نعت

اُنہیں شامل تو کرلوں داستاں میں
یہ مشکل ہے کہاں وہ اور کہاں میں

تکلف برطرف یہ بات سچ ........ ہے
نہیں ہوں نعت کے شایان شاں میں

رسائی ان کی ہے عرش بریں تک
سیہ بخت و نصیب دشمناں میں

ادا میں حق کروں ان کی مدح کا
نہیں ہے یہ میرے وہم وگماں میں

متاع کن فعال کے وہ ہیں مالک
زکف بردہ متاع رائگاں میں

جہان آب و گل کی بات کیا ہے
نہیں ان کا مقابل دو جہاں میں

ہے ان کی آمد آمد کا قرینہ
بڑی وارفتگی ہے لامکاں میں

ستارے ان کے جو زیر قدم تھے
سجائے ہیں کسی نے کہکشاں میں

تڑپ جائیں جسے سن کر مسلماں
اثر اتنا تو ہو میری اذاں میں

ادھر دشمن ہوئے ہیں غرق آہن
ادھر ٹوٹی ہوئی ناقص کماں میں

خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
نہیں کوئی محافظ کارواں میں

جہاں دل ساتھ دے قول و عمل کا
وہیں تاثیر آتی ہے زباں میں

غلامی ان کی راس آئی ہے اسرار
بنا ہوں ان کی مدحت کا نشاں ہیں