مسلک اہل حدیث کا ماضی اور حال

سلف صالحین ''جماعت'' تو ضرور تھے لیکن ہماری طرح ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ سالارِ کارواں ﷺ نے اپنے حجازی قافلہ کے لئے جو جادہ اور منزل تشخیص کی تھی، قدرتی طور پر سب کا رُخ ادھر ہی کو تھا اور اسی منزل کی طرف سب رواں دواں اور جدہ پیما تھے۔ چونکہ مجموعی طور پر ملت اسلامیہ خیر سے قریب اور شر سے دور تھی، اس لئے خیر کا چشمہ شیریں جہاں نظر آجاتا ایک پیاسے کارواں کی طرح وہاں سب مجتمع ہو جاتے تھے۔ گویا کہ یہ ان کی ایک قدرتی تنظیم تھی۔ اسلاف کے پاس فکر مربوط، وحدتِ عمل اور احساسِ بصیر کی دولت وافر تھی۔ اس لئے وہ سرگرم عمل بھی تھے اور تسبیح کے دانوں کی طرح منظم بھی۔ اس کا محرک وہی فطری خمیر تھا جس سے مسلم معاشرہ کی تخلیق ہوئی تھی، یعنی وہی دینی شعور، ملی غیر ت اور احساس فرض۔ یہ ٹھیک ہے، ان میں بھی اختلافات تھے مگر وہ اپنے پس منظر اور محرکات کی وجہ سے ایتلاف اور یک جہتی کا مصدر بن گئے تھے۔ ان میں خود غرضانہ کم ظرفی کی آمیزش اور حریفانہ سبک سری کا شائبہ تک نہیں تھا۔

اس دور کی ایک برکت یہ بھی آپ نے مشاہدہ کی ہو گی کہ اس مبارک عہد میں کچھ سیاسی بوا لہوس بھی موجود تھے اور چند سیاسی کھلندروں کو ''سیاست بازی'' کا شوق بھی چرایا تھا لیکن اس کمزوری کے باوجود ان کی حدود ریاست میں اعداء اللہ کے افکار اور نظریات کی تبلیغ کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھی اور نہ ہی ان کے سننے کے لئے مسلم معاشرہ میں قوتِ برداشت تھی۔ حریت فکر اور آزادیٔ رائے کی اس اصطلاح سے وہ بالکل اجنبی تھے جو آج کل مقبول ہے۔ ایسی آزادی رائے کا نام وہاں، بے حسی اور بے غیرتی تھا بنیادی مکارمِ حیات، عقائد اور نظام خیر کے خلاف ''یاوہ گوئی'' ہو اور کوئی مسلم مسکرا کر اسے برداشت کرے؟

؎ این خیال اسست و محال است و جنوں


یہی وجہ ہے کہ ''ارتداد'' سرکاری جرم تصور کیا جاتا تھا اور عوام کو اس کے تصور سے سخت وحشت ہوتی تھی۔

ملک کے مختلف گوشوں میں، مختلف صلاحیت رکھنے والے بے شمار رہنما اور افراد موجود تھے سبھی صالح، مخلص، اہل تر اور خدا ترس تھے۔ اس لئے پوری ملت اسلامیہ ان صلحائے امت کے گرد جمع تھی اور کسی تنظیمی احساس کے بغیر منظم تھی۔ مگر آہ! اب یہ کیفیت نہیں رہی اور ایک ایک کر کے وہ تمام اقدار بدل گئی ہیں، جن کے دم قدم سے ہمارے لئے ہماری شیرازہ بندی ممکن اور قابلِ مثال تھی۔ اس لئے آخری چارۂ کار کے طور پر اب ملتِ اسلامیہ ہی غیر سرکاری اور نجی تنظیموں کی ضرورت اور اہمیت کا احساس عام ہو گیا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب جمعیت اہل حدیث کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی تو سابق امیر جمعیت اہل حدیث حضرت مولانا محمد اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لائل پور (جامع مسجد اہل حدیث امین پور بازار) میں یہی وجوہات بیان کر کے اپنی جماعت کو منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔

