نفاذ شریعت بل پراہلحدیث کا مؤقف

نفاذ شریعت بل پراہلحدیث کا مؤقف جملہ مسلمانوں کے لیے دعوت اتحاد !
ملک میں بحالی جمہوریت کے بعد نفاذ اسلام کی باتیں ایک بھولی بسری داستان ہوکر رہ گئی ہیں او رماضی قریب میں اس سلسلہ میں جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی بھی، موجودہ ''ہاؤہو'' کے پُرشور نعروں میں اب اس کی صدائے بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی۔

یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ اس کی اٹھان ''لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ'' کی بنیادوں پر ہوئی، لہٰذا اس کی بقاء کا راز بھی انہی بنیادوں کی حفاظت پر مضمر ہے۔لیکن موجودہ بے خدا سیاست جس ڈگر پر چل نکلی ہے، اس سے ان نظریاتی بنیادوں پر یلغار کا خطرہ تو ہر آن لاحق ہے، ان کی حفاظت کی توقع اس سے ہرگز ہرگز نہیں کی جاسکتی۔

''نفاذ شریعت بل 1985ء '' جیسی مساعی اس تاریک ترین ماحول میں امید کی ایک ہلکی سی کرن ہے۔ لیکن بعض حلقے اسے بھی سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، حالانکہ اس بل کو اگرچہ چند ترامیم و اصلاحات کے بعد نافذ کردیا جائے تو روشنی کی پتلی سی یہ لکیر مطلع الفجر کا پیغام بھی دے سکتی ہے۔

نفاذ شریعت بل کو سینیٹ نےعوامی حلقوں کی آراء کے لیے مشتہر کیا تھا اور آراء کی وصولی کی آخری تاریخ 25۔اپریل 1986ء مقرر کی تھی۔ چنانچہ مختلف حلقوں اور مذہبی گروہوں نے اپنی اپنی آراء سینیٹ سیکرٹریٹ اسلام اباد کو روانہ کردی ہیں یا اسی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیاہے اور اب یہ تجاویز و آراء سینیٹ کے زیر غور ہیں۔ متذکرہ بل پر تجاویز و آراء یا ا س پر رد عمل کا اگر جائزہ لیا جائے، تو اس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
ایک گروہ تو وہ ہے جس نے اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا او راسےمن و عن منظور کروانے کے لیے عوامی دستخطی مہم چلائی۔

ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ ہے جس نے اس بل کو کلیة مسترد ہی نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف بیان بازی بھی کی ہے۔ کیونکہ اس بل کے پیش کرنے والوں سے انہیں یہ شکایت ہے کہ بل پیش کرنے والے، الفاظ کے پیچ و خم سے نفاذ شریعت نہیں بلکہ نفاذ فقہ حنفی کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔ جبکہ خود ان کا مطالبہ فقہ جعفری کے نفاذ کا ہے۔ او ران دونون گروہوں کے درمیان یہ جھگڑا کافی مدت سے چلا آرہا ہے۔

جبکہ اہل حدیث نے اس بل کے بارے میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ بل میں بعض چیزیں قابل ترمیم و اصلاح ہیں او ران ترامیم و اصلاحات کے بعد اس کا نفاذ ضروری ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے مجموعی طور پر اہل حدیث نے بل پر پرزور حمایت کی ہے۔

ان ترامیم و اصلاحات کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
بل کی دفعہ 2 شق الف کے الفاظ یوں ہیں:
'' شریعت سے مراد دین کا وہ خاص طریقہ ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔''

یہ شق شریعت کی تعریف میں ہے۔ لیکن ان الفاظ کے بعد ''جو کتاب و سنت ہی ہے۔'' کےالفاظ کا اضافہ ضروری ہے تاکہ شریعت کی تعریف مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ متعین بھی ہوجائے۔ کیونکہ شریعت صرف کتاب و سنت ہی میں منحصر ہے۔

مذکورہ الفاظ کے اضافہ سے چونکہ شریعت کی تعریف مکمل ہوجاتی ہے۔ اس لیے بل کی اس دفعہ2 میں شریعت کی تعریف کے لیے مزید تین شقیں ب، ج، د غیر ضروری بھی ہیں اور کسی حد تک غلط بھی۔ مثلاً
شق ''ب'' میں قرآن پاک او رسنت رسول اللہ ﷺ کو شریعت کی بجائے شریعت کا مآخذ قرار دیا گیاہے۔ حالانکہ ماخذ قانون، خود قانون نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس شق سے کتاب و سنت کے خود شریعت ہونے پر زد پڑتی ہے۔

شق ''ج'' میں اجماع امت سے فقہ کی تدوین کا مخصوص تصور مراد ہے او راس طریقہ سے فقہ حنفی کا نام لئے بغیر اسے شریعت قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ شریعت بل جملہ مسلمانوں کے لیے ہے، کسی مخصوص فرقہ کے تحفظ کے لیے نہیں۔

شق ''د'' میں مدّون فقہوں کو شریعت یا احکام شریعت قرار دیا گیاہے، جو کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں۔1ورنہ فقہوں کے تعدّد کی بناء پر متعدد شریعتوں کا ہونا بھی لازم آئے گا۔ جب کہ شریعت صرف ایک ہے۔ لہٰذا درست فکر یہ ہے کہ فقہی کاوشیں بلا شبہ ایک بیش قیمت علمی سرمایہ ہیں، جن سے استفادہ کا کوئی بھی منکر نہیں۔ تاہم انہیں شریعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔

کہا جاسکتا ہے کہ شریعت (کتاب وسنت) کی تشریحات میں جمود و الحاد کے اندیشہ کے پیش نظر شق ''ب ، ج، د'' ضروری ہیں۔ لیکن بل کی دفعہ 12 کی موجودگی میں یہ خدشہ بے بنیاد ہے، کیونکہ اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ:
''قرآن و سنت کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اہل بیت عظام، صحابہ کرامؓ او رمستند مجتہدین کے علم اصول حدیث کے مسلّمہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہو۔''

خلاصہ یہ ہے کہ:بل کی دفعہ 2 شق الف میں ''جو کتاب و سنت ہی ہے'' کے الفاظ کا اضافہ کرکے اس دفعہ کی شق ''ب، ج، د'' کو حذف کردیا جائے تو متذکرہ شریعت بل جملہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔''

بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو اہل حدیث نے مذکورہ مؤقف پیش کرکے امت وسط کا کردار ادا کیاہے او راہل حدیث کی یہ دعوت جملہ مسلمانون کے لیے دعوت اتحاد ہے۔ جس کو قبول کرلینے سے فقہ حنفی بمقابلہ فقہ جعفری کا تنازعہ بھی ختم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ فقہ حنفی والوں کو جس قدر فقہ حنفی عزیز ہے او رامام ابوحنیفہ ان کے نزدیک جس قدر مکرم و محترم ہیں بعینہ شیعوں کو فقہ جعفری او رامام جعفر صادق سے عقیدت ہے، پھر حنفی آخر کس بنیاد پر شعیوں کوفقہ جعفری سے دست برداری اور فقہ حنفی کو قبول کرلینے کی دعوت دیتے ہیں؟ اکثریت تو حق و صداقت کا کوئی معیار نہیں بلکہ یہ لادینیت ہے او رجسے اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید ''قلیل من عبادی اشکور'' کا اعلان کرکے اس معیار کو غلط قرار دے رہا ہے۔

مذکورہ دونوں گروہ مرکز اتحاد، کتاب و سنت سے ہٹ کر رسول اللہ ﷺ کی بجائے، رسول اللہ ؐ کے امتیوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ جنہیں ایک دوسرے پر برتری اور فوقیت دینے کی کوشش فساد امت کا باعث تو بن سکتی ، اتحاد امت کا سبب ہرگز نہین بن سکتیں، جبکہ اہل حدیث ان سب کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم ، کتاب و سنت پر جمع کردینا چاہتا ہے اور اس کی دعوت ''أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّ‌سُولَ'' کی قرآنی دعوت ہے۔

لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہلحدیث کا مؤقف صرف معقول ہی نہیں، ٹھوس اور مدلّل بھی ہے اور جسے کتاب و سنت دونوں کی تائید حاصل ہے۔چنانچہ سینیٹ میں بل پربحث کے دوران جب اختلافات کھلیں گے اور ان کی بناء پر خدانخواستہ جب یہ مرحلہ آئے گا کہ ''اسلامی جماعتیں اسلام کی تعبیر پر ہی متفق نہیں ہیں، تو پھر آخر کس فرقہ کااسلام نافذ کیا جائے؟'' تو اس وقت اہل حدیث کا ہی واحد موقف اتحاد کی علامت قرار پائے گا اور بل کو بچانے کے لیے ڈھال بنے گا۔

اہل حدیث کے مؤقف کو واضح کرنےکے لیے ''رابطہ علمائے اہلحدیث'' کی جانب سے لاہور میں''علمائے اہلحدیث کنونشن'' کا انعقاد عمل میں آیا۔جس میں مذکورہ مؤف کی بھرپور تائید کی گئی او رکم و بیش ایک ہزار علماء کے اس اجتماع میں متفقہ طور پر پاس ہونے والی قرار داد نہ صرف روزناموں (پاکستان، ٹائمز، جنگ، نوائے وقت، مشرق، امروز، وفاق) کی زینت بنی او رتمام جماعتی جرائد و رسائل میں شائع ہوئی بلکہ اس قرار داد کو عام کرنے کے لیے دستخطی مہم بھی چلائی گئی او رہزاروں فارموں پر دستخط کروا کر ، سینیٹ کے چیئرمین کو متعلقہ رسائل و جرائد او راخبارات کے ہمراہ روانہ کردیئے گئے ہیں او ریوں حجت کا اتمام کردیا گیاہے۔

واضح رہے کہ اس قرار داد میں نفاذ شریعت بل کی بھرپو رحمایت کی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بل کو پیش آمدہ خطرے کا علاج بھی اس میں تجویز کردیاگیا ہے۔

آخر میں ہم اس نازک مرحلے پر تمام دینی جماعتوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ''قال اللہ وقال الرسول'' پر متفق ہوجائیں کہ ان سب کے درمیان اتحاد کی واحد اساس یہی چیز ہے اور اس سے سرمو انحراف بھی وحدت امت کو پارہ پارہ کرنےکے مترادف ہوگا۔ جس سے ملحدین و متجددین کو ، جو اس ملک میں اسلام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے اور نفاذ شریعت کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرنا وہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں، یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ''اسلام موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے'' اور یہ وہ نعرہ ہے جس کے تنائج انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں، چنانچہ ایک مدت بعد سوشلزم کے مردہ نعرے کا پھر سے احیاء ان کی نظروں سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اس موقع پرسینیٹ کے ممبران سےبھی ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ خدارا اس مملکت خداداد کو السام کے راستے پر چلانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور نفاذ شریعت کے ذریعے حکومتی وعدوں کی تکمیل کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔ وما علینا إلالبلاغ۔


حوالہ جات
1. مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو زیر نظر شمارہ کا مضمون ''کیا اجتہادی او رقیاسی مسائل شریعت ہیں؟ نفاذ شریعت بل کی دفعہ 2 شق ''د'' کا ایک جائزہ''