صدقۃ الفطر اور عید الفطر کے احکام و مسائل

رویت ہلال: ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ)

رویت ہلال کی دعا: نبی ﷺ نیا چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھتے۔

«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» (ترمذی)

صدقۃ الفطر: انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیںَ اس لئے رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر فرض کیا، تاکہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں، جس طرح رمضان مبارک کے روزے فرض ہیں اسی طرح صدقۃ الفطر فرض ہے۔

صدقۃ الفطر کس پر فرض ہے؟ ہر مسلمان پر چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، روزہ رکھتا ہو یا نہ، جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ نماز عید سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہے کہ مساکین کو اس روز سوال سے بے نیاز کر دیا جائے۔

صدقہ فطر کس کا حق ہے؟ حدیث میں ہے: لا یأكل طعامك إلا تقي4۔ پس صدقہ فطر اور سالانہ زکوٰۃ، مسلمان نمازی، دین دار، محتاجوں کا حق ہے۔ بے نمازوں اور بے دینوں کا اس میں کوئی حق نہیں، مساجد کے اماموں کو امامت کی اجرت پر بھی نہ دینا چاہئے۔ مسکین سمجھ کر دینا چاہئے بشرطیکہ وہ مسکین ہوں۔

صدقۃ الفطر کس چیز سے اور کس قدر دینا چاہئے؟ صدقۃ الفطر اجناس خوردنی سے دیا جائے جو عام طور پر وہاں کے لوگوں کی خوراک ہو اور ہر چیز سے صاع حجازی دینا چاہئے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے صاع حجازی سے ہی صدقہ فطر ادا کیا ہے جس کا وزن ہمارے اور ان کے لحاظ سے تقریباً پونے تین سیر انگریزی بقول محدثینؒ صاع حجازی پانچ رطل و ثلث رطل کا ہوتا ہے اور ایک رطل آٹھ چھٹانک کا جو تمہارے حساب سے دو سیر دس چھٹانک تین تولہ چار ماشہ ہوتے ہیں مگر احتیاطاً پونے تین سیر دے دینا بہتر ہے۔

صدقۃ الفطر کس وقت دیا جائے؟ 1۔ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔

2۔ اگر عید کے بعد ادا کیا تو صدقہ فطر شمار نہ ہو گا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر عید جانے سے پہلے ادا کرو۔ (بخاری)

3۔ عید سے دو تین روز پیشتر ادا کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ دو دن پہلے ہی صدقہ فطر مساکین کو دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)

موطا امام مالک میں روایت ہے کہ ابن عمرؓ صدقہ فطر عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیتے جس کے پاس جمع ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اور زکوٰۃ ایک جگہ جمع ہو کر بصورت بیت المال صاحب حاجات پر تقسیم کی جائے تو نہایت بہتر ہے۔ اس سے بڑے بڑے اسلامی کام نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اس کا احساس پیدا کرے۔ آمین۔

صدقۃ الفطر میں نقدی دینا بھی جائز ہے: فقراء کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوے صدقۃ الفطر میں غلہ کی بجائے نقدی، پیسے دینا بھی جائز ہے، حدیث میں ہے۔

أغنوھم في هذا الیوم (دار قطنی) یعنی اِس دن فقراء کو بے پرواہ کر دو۔

اِس حدیث سے یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ مساکین کی ضروریات کے مطابق غلہ کے حساب سے نقدی دے سکتے ہیں۔

شب عید کی فضیلت: نبیﷺ نے فرمایا جس نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رات کو عبادت سے زندہ رکھا، اس کا دل اس دن نہ مرے گا جبکہ سب دل مر جائیں گے یعنی فتنوں کے زمانہ میں یا حشر کے دن شاداں و فرحا ہو گا۔

عید کے دِن روزہ: نبیﷺ نے عید الفطر اور عید الضحٰی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔

عید کے دِن کھانا: عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کے لئے جانا اور عید الاضحیٰ سے پیشتر کچھ نہ کھانا مسنون ہے۔

مسجد میں عید پڑھنا خلافِ سنت ہے: حضرت علیؓ فرماتے ہیں، صحرا اور میدان میں نمازِ عید پڑھنا نبیﷺ کی سنت ہے۔ (مجمع الزوائد جلد ۲ ص ۲۰۶)

شرعی عذر: ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نمازِ عید مسجد میں پڑھائی۔

