فتاوی

1۔ ''حسبنا کتاب اللہ ''
2۔ قربانی کی شرعی حیثیت
3۔ بنات النبیؐ،

4۔ شرح زکوٰة

راولپنڈی سے عبدالمنان صاحب لکھتے ہیں:
''چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں، اُمید ہے آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں میری اور میرے ساتھیوں کی تشفی فرمائیں گے۔

سوالات یہ ہیں:
(1) آیا حضرت عمرؓ نے فرمایاتھا: ''حسبنا کتاب اللہ؟'' ..... میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید کو حدیث کے بغیر سمجھنا گمراہی ہے، پھر حضرت عمرؓ کےاس فرمان کاکیا مطلب ہے؟
(2) منکرین حدیث نے سورة الکوثر میں ''وانحر'' کا مطلب ''سینہ پر ہاتھ باندھنا'' لکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر ''قربانی'' مطلب لیا جائے تو قرآن کی رو سے قربانی فرض ہے۔ حالانکہ یہ سنت ہے۔ اصل مطلب کیاہے؟
(3) ایک سوال شیعہ کی طرف سےکیا جاتا ہے کہ اگر رسول پاکؐ کی بیٹیاں ایک سے زیادہ تھیں تو پھر آپؐ نے ان کی فضیلت میں کچھ کہا کیوں نہیں، جبکہ حضرت فاطمہؓ کے بارے میں بہت سی فضیلتیں اپؐ نے بیان فرمائی ہیں؟
(4) پرویزی کہتے ہیں: زکوٰة کی شرح کے بارے میں قرآنی حکم یہ ہے کہ: ﴿وَيَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَ...﴿٢١٩﴾...سورۃ البقرۃ'' یعنی ''ضرورت سے زائد سب کچھ خرچ کردو۔'' یہ کہاں تک درست ہے؟
جزاکم اللہ........... والسلام

جوابات :
1۔ حسبنا کتاب اللہ:
رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں جب موجود صحابہ کرامؓ سے قلم و دوات لانے کو کہا، تو اس موقع پر فی الواقعہ حضرت عمرؓ نے یہ کہا تھا: ''حسبنا کتاب اللہ'' او ریہ واقعہ ''قرطاس'' صرف صحیح بخاری ہی میں نہیں، دیگر کتب صحاح میں بھی موجود ہے۔

منکرین حدیث او ربالخصوص پرویز عموماً یہ کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے آپؐ کے مرض الموت میں ''حسبنا کتاب اللہ'' کہہ کر احادیث رسول اللہ ﷺ سے بے نیازی کا اظہار فرمایاتھا تو پھر ان احادیث کی ضرورت بھی کیا باقی رہ جاتی ہے؟

اس سلسلہ میں میرا ایک طویل مضمون ''حسبنا کتاب اللہ'' کےعنوان سے محدث مارچ 1984ء میں چھپ چکا ہے،اسے ملاحظہ فرما لیجئے، سردست چند اشارات پراکتفاء کروں گا:
(الف) کتاب اللہ سے مراد وحی منزل من اللہ (شریعت) ہے۔ خواہ یہ وحی۔ وحی جلی ہو یا وحی خفی۔ بالفاظ دیگر کتاب اللہ کا اطلاق کتاب و سنت دونوں پر ہوتا ہے۔ او رحضرت عمرؓ نے بھی جب یہ الفاظ کہے تھے تو اس سے مراد یہ دونوں چیزیں تھیں۔

صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں آیا او رکہنے لگا : ''یا رسول اللہﷺ ! میں آپ کو قسم دے کرکہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیجئے'' اب دوسرا فریق، جو پہلے سے کچھ زیادہ سمجھدار تھا، کہنے لگا کہ ''ہاں یارسول اللہ ﷺ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق فرمائیے او ربات کرنے کی مجھے اجازت دیجئے۔'' آپؐ نے فرمایا: ''اچھا بیان کر'' اس نے کہا کہ ''میرا بیٹا اس شخص (فریق ثانی) کے پاس نوکر تھا او راُس نے اِس شخص کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ میں نے سو بکریاں او رایک غلام دےکر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا۔ اس کے بعد میں نے کئی عالموں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کے لیے سزا سو کوڑے او رایک سال کی جلا وطنی ہے، او راس شخص کی بیوی کے لیے ''رجم'' ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
''والذي نفسي بیدہ لأ قضین بینکما بکتاب اللہ جل وذکرہ المائة شاة والخادم رد علیك وعلی ابنك جلد مائة و تغریب عام، واغد یا أنیس علی امرأة ھٰذا فإن اعترفت فارجمھا فغدا علیھا فاعترفت فرجمھا۔'' 1
'' اس پروردگار کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے او رجس کا ذکر بلند ہے، میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام (جو تو نے دیے) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے او راے انیسؓ کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردو'' چنانچہ انیسؓ صبح اس عورت کے پاس گئے، اس نے اعتراف کرلیا تو انیسؓ نے اسے رجم کردیا۔''

رجم کا حکم قرآن مجید میں موجود نہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے رجم کا حکم دینے سے قبل اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر رجم کاحکم بھی دیا۔ معلوم ہوا کہ کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن کریم نہیں ، بلکہ احادیث بھی اس میں داخل ہیں، لہٰذا حضرت عمرؓ کے نزدیک کتاب اللہ سے مراد تمام تر وحی منزل من اللہ یعنی شریعت تھی کہ صرف قرآن کریم۔

کتاب اللہ سے جو کچھ حضرت عمرؓ مراد لیا کرتے تھے اس کے متعلق امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے، جس کا عنوان یہ ہے:
''باب المکاتب وما لا یحل من الشروط التي تخالف کتاب اللہ وقال جابر بن عبداللہ في المکاتب شروطھم بینھم وقال ابن عمر أو عمر: کل شرط خالف کتاب اللہ فھو باطل وإن اشترط مائة شرط'' 2
''مکاتب کا بیان او ران شرطوں کا بیان، جو جائز نہیں او رکتاب اللہ کے مخالف ہیں، او رجابر بن عبداللہ ؓ نے ایسی شرطوں کے بارے میں کہا اور ابن عمرؓ یا عمرؓ نے بھی کہ ''ہر وہ شرط جو کتاب اللہ کے خلاف ہو وہ باطل ہے، خواہ ایسی سو شرطیں باندھی جائیں۔''

اگر کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن کریم لیا جائے، تو قرآن کریم میں تو مکاتبت کی کوئی شرط مذکور ہی نہیں۔ پھر مخالفت یا موافقت کیسی؟ البتہ ایسی شرائط چونکہ سنت رسول اللہ ﷺ میں مذکور ہیں، لہٰذا یہاں کتاب اللہ سے مراد سنت رسولﷺ ہی لیا جاسکتاہے۔

اب خود ہی دیکھ لیجئے کہ ان واضح دلائل کے بعد منکرین حدیث کے اس اعتراض کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟

(ب) کتاب اللہ میں قرآن و حدیث دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔ تاہم شریعت کے عملی نمونہ، سنت کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کے ساتھ اپنی سنت کا الگ بھی ذکر فرمایا۔

(ج) قرآن کریم کتاب اللہ بھی ہے او رکلام اللہ بھی۔ جب کہ سنت رسول اللہ ﷺ پر کتاب اللہ کا اطلاق تو ہوسکتا ہے ، کلام اللہ کا نہیں ہوسکتا۔

2۔ قربانی کی شرعی حیثیت:
قربانی کی شرعی حیثیت سے انکاربھی منکرین حدیث کا مرغوب موضوع ہے۔ ''النحر'' لغوی لحاظ سے سینہ کے اوپر کے حصہ کو کہتے ہیں۔ اور ''نحر النھار او الشھر'' دن یا مہینہ کے ابتدائی حصہ کو (المنجد صفحہ 794) اس لحاظ سے بعض مفسرین نے ''فصل لربک'' کی مناسبت سے ''وانحر'' کے معنی سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنے کے بھی کیے ہیں، او راوّل وقتوں میں نماز ادا کرنے کے بھی۔

