کیا اجتہادی و قیاسی مسائل شریعت ہیں؟

نفاذِشریعت بِل کی دفعہ2 شق(د) کاایک جائزہ
آج کل ملک میں بالعموم اور علمی حلقوں میں بالخصوص یہ بحث چل رہی ہے کہ ''ایسے احکام، جو امت کے مسلّمہ اور مستند فقہاء مجتہدین نے قرآن پاک، سنت رسول اللہ ﷺ او راجماع امت سے قیاس و اجتہاد کے ذریعے مستنبط کرکے مدون کیے ہیں، شریعت کے احکام متصور ہوتے ہیں یا نہیں؟'' ایک گروہ کا خیال ہے کہ وہ شریعت کے احکام متصور ہوتے ہیں۔لیکن دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ وہ شریعت کے احکام متصور نہیں ہوتے۔ صحیح بات یہی ہے کہ وہ احکام نہ تو شریعت ہیں او رنہ ہی احکام شریعت۔

اولاً تو اس لیے کہ شریعت ، دین کا وہ خاص طریقہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے او رایسے ہی شریعت کے احکام ان احکام کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی کیے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ...﴿٤٠﴾...سورۃ یوسف
''حکم تو بس اللہ ہی کا ہے۔''

﴿إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ ﴿٤...سورۃ النجم
''نہیں ہے وہ مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے۔''

﴿قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّ‌بِّى...﴿٢٠٣﴾...سورۃ الاعراف
'' (اے نبیؐ) آپ فرما دیجئے میں تو صرف اسی کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔''

﴿إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ...﴿١٥﴾...سورۃ یونس
''میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔''

ان چار کے علاوہ بھی قرآن مجید کی کئی ایک دیگر آیات مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ شریعت او راحکام شریعت صرف وحی الٰہی ہے، جبکہ امت میں سے کسی مجتہد کے قیاس و اجتہاد کے ذریعے استنباط کئے ہوئے مسائل، مدوّن ہوں خواہ غیر مدوّن ، وحی الٰہی نہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ اجمت کے مجتہدین بھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہوں، جس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں۔ کیونکہ تمام مسلمان عقیدہ ختم نبوت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا مجتہدین امت کے بذریعہ قیاس و اجتہاد استنباط کردہ مسائل، مدوّن ہوں یا غیر مدوّن، نہ تو شریعت ہیں او رنہ ہی احکام شریعت۔ کیونکہ وہ مسائل مستنبطہ وحی الٰہی نہیں۔

ثانیاً اس لیے کہ شریعت او رحکم شریعت حق ہی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكُمْ...﴿١٠٨﴾...سورۃ یونس
''کہہ دیجئے، اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے۔''

نیز فرمایا:
﴿لَقَدْ جَآءَكَ ٱلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٩٤...سورۃ یونس
''یقیناً آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے حق آیا ہے، پس آپ شک و شبہ کرنے والون میں سے نہ ہوں۔''

او ریہ بات أظهر من الشمس ہے کہ حق میں نہ تو خطا ہوتی ہے او رنہ خطا کا احتمال ہوتا ہے۔ شریعت او راحکام شریعت چونکہ حق ہیں اس لیے نہ تو ان میں خطا ہے او رنہ ہی خطا کا احتمال۔ اس کے برعکس قیاس و اجتہاد کے ذریعے اخذ کیے ہوئے مسائل بسا اوقات تو خطا ہوتے ہیں یا ان میں خطا کا احتمال ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:
''وعن عبداللہ بن عمرو و أبي ھریرة قالا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إذا حکم الحاکم فاجتھد فأصاب فله أجر ان، وإذا حکم فاجتھد فأخطأ فله أجرو احد'' 1
''حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے پس اجتہاد کرتے ہوئے صحیح فیصلہ کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں او رجب وہ فیصلہ کے لیے اجتہاد کرتے ہوئے خطا کرجائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔'' 2

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ائمہ مجتہدین کے قیاسات و اجتہادات میں خطا کا پہلو بھی موجود ہے۔ عبیداللہ بن مسعود حنفی  اپنی مایہ ناز کتاب تنقیح و توضیح میں لکھتے ہیں:
''وحکمه غلبة الظن علی احتمال الخطأ فالمجتهد عندنا یخطئ ویصیب، وعند المعتزلة کل مجتھد مصیب''3
''اور اس (اجتہاد) کا حکم، خطا کا احتمال ہونے کی بناء پر ظن غالب ہے۔ کیونکہ مجتہد ہمارے نزدیک خطا بھی کرسکتا ہے اور درست بھی ہوتا ہے اور معتزلہ کے نزدیک ہر مجتہد درستگی کو پہنچنے والا ہے۔''

