فرضی خلیفہ بلا فصل اور وصی رسول اللہ کے ایک دلچسپ وکیل

تازہ شمارہ

آج سے تقریباً دس سال پہلے ''معارف اسلام'' شیعہ معاصر کے فرضی نظریات او رجارحانہ مضامین پڑھ کر ہم نے ''خلیفہ بلا فصل اور وصی رسول اللہ'' کےعنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جو کاغذوں کے ڈھیر کے نیچےدب کر رہ گیا تھا کئی سالوں کے بعد ہاتھ لگا تو ماہنامہ ''محدث'' لاہور نے اٹھا کر بعینہ شائع کردیا۔بات گو اب بھی تازہ تھی مگر تاریخی چھاپ وہ نہیں رہی تھی۔مثلاً مضمون ہم نے یوں شروع کیاتھا:

''شیعہ حضرات کےرسالہ ماہنامہ ''معارف اسلام'' لاہور کا تازہ شمارہ ''علی و فاطمہ نمبر'' ہمارے سامنے ہے۔'' (محدث محرم الحرام 1393ھ)

ظاہر ہے تازہ شمارہ علی و فاطمہ نمبر 93 یا 1392ھ ہی ہوسکتا ہے لیکن اب یہ بات نہیں تھی کیونکہ اب دس سال بعد شائع ہورہا ہے۔بس پھر کیاتھا، یار دوستوں کو بہانہ مل گیا، لگے ادھر ادھر کی کہنے کہ:

''ہم نے اپنے ریکارڈ میں تلاش کیا مگر ہمیں معارف اسلام کا تازہ شمارہ علی و فاطمہ نمبر ماہ نومبر و دسمبر 1972ء کا مشترکہ نہیں ملا۔کوئی ایسا ہوتا تو ملتا۔'' (معارف اسلام جون 1973ء،ص13)

معزز معاصر ''طلوع اسلام'' کے ادارہ سے خط موصول ہوا کہ ''یہ کون سا تازہ شمارہ ہے'' ہم نے ''معارف اسلام'' سے پتہ کیا ہے۔ وہ انکاری ہیں۔ (ملخصاً)

جیسے لکھ کر راقم الحروف کو ذہول ہوگیاتھا، ہوسکتا ہے کہ معزز معاصر معارف اسلام کو بھی ذہول ہوگیا ہو لیکن جب ہم موصوف کی یہ عبارت ''ہم نےاپنے ریکارڈ میں تلاش کیا.....'' پڑھتے ہیں تو پھر ان کے ذہول کا قصہ جعلی محسوس ہوتا ہے جو صحافتی دیانتداری کے خلاف ہے کیونکہ یہ سبھی کچھ ان کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ دراصل وہ سمجھتے ہیں کہ ''عزیز زبیدی'' دنیا سے شاید چل بسا ہوگا، اب پیچھے کون ہے جوحوالوں کی تلاش کے لیے اتنی کاوش کرے گا۔ ویسے بھی اس قسم کے مکروفریب ان کے ''تقیہ'' کی جان ہیں۔ اس لیے حتی المقدور نباہنے کی کوشش کرتے ہیں پر وہ رہ گیا تو زہے نصیب ورنہ ''ثواب'' تو ان کا کہیں نہیں گیا۔ یس یوں سمجھئے کہ محترم مدیر جناب غیاث الدین صاحب نے حقیقت حال کے چھپانے کی جو کوشش کی ہے بقول شیعہ اکابر کے یہ چال کامیاب نہ سہی، ثواب تو انہوں نے کما ہی لیا۔

علی و فاطمہ نمبر 1963ء تھا:

ان دنوں میں معارف اسلام کے دوسرے شماروں کے علاوہ ہمارے سامنے زیادہ تر ''علی و فاطمہ نمبر'' ماہ نومبر و دسمبر 1963ء کا مشترکہ شمارہ بھی تھا، کہیں اس کا ماحصل پیش کیا تھا کہیں اس کی عبارت کے بعینہ اقتباسات درج کیے تھے۔ سہو و نسیان ممکن ہے لیکن یقین کیجئے ہم نے ''تقیہ'' سے کام نہیں لیا تھا کیونکہ ہمارے دین میں ''جعلسازی'' حرام ہے، کارثواب نہیں ہے۔