مقامِ غور ہے: کہ مسجد نبوی میں ایک نماز پچاس ہزار نماز کا ثواب رکھتی ہے۔ پھر بھی حضورﷺ اس کو چھوڑ کر عید کی نماز باہر پڑھتے تھے۔ معلوم ہواکہ نمازِ عید میدان اور صحرا میں پڑھنی چاہئے۔ بلا عذر مسجد میں نمازِ عید پڑھنا خلافِ سنت ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اس کا عام رواج ہو چکا ہے۔

شاہ جیلانیؒ کا فرمان: حضرت شیخ عبد القدار جیلانیؒ فرماتے ہیں:

والأولٰی أن تقام في الصحراء وتکرہ في الجامع إلا لعذر (غنیۃ الطالبین مطبع صدیقی لاھور ص ۵۴۲)

مستورات عید گاہ میں: اُمِ عطیہؓ فرماتی ہیں، ہمیں دربارِ نبویﷺ سے حکم ہوا کہ ہم حائضہ اور پردہ نشین مستورات کو بھی عیدین میں (اپنے ہمراہ) نکالیں تاکہ وہ مسلمانوں کی دُعا اور جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ ایک خاتون نے عرض کیا۔ اے رسولِ خدا! بعض دفعہ کسی کے پاس چدّر نہیں ہوتی فرمایا اس کی سہیلی اپنی چدّر میں اسے چھپا کر لے آئے۔

عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

حضرتﷺ اپنی بیٹیوں اور ازواجِ مطہرات کو عیدین میں لے جایا کرتے تھے۔ عیدگاہ کو پیدل آنا جانا اور آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ ترمذی، مشکوٰۃ

نمازِ عید کا طریقہ: نمازِ عید خطبہ سے پہلے صرف دو رکعت ہے۔ ب۔ اس میں نہ اذان ہے نہ اقامت (تکبیر)۔ ج۔ عید گاہ میں منبر لے جانا یا بنانا خلافِ سنت ہے(ترمذی)

تکبیراتِ عیدین

نمازِ عید دو رکعت ہے۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ رکعتیں قرأت سے پہلے کہے اور ہر تکبیر کے ساتھ دونوں ہاتھ اُٹھائے۔

قرأت نمازِ عیدین: آنحضرتﷺ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سبح اسم ربك الأعلٰی اور دوسری میں ھل أتاك حدیث الغاشیة(مسند احمد)۔ اور کبھی اسی ترتیب سے سورۂ ق اور اقتربت الساعة(سورۂ قمر) پڑھتے۔ (ترمذی، ابو دائود، ابن ماجہ۔

شاہ جیلانی اور نمازِ عید: حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ مسائل عید کے بیان میں فرماتے ہیں۔ "والأولىٰ أن تقام في الصحراء وتكرہ في الجامع إلا لعذر "(غنیةالطالبین مطبع صدیقی لاھور ص 542)


عید کی جماعت: خدانخواستہ کوئی شخص عید کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکا تو اسی میدان میں وہ خود مسنون طریقہ سے دو رکعت نماز ادا کرے۔ بخاری

مبارک بادی: نمازِ عید کے بعد مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد ان الفاظ میں دیں۔

تَقَبَّل اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْكَ۔ (مجمع الزوائد جلد ۲ صفحہ ۲۰۶)

اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے۔

شوال کے چھ روزے: نبیﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر عید کے بعد چھ روزے ماہ شوال کے رکھے، وہ ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب پائے گا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ماجہ)

حدیث میں مَنْ صَامَ رَمَضَاَ ن  ثُمّ أتْبَعه سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کے الفاظ ہیں۔ یعنی رمضان شریف کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے اس کے پیچھے لگائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عید کے بعد متصل روزے رکھے۔ فقط

خوشخبری


خطیبِ ملت حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے اکلوتے صاحبزادے حافظ محمد ایوب نے امسال رمضان میں مدرسہ رحمانیہ گارڈن ٹائون لاہور میں قرآن مجید سنایا ہے۔ حضرت حافظ صاحب کے احباب کو یہ خبر سناتے ہوئے ہم خوشی محسوس کر رہے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب کی اس یادگار کو ان کا خلف الصدق بنائے۔ آمین۔ حافظ محمد ایوب نے صرف آٹھ سال کی عمر میں مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور اس سال میٹرک کا امتحان دے رہا ہے۔ (ادارہ)