نیز لکھتے ہیں:
''وھو یفید غلبة الظن بأن الحکم ھٰذا لاأنه مثبت له ابتداء ''4
''قیاس کا فائدہ کسی شے کے حکم کے بارے میں ظن غالب کا ہوتا ہے، یہ نہیں کہ ابتداًء اسی کے ذریعے ایسا حکم ثابت ہورہا ہو۔''

تو چونکہ قیاسات و اجتہادات میں خطا کا پہلو بھی موجود ہے، اس لیے وہ نہ تو شریعت ہیں او رنہ ہی احکام شریعت۔ کیونکہ شریعت اور احکام شریعت حق ہی ہیں ان میں خطا کا پہلو بالکل موجود نہیں۔ رہا قیاسات و اجتہادات کا صواب اور درستگی والا پہلو، تو اس میں خطا اگرچہ نہ ہو مگر خطا کا احتمال تو موجود ہے۔ جیساکہ تنقیح مع التوضیح کی مذکورہ عبارت سے واضح ہے۔ اس لیے قیاسات و اجتہادات کو اس پہلو کے اعتبار سے بھی شریعت اور شریعت کے احکام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں اگر کوئی شخص مذہب اعتزال اختیار کرلے تو دوسری بات ہے۔ کیونکہ اہل اعتزال ، قیاسات و اجتہادات کو بھی احکام الٰہیہ ہی تصور کرتے ہیں۔

صاحب تنقیح و توضیح کے جملہ ''لاأنه مثبت له ابتداء'' سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ قیاس، شریعت کے حکم کو فقط ظاہر کرنے والا ہے، اس کو شریعت کا حکم بنانے والا نہیں۔ مگر اس کی کیا دلیل کہ جس حکم کو قیاس نے شریعت کا حکم ظاہر کیا ہے وہ واقعی شریعت ہی کا حکم ہے؟

رہی خبر واحد، تو اس میں رسول اللہ ﷺ کے قول یا عمل یا تقریر کو نقل کیا جاتا ہے۔جبکہ قیاس نقل کے باب سے بالکل نہیں۔ لہٰذا قیاس کو خبر واحد پر قیاس کرنا درست نہیں۔

ثالثاً اس لیے کہ شریعت اسلامیہ صرف ایک ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ ادھر قیاسات و اجتہادات مدونہ کئی ہیں، جن میں سے چند بڑے بڑے مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اجتہادات و قیاسات حنفیہ 2۔ اجتہادات و قیاسات مالکیہ
3۔ اجتہادات و قیاسات شافعیہ 4۔ اجتہادات و قیاسات حنبلیہ
5۔ اجتہادات ظاہریہ 6۔ اجتہادات شیعیہ

واضح ترین بات ہے کہ ان مذکورہ بالا اجتہادات و قیاسات کو شریعت یا احکام شریعت باور کرلینے کی صورت میں چھ شریعیتیں بن جائیں گی۔ جسے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی تسلیم کرنےکو تیار نہیں۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ صرف اور صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔اس لیے کہ تمام اہل اسلام کا الٰہ ایک ہے، پیغمبرؐ ایک ہے، ان کی کتاب ایک ہے اور سنت و حدیث ایک ہے، تو یہ چھ شریعتی نظریہ ان میں کیسے چل سکتا ہے؟

رابعاً اس لیے کہ ان اجتہادات و قیاسات والوں میں سے ہر کوئی دوسرے کے اجتہادات و قیاسات پر کڑی تنقید کرتا ہے او ربسا اوقات تو دوسرے کے اجتہادات و قیاسات کو باطل تک قرار دینے سے باک محسوس نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ امور اجتہاد اور قیاسیہ اگر شریعت یا شریعت کے احکام ہوں، تو پھر ان سے یہ سلوک کیوں روا رکھا جائے؟

خامساً اس لیے کہ اجتہاد و قیاس، شریعت فہمی کے اسباب و طرق ہیں او راہل اجتہاد و قیاس شریعت فہم لوگ ہیں۔ لیکن اگر اجتہادات و قیاسات کو شریعت یا احکام شریعت تسلیم کرلیا جائے تو پھر اجتہاد و قیاس شریعت سازی کے اسباب و طرق او راہل اجہاںد و قیاس شریعت ساز قرار پائیں گے او راس بات کو کوئی مسلمان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں۔

سادساً اس لیے کہ اہل قیاس و اجتہاد بسا واقات ایک فتویٰ صادر فرماتے ہیں، پھر اس سے رجوع فرما کر دوسرا فتویٰ دے دیتے ہیں تو قیاسات و اجتہادات اگر شریعت یا شریعت کے احکام ہوں تو پھر ان سے رجوع کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ کیا شریعت یا احکام شریعت سے دستبرداری بھی جائز ہے؟ ائمہ مجتہدین کے رجوع کو نسخ قرار دینا صحیح نہیں۔ کما لا یخفیٰ!