پھر '' منحر'' کے معنی گلے میں زخم لگانے یا ذبح کرنے کی جگہ کے بھی ہیں۔ اور ''انتحر'' بمعنی خود کشی کرنا اور ''نحیر'' ذبح کیے ہوئے جانور کوکہتے ہیں۔ (المنجد صفحہ 794) سورة الکوثر کی عطا کی مناسبت ہے ''وانحر'' کے معنی قربانی کرنا زیادہ راجح او رانسب ہے۔جیسے کہ ایک دوسری آیت:.............
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَ‌بِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٦٢...سورۃ الانعام
''بےشک میری نماز او رمیری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔''

.........سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

رہی یہ بات کہ قرآن کریم میں حکم آجانے کے بعد قربانی سنت کیوں ہے اور فرض کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں بصغیہ امر مذکور سبھی احکام فرض نہیں ہیں۔مثلاً قرآن مجید میں ہے:
﴿فَإِذَا قُضِيَتِ ٱلصَّلَو‌ٰةُ فَٱنتَشِرُ‌وا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ...﴿١٠﴾...سورۃ الجمعہ
کہ ''جب نماز (نماز جمعہ)ہوچکے تو (کاروبار وغیرہ کے لیے ) زمین میں پھیل جاؤ''

اس سے قبل کی آیات میں یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ جب نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے تو کاروبار وغیرہ چھوڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑتے چلے آؤ:
﴿إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَو‌ٰةِ مِن يَوْمِ ٱلْجُمُعَةِ فَٱسْعَوْاإِلَىٰ ذِكْرِ‌ ٱللَّهِ وَذَرُ‌واٱلْبَيْعَ...﴿٩﴾...سورۃ الجمعہ

چنانچہ اب یہ پابندی اٹھائی جارہی ہے کہ جب فریضہ ادا ہوگیاتو مساجد میں بیٹھ رہنا کوئی ضروری نہیں۔ بلکہ چاہو تو اب کاروبار وغیرہ کرسکتے ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک اختیار امر ہے۔حالانکہ قرآنی حکم ''فانتشروا'' بصغیہ امر ہے۔ لیکن اگراس کا یہ مطلب لیا جائے کہ نماز جمعہ کے بعد بہرحال کاروبار وغیرہ کرنا فرض ہے اور اگرچہ کام کچھ بھی نہ ہو، تاہم جھوٹ موٹ کا کوئی کام کرنے کا بھی اب نماز جمعہ ادا کرنے والا مکلف ہے۔ تاکہ قرآنی حکم پورا ہوسکے تو قرآن مجید کا یہ مقصود نہیں ہے۔اسی طرح قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَٱصْطَادُوا...﴿٢﴾...سورۃ المائدہ
''پھر جب تم (احرام کھول کر) حلال ہوجاؤ تو شکار کرلو''

یہاں بھی ''فاصطادوا'' بصغیہ امر مذکور ہونے کے باوجود اختیار امر ہے۔ یعنی حلال ہونے کے بعد اگر تم چاہو تو شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ احرام کی حالت میں شکار کھیلنے پرپابندی ہے۔ لیکن جب احرام کھول دیاتو پابندی ختم ہوگئی۔ اب چاہو تو شکار کرسکتے ہو چاہو تو نہ کرو۔ لہٰذا یہاں بھی قرآن مجید کا مقصود ہرگز یہ نہیں کہ حلال ہونے کے بعد شکار کرنا بہرحال ضروری ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ تکلیفی احکام کی پانچ قسمیں ہیں:
(1)فرض (2) واجب (3) سنت (4) مستحب )(5)(مباح)۔ قرآن کریم میں پانچوں قسم کے احکام پائے جاتے ہیں، لیکن قرآن کریم مجمل ہے اس لیے اس کے کسی حکم کے فرض، واجب وغیرہ ہونے کی تفصیل سنت میں ہے۔ چنانچہ سورة الکوثر میں ''وانحر'' (اور قربانی کیجئے) اگرچہ بصیغہ امر قرآن مجید میں مذکور ہے، لیکن اس کی تعیین سنت نےکی ہے کہ قربانی فرض نہیں، بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔

