معلوم ہوا خلفاء میں ایک مدت تک بیت المال میں عوام کے حق کا احترام موجود تھا۔

الغرض ان تمام بصیرت افروز حقائق کو پیش نظر رکھنے والے خلفائے اسلام عوام و غرباء و مساکین و ضعفا کی ضروریات و حاجت سے بھلا کیونکر صرف نظر فرما سکتے تھے بلکہ ان کو کس طرح بغیر چارہ گری کے چین و سکون حاصل ہو سکتا تھا۔ خلفائے کرام کی زندگی کا ایک ایک ورق ایک ایک عنوان اتنا روشن و درخشاں ہے کہ اس میں غرباء و ضعفاء و فقراء کے ساتھ دل سوزی و دردمندی کے تمام حالات آئینہ کی طرح نظر آسکتے ہیں۔

خلفائے اسلام کی مدت سے وفاداری رعایا پروری، غرباء نوازی اور آج کے سلاطین وقت کی بے فکریوں اور عشرت پرستیوں کو آمنے سامنے رکھیے تو واضح ہو گا کہ ایک طرف صرف وفا ہی وفا ہے تو دوسری طرف عشرت گاہ، سلاطین میں صرف جفا کاریاں ہیں۔ پھر بھی یزبان قال برکات خلافت کا انکار کیا جا رہا ہے۔

﴿وَجَحَدوا بِها وَإستَيقَنَتها أَنفُسُهُم ظُلمًا وَعُلُوًّا، صدق من قال

ایک ضروری انتباہ: اگرچہ حضرت عمرؓ نے وظیفہ و عطیات کو عام فرما دیا تھا لیکن وہ اس کوشش میں بھی رہتے کہ وظیفہ پر بھروسہ کر کے لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری نہ پیدا ہونے پائے۔ اِس لئے عموماً وظائف کی تقسیم میں خدمت و کارکردگی اور اسی طرح ضعیفی و مسکینی وغیرہ امور کا لحاظ مقدم رکھتے تھے۔

وظائف ان کے مقرر تھے جن سے اسلامی مجاہدات میں کام لیا جاتا تھا، یا ان سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت ملنے کی توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی تھی یا ان کے آبائو اجداد نے کسی معرکہ میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ چنانچہ اس قسم کی مثالیں آپ عمال کی قدردانی کے باب میں دیکھیں گے۔

اِسی طرح ان معذوروں اور ضعفاء کے بھی وظائف مقرر تھے جو کسب معاش سے معذور تھے۔ بہرحال جنگی مہمات میں حصہ لینے والوں اور فنی ماہروں اور سابقہ استحقاق رکھنے والوں کا جس طرح وظیفہ مقرر تھا۔ اسی طرح بیماروں، ضعیفوں، مسکینوں کا بھی وظیفہ مقرر تھا تاکہ فی الجملہ وجہ معاش کا نظم قائم رہے لیکن ان تمام قسم کے لوگوں سے تاکید فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے وظائف و عطیات پر بھروسہ نہ کرو، کھیتی باڑی وغیرہ کا انتظام بھی گھر پر رکھو۔ ادب المفرد، الاستیعاب۔