برّصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اور علمائے اہلحدیث کی مساعی
مولانا وحید الزمان حیدر آبادی،م 1338ھ
آپ کا سن ولادت 1850ء؍1267ھ ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا مسیح الزمان(م1295ھ) او ربرادر بزرگ مولانا بدیع الزمان(م1312ھ) سے حاصل کی۔ 15 سال کی عمر میں درس نظامی سے لے کر انتہائی عربی علوم و معقول میں تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوگئے۔1
اساتذہ فنون:
مولانا مفتی عنایت احمد(مصنف علم الصیغہ) مولانا سلامت اللہ کانپوری تلمیذ مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا محمد بشیر الدین قنوجی(م1273ھ)مولانا عبدالحئ لکھنوی(م1304ھ) مولانا عبدالحق بنارسی (م1278ھ)مولانا لطف اللہ علی گڑھی رحمہم اللہ تعالیٰ)
اساتذہ حدیث:
حضرت شیخ الکل مولانا سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلوی(م1320ھ) علامہ شیخ حسین بن محسن الانصاری الیمانی(م1327ھ) مولانا محمد بشیر الدین قنوجی(م1273ھ) شیخ احمد عیسٰی الشرقی الحنبلی، مولانا حافظ عبدالعزیز لکھنوی، مولانا شیخ بدر الدین المدنی، مولانا شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی (م1313ھ) رحمہم اللہ تعالیٰ!
1283ھ؍1886ء میں اپنے والد کے ارشاد پر حیدر آباد دکن چلے گئے او روہاں ریاست کی ملازمت اختیار کی۔ ملازمت میں آپ نے 34 سال گزارے او رریاستی دستور کے مطابق 'ّوقار نواز جنگ بہادر'' کے سرکاری خطاب سے نوازے گئے۔
مسلک :
ابتداء میں مقلد تھے او رتقلید شخصی کے قائل تھے۔ اس دور میں اہلحدیث کے مسائل پر تنقید بھی کرتے تھے، بعد میں اپنے بڑے بھائی مولانا بدیع الزمان(م1312ھ) ، جو مسلک اہلحدیث میں بڑے متشدد تھے، سے متاثر ہوکر تقلید شخصی ترک کردی۔
مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''کان شدیدا في التقلید في بدایة أمرہ ثم رفضه و تحررواختار مذھب أھل الحدیث مع شذوذ عنھم في بعض المسائل''2
یعنی''ابتداًء تقلید میں متشدد تھے ۔ پھر تقلید سےآزاد ہوگئے او رمذہب اہلحدیث اختیار کرلیا۔ تاہم بعض مسائل میں اہلحدیث سے تفرو شذوذ بھی رکھتے تھے۔''3
تصانیف:
آپ کی مجموعی تصانیف کی تعداد 32 ہے۔ تفصیل یہ ہے:
موضوع : تعداد تصانیف
قرآن مجید : 5
حدیث : 11
فقہ : 4
عقائد : 4
متفرق : 8
32 4
حدیث سے متعلق آپ کی خدمات :
حدیث سے متعلقآپ کی گرانقدر علمی خدمات ہیں، جو تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے صحاح ستہ اور مؤطا امام مالک کا اردو میں ترجمہ و تشریح کی ہے۔ یہ سب کی سب کتابیں مطبوع ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
1۔ تیسیر الباري ترجمة و تشریح صحیح البخاري (اُردو)
2۔ تسهیل القاري ترجمة و تشریح صحیح البخاري 5 (اُردو)
3۔ العلم ترجمة صحیح مسلم مع مختصر شرح (اُردو)
4۔ جائزة الشعوذي ترجمة جامع الترمذي (اُردو)6
5۔ روض الربیٰ ترجمة و شرح سنن نسائي (اردو)
6۔ الهدی المحمود ترجمة و شرح سنن أبي داود (اُردو)
7۔ رفع العجاجة ترجمة و شرح سنن ابن ماجه (اُردو)
8۔ کشف الغطاء ترجمة و شرح موطأامام مالك (اردو)
9۔ إشراق الأبصار في تخریج حدیث نور الأنوار (اردو)
10۔ أحسن الفوائد في تخریج أحادیث شرح العقائد(اردو)
11۔ أنوار اللغة و أسرار للغة (المعروف و حید اللغات) 28 جلدوں میں(شیعہ سنی کتابوں میں وارد احادیث کی لغات غریبہ کی اردو تشریحات7
12۔ تصحیح کنز العمال۔ حدیث کی ایک ضخیم کتاب کی تصحیح8 (عربی)
وفات:
25 شعبان 1338ھ(مطابق 15 مئی 1920ء)بنگلور میں وفات پائی۔
مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ)
سن ولادت 1283ھ ہے۔ مولد و مسکن مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ہے۔ آپ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م1330ھ) کے فرزند تھے۔ مولانا عبدالرحیم اپنے وقت کے ممتاز اور جید عالم تھے اور آپ کو مولانا فیض اللہ مئوی (م1316ھ) ملّا حسام الدین مئوی(م1310ھ) او رمولانا قاضی شیخ محمد مچھلی شہری(م1330ھ) سے تلمذ حاصل تھا۔9
مولانا عبدالرحمان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار مولانا عبدالرحیم سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولاناخدا بخش میراج گنجی (م1333ھ) مولانا محمد سلیم فراہی (1334ھ)، مولانا سلامت اللہ جے راجپوری (م1323ھ) او رمولانا فیض اللہ مئوی(م1316ھ) سے اکتساب فیض کیا۔
اس کے بعد مدرسہ چشمہ رحمت غازی پوری میں داخل ہوئے۔ وہاں استاذ العلماء مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری(م1323ھ) او رمولانا فاروق چڑیا کوٹی(م1327ھ) سے استفادہ کیا۔ یہاںآپ کا قیام قریباً 5 سال تک رہا۔
غازی پور میں 5 سال قیام کے بعد مولانا غازی پوری کے ارشاد پر حضرت شیخ الکل مولانا سیدمحمد نذیر حسین دہلوی(م1320ھ) کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے اور آپ سے تفسیر و حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔ حضرت شیخ الکل کے علاوہ علامہ حسین بن محسن الانصاری الیمانی (م1327ھ) او رمولانا محمد مچھلی شہری(م1330ھ) سے بھی حدیث میں سند و اجازہ حاصل کیا۔10
تکمیل تعلیم کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور اس سلسلہ میں مبارک پور، گونڈہ ، مدرسہ احمدیہ آرہ، او رکلکة میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران آپ سے بہت سے ممتاز علمائے کرام نے استفادہ کیا اور ان میں بعض وہ حضرات بھی شامل ہیں جو بعد میں خود مسند تدریس کے مالک بنے۔
مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب سیرة البخاری(م1342ھ)
مولانا عبیداللہ رحمانی حفظہ اللہ تعالیٰ، صاحب مرعاة المفاتیح فی شرح المشکوٰة المصابیح۔
مولانا ابومحمد عبدالجبار محدث کھنڈیلوی (م1382ھ)
شیخ تقی الدین الہلالی المراکشی سابق ادیب اوّل ندوة العلماء لکھنؤ11
مولانا امین احسن اصلاحی
اشاعت حدیث کے سلسلہ میں آپ کی خدمات:
فن حدیث کی اشاعت میں آپ کی علمی خدمات کسی سے کم نہیں ۔ عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد جب علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م1329ھ) نے لکھنی شروع کی تو اپ نے بطور ممدو معاون ان کے ساتھ کام کیا اور آپ تقریباً 1320ھ تا 1323ھ 4سال ڈیانواں میں مقیم رہے۔12
عون المعبود کے مقدمہ میں ہے :
''کتب العلامة أبو الطیب شمس الحق العظیم آبادي و توخٰی علیٰ معاونة في إکماله العلامة أبوالعلي محمد عبدالرحمان ابن عبدالرحیم المبارکفوري صاحب تحفة الأحوذي مدة أربع سنین'' i
تصانیف:
آپ کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصانیف کی تعداد 19 ہے۔ جن میں سے 12 مطبوعہ میں اور 7 غیر مطبوعہ۔ حدیث پرآپ کی سب سے اہم تصنیف ''تحفة الأحوذي في شرح جامع الترمذي'' ہے۔ یہ شرح 4 مجلدات پر حاوی ہے اور اس کے ساتھ علیحدہ ایک مقدمہ ہے۔ یہ شرح نصرت عملی بالحدیث میں ایک بے مثال کتاب ہے۔ اس کے علاوہ حدیث پر آپ کی ایک اورکتاب''شفاء العلل في شرح کتاب العلل'' (عربی) ہے اور تیسری کتاب''إبکار المنن في تنقیدآثار السنن'' ہے۔ یہ کتاب مولانا شوق نیموی کی کتاب آثار السنن کی تردید میں ہے جو انہوں نے نعرہ تقلید کے جوش میں''بلوغ المرام في أدلة الأحکام'' کے نہج پر لکھی ۔ جس میں انہوں نے اپنے شعار تقلید کی حدیثیں چن چن کر بغیر تمیز غث و ثمین بھر دیں۔مولانا مبارکپوری نے شوق صاحب کی اس ندرت پر توجہ فرمائی اوراپ نے''إبکار المنن في تنقید آثار المنن'' لکھی جس سے شوق صاحب کی تمام کاوشوں کا پتہ چل گیا۔13