منکرین حدیث بیچارے عجیب مخمصے کا شکار ہیں، سنت سےانکاری بھی ہیں، لیکن جب سنت کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے تو چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں۔ بالکل وہی صورت حال ہے کہ:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّ‌سُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿١١٥...سورۃ النساء
کہ ''جس نے ہدایت کی تبیین کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی او رمومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی دوسری راہ اختیار کرلی تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر کا اس نے رخ کرلیا ہے او رہم اسے جہنم میں بھی داخل کریں گے جو بہت ہی بُری جگہ ہے۔''

3۔ بنات الرسولؐ :
شیعہ حضرات کا اعتراض دو وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کسی کی فضیلت بیان نہ ہونے کی وجہ سے اس کے وجود کی نفی نہیں ہوجاتی۔ رسول اللہ ؐ کی بیٹیوں کا ذکر قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں ہے:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاحزاب
''اے نبیؐ، اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے..............''

مندرجہ آیت کے اس ٹکڑے سے تین باتوں پر روشنی پڑتی ہے:
(الف) بنات، بنت کی جمع ہے، جس کا اطلاق تین یا تین سے زیادہ تعداد پر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ مفروضہ خود قرآن کریم کی رُو سے غلط ہے کہ فاطمة الزہراؓ کے علاوہ رسول اللہ ؐ کی کوئی بیٹی نہ تھی۔

(ب) بنات کے لفظ سے آپؐ کی روحانی بیٹیاں یا قوم کی بیٹیاں بھی مراد نہیں لی جاسکتیں، کیونکہ ''نساء المؤمنین'' کا الگ ذکر بھی آگیا ہے۔

(ج)بنات سے آپؐ کی ازواج مطہرات کی پچھلگ بیٹیاں بھی مراد نہیں لی جاسکتیں۔ کیونکہ ان کے لیے قرآن مجید نے الگ لفظ ''ربائب'' استعمال کیا ہے۔ لہٰذا یہ احتمال بھی ختم ہوا۔

اب رہی بات دوسری بیٹیوں کے عدم بیان فضیلت کی، تو یہ بھی غلط ہے۔ آپؐ کی چاروں بیٹیاں حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور علی الترتیب ان کے اسماوے مبارک، سن ولادت و وفات درج ذیل ہیں:
(1) حضرت زینبؓ: 10 سال قبل نبوت ولادت ہوئی جبکہ اپؐ کی عمر 30 سال تھی۔
وفات 8 ھ بعمر 31 سال


(2) حضرت رقیہؓ : 7 سال قبل نبوت ولادت ہوئی جبکہ آپ ؐ کی عمر33 سال تھی۔
وفات 2 ھ بعمر 21 سال


(3) حضرت اُم کلثومؓ : 4 سال قبل نبوت ولادت ہوئی جبکہ آپؐ کی عمر 36 سال تھی۔
وفات 9 ھ بعمر 25 سال

(4) حضرت فاطمة الزہراؓ : 1 نبوت ولادت ہوئی جبکہ آپؐ کی عمر 41 سال تھی۔
وفات 11 ھ بعمر 23 سال

اب حضرت فاطمة الزہراؓ کے علاوہ باقی بیٹیوں کے مناقب ملاحظہ فرمائیے :
حضرت زینبؓ :
حضرت زینبؓ کی منقبت میں آپؐ نے فرمایا:
''ھي أفصل بناتي أصیبت فيّ'' 3
''یہ میری بیٹیوں میں افضل ہے ۔ جس نےمیری وجہ سے تکلیف اٹھائی۔''

چنانچہ آپؓ تو ایمان لے آئیں۔ مگر آپؓ کے خاوند ابوالعاص اس وقت ایمان نہ لائے تاہم انہوں نے حضرت زینبؓ کو مدینہ ہجرت کرنےکی اجازت دے دی تھی اور اس بات کے لیے رسول اللہ ؐ ، ابوالعاص کے مشکور تھے۔ ابوالعاص، حضرت زینبؓ سے چھ سال بعد مدینہ آکر ایمان لائے۔ تو حضورؐ نے اس سابقہ نکاح کو بحال رکھا۔ یہ چھ سال کا عرصہ حضرت زینبؓ کے لیے خاصی پریشانی کا سبب بنا رہا، لیکن پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؐ نے حضرت زینبؓ کی یہ منقبت بیان فرمائی۔