اب فاضل مدیر محترم غیاث الدین صاحب نےمعارف کے دو شماروں (جون ، جولائی 1973ء) میں ہماری گذارشات پرنقد و تبصرہ کیا ہے او راپنے روایاتی ''تبرا بازی'' سےنوازا ہے۔ لیکن اصولی طور پر جو باتیں عرض کی گئی تھیں، ان کی طرف میرے بھائی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ باقی رہا یہ کہ کیوں؟ تو یہ آپ ان سے پوچھئے! ہمارے لیےتو ان سے دریافت کرنا اس لیےبھی مشکل ہے کہ تبرا تول کے اور تقیہ کرکے وہ تو ثواب لوٹیں گے او رہم ناحق بدمزہ ہوں گے۔آخر کوئی اس جماعت پرکیسے اعتماد کرے جس کا یہ نظریہ ہو:

إن تسعة إعشار الدين في التقية ولا دين لمن لا تقية له (اصول كافي مطبوعہ لكھنؤ،ص481)

''دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ دیندارنہیں۔''

(بروایت اصول کافی) امام باقر فرماتے ہیں ، تقیہ میرا اور میرے باپ دادے کا دین ہے۔

ہماری گذارشات:

ہم نے اپنے مضمون (محدث ماہ محرم 1393ھ) میں یہ کہا تھا کہ:

1۔ شیعہ حضرات حضرت علی و آل علی کے سواء باقی ساری دنیا کو تقیہ سے بہلاتے ہیں۔

2۔ ان کی تمام تر توجہات کا مرکز کتاب و سنت سے زیادہ علی اور آل علی ہے۔

3۔ شخصیت پرستی کا روگ ان کو لگ گیا ہے۔

4۔ حضرت علی کی خلافت کےلیے حضورﷺ کی وصیت کا نعرہ ایک تہمت ہے۔

5۔ حضرت علی کے بارے میں شیعوں کے جونظریات ہیں انکی رو سے ان کے لیے خلافت اسلامیہ کے بجائے مقام عرش پر نیابت خدا چاہیے تھی۔

6۔ ہمارا جو علی ہے وہ سزاوار خلافت ہے مگر اپنی باری پر جو قدرتی ترتیب رکھتی ہے۔

7۔حضرت علی سیاسی سے زیادہ علمی شخصیت تھے۔

8۔ اب اگر شیعوں کی بات مان بھی لی جائے تو کیاخلاف عمل چوتھی جگہ سے سرک کرکے پہلی جگہ پر فٹ ہوکر وہ خلیفہ بلا فصل ہوجائیں گے؟ حالانکہ نہیں۔ پھر خواہ مخواہ امت کاوقت کیوں ضائع کررہے ہو وغیرہ۔ مگر معاصر محترم کے دونوں شماروں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے ادھر ادھر کی ہانکی ہیں، کیا موضوع کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی ہے؟

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

معارف اسلام

معارف اسلام (شمارہ جون،جولائی 1973ء) شیعوں کا ماہنامہ ہے، عرصہ سے جاری ہے۔ اس کی ثقاہت کا پایہ کتنا ہے؟ اسے اُٹھا کر خود ہی دیکھ لیجئے۔اس کے جذبات، باتیں، افکار، اسلوب خطاب اور علمی ثقاہت، غرض جو شے بھی دیکھیں گے، بس سبحان اللہ پڑھیں گے۔ جیسے ماتم کررہے ہوں یا بال نوچنے کوپڑتے ہوں۔ اگر طبیعت حاضر ہوئی توپھر یوں جیسے کوئی اپنی لے میں گنگنا رہا ہو۔ بہرحال علم اور سنجیدگی کی تلاش وہاں بالکل بےفائدہ ہے۔ یہ طنز نہیں بلکہ کچھ کام کے آدمیوں کے ضیاع کا رونا ہے۔انا  للہ۔

دوستوں سے ایک گلہ

بدقسمتی سے ہمارے ہاں دو فرقے ایسے ہیں جن سے گفتگو اور تبادلہ خیال کرکےکچھ لطف نہیں آتا۔ ایک شیعہ دوسرے دوست بریلوی کرمفرما۔ ان سےکلام کرنےکے لیے ضروری ہے کہ انسان !

