اسلامی سربراہ کانفرنس

محرکات اور تخلیقات

لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے پہلے اور بعد اس کانفرنس سے لمبی چوڑی توقعات اور جائزے و تبصرے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان ملکوں کے سربراہوں یانمائندہ وفود کے اسلام کے نام پر ایک جگہ جمع ہونے کو بڑی اہمیت دی گئی اور مختلف شخصیتوں، اداروں یا جماعتوں کی طرف سے زیر بحث مسائل کے لیے تجاویز اور مشورے بھی پیش کیے گئے۔ رجائیت پسند حضرات نے اس کانفرنس کو عظیم مقاصد کے حصول کا پیش خیمہ قرار دیا لیکن دوسری طرف اس موقع پربنگلہ دیش کے بطور ''حقیقت'' تسلیم اور بعض سربراہوں کے ذاتی طرز عمل نے ان حضرات کو خاصا مایوس کیا جو پہلے ہی سے ایسے خطرات کو سامنے رکھتے تھے یا اس کانفرنس سے فوری یا بڑی بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ خصوصاً ان اندیشوں کے حقیقت بننے سے یہ ''عظیم مسلم اجتماع'' ان کے لیے ایک گھٹن اور بوجھ بن گیا۔ ذیل کی سطور میں مقالہ نگار کے پیش نظر ''اسلامی چوتھی کانفرنس'' کا یہی دوسرا پہلو ہے۔ ..... (ادارہ)

.....................

نظام خلاف کا تصور مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لیےاکیسر سے بڑھ کر ہے، کیونکہ ''خلافت اسلامیہ'' کے تصور سے معاً وحدت ملی کا تصور بھی لازماً آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو برائے نام سہی تاہم جب تک ٹوٹا پھوٹا اور ڈھیلا ڈھالا نظام خلافت قائم رہا، ملت اسلامیہ بھی متحد اور مجتمع رہی، جب یہ بھی نہ رہا تو بادشاہتوں کی وہ ریل پیل ہوئی کہ رہے نام اللہ کا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس صورت حال سے پہلے ہی امت مسلمہ کو آگاہ کردیاتھا۔

إن ھذا الأمربدأ رحمة و نبوة ثم يكون رحمة و خلافة ثم كائن ملكاعضوضا  ثم كائن عتوا و جبرية وفسادا في الأرض يستحلون الحرير والفروج والخمور و يرزقون علي ذلك وينصرون حتي يلاقوا الله (البدایہ والنہایۃ،ج8ص20)

اس امر (حکومت) کی ابتداء رحمت اور نبوت سے ہوئی پھروہ رحمت اور خلافت ہوگئی، اس کے بعد جبری شاہی بن جائے گی،پھر وہ سرکشی، تشدد اور فساد فی الارض میں تبدیل ہوجائے گی، وہ ریشمی لباس، شراب اور بدکاری میں مبتلا ہوجائیں گے اور قدرتی طور پران کو ایسے مواقع بھی ملتے جائیں گے ، یہاں تک کہ وہ خدا سے جاملیں گے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ، خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک قائم رہی۔ پھر''خیرالملوک'' کا آغاز ہوا، جوچند ثانیہ سے زیادہ قائم نہ رہا۔ پھر بادشاہ آئے جو ملت اسلامیہ کا شیراز جمع اور متحد رکھنے میں بظاہر کامیاب رہے، چونکہ مسلمانوں میں ابھی حرارت موجود تھی، اس لیے ''خلافت اسلامیہ'' کے حاصل کرنے میں پھر ایکبار کامیاب ہوگئے مگر وہ ایک سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، بعد میں ملوک کے بجائے شاہزادے اور راج دلارے براجمان ہوئے، مگر اندر ہی اندر فتنے پرورش پاتے رہے، ان میں صاحب تدبیر بھی تھے اور سیاسی طور پر نااہل بھی، کچھ نیک بھی تھے اور بعض بادہ نوش بھی۔ تاہم ملی وحدت کا ظاہری ڈھانچہ کافی عرصہ تک قائم رہا لیکن اندرونی طور پر اتنے کھوکھلے ہوچکے تھے کہ ان کو ختم کرنے کے لیے کسی زبردست مہم کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی بلکہ جب کوئی چاہتا، بادشاہ کو پکڑتا اور پانی میں ڈبکیاں دے کر اسے جان سے مار ڈالتا۔ (معتزباللہ 255ھ کا یہی حشر ہوا) معتصم باللہ کے آخری دور (227ھ) تک کچھ بھرم رہا اس کے بعد طوائف الملوکی کا دور شرو ع ہوا، پہلے خود اماموں نے طاہریہ کے اقتدار کی داغ بیل ڈالی پھر صفاریہ نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی لیکن