ہمارے نزدیک ''جماعتی تنظیم'' سے غرض افراد جماعت کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اس ''ذہن و فکر'' کی عافیت مقصود ہے، جس پر افرادِ جماعت کی تخلیق، احیاء اور فاقت کا دار و مدار ہے۔ جماعت اہل حدیث کا اپنا ایک مزاج اور مخصوص ذہن ہے۔ اگر یہ سلامت نہ رہیں تو وہ جماعت کیا ہو گی، جماعت کا بے روح لاشہ ہو گا جن کے افراد بتدریج آس پاس کی ان تحریکوں میں تحلیل ہو جائیں گے جن میں ان کی بہ نسبت زیادہ جان ہو گی، جیسا کہ اب صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔

جماعت اہل حدیث کے نزدیک دین و ایمان کا سرچشمہ صرف قرآن و حدیث ہے اور جو چیز ان سے ماخوذ نہیں، وہ اور تو بہت کچھ ہو سکتی ہے، دن نہیں بن سکتی۔ کاش! وہ گھڑی اور وقت ٹل جاتا جس میں شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ لوگوں نے کتاب و سنت کے ساتھ کچھ اور ٹانکے لگانے کی داغ بیل ڈالی تھی۔

ایک اور بات جس نے جماعت اہل حدیث کو دوسرے مکاتب فکر سے ممتاز کر دیا ہے، یہ ہے کہ، ان کے نزدیک: اسلام ایک ایسا ہمہ گیر نظام حیات ہے، جس کی ہر کڑی قابلِ احترام اور سراپا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے چھوٹے سے چھوٹے جزئیہ کی راہ میں بھی مناسب اور ممکن جہاد کیا ہے۔ دنیا جن فروعی امور میں ''تساہل'' گوارا کر لیتی ہے۔ یہ جماعت ان کے بارہ میں حد درجہ ''حساس'' واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ کسی باب میں جب کسی امر کا انتساب قرآن کریم اور رسول کریمﷺ کی طرف صحیح ثابت ہو جاتا ہے۔ تو وہ گو بظاہر کتنی ہی فروعی بات ہو وہ عظیم متاعِ ایمان بن جاتی ہے۔ دراصل امور دین میں جو ''تفاضل'' نظر آتا ہے وہ ان کی باہمی نسبت سے ہے ہمارے اخذ و ترک یعنی اتباع کے اعتبار سے نہیں ہے۔ ہمیں تو بہرحال ان کا اتباع ہی کرنا ہے۔ اور ان سب کو دین ہی سمجھنا ہے۔ جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مابین تفاضل کی کیفیت ہے۔ لیکن ان کے مابین تفاضل کے یہ معنی قطعاً نہیں ہیں کہ ان میں سے بعض کا احترام تو عین ایمان ہو اور بعض کا نہ ہو۔

بس جماعت اہل حدیث کے اس موقف کو نہ سمجھ سکنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہر طرف سے یہ شور برپا ہے کہ یہ بڑی متشدد اور تنگ نظر جماعت ہے۔ آمین اور رفع یدین جیسے فروعی مسائل کے لئے بھی ماریں کھاتی ہے اور ان کے جائز حق کے لئے جانیں لڑاتی ہے۔ دراصل سوال یہ نہیں کہ ان مسائل کی اپنی جگہ اپنی منفرد حیثیت کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ ان امور کو جس ذاتِ گرامی سے نسبت ہے وہ نسبت کتنی عظیم ہے؟ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس نسبت کا احترام دوسرے تمام مصالح پر بھاری ہونا چاہئے ورنہ ایمان کی سب عافیتیں خطرہ میں پڑ جائیں گی اور مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ کیونکہ اس باب میں تساہل کا اثر اس ''رابطہ'' پر پڑتا ہے جو ایک امتی کو اپنے رسول پاک سے ہوتا ہے۔ حضرات خلفاء راشدین، حضرت ابن عمرؓ، حضرت امام احمدؒ، محدثین اور اکابر صوفیا کا یہی نظریہ اور یہی مسلک تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ دنیا اس باب میں اپنے رسول کریمﷺ سے اس لئے دور جا پڑی ہے کہ اس نے اس عظیم نسبت کا بجا احترام ملحوظ نہیں رکھا اور مسائل کو ان کے باہمی تفاضل کی نذر کر کے سست ہو گئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ تنزل کی ابتداء ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے۔ پہلے سادہ سے امور میں گرفت ڈھیلی پڑتی ہے۔ پھر بتدریج وہ عظیم حقائق بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، جن کے بغیر ''مسلمانی'' ایک تہمت اور الزام بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک وہ تاریخی حقیقت ہے جو تاریخ امم کے ہر موڑ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