(الف) پہلے سر اور ڈاڑھی کےبال منڈوائے، بعد میں

(ب) پگڑی اتار کر اسے گھر رکھ دے

(ج) ورنہ پگڑی نہیں ہے یا سر اور ڈاڑھی کے بال

اس اعتبارسے شیعہ دوستوں کا ہم احترام کرتے ہیں کہ یہ یزید کے دشمن ہیں مگر یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ علمی محاسبہ اورمذہبی مناقشہ کے دوران، زبان یزید کی استعمال کرتے ہیں یا جیسے کسی بالشویک کی دانتری اور قلم یوں چلاتے ہیں جیسےابن زیاد اور حجاج بن یوسف کی تلوار۔

یہی حال بریلوی کرم فرماؤں کا ہے کہ اس عظیم ہستی اور رسول اعظم ﷺ کے بڑے عاشق بنتے ہیں جنہوں نے گالیاں کھاکر دعائیں دیں۔ لیکن یہ ''عشاق کرام'' بات ہی گالیوں سے شروع کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان کے دلاول ہیں جہاں

(الف) عقل و ہوش کی ساری قدریں

(ب) اور علم و حقائق کے سارے معیار

اپنا سرپیٹتے او ران کی جان کو روتے ہیں او ربالکل یوں جیسے یہ لوگ محرم مناتے ہیں۔ یہ دونوں فرقے عوام کی زود اعتقادی اور سادہ لوحی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں او راپنے کام و دہن کے چسکوں کے لیے بُری طرح ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کے غیر علمی اور عیر معیاری ''ذاکرانہ اور واعظانہ ٹوٹکوں اور عامیانہ علم کلام'' کی وجہ سے ، جدید طبقہ، دین اسلام سے بدکنے لگا ہے اور یہ لوگ دراصل دین اسلام اور خدا کے منکروں کو دین حق کے خلاف ''انگشت نمائی'' کے مواقع بھی مہیا کرتے ہیں۔ ان کی ذہنی اور فکری سطحیت کی مضرت اگر خود ان تک محدود رہتی تو کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا کہ وہ جانیں! لیکن کیا کیا جائے کہ دشمنان دین ان کی اس علمی کم مائیگی اور سطحیت کو دین اور اہل دین کو بدنام کرنے کے لیےاستعمال کیا کرتے ہیں۔

ذہنی لحاظ سے اگر ملت اسلامیہ کو روشن اورزرخیز رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام اور بالخصوص نوخیز نسل کو ان کی تقریروں، ان کے لٹریچر او ران کی مجالس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔کیونکہ ان کی باتیں قریباً قریباً عقل و ہوش اور علم کے مسلمہ اصولوں کے بالکل خلاف جاتی ہیں، دلائل بےوزن اور خوش فہمیوں کا پلندہ ہوتے ہیں جوقلب و نگاہ کےلیے مہمیز کی بجائے بریکیں لگاتے ہیں۔ اگر ان کے علم کلام کو سچ تصور کرلیا جائے تو یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اسلام کوئی ''نظام حیات'' نہیں ہےبلکہ چند عظیم شخصیتوں کی صرف شخصی عظمتوں کا نقیب اور پاسبان ہے اور خدا کو بندوں کی عافیت اور آخرت کی بھلائی منظور نہیں، صرف اپنے پسندیدہ حضرات کی یادیں منانے، ان کی یادوں کو تازہ رکھنے، ان کی منقبت اور محامد کے''پُل باندھنے'' کے لیے وہ بندگان خدا کی تخلیق کررہا ہے۔اگر یہی بات ہوتی تو قرآن اور رسول کے بھیجنے کا تکلف کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ ان کے بغیر تویہ بازار ہندؤوں، یہودیوں، عیسائیوں اور بُدھ مت والوں نےبھی گرم کررکھا تھا۔بہرحال بعض مجبوریاں درپیش نہ ہوتیں تو یقین کیجئے کہ ہم ان کو قطعاً مخاطب بھی نہ کرتے۔ کیونکہ ان سے بات کرنے میں لطف نہیں رہا۔ صرف اتمام حجت والی بات رہ گئی ہے او ربس!!