چنداں اماں نہ داد کہ شب را سحر کند

ان سےسامانیوں نے ، پھر آل بویہ نے سراٹھایا، غزنویوں اور دیلمیوں کے ہاتھوں سامانیوں کابسترہ گول ہوا، سلجوقی اٹھے تو انہوں نے دیلمیوں کو چلتا کیا، ان میں خوارزم شاہی ابھرے، خوارزم شاہیوں اور بغدادی خلافت کے مابین رسہ کشی ہوئی تو دونوں نے تاتاریوں کی مدد سے اپنے آپ کو تبا     ہ كیا۔

الغرض خلافت کےنااہل والیوں نے خلافت چھوڑ کر پوری ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرکے یہاں تک محدود ٹکڑیوں میں اس کوبانٹ دیا کہ اب آپ کے عالم اسلام میں وہ بھی مملکتیں ہیں جن کا کل رقبہ 231 مربع میل اور آبادی ایک لاکھ 20 ہزار ہے۔

اس ساری شکست و ریخت کے بنیادی اسباب دو تھے۔مسلمانوں میں اسلامی فکر و عمل کا انحطاط اور وطن و نسل کی بنیاد پر حصول آزادی کی یلغار، جب کوئی ''اسلامی رشتے'' کے تحفظ کے لیے مخلص نہیں رہتا تو پھر لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ کسی غیر کی قیادت کاطوق اپنے گلے میں ڈالیں۔چنانچہ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ جو اپنی علاقائی آزادی کے نام پر اُٹھ کھڑا ہوتا تو اس کو کنٹرول کرنے کے بجائے الٹا اس کو کود مسلمانوں میں حواری بھی مل جاتے۔ او ربالآخر اپنے بھائیوں کی یہ حوصلہ افزائی رنگ لائی اور رنگ لاتی جائے گی۔اب سارا زور مسلمانوں کی آزادی پر صر ف ہورہا ہے، باقی رہا اسلام؟ سو وہ بقول اقبال۔

اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد

کا چلن عام ہوگیا ہے۔ہمارے نزدیک جب تک دونوں کی آزادی اور تحفظ کی کوئی سبیل نہیں نکالی جائے گی اس وقت تک خلافت کے لیے زمین ہموار نہیں ہوگی۔نظام خلافت کے احیاء کے بغیر عالم اسلام کے اتحاد کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اس لیے ماضی قریب میں حضرت جمال الدین افغانی، رشید رضا (لبنان) ثروت بیگ (ترکی) سعید جوکرویناتو(انڈونیشیا) محمد عبدہ (مصر) علی برادران (ہند) مفتی مین الحسینی (فلسطین) اور علامہ اقبال (پاکستان) نے اس کے لیے خصوصی تحریک چلائی۔

ترکوں کی خلافت کا نظام جب درہم برہم ہوا تو 926ء میں مکہ مکرمہ میں ایک عظیم ملی کانفرنس منعقد کی گئی، جس کی میزبانی کے فرائض شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے انجام دیئے۔ او ریہی پر مؤتمر العالم الاسلامی تشکیل کی گئی او ریہ طے ہوا کہ پورے عالم اسلام میں اس قسم کی کانفرنسیں ہوتی رہیں، چنانچہ 1931ء میں اس کا دوسرا اجلاس یروشلم میں بلایا گیا، متحدہ ہندوستان کے مسلم و فد کی قیادت علامہ اقبال نے کی، تیسرا اجلاس غالباً 1949ء میں کراچی میں، چوتھا1951ء میں پھر کراچی میں ہوا، پانچواں 1962ء میں بغداد میں، چھٹا 1964ء میں صومالیہ کے دارالحکومت میں ہوا، اب کے مسلم افریقہ کے نمائندہ نے بھی شرک کی۔

مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی (21۔ اگست 1969ء)پر عالم اسلام کےاتحاد کے لیے پھر کوشش تیز تر کی گئی، جس کے نتیجہ میں 22 ستمبر 1969ء کورباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ 1970ء میں وزراء خارجہ کی کانفرنس کراچی میں ہوئی، پھر 1972ء میں جدہ میں ، اس کے بعد 1973ء میں بن غازی (لیبیا) میں منعقد کی گئی اور حال میں اسلامی سربراہ کانفرنس 22 فروری 1974ء کو لاہور میں نہایت عظیم الشان تیاریوں سے ہوئی۔

اس ساری تفصیل کےپیش کرنے سے غرض یہ ہے کہ ان تمام مراحل میں کسی بھی مرحلہ اور موقعہ پر اسلامی نظام حکومت اور اسلامی اقدار حیات کے احیاء کے لیےمثبت پروگرام نہیں طےکیا گیا۔حالانکہ جو اکابر اس میں پیش پیش رہے تھے، وہ سرتا پا مسلم اور اسلام کے دلدادہ تھے اور یکطرفہ ٹریفک کے قائل نہ تھے، وہ مسلم او راسلام دونوں کی آزادی اور سرفرازی پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ اس دوہرے رشتے کے بغیر وہ اتحاد شہود نہیں ہوسکتا جس کے خواب مدتوں سے دیکھے جارہے ہیں۔

مختلف اوقات میں جن کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے ان کے پس پردہ جو محرکات کار فرما ہیں وہ صرف یہ ہیں کہ بڑی طاقتوں سے الگ الگ مار کھا کھا کر یہ لوگ تھک گئے ہیں، اب ایک دوسرے کا سہارا لےکر ان سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔اس لیے جن کو کسی سپر طاقت کا اعتماد حاصل ہے او ران کو کسی بیرونی جارحیت سے تحفظ میسر ہوگیا ہے وہ ان کانفرنسوں کے اغراض و مقاصد سے کچھ زیادہ دلچسپی کا اظہار بھی کررہے اور مسلم برادر ملکوں کے دشمن ممالک سے احتراز کرنے کی ضرورت بھی کم محسوس کرتے ہیں۔ یہ لوگ توپوں سے لڑ جاتے ہیں، بموں سے دست وگریبان ہونے کو تیار رہے ہیں، دشمن طاقتوں کے حضور سجدہ ریز ہوکر ذلت کی گھڑیاں بسر کرسکتے ہیں مگریہ بات ان کو گوارا نہیں ہے کہ اسلام کی راہ اختیار کرکے سرفراز ہوں، ان کو خدا سے نفس، رسول سے طاغوت، اسلام سےبے دینی اور وحدت ملی سے اپنی اپنی نجی قسم کی سیادت زیادہ عزیز ہے۔ اس لیے یہ کانفرنسیں ابھی تک ملت کے روگوں کی دوا تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔

غورفرمائیے! یہ سربراہ اُٹھے ہیں کہ کس طرح عالم اسلامی کے اتحاد کی داغ بیل پڑے، لیکن ان مدعیوں کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں تشریف لاکربقول وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرے۔ یعنی پاکستان سے وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی وحدت کو ختم کرکے اس کو پارہ پارہ کرتے ہیں اور آپ اس پرانگوٹھا لگادیں۔ .......غور کیجئے! جو لوگ ، برادر ملک کی ملکی وحدت اور عافیت کےٹکڑے کرنے کی سفارش کرسکتے ہیں وہ پورے عالم اسلام کے اتحاد کے لیےکہاں تک مفید خدمات انجام دے سکیں گے؟

کانفرنس میں طے ہوتا ہے کہ قضیہ فلسطین مل کر حل کریں گے لیکن اگلےدن آواز آتی ہے کہ انور سادات نے اسرائیل سے کہہ دیا ہے کہ وہ امن کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں

سربراہ کانفرنس عالم اسلامی کے اتحاد او رباہم مواسات کی حد تک کہاں تک مخلص اور مفید رہی۔ اس کا انداز اس سے فرماسکتے ہیں کہ:

انور سادات لاہور سے سیدھے دہلی پہنچے اور جاکر یہ بیان داغ دیاکہ بھارت کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیناچاہیے تھی۔

