محمد بن ابراہیم ملقب بہ صدر الدین شیرازی 979ھ یا 980ھ میں شیراز میں پیدا ہوئے۔عام طور پر اخوند ملّا صدرا یاصد رالتالہین کے نام سے معروف ہیں۔ ملا موصوف بااثر اور صاحب حیثیت خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اس لیے والد نے ذہین اورمحنتی بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ابتدائی تعلیم شیراز میں ہوئی۔ والد کے انتقال کےبعد اصفہان چلے گئے۔
اصفہان اس زمانے میں ایران کا دارالحکومت تھا۔ صفوی خاندان کی تشویق اور دلچسپی کی بنا پر اصفہان کے مدرسوں میں علم و فضل کا چرچا تھا۔ علم کے سوتے جاری تھے او رطالبان علم ملک کے گوشے گوشے سے اصفہان کی علمی مجلسوں کا رخ کرتے تھے۔ بلا موصوف نے شیخ بہاؤ الدین عاملی (م1031ھ) اور ایرانی فلسفی میر باقر داماد (م1041ھ) کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ایک روایت ہے کہ اس عرصے میں میرابوالقاسم مندرسکی سے بھی اکتساب علم کیا جو عارف و زاہد ہونےکے علاوہ بے نظیر ریاضی دان تھے۔
زمانے کا دستور ہےکہ ذہین اور قابل لوگوں کے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ملا صدر ابھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ حاسدوں کی ریشہ دوانیوں سے تنگ اکر گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ اصفہان سےنقل سکونت کرکے ''قم'' کے نزدیک ''کھک'' نامی گاؤں میں کافی عرصہ تنہائی کی زندگی گزاری اورمجاہدہ نفس میں مشغول رہے۔غالباً صدر الدین شیرازی کی طبیعت میں فلسفیوں کی روایتی گرم مزاجی نہ ہونے کی وجہ یہی مجاہدہ نفس اور ریاضت ہے۔
مثل ہے کہ ''مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطاربگوید'' ملاموصوف کی شہرت پھیلنے لگی ۔ دور دور سے طالبان علم ''قم'' حاضر ہونے لگے۔ اس عرصے میں فارس کے حاکم اللہ دردی خان نے ان کے آبائی وطن شیراز میں ایک درس گاہ قائم کی اور ملاکو وطن آکرخدمات علمی انجام دینے کی دعوت دی۔ شاہ عباس ثانی کی سفارش پر ملا نے اس دعوت کوقبول کرلیا اور شیراز میں رونق مجلس علم بن گئے۔ان کے زیرنگرانی مدرسہ اللہ دردی خان اہم علمی مرکز بن گیا۔اور ''مدرسہ خان ایران'' کے نام سے اس کی شہرت دور و نزدیک پھیل گئی۔
وفات: کہاجاتا ہے کہ ملا موصوف نے سات بار پاپیادہ حج کیا اور ساتویں بارسفر حج سے واپسی پر بصرہ میں 1050ھ مطابق 1640ء میں دنیا فانی سے رحلت کرگئے۔
آثار و تالیفات
ملّا صدر الدین شیرازی کی زندگی تین واضح ادوار میں منقسم ہے۔پہلا دور شیراز اور اصفہان میں حصول تعلیم کا دور ہے۔ دوسرا دور ''کھک'' کی پرسکون زندگی پرمشتمل ہے اور تیسرا دور شیراز میں تدریس و تعلیم کا زمانہ ہے۔ تیسرے دور میں ان سے سینکڑوں طلبہ نے استفادہ کیا۔طلبہ کی راہنمائی کے لیے بیسیوں کتابیں تالیف کیں۔ ان کی ''48'' کتابوں کے نام تذکرہ نگاروں نےلکھے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک فارسی زبان میں ہے باقی سب ہی عربی زبان میں ہیں۔ ان کی کتابوں کاموضوع حکمت و عرفان، فلسفہ اورعلوم دینیہ میں چند اہم کتابوں کے نام اور تعارف درج ذیل ہے:
(1) الاسفار الاربعہ :ملا موصوف کی فلسفیانہ کتابوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔اس کا دوسرا نام''الحکمةالمتعالیة في المسائل الربوبیة'' ہے۔اس کی پہلی جلد وجود و اعراض پر، دوسری طبیعات پر، تیسری الہٰیات پر اور چوتھی نفس پر ہے۔ ایران میں چھپ گئی ہے۔ دارالترجمہ عثمانیہ نے اُردو ترجمہ کرایا تھا۔مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
''حکومت آصفیہ کے دارالترجمہ نے فلسفہ کی اس ضخیم کتاب کا اُردو میں ترجمہ کرا دیا ہے جس کی پہلی جلد کا ترجمہ خاکسار نے اور باقی جلدوں میں سے ایک کا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اور دوسرے حصے کامولوی میرک شاہ کاشمیری نے کیا ہے۔''
(2) شرح ہدایت الحکمت: اثیرالدین ابہری کی ''ہدایت الحکمت'' کی شرح درس نظامی میں شامل ہے جو''صدرا'' کے نام سےمشہور ہے۔
(3) حاشیہ حکمت الاشراق: شیخ شہاب الدین مقتول کی مشہور کتاب حکمت الاشراق کا معروف حاشیہ ہے۔
(4) حاشیہ شرح تجدید: علامہ علی بن محمد قوشجی (م879ھ) نے ''تجدید'' کی شرح لکھی۔ اس شرح پر ملا صدر الدین نے حاشیہ لکھا۔
(5) الشواہد الربوبیة في المناہج السلوکیة
(6) اکسیر العارفین
(7) تفسیرسورہ واقعہ
(8) تفسیربعض السور
(9) رسالہ صدر الدین شیرازی: آٹھ رسالوں کا مجموعہ ہے۔
(10) الرسالۃ العرشیہ: مسئلہ معاد پر رسالہ ہے شیخ احمد احسائی بانی فرقہ شیخی نے اس کی شرح لکھی ہے۔
(11) شرح اصول السکاکی
(12) المبداء والمعاد:ایک حصہ ربوبیات اور دوسرا حصہ نفس کے موضوع پر ہے۔
(13) اسرار الآیات و انوار البنات
(14) الواردات القلبیہ
(15) کسر اصنام الجاہلیہ
(16) شرح اصول کافی: شیخ کلینی کی کتاب ''اصول کافی'' کےایک حصہ کی شرح ہے
(17) مشاعر: شیخ احمد احسائی نے''مشاعر'' کی بھی شرح لکھی ہے۔
تلامذہ
ملّا صدر الدین شیرازی کے تلامذہ میں مندرجہ ذیل افراد نہایت نمایاں ہیں:
مّلا محسن فیض کاشانی(م1091ھ)
مولانا عبدالرزاق لاہیجی
مآخذ
تاریخ ادبیات ایران ص 107۔108
Aliterary History of Persia براؤن
حکمائے اسلام ج2 ... عبدالسلام ندوی
تذکرہ شاہ ولی اللہ... مناظر احسن گیلانی