حضرت رقیہؓ :
حاکم نے درج ذیل حدیث آپؓ کی منقبت میں روایت کی ہے:
''إنھما لأوّل من ھاجر بعد لوط و إبراھیم'' 4
''حضرت لوطؑ او رحضرت ابراہیم ؑ کے بعد یہ پہلے لوگ ہیں (حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمان ؓ) جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ہے۔''

جنگ بدر کے موقعہ پر آپؓ سخت بیمار تھیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت کے لیے حضرت عثمان ؓ کو جنگ بدر میں شمولیت سے روک دیا۔ لیکن اس کے باوجود اموال غنیمت سے آپؓ کا باقاعدہ حصہ نکالا ۔5

حضرت اُم کلثوم ؓ :
حضرت رقیہؓ نے 2 ہجری میں انتقال فرمایا تو 3 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو بلا کر فرمایا:
''یہ جبریل ہیں، جو کہہ رہے ہیں: اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی تجھ سے بیاہ دوں'' 6

جن دنوں حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوا، انہی دنوں حضرت حفصہؓ بنت عمر فاروقؓ بھی بیوہ ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عثمان ؓ سے اپنی بیٹی حفصہؓ کا ذکر کیا تو حضرت عثمان ؓ نے اس طرف چنداں توجہ نہ کی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنے رنج کا اظہار رسول اللہ ﷺ سےکیا تو آپؐ نے فرمایا:
''ألا أدل عثمان علیٰ من ھو خیر له منھا وأدلھا علیٰ من ھو خیر لھا من عثمان''
(یہ واقعہ بخاري کتاب النکاح۔باب عرض الإنسان ابنته......... الخ میں باختلاف الفاظ موجود ہے)
کہ ''کیا میں عثمانؓ کو ایسا رشتہ نہ بتاؤں جو اس کے لیے حفصہؓ سے بہتر ہے اور حفصہؓ کے لیے ایسا رشتہ نہ بتاؤں جو اس کے لیے حضرت عثمان ؓ سے بہتر ہے۔'' 7

اس ارشاد کے مطابق حضرت ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے، اور حضرت حفصہؓ کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ سے ہوا۔ یہ درست ہے کہ حضرت فاطمة الزہراؓ کے مناقب دوری بیٹیوں سے زیادہ مذکور ہوئے ہیں۔ لیکن اس کی کئی دوسری وجوہ ہیں۔ مثلاً :
(1) آپؓ عمر میں سب سے چھوٹی تھیں او رچھوٹے بچے والدین کو عموماً زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔
(2) حضرت فاطمة الزہراؓ، رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دن تک آپؐ کے پاس موجود رہیں۔ ان کا گھر رسول اللہ ﷺ کے گھروں سےنزدیک تھا اور آخری وقت میں بھی آپؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں۔
(3) آپؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا نسبتاً زیادہ موقعہ ملا ہے۔ آڑے وقتوں میں آپؓ نے پدر بزرگوارﷺ کی خدمت کی ۔
(4) آپؓ کے بطن سے حضرت حسنؓ اور حسین ؓ پیدا ہوئے۔جو تاریخ اسلام میں بلند مقام رکھتے ہیں۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ کہنا غلط ہے کہ اپؐ نے دوسری بیٹی کی منقبت بیان ہی نہیں فرمائی۔

4۔ شرح زکوٰة :
پرویزیوں کے اس سوال کا جواب میں ''ترجمان الحدیث'' نومبر 1983ء صفحہ 25، 26 پر ''پرویزی دین اور زکوٰة'' کے ذیلی عنوان کے تحت تفصیل سے دے چکا ہوں۔ سردست چند باتیں ملخصاً حضرت خدمت ہیں:
(1) پرویزی حضرات کہنے کو تو فی الواقعہ یہی بات کہتے ہیں کہ ضرورت سے زائد سب کچھ ''انفاق فی سبیل اللہ'' کے ضمن آتا ہے او راسے دے دینا چاہیے۔ لیکن ان کا عمل اس کے بالکل مخالف ہے۔ جب ضیاء الحق کی حکومت نے زکوٰة آرڈی ننس نافذ کیا، تو ان حضرات اور بالخصوص غلام احمد پرویز نے چالیسواں حصہ زکوٰة ادا کرنے سے بھی قرآنی فقہ کے نام پر جس طرح فرار کی راہیں اختیار کی ہیں، ان کی تفصیل محولہ بالا مضمون میں ملاحظہ فرما لیجئے۔