سابعاً اس لیے کہ اجتہادات و قیاسات میں بسا اوقات تناقض ہوتا ہے۔ ایک مجتہاد ایک چیز کو حلال، اور دوسرا اسی چیز کو حرام کہتا ہے۔ وہاں لحاظات و اعتبارات کا فرق بھی مفقود ہوتا ہے۔چنانچہ اجتہادات و قیاسات اگر شریعت یا احکام شریعت ہوتے تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ واضح رہے، اس تناقض کو بعض آیات اور بعض احادیث کے ظاہری و صوری تعارض پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ آیات، احادیث، شریعت اور شریعت کے احکام میں حقیقتاً تعارض تو ہوتا ہی نہیں، جبکہ اہل اجتہاد و قیاس کے اقوال میں حقیقتاً تعارض نہ ہونے کا کوئی قائل ہی نہیں۔ اہل اعتزال اس کے قائل ہوں تو ہوں۔

رہا بسا اوقات اہل اجتہاد کے اقوال میں توافق، تو اس سے ان کے اقوال کا شریعت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ یہ تو افق شریعت یا شریعت کا حکم بننے کی کوئی علت نہیں۔ شریعت کا مناط و مدار صرف وحی پر ہے جو اس صورت میں بھی مفقود ہے۔

ثامناً اس لیے کہ اجتہادات و قیاسات بسا اوقات کتاب و سنت کے مخالف و منافی ہوتے ہیں۔مثلاً بعض مجتہدین کا اجتہاد ہے کہ ''ہر نشہ آور چیز حرام نہیں'' ادھر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سےمروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر نشہ آور حرام ہے'' تو ایسی صورتوں میں شریعت کا غیر شریعت ہونا اور غیر شریعت کا شریعت ہونا لازم آتا ہے۔ جوکسی طرح بھی صحیح نہیں۔

اجتہادات و قیاسات، شریعت (کتاب و سنت) کے موافق ہونے کی صورت میں بھی شریعت نہیں۔ شریعت تو وہ ہے جس کے وہ موافق ہیں۔مثلاً اللہ تعالیٰ کا قول شریعت ہے۔ اس لیے آپ نے کسی سے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ اللہ کا قول شریعت کے موافق ہے ۔ لیکن اجتہادات و قیاسات بھی اگر شریعت ہوتے تو کبھی نہ کہا جاتا کہ فلاں اجتہادی و قیاسی مسائل شریعت کے موافق ہیں۔معلوم ہوا کہ اجتہادات و قیاسات کا شریعت کے موافق ہونا بھی ان کے شریعت نہ ہونے کی دلیل ہے۔

تاسعاً اس لیے کہ شریعت اور شریعت کے احکام تمام لوگوں کے لیے ہیں، جن میں صحابہ کرام ؓ، تابعین، تبع تابعین اور قیامت تک کے سب لوگ شامل ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت عالمگیر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَ‌سُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا...﴿١٥٨﴾...سورۃ الاعراف
''(اے نبیؐ) آپ فرما دیجئے، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔'' نیز فرمایا:

﴿وَمَآ أَرْ‌سَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرً‌ا وَنَذِيرً‌ا...﴿٢٨﴾...سورۃ سبا
''او رہم نے تو اپ کو تمام ہی لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔''

جبکہ مجتہدین کے اجتہادات و قیاسات5میں عالمگیری نہیں ہے۔ دیکھئے صاحب فیض الباری لکھتے ہیں:
''فالمسائل المبسوطة في فقھنا لمن أراد اقتداء الإمام الھمام لا للصحابة الکرام''6
''یہ مسائل، جو ہماری فقہ میں (شرح و) بسط کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان کے لیے ہیں جوامام (ابوحنیفہ)کی اقتداء کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے لیے نہیں''

ثابت ہوا کہ اجتہادی و قیاسی مسائل شرعیت نہیں۔ ورنہ وہ صحابہ کرامؓ کے لیے بھی ہوتے ہیں۔کیونکہ شریعت او رشریعت کے احکام ان کے لیے بھی ہیں، بلکہ شریعت اور شریعت کے احکام کے اوّل مخاطب تو وہی ہیں۔