معارف اسلام جون وجولائی 1973ء

اس وقت معزز ماہنامہ معارف اسلام جون و جولائی 1973ء کے شمارے ہمارے سامنے ہیں جن میں ہمارے فاضل دوست جناب غیاث الدین صاحب نے ہمارے ایک مضمون کا تعاقب فرمایا ہے۔ اب چاہیےتو یہ تھا کہ قارئین سےکہتے کہ ماہنامہ محدث (محرم1393ھ) اور معارف اسلام کے مندرجہ بالا شمارے اُٹھا کرخود پڑھ لیں اور پڑھ کر خود ہی اندازہ فرما لیں کہ ہم نے کیاعرض کیا ہے اور جناب غیاث الدین صاحب کدھر کو او رکس انداز میں اٹھ دوڑے ہیں۔لیکن اس خیال سے کہ راقم الحروف کی خاموشی کو غلط معنی پہنائے جائیں گے، مکرر عرض کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے، لیکن اس کے باوجود قارئین سے پھر بھی یہی درخواست کریں گے کہ دونوں نگارشات کو سامنے رکھ کر وہ دونوں کو تولنے کی زحمت ضرور اٹھائیں۔

فاضل تبصرہ نگار نے کسی دائرہ میں رہ کر بات نہیں کی، بلکہ یوں چلے ہیں جیسے صحرا میں باؤگولہ یا ایک بھٹکا ہوا راہی۔ اس لیے بات کو سمیٹنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ دراصل یہ ''بات بے ڈھنگی'' بھی ان کی ''غیر واضح ذہنیت'' کی غماز ہے، انہیں خود ہی معلوم نہیں کہ ان کے بنیادی اور اصولی مسائل کیا ہے اور جس مضمون کا وہ تعاقب فرما رہے ہیں وہ کن پہلوؤں پر توجہ دینے کے متقاضی ہےبہرحال ہم کوشش کریں گےکہ ان کو معروف دائروں میں رکھ کر بات کی جائے تاکہ اخذ نتائج میں آسانی رہے۔

معارف اسلام شیعہ دوستوں کی ''اصول کافی'' ہے اور باقی اہل سنت والجماعت کے لیے بہت بڑا ناصح ، لیکن ''تقیہ'' جیسےبزدلانہ آڑ کے باوجود صحابہ کے سلسلہ میں وہ بغض و عناد کے جو جذبات رکھتا ہے وہ بہرحال بے قابو ہوجاتے ہیں۔ وما تخفي صدورھم أکبر

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

معزز معاصر ''معارف اسلام'' کے فاضل مدیراپنے مخصوص لہجہ اور زبان میں شکایت فرماتے ہیں کہ ہم نے وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کیا اور تفرقہ ڈالنے والی باتیں لکھ کر فضا کو مکدر کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔ (ملخصا معارف اسلام جون 1973ء، ص10۔11)

ہم خود اس امر کو بُرا جانتے ہیں کہ تفرقہ ڈالنے والی باتین کی جاویں۔لیکن کیا کیا گیا جائےاگر کوئی صاحب چپ ہی نہ رہنے دیں۔''حضرت ناصح اور واعظ'' کی صلح جوئی کے جو نمونے ان کی تقریبات میں سامنے آتے رہے ہیں وہ تو محتاج بیان نہیں ہیں، ابھی ''حالیہ محرم'' (1394ھ) میں رنگ برنگے جوجو غبارے چھوڑے جارہے ہیں، وہ بھی ابھی تازہ ہیں، ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں، عیاں راچہ بیان؟ سردست ہم ان دوستوں کی ان چیرہ دستیوں اور حوصلہ شکن تلمیحات کے کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھتے ہیں جو ماہنامہ ''معارف اسلام'' میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں وہ بھی ''مشتے نمونہ از خردارے'' کے طور پر، خاص طور پر ان نفوس قدسیہ کےبارے میں، جوشمع رسالت کے پروانے او رپیغمبر خداﷺ کے پاک صحابہ تھے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، بلکہ منکرین خدا بھی اپنے ''رہنماں کے ان یاروں'' کا احترام ہی کرتے ہیں جو ان کے ''یار غار'' کہلائے۔مگر شیعہ دوست ہیں جن کو جتنی بُرائیاں رسول خدا ﷺ کے ''یاروں'' میں نظر آتی ہیں، دوسروں میں نہیں۔

جو بات ہرمعقول انسان کے لیے''وجہ شرم اور عار ''ہے وہی کسی کے لیے وجہ اعزاز او رکارثواب بن جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
فکر ہر کس بقد رہمت اوست

صحابہ اور شیعہ

ذیل میں شیعوں کے معارف اسلام کی وہ خدمات ملاحظہ فرمائیں جو رسول خداﷺ کے عظیم صحابہ کے خلاف انجام دے رہا ہے اور ساتھ یہ بھی مشاہد کریں کہ یہ کس قدر اشتعال انگیز اور افسوسناک ہیں۔لیکن ہم چاہتے ہیں کہ صحابہ کے بارے میں پہلے آپ خدائے قرآن کانقطہ نظر معلوم فرما لیں۔