بس اسی اسلوب فکر، انداز نظر، اسی نہج پر مجاہدہ اور ذوق و احساس کی اسی جلوہ گری کا نام اہل حدیث ہے۔ جو ایک فرقہ کی صورت میں تو شاید آپ کو یہ جماعت کہیں نظر نہ آتی ہو لیکن ایک تحریک مسلسل کی شکل میں پوری ملت اسلامیہ میں تاہنوز جاری و ساری ہے۔ چونکہ یہ کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تحریک محتسب اور فکر انگیز ذہن ہے، اس لئے مختلف اوقات میں اس نے جو فریضہ انجام دیا ہے اس کے مظاہر بھی مختلف ہو گئے ہیں۔

جب امت میں بازارِ عمل ٹھنڈا ہونا شروع ہوا اور مسلمان حکومتیں ''اسلامی فکر و عمل'' کی نگرانی اور سرپرستی کرنے سے غافل ہو گئیں تو ''تصوف'' (جس کو احسان کہتے ہیں) کے روپ میں اُبھر کر گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دیا، جب اس بے آمیز تصوف (درجۂ احسان) کا حشمۂ صافی مکدر ہو کر خانقاہیت میں تبدیل ہونے لگا تو اس کی تطہیر کے سامان کئے۔

کتاب و سنت میں بعض امور کی تصریح نہ ملنے پر سیاسی شاطروں نے طبع زاد اور خانہ زاد ٹانکے لگائے، ضلوْا فأضلو۔ ایسے حال میں اس تحریک نے دنیا کو ''تفقہ'' کے آئینہ میں کتاب و سنت کی روشی مہیا کی۔ تفقہ دراصل قرآن و حدیث کی تلمیحات کی تشخیص اور تعیین کا ایک اسلوبِ نگاہ ہے اور اس فریضہ کا اتمام صرف وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں، جن کو قرآن و حدیث سب سے زیادہ عزیز اور اساس دکھائی دیتے ہیں اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جن امامانِ دین نے یہ خدمات انجام دیں، وہ کسی کے مقلد نہیں تھے اور نہ ہی کسی شخصی آراء کے پیمانوں سے قرآن و حدیث کو تولنے کے وہ قائل تھے۔ جب دنیا اس طرزِ فکر سے ہٹ کر کسی فقیہ کی رائے کے گرد منڈلانے لگی تو ''محدثین'' کے روپ میں ان کا محاسبہ کیا۔ کتاب و سنت کے ذریعے ان کی خوش فہمیوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔

دینی عقائد کو عصری زبان اور مروج فلسفہ کے مسلمات کے ذریعے سمجھنے کا نام ''علم کلام'' ہے۔ لیکن جب دنیا نے اسے معارِ حق بنا لیا تو ''سلفی سادگی'' سے مسلح ہو کر ان کا خوب مواخذہ کیا۔ مسلمان صرف ''مسلم'' ہے۔ تمام شخصی نسبتوں سے بالا تر اور کتاب و سنت کی غلامی کے لئے یکسو ہے۔ لیکن اس کے بجائے جب دوسری شخصی نسبتوں نے سر اُٹھایا اور حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اشعری ماتریدی، چشتی قادری، سہروردی، نقشبندی وغیرہ کہلانے لگے تو ''اہل حدیث'' نے سلفی اور محمدی کہلا کر دنیا کو عار دلائی کہ اس عظیم نسبت کو چھوڑ کر دوسری ادنی نسبتوں سے جی بہلانا کچھ ہوش اور ذوق کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ سبھی کچھ﴿أَتَستَبدِلونَ الَّذى هُوَ أَدنىٰ بِالَّذى هُوَ خَيرٌ‌﴾ کے مترادف ہے۔

الغرض اہل حدیث ایک ذہن اور فکر و ذوق کی تحریک ہے جو روز اوّل سے اب تک حسب حال اور حسب ضرورت متحرک اور کار فرما ہے اور تا قیامت کار فرما رہے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد میں مندرجہ بالا کیفیت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔

«لا تزال طائفة من أُمتي ظاھرین علی الحق» (بخاری)

میری امت میں ایک گروہ حق پر سدا قائم رہے گا۔

ابن ماجہ کی روایت میں یوں مروی ہے۔

«لا تزال طائفة من أمتي قوامة علی أ مر اللّٰه لا یضرها من خالفها» (ابن ماجۃ ابو ھریرۃ)

میری امت کا ایک گروہ اللہ کے حکم پر سدا ثابت قدم رہے گا اور اس کی مخالفت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔

ابن ماجہ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ:۔

طائفہ سے مراد ایک جماعت، مٹھی بھر لوگ، ایک سے لے کر ہزار تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، ساری دنیا کے مقابلہ میں جس طرح صحابہ کی ایک مختصر سی جماعت تھی، یہی حال اِس طائفہ کا رہے گا اس لئے اہل باطل کی کثرت سے انہیں غلط متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ (مختصراً)

امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ گروہ مسلمانوں کے مختلف طبقات میں منتشر ہو گا، مجاہد، فقیہ، محدث، زاہد، امر بالمعروف کرنے والوں میں ملے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ لوگ کسی ایک جگہ جمع ہوں، بلکہ روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہوں گے۔ (ملخصاً)

«یحتمل أن یكون هذه الطائفة متفرقة في أنواع المؤمنین ممن یقیم أمر اللّٰه من مجاهد وفقیه و محدث وزاهد واٰمر بالمعروف و غیر ذلك من أنواع الخیر ولا یلزم اجتماعهم في مکان واحد بل یجوز أن یکونوا متفرقین في أقطار الأرض» (حاشیہ ابن ماجہ)

اس سے میری گزارشات کی تائید ہوتی ہے کہ، مختلف زمانوں میں، مختلف صورتوں میں یہ تحریک چالو رہی ہے اور اب بھی ہے اور باد مخالف کے تیز و تند اور شوخ جھونکوں سے یہ مشعل بجھے گی نہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ، ایسا ہی ہوا ہے اور اس کا مصداق جماعت اہلحدیث کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا۔

بہرحال دنیاکے حالات اب بدل گئے ہیں اس لئے اس تحریک کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات میں دیا کے سامنے ''مشعل ہدایت'' پھر سے روشن کر کے اپنے وجود اور تشخص کا ثبوت دے۔ غرض یہ ہے کہ وہ ''نسبت عظمی'' پھر سے ہاتھ آجائے جو تمام نسبتوں سے عظیم تر بھی ہے اور دارین کی فوز و فلاح کی ضامن بھی۔ بے آمیز بھی ہے اور قلب و نگاہ کی مسلمانی کے لئے ضروری بھی۔ ہمارے نزدیک یہ رابطہ اور نسبت اس کردار اور فریضہ کی تجدید کی توفیق بھی عطا کرتی ہے جو ہمارے تمام امراض کی دوا اور سارے روگوں کی شفا بھی ہے۔