(2) حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کی یہ تشریح پرویزیوں کا محض زکوٰة سے بچنے کا ایک بہانہ ہے او راس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کسی بھی پرویزی کے متعلق تحقیق فرما لیجئے کہ کیا فی الواقعہ وہ ''ضرورت سے زائد سب کچھ '' دین کی راہ میں خرچ کررہا ہے؟ کیا ان کے بینک بیلنس نہیں ہیں؟ اور اگر ہیں تو یہ بینک بیلنس سب ضرورت سے زائد ہی ہوتے ہیں۔ یہی صورت دوسری جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی ہے، جو اپنے ذاتی مصرف میں نہ ہو۔

(3) پرویزی حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جب قرآنی حکومت قائم ہوگی تو پھر وہ اپنا ضرورت سے زائد مال اس حکومت کو ادا کیا کریں گے۔ یہ بات بمصداق ''نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی'' زکوٰة سے بچنے کا ایک زبردست حیلہ ہے۔ کیونکہ اس کی مجوزہ قرآنی حکومت ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک کہیں قائم نہیں ہوئی اور نہ آئندہ تاقیامت ایسی قرآنی حکومت کے قائم ہونے کا امکان ہے۔ خواہ ہزاروں پرویز پیدا ہوتے رہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ حضرات کسی وقت کمیونزم کو ہی قرآنی حکومت کا نام دے لیں، تو اس صورت میں''ضرورت سے زائد بھی اور ضرورت کے اندر بھی '' یہ حکومت زبردستی ان سے چھین لے گی او راپنی مرضی سے کچھ دینا دلانا ان کے اپنے بس میں نہ رہے گا۔

(4) ایتائے زکوٰة کے معاملہ میں پرویزی حضرات سخت تضاد کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو ان کا مؤقف یہ ہےکہ زکوٰة کی کوئی شرح اسلام نے مقرر نہیں کی۔ بلکہ یہ ایک ٹیکس ہے او راسلامی حکومت اپنی ضرورت کے مطابق اس شرح میں کمی بیشی کرسکتی ہے۔ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اسلامی حکومت کے حوالے کردیں اور تیسرا مؤقف یہ ہے کہ ایتائے زکوٰة کا حکم عام مسلمانوں کے لیے ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم قرآنی حکومت کے لی ہے۔ یعنی جب عام مسلمان اپنا سب کچھ ضرورت سے زائد قرآنی حکومت کے حوالے کردیں گے، تو قرآنی حکومت ''ایتائے زکوٰة'' پر عمل کرے یعنی عوام کو سامان تربیت (یہی ان کے نزدیک زکوٰة کا معنیٰ ہے) روٹی، کپڑا او رمکان وغیرہ مہیا کرے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایتائے زکوٰة کا یہی مفہوم ہو، جو ان کا تیسرا اور آخری مؤقف ہے اور جسے قرآنی نظام ربوبیت میں تفصیل سے پیش کیا گیاہے، تو اسے ٹیکس کیسے کہا جاسکتا ہے اور اس کی شرح کیونکر زیر بحث آسکتی ہے؟

نوٹ: سائل کا آخری سوال ختنہ کے بارے میں ہے۔ جس پر ایک مستقل مضمون ان شاء اللہ آئندہ اشاعت میں شامل ہورہا ہے۔ اس لیے فی الحال اس کا جواب تحریر نہیں کیا جارہا۔(ادارہ)

 


حوالہ جات
1. بخاری، کتاب المحاربین، باب الاعتراف بالزنا
2. صحیح البخاری صفحہ 2؍83 طبع مصر
3. زرقانی ج2 ص195 بروایت طحاوی و حاکم، رحمة اللعالمینؐ ج2 ص102 قاضی سلیمان منصوری پوری
4. بحوالہ رحمة اللعالمین ؐ ج2 ص107
5. بخاری، کتاب المغازی۔ باب تسمیة من یستمی من أهل البدر
6. ازالة الخفاء ص2؍222 بحوالہ حاکم
7. رحمة اللعالمینؐ ج2 ص108