بدر و اُحد میں شریک صحابہ

غزوہ اُحد میں وہ تمام صحابہ شریک تھے جو غزوہ بدر میں شریک رہے جن کے بارے میں حق تعالیٰ نے یہ اعلان کیاہے کہ :

اللہ نے ان کوپا ک کیااور شیطانی ناپاکی ان سے دور کی﴿لِيُطَهِّرَ‌كُم بِهِ وَيُذهِبَ عَنكُم رِ‌جزَ الشَّيطـٰنِ...١١﴾... سورة الانفال" اللہ تعالیٰ نے ان کویقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ المُؤمِنينَ﴾

ان صحابہ میں وہ بھی تھے جنہوں نے ''شجرۃ الرضوان'' کے نیچے حضورﷺ سے بیعت کی او راللہ تعالیٰ نے ان کےمتعلق یہ اعلان کیا۔

﴿إِنَّ الَّذينَ يُبايِعونَكَ إِنَّما يُبايِعونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيديهِم...١٠﴾... سورة الفتح

جو لوگ آ پ سے بیعت کررہے ہیں وہ واقع میں اللہ تعالیٰ سےبیعت کررہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ:

﴿فَمَن نَكَثَ فَإِنَّما يَنكُثُ عَلىٰ نَفسِهِ﴾

پھر جو شخص (بیعت اور عہد) توڑے گا تو اس کی توہین کا وبال اس پر ہوگا۔

تو عرض ہے کہ یہ صرف ایک اصولی بات کے طور پرفرمایا گیا ہے۔جہاں تک شرکاء صحابہؓ کی بات ہے اس کے متعلق فرمایا کہ:

﴿لَقَد رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ إِذ يُبايِعونَكَ تَحتَ الشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ ما فى قُلوبِهِم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهِم وَأَثـٰبَهُم فَتحًا قَر‌يبًا ﴿١٨﴾... سورة الفتح

اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے راضی ہوا ۔ جنہوں نےدرخت کے نیچےبیعت کی اور جو کچھ ان کے دلوں میں تھا، اللہ نے اس کو معلوم كيا،چنانچہ ان پر طمانیت نازل کی او ران کو لگے ہاتھ ایک فتح دے دی۔

گو یا کہ اللہ کے ہاں وہ قابل اعتماد اور صاحب دل لوگ تھے۔

سورہ توبہ میں تو ان کانام لےکرکہا۔

﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ...١٠٠﴾... سورة التوبة

مہاجرین اور انصار میں سے جنہوں نے پہلے سبقت کی اور دوسرے وہ لوگ جو جذبہ نیک کے ساتھ ان کے بعد داخل ایمان ہوئے۔

﴿رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ﴾

خدا ان (سب سے) خوش ہوا اور وہ اس سے خوش ہوگئے۔

خدا کی طرف سے صحابہ کی یہ ''تعدیل'' خدائی معیار کی ایک تعدیل ہے لیکن اس كے باوجود اس کے برعکس شیعہ کرم فرماؤں کے ماہنامہ معارف اسلام نے ان نفوس قدسیہ کی شان اقدس کے خلاف جو رکیک حملے کیے اور جس نگاہ سے اسے دیکھا ہے آپ اس کا بھی ایک ہلکا سا نمونہ ملاحظہ فرما لیں۔

غزوہ اُحد میں شریک صحابہ اور شیعہ

معار ف اسلام نے غزوہ اُحد میں شریک صحابہ کو جو خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ یہ ہے:

1۔ پیغمبر ﷺ کے ساتھ عام طور پر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔''احساس کمتری'' ابھی پوری طرح دلوں سےنکلا نہ تھا۔

2۔ غریب و غلام او رپس ماندہ طبقہ کے افراد کو دور جاہلیت میں ''ادنیٰ کاموں'' کے علاوہ کوئی خاص تربیت نہ ملی۔