ملکی وحدت اور عافیت ہر ملک کابنیادی مسئلہ ہوتا ہے، جو لوگ اندرون ملک اُٹھ کر اس کو پارہ پارہ کرنے جرأت کریں، چاہیے کہ ان کے خلاف سب صف آراء ہوں او ران کی حوصلہ شکنی کریں مگر ہوا یہ کہ جب شیخ مجیب ارحمٰن تشریف لائے تو سب سے زیادہ اس کو خوش آمدید کہا گیا۔ گویا کہ وہ اپنے ، اپنے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ : اگر کوئی بد باطن اور قوم کا غدار شخص، دشمن اسلام طاقت سے سازباز کرکے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کو ''زندہ باد'' کہنا چاہیے۔

جب لاہور میں کانفرنس ہورہی تھی انہی مبارک لمحات میں عالم اسلامی کے اتحاد کاڈھنڈورہ پیٹنے والے دہلی میں بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے،او رجن کو پہنچنے میں دیر ہوگئی انہوں نے اگلے دن دہلی پہنچ کر سجدہ سہوا دا کیا۔ کم از کم گھڑی پل تو صبر کرتے، آخر اتنی جلدی کیا پڑی تھی۔ساری عمر پڑی تھی سر د مہری کی نمائش کا اہتمام ہزار بار کیا جاسکتا تھا۔ تازہ زخموں پر نمک پاشی کے لیے اتنی پھرتی اور چستی کا مظاہرہ کرنے سے پرہیز ہی کیا ہوتا تو کیا بہتر ہوتا۔

بھارت میں مسلم کشی کی جو گرم بازاری ہے او ربرسوں سےجاری ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں محب وطن پاکستانیوں کاجو حشر کیا گیااور کیا جارہا ہے، وہ شاید یہودیوں کا بخت نصر کے ہاتھوں بھی نہیں ہوا ہوگا، فلپائن میں مسلم کے خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں، کشمیری مسلمانوں کو جس طرح اقلیت میں تبدیل کرنےکی سازشیں کی جارہی ہیں،حیدر آباد دکن اور دوسری مسلم اکثریت کی ریاستوں میں مسلمانوں کو جس طرح غلامی کے شکنجہ میں کس دیا گیا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں رہا، اگر یہ کانفرنس ان مظلوموں کے سلسلے میں بھی ہمدردی کے دو بول پاس کردیتی تو کون سی قیامت قائم ہوجاتی؟

کانفرنس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایک راہنما کاانتخاب بھی ہونا چاہیے، جس کی کمان میں اس کارروائی کا سفر جاری رکھا جاسکے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ شرکاء سربراہوں کو یہ صدا کچھ اجنبی سی محسوس ہوئی یعنی وہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلامی کے جس اتحاد کے لیے اتنے جانکاہ جتن کیے جارہے ہیں اس کی نوعیت ''آوارہ اتحاد'' کی ہو۔ جس کانفرنس کے معزز شرکاء کے سوچنے کا انداز یہ ہو، غورفرمائیے! اس کا انجام کیا ہوگا؟

عالم اسلامی کے اتحاد کے لیے جمال الدین افغانی، علامہ اقبال،طباطبائی جیسے اکابر کے نام استعمال کیے جارہے ہیں، کیا کبھی یہ بھی سوچا کہ ان کے نزدیک عالم اسلامی کے اتحاد کی نوعیت کیا تھی؟ بخدا! اس کی نوعیت بے امام نماز کی نہیں تھی او رنہ بےنماز امام کی تھی۔

ایک اسلامی برادر ملک نےکانفرنس کے دوران بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر میزبان ملک سے یہ گولی داغ کر اتحاد و اتفاق کی کوششوں کا ثبوت دیا کہک جناب اسی طرح کے کچھ اور حقائق بھی ہیں، ادھر بھی نظر کرم ہو۔

کانفرنس سے واپسی پرگھر جاکر دو برادر ملکوں نے اپنی اپنی سرحدوں سے مہلک اسلحہ کی زبان میں باتیں کرکے کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں اپنے اخلاص کا ثبوت دیا۔

کانفرنس کی روئیداد کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں دفاعی، اقتصادی اور خارجہ اقتدار کے بارے میں باہمی تعاون کے کچھ ٹھوس فیصلے اور قرار دادیں سامنے نہیں آئیں، جن کےبغیر کانفرنس کی افادی حیثیت کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آتی۔