مولانا کی شخصیت:
مولانا مبارکپوری کا شمار علمائے اہلحدیث کے اساطین میں ہوتا ہے۔آپ کے تبحر علمی او رعلم حدیث میں مہارت کے اندازہ کے لیےآپ کی جلیل القدر تصنیف''تحفة الأحوذي'' کافی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام او رعرب ممالک میں وہ شہرت و مقبولیت دی ہے کہ متاخرین علمائے پاک و ہند کی کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی۔
مولانا حبیب الرحمان قاسمی لکھتے ہیں:
''مولانا کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل سے بھرپور نوازا۔ دقت نظر، حدّت ذہن، ذکاوت طبع او رکثرت مطالعہ کے اوصاف و کمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا۔ خاص طور پر علم حدیث میں تبحر و امامت کا درجہ رکھتے تھے۔ روایت کے ساتھ درایت کے مالک او رجملہ علوم آلیہ و عالیہ میں یگانہ روزگار تھے۔ قوت حافظہ خدادا تھی۔مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔ فقہاء احناف کے بارے میں نہایت شدید رویہ رکھتے تھے او ربڑی شدومد کے ساتھ ان کا ردّ کرتے تھے۔ مگر یہ معاملہ صرف تصانیف تک محدود تھا۔ جو سراسر علمی اور تحقیقی تھا۔
مولانا براہ راست عامل اہلحدیث تھے۔ صفات باری تعالیٰ کے سلسلہ میں''ماوردبه الکتاب والسنة'' پر ایمان رکھتے تھے۔ تحفة الاحوذی میں اسی سلسلہ میں ان کےخاص مختارات بھی ہیں۔''14
مولانا سید سلیمان ندوی (م1373ھ) لکھتے ہیں:
'' علم حدیث کی خدمت میں مولانا عبدالرحمان مبارکپوری نے بہت محنت کی ہے۔ آپ نے تدریس و تحدیث کے ساتھ ساتھ جامع ترمذی کی شرح تحفة الاحوذی (عربی) میں لکھی ہے۔ جو ایک گرانقدر علمی تصنیف ہے۔15''
حوالہ جات
1. الاعتصام 13۔اگست 1974ء صفحہ 5
2. نزهة الخواطر، ج8 ص515
3. کیونکہ اہلحدیث میں سے امام احمد حنبل کے فتاویٰ کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کی شرح میں جابجا ان فتاویٰ کو ''ہمارا مذہب'' سے تعبیر کرتے ہیں۔(ادارہ)
4. ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات
5. یہ صحیح البخاری کی اردو میں مبسوط شرح ہے اس کا مطبوعہ اور مکمل نسخہ(غالباً) سلفیہ لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ (ادارہ)
6. ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات۔ اُردو ترجمہ ترمذیآپ اور آپ کے بھائی مولانا بدیع الزمان حیدر آبادی (م1312ھ) نے بھی کیا۔ جو مطبوع ہے۔
7. ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات
8. الاعتصام لاہور ، 30۔اگست 1974ء صفحہ 9
9. تذکرہ علمائے حال، صفحہ 43، تراجم علمائے حدیث ہند صفحہ 398، تذکرہ علمائے مبارکپور، صفحہ 136، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ صفحہ 156
10. تذکرہ علمائے اعظم گڑھ صفحہ 142
11. تراجم علمائے حدیث ہند صفحہ 402
12. ایضاً صفحہ 402
13. تراجم علمائے حدیث ہند صفحہ 402
14. تذکرہ علمائے اعظم گڑھ صفحہ 146
15. تراجم علمائے حدیث ہند صفحہ 37
i. مقدمہ صفحہ 7 مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