3۔ جو جماعت پیغمبرؐ کے ساتھ شامل ابھی وہ بھی پوری طرح مستقل نہ ہوپائی تھی۔ پیغمبر سے خلوص وابستگی اور جان نثاری ابھی درجہ کمال کو نہ پا سکی تھی اور یہ ہے بھی فطری سی بات، ابتدائی زمانہ ہونے کی وجہ سے ابھی انہوں نے پیغمبر کے بارہ میں وہ کچھ تفاصیل نہ دیکھی تھیں جو انہیں دیکھنے کی تمنا تھا(نبوت کا آغاز2۔ اپریل 610ء میں ہوا مدینہ طیبہ میں داخلہ 10۔اکتوبر 622ء کو ہوا۔ غزوہ اُحد3ھ کو پیش آیا۔ وفات 6 جون 632ء کو پائی۔ اس مجموعی مدت میں غزوہ اُحد تک کا دور تقریباً پندرہ سال بنتا ہے۔بعد کا تقریباً آٹھ سال لیکن اس کے باوجود وہ ابھی ابتدائی زمانہ رہا او ریہ کامل۔ معارف اسلام کی شیعی منطق کا اچھوتا نمونہ ہے۔ (زبیدی)

4۔ کچھ مفکر قسم کے حضرات بھی اسلامی صفوں میں شامل تھے۔یہ لوگ دانشور......طبقہ تو کہلایا جاسکتا ہے، انہیں سر بازی کی جرأت نہ ہوئی (یہ جن اکابر کی طرف اشارہے،آپ سمجھ گئے ہوں گے ، عیاں راچہ بیان۔زبیدی

5۔ انصار مدینہ او رمہاجرین کی اکثریت جنگ آزما نہ تھی۔ انصار نے تو اس سے پہلے کبھی تلاور کسی موقع پر بھی نہ اٹھائی تھی۔مسلمانوں کی اس مشکل کونوجوان علی نے آسان کردیا۔ (معارف اسلام ص 43۔44۔ علی و فاطمہ نمبر 65ء شمارہ ماہ رجب و شعبان 1387ھ)

ان افراد میں مندرجہ ذیل انسانی کمزوریاں تھیں:

1۔ اسلام کے فلسفہ حیات کو سمجھ نہ سکے۔

2۔ لالچ اور اغراض ابھی دلوں میں موجود تھے۔

3۔ دوراندیشی او رجنگی تدبیر کا فقدان تھا۔

4۔ نظم و ضبط کی اہمیت سے واقف نہ تھے۔

5۔مرکزیت او رمرکز سے رابطہ کے سنہری اصولوں سے ناواقف تھے

6۔اطاعت رسول کے صحیح مفہوم سے آشنا نہ تھے۔

7۔ (ان میں) وسعت نظر پیدا نہ ہوئی تھی۔

8۔ ذہانت و فطانت، جرأت و تہور او راجتماعی بقاء کے اصولوں سے بہرور نہ ہوئے تھے۔ (معارف اسلام، ص48، جنوری 1966ء)

خالد بن ولید کے حملہ کے وقت فرار ہونے والے تن آسان اگر ذرہ ہمت سےکام لیتے تو .....(ایضاً ص49)

انصار مہاجرین

''مہاجرین میں اکثریت'' مصلحت پسند طبقہ کی تھی۔ انصار نے جہاں ''غیر مخلص عناصر'' کی اکثریت پیش کی۔ (ایضاً ص53)

ہمیں اُحد کی جنگ میں ایک تیسرے طبقے کا سراغ بھی ملتا ہے یہ ''غیر مخلصین'' کا گروہ تھا مگر اپنی فطری بزدلی کی بنا پر وہ کھل کر سامنے نہ آسکتے تھے۔ یہ طبقہ نظری، فکری او رسیاسی طو رپربلوغت کو قطعاً نہ پہنچا تھا۔ ان کے اسلام کاباعث محض بھیڑ چال اور مبہم خیالات تھے اور اگر خدانخواستہ پیغمبر مارے جاتے تو یہی لوگ جن کی اکثریت تھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتے او رمخالفین سےمل کر اسلام کے باقیات و آثار کو ختم کردیتے۔ منطقی طور پر اس طبقے کی اکثریت انصار میں ہونی چاہیے تھی اور تھی۔ (ایضاً ص52)

اُحد میں شریک صحابہ کی تعداد تقریباً650 تھی جن میں خلفائے راشدین ، دوسرے عظیم مہاجرین اور انصار شریک تھے یہ خراج عقیدات ان کو پیش کیا جارہا تھا۔ غور فرمائیے ۔نزاکت حالات کاکس قد راچھوتا احساس کیاجارہا ہے۔