صاحب فیض الباری  کے اس کلام سے ''نچوڑ او رمکھن '' والا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ اگر فی الواقع اہل رائے کے مسائل کتاب و سنت کا نچوڑ اور مکھن ہوتے تو ان کے صحابہ کرام ؓ کے لیے ہونے کی نفی نہ کی جاتی۔ کیونکہ کتاب و سنت کا نچوڑ اور مکھن تو صحابہ کرامؓ کے لیے بھی ہونا چاہیے، صرف مسلمانوں کے کسی مخصوص طبقہ کے لیے نہیں۔

یاد رہے کہ یہ دعویٰ (ایسے احکام، جو امت کے مسلّمہ او رمستند فقہاء مجتہدین نے قرآن پاک ، سنت رسول اللہ ﷺ او راجماع امت سے قیاس و اجتہاد کے ذریعے مستنبط کرکے مدوّن کیے ہیں، شریعت کے احکام متصور ہوتے ہیں) جن بزرگوں نے کیا ہے، انہوں نے اس میں کسی استثناء اور تخصیص کو ذکر نہیں فرمایا۔ باقی ان مسائل اجتہادیہ و قیاسیہ کو علی الاطلاق شریعت کے احکام متصور کرلینے کے بعد یہ کہنا کہ ''مقننہ کوئی ایسا قانون یا قرار داد منظور نہیں کرسکے گی جو شریعت کے احکام کے خلاف ہو'' اس دعویٰ مذکورہ میں استثناء و تخصیص نہیں۔

پھر تعجب ہے، یہ مدعی حضرات بلا استثناء و امتیاز تمام مسائل اجتہاد یہ مدوّنہ کو شریعت کے احکام تصور کرتےہیں۔ خواہ وہ امام جعفرؓ، امام مالک ، امام شافعی او رامام احمد کے ہوں، خواہ وہ کتاب و سنت کے منافی ہوں، خواہ وہ باہم دگر متناقض ہوں اور خواہ وہ ایسے مسائل ہوں جن سے ائمہ مجتہدین نے رجوع فرمالیا ہو۔ اگر مدعی بزرگوں نے یہ عموم مراد نہ لیا ہوتا تو وہ اپنے اس دعویٰ میں استثناءات و تخصیصات ضرور ذکر فرما دیتے۔ بالخصوص جب اس دعویٰ کو قانون حیثیت دلانے پر زور دیا جارہا ہو تو استثناءات و تخصیصات واجبہ کا ذکر مزید ضروری ہوجاتا ہے۔ لیکن چونکہ استثناء و تخصیص کے اس قدر ضروری ہونے کے باوجود، دعویٰ میں اسے جگہ نہیں دی گئی، اسی لیے ہم نے بھی اپنی ان گذارشات میں ان کے دعویٰ کے اس عموم کو ملحوظ رکھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ان اجتہادی و قیاسی مسائل مدوّنہ کو شریعت یا احکام شریعت تصور کرلینے سے تجددد و الحاد پسند طبقہ کا ناطقہ بند ہوجائے گا۔ حالانکہ ہماری دانست میں ایسا کرنے سے ان کا ناطقہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ کھل جائے گا۔ کیونکہ وہ کہنے لگیں گے، یہ کیا بات ہوئی کہ پرانے مجتہدین کے اجتہادی مسائل تو شریعت یا شریعت کے احکام قرار پائیں او رنئے مجتہدین کے اجتہادی مسائل کو شریعت یا شریعت کے احکام نہ سمجھا جائے؟ جس کا تسلی بخش جواب اگر محال نہیں تومشکل ضرور ہے۔

اور بفرض محال اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس طرح متجددین و ملحدین کا ناطقہ فی الواقع بند ہوجاتا ہے، تویہ کہاں کا انصاف ہے کہ متجددین و ملحدین کاناطقہ بند کرنےکی خاطر غیر شریعت کو شریعت بنا ڈالا جائے اور ﴿أَن تَقُولُواعَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩...سورۃ البقرۃ'' کا ارتکاب بھی کرلیا جائے؟ لہٰذا ملحدین و متجددین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے کوئی اور صحیح طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

اللھم أرنا الحق حقا و ارزقنا اتباعه ، وأرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابه۔ آمین


حوالہ جات
1. متفق علیہ
2. بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰة مع تحقیق الألباني باب العمل في القضاء ج2 ص1102
3. تنقیح مع التوضیح برحاشیہ تلویح ج2 ص118
4. ایضاً ج2 ص53
5. پوری تحریر میں اجتہادات و قیاسات سے اجتہادی و قیاسی مسائل مراد ہیں۔ منہ
6. فیض الباری ج1 ص181