اِس مقام رفیع اور بہشت بریں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مناسب وسائل کی بڑی ضرورت ہے۔ اِن میں سے ایک اہم ذریعہ ''پریس'' بھی ہے۔ گو یہ سبھی کچھ نہیں ہے تاہم بہت کچھ ہے۔ اس لئے ہر مکتب فکر اس کے لئے خاصا اہتمام کرتا ہے مگر عموماً ان کی حالت ﴿وَإِثمُهُما أَكبَرُ مِن نَفعِهِما﴾ جیسی ہوتی ہے۔ ایسا سلسلہ جرائد و اخبارات جو ہر قسم کے غل و غش سے پاک، خود غرضی اور فرقہ پرستی کے جرائم سے صاف ہو، بہت کم ہے۔ مکتب اہل حدیث نے اس طرف توجہ دی ہے اور پاک و ہند میں متعدد رسالے نکالے ہیں مگر ان میں بعض بنیادی چیزوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ایک تو مانگ اور ضرورت کے لحاظ سے وہ کفیل نہیں ہیں، دوسرا یہ کہ، دعوت کے اعتبار سے ان کا دائرہ صرف اپنوں تک محدود ہے۔ دوسری دنیا سے وہ بہت کم مخاطب ہوتے ہیں۔ اگر ہوتے بھی ہیں تو چند ایک گنے چنے مسائل کی حد تک۔ صلائے عام اور دعوت تام نہیں ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ، ان جرائد کی پشت پر ایک تنظیم ہوتی ہے۔ جو مسلکی روح کی بہ نسبت افراد جماعت کے مقامی اور تنظیمی تقاضوں کا بوجھ بھی پرچہ کے دوش ناتواں پر ڈال دیتی ہے۔ اس لئے جو کام ان کو کرنا چاہئے تھا وہ اس کے لئے یکسو نہیں رہ سکتے۔ ان حالات میں ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسا جریدہ جاری کیا جائے جو اپنے وسائل کی حد تک اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے سنجیدہ ہو۔ یہ ماہنامہ ''محدث'' جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہم نے جو منزل تشخیص کی ہے، اس تک پہنچنے میں ہم کما حقہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن وہ ہماری کئی استعداد اور وسائل کے فقدان کا نتیجہ و گا اس میں اغراض فاسدہ اور فتور نیت کا دخل قطعاً نہیں ہو گا۔ اس لئے ہم جماعت کے ذہین طبقہ سے ملتجی ہیں کہ اس کار خیر میں ہم سے تعاون فرمائیں تاکہ جن ذمہ داریوں کو ہم نے محسوس کیا ہے، ان سے عہدہ بر آ ہو سکیں۔

محدث کے اجراء سے غرض مسلک اہل حدیث کی اجارہ داری کا ادعاء نہیں ہے بلکہ ہم اسے منجملہ خدمات کے ایک خدمت ہی تصور کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے ساری دنیا کو کتاب و سنت کی روشنی مہیا کرنا ہے۔ محدود دائرہ کار نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخصوص طبقہ یا فرد سے آویزش ہمارے پیش نظر ہے۔

اس سے غرض آمدنی یا فوائد عاجلہ بھی نہیں ہیں، بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ایک حقیر سی کوشش اور نیک سا جذبہ ہے تاکہ ہم اپنے مخصوص مزاج کے مطابق دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ ہم پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس طائفہ اور مسلک کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو پھر دنیا کیلئے مسنون ڈگر پر چلنے یا کنٹرول کرنے کے لئے اور کوئی سبیل باقی نہیں رہے گی کیونکہ دوسرا اور جو بھی ہے وہ کسی غیر رسول کی زلف گرہ گیر کا امیر بھی ہے اور اپنی افتاد کے اعتبار سے مجبور بھی۔ اس لئے ان سے بے آمیز خدمتِ دن کی توقع بمشکل کی جا سکتی ہے۔