حضرت انسؓ ، براءؓ اور جریرؓ

حضرت انس خادم رسول اللہﷺ ، حضرت براء بن عازب انصاری حضورﷺ کے جلیل القدر صحابی جنگ جمل، صفین او رنہروان میں حضرت علی کے ساتھ اور سپاہی اور حضرت جریر بن عبداللہ بحلی مشہور صحابی ہیں۔ ان کےمتعلق ''معارف اسلام'' رقم طراز ہے۔

''عمر بن سعد ناقل ہے کہ جناب علی علیہ السلام نے منبر پر چڑھ کر لوگوں کو قسم دی کہ جس شخص نے غدیر خم کے روز رسول اللہﷺ سےمن کنت مولاہ والی حدیث کو سنا ہے وہ کھڑے ہوکر بیان کرے، پس لوگوں نے گواہی ادا کی۔ منبر کے نیچے انس بن مالکؓ او ربراء بن عازبؓ اور جریر بن عبداللہ بیٹھے تھے۔ جناب امیر علیہ السلام نے مکرر یہی فرمایا۔ لیکن ان میں سے کسی نے کچھ نہ کہا۔جناب علی علیہ السلام نے فرمایا: الہٰی ! جس شخص نے اس شہادت کو چھپایا ہے باوجودیکہ وہ اس کو جانتا ہے ، اس شخص کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک اس کے لیے کوئی نشانی نہ مقرر کردے کہ وہ اس سے دنیامیں پہچانا جائے،عمر بن سعد کا کہنا ہے کہ انس مبرص (برص کی بیماری میں مبتلا) ہوئے اور براء اندھے ہوگئے اور جریر ''بکواس'' کرتے کرتے واپس آئے۔الخ (معارف اسلام علی و فاطمہ نمبر ص42 جمادی الثانی و رجب 1386ھ مطابق اکتوبر و نومبر1966ء)

غور فرمائیے ! کس قدر شریفانہ زبان اور کس قدر صلح جو یانہ انداز ہے۔

حضرت صدیق اکبر

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں ان کے اظہار خیال کا کیا انداز ہے۔ذیل کی سطور ملاحظہ فرمائیں۔

جناب رسول خدا ﷺ کی رحلت کے بعد ''اُمت'' نے اہل بیت رسول سے کشمکش شروع کردی اور اس سے انحراف کرنے کو اپنی حیات کا مقصد بنا لیا.... اس ظلم کی آل رسول میں سے پہلی شہیدہ ظلم جناب فاطمۃ الزہرا علیہ السلام ہیں کہ .... جس نے اس کو رنجیدہ کیا اس نے مجھے رنجیدہ کیا.... پس اولاد فاطمہ طاہرہ سےروگردانی او ران کے طریقے سے علیحدگی اختیار کرنے سے کیا ''نجات'' ممکن ہوسکتی ہے؟)(معارف اسلام علی و فاطمہ نمبر ، نومبر و دسمبر1964ء)

ناقہ رموز مملکت کی ہلاکت آفرینی نے جب باغ فدک کو منہ مارا اور وہ نہ صرف اس کے منہ کا لقمہ بنا بلکہ جگالی کا سامان بنا تو .... (ایضاً)

رسول حق منزلیں طے کرتے رہے، غار میں پہنچے وہاں اپنے یار کو ''لا'' کہنا پڑا (یعنی لا تحزن ان الله معنا) ليكن خانہ نبوت میں کسی کو بھی ''لا'' کہنے کی ضرورت نہ پڑی'' (ایضاً)

انتہا ہے کہ سیدہ عالم کے گھر پرلکڑیاں جمع کردی گئیں او رآگ لگائی جانے لگی۔ (معارف علی و فاطمہ، اکتوبر نومبر1966ء)

سقیفہ بن ساعدہ کے واقعات کی بنا پر دنیانے آل محمد سےرخ پھیر لیا جس کے نتیجہ میں بعد ازاں نامعلوم برسر اقتدار آگئے۔ (معارف اسلام، ص26 شہیدنینوا نمبر 1387ھ)

حضرت عمر

حضرت عمر کاذکر خیر یوں فرمایا:

امیرالمؤمنین کا ارشاد کہ ''میں نے کبھی پیغمبر کے احکام سے سرتابی نہیں کی'' یہ ان لوگوں پر طنز ہے کہ جو پیغمبر کے احکام کو رد کرنے میں بیباک تھے اور انہیں ٹوکنے کی جسارت کر گزرتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب پیغمبر کفار قریش سے صلح پرآمادہ ہوگئے تو صحابہ میں سے ایک صاحب اتنے بُرا فروختہ ہوئے کہ وہ پیغمبر کی رسالت میں شک کرنے لگے.... اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مخاطب (یعنی حضرت عمرؓ) شک کی منزل سے آگے نکل چکا تھا..... اسی طرح جیش اسامہ کے ہمراہ جانے کے تاکیدی حکم کو ٹھکرا دیا گیا اور ان تمام سرتابیوں سےبڑھ کر وہ سرتابی تھی جو تحریر وصیت کے سلسلے میں ظاہر ہوئی۔ (ایضاچ ص5)

...... عمر نہ صرف بیت المال سے روزینہ لیتے تھے بلکہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو جمع کرکے ''مانگ'' بھی لیتے تھے۔ (ایضاً ص16)

اس ضمن میں ایک صحابی کا واقعہ ملحوظ رہے جس نے آنحضرت ؐ کے سامنے توریت پڑھنا شروع کی......اور آپ نے فرمایاکہ خدا کی قسم اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو تم مجھے چھوڑ کر یہودی بن جاتے (معارف اسلام ص58۔نومبر دسمبر 1962ء علی و فاطمہ نمبر)

حضرت ابوسفیان کی اہلیہ

جونہی ابوسفیان کے نعرے بلند ہوئے اس کی بیوی ہندہ بن عتبہ کھڑی ہوگئی وہ خوب بنی ٹھنی تھی۔ (علی و فاطمہ نمبر، نومبر دسمبر 1965ء)

توہین نبی

اگر یہ سوال ہو کہ اگرکوئی زمانے کا نیک ہو،پارسا ہو، زاہد ہو، متقی ہو، غوث و قطب ہو صحابی ہو حتیٰ کہ اگر ''نبی'' ہی سامنے ہو تو کیا پھر امام حسین علیہ السلام کو ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلینی چاہیے اس کے لیے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ (علی و فاطمہ نمبر ماہ ستمبر1971ء)

اہل حدیثوں کاذکر

سہارا ان(وہابیوں)کو نجد کے عبدالوہاب کی تحریک وہابیت ہی کا رہا..... صحیح بخاری میں روایت موجو دہے کہ :

''....... صحابہ نے پھر کہا یارسول اللہ نجد میں؟ حضورؐ نے دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا :وہاں (یعنی)نجد میں زلزلے اور فتنے ہیں وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا'' (معارف اسلام ص11، جون 1973ء)

اخیری حوالہ بالکل تازہ اور اسی شمارہ کا ہے جس میں ہمارے محترم فاضل غیاث الدین صاحب نے ''صلح جوئی اور نزاکت وقت'' کا درس دیا ہے۔ الغرض طرار اور نباشوں کا یہ وہ سنگدل ٹولہ ہے، جس نے ''شیعہ مسلک'' مفید خدمت انجام نہیں دی او راسلاف صحابہ کے مدفن اکھیڑ کر ان کے پاک کفن پھاڑے اور ان کےجسد اطہر کی بے حرمتی میں بڑی شقاوت کا ثبوت دیا۔

یقین کیجئے ہم نے یہ اقتباس سرسری طور پرنقل کیے ہیں۔ انہوں نے نام نہاد معارف اسلام میں اہل سنت، عظیم صحابہ اور امامان امت کے خلاف جو سوقیانہ زبان، عامیانہ گلفشانیاں کی ہیں، وہ ان سے کہیں زیادہ دل خراش اور شرمناک ہیں جو اوپر درج کی گئی ہیں لیکن بایں ہمہ ناصح بنتے ہیں کہ وقت کی نزاکت کا احساس کیا جائے حالانکہ ان اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہم فضا کو مکدر کرنے کے خلاف ہیں، بلکہ ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سے ان دوستوں نے دین و دنیا اور آخرت سیاہ کی ہے او راس قدر سیاہ کہ خود سیاہ ہالہ میں محصور رہتے ہیں او راس آیت کے مصداق، خود ہی اپنے درپے آزار رہتے ہیں۔﴿يُخرِ‌بونَ بُيوتَهُم بِأَيديهِم وَأَيدِى المُؤمِنينَ فَاعتَبِر‌وا يـٰأُولِى الأَبصـٰرِ‌ ﴿٢﴾... سورة الحشر
۔۔۔۔::::۔۔۔۔