سورۃ البقرہ
(قسط 6)
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَقولُ ءامَنّا بِاللَّهِ وَبِاليَومِ الءاخِرِ وَما هُم بِمُؤمِنينَ ٨ يُخـٰدِعونَ اللَّهَ وَالَّذينَ ءامَنوا وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُرونَ ٩ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكذِبونَ ١٠ وَإِذا قيلَ لَهُم لا تُفسِدوا فِى الأَرضِ قالوا إِنَّما نَحنُ مُصلِحونَ ١١ أَلا إِنَّهُم هُمُ المُفسِدونَ وَلـٰكِن لا يَشعُرونَ ١٢ وَإِذا قيلَ لَهُم ءامِنوا كَما ءامَنَ النّاسُ قالوا أَنُؤمِنُ كَما ءامَنَ السُّفَهاءُ ۗ أَلا إِنَّهُم هُمُ السُّفَهاءُ وَلـٰكِن لا يَعلَمونَ ١٣ وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا إِلىٰ شَيـٰطينِهِم قالوا إِنّا مَعَكُم إِنَّما نَحنُ مُستَهزِءونَ ١٤ اللَّهُ يَستَهزِئُ بِهِم وَيَمُدُّهُم فى طُغيـٰنِهِم يَعمَهونَ ١٥ أُولـٰئِكَ الَّذينَ اشتَرَوُا الضَّلـٰلَةَ بِالهُدىٰ فَما رَبِحَت تِجـٰرَتُهُم وَما كانوا مُهتَدينَ ١٦﴾... سورة البقرةاور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ان پرایمان نہیں لائے۔ (یہ لوگ اپنے نزدیک)اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں، دھو کا دیتے ہیں او رحقیقت میں دھوکا نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو ان کے دلوں میں (پہلے ہی سے کفر کا) مرض تھا اب (قرآن نازل کرکے) اللہ نے ان کامرض (اور بھی ) بڑھا دیا او ران کو ان کے جھوٹ بولنے کی سزا میں عذاب درد ناک (ہونا ) ہے۔ او رجب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ پھیلاؤ (تو) کہتے ہیں کہ ہم تو (لوگوں میں) میل جول کرنے والے ہیں اوربس سنو جی یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھتے او رجب ان سےکہا جاتا ہے کہ جس طرح(اور) لوگ ایمان لائے ہیں تم بھی ایمان لے آؤ (تو) کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی (اسی طرح)ایمان لے آئیں جس طرح (اور) احمق ایمان لے آئے؟ سنو جی! یہی لوگ احمق ہیں لیکن نہیں جانتے او رجب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی تو) ایمان لاچکے ہیں او رجب تنہائی میں اپنے شیطانوں سےملتے ہیں (تو) کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف (مسلمانوں کو) بناتے ہیں (حقیقت میں) اللہ ان کو بناتا ہے او ران کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں پڑے ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی سو نہ تو ان کی تجارت سود مند ہوئی۔
.............
صورت و معنی: حروف مقطعات کا سب سے بڑا فائدہ''خوئے تسلیم و رضا اور آمنا و صدقنا'' میں حصول پختگی ہے، بلکہ قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کی یہ شرط اولین بھی ہے۔
﴿الم﴾ریب و تذبذب زہر قاتل ہے، تسلیم و رضا کے لیے بھی اور قرآن سے کسب فیض کے لیے بھی ، اس لیے پہلے اس سلسلے میں اطمینان حاصل کرلینا چاہیے۔ اگر دل کےکسی گوشہ میں یہمرض موجود ہو تو پہلے اس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہیے!
﴿لا رَيبَ ۛ فيهِ﴾مندرجہ بالا دو مرحلوں کے بعد ہی دل میں''تقوی'' کی وہ سکت پیدا ہوجاتی ہے جو اپنے اندر ہدایت جذب کرنے کاملکہ رکھتی ہے۔
﴿هُدًى لِلمُتَّقينَ﴾ایمان بالغیب، اقامت الصلوٰۃ، انفاق فی سبیل اللہ، ماانزل پر ایمان اور آخرت کی جوابدہی کا احساس اور یقین ، تقویٰ کے بنیادی عناصر ہیں، اسی کے ذریعے من جانب اللہ فیضان ہدایت کانزول ہوتا ہے او رانہی پر انسان کی دنیوی صلاح اور فلاح کا انحصار ہے۔
﴿وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ﴾جو لوگ بعض مصالح سیئہ کی بنا پر اڑ جاتے ہیں گو وہ محروم الایمان ہوتے ہیں مگر داعی حق کایہ فریضہ ہے کہ وہ ان کو تبلیغ جاری رکھے۔
﴿سَواءٌ عَلَيهِم ءَأَنذَرتَهُم أَم لَم تُنذِرهُم﴾(1)
﴿وَمِنَ النّاسِ﴾ (کچھ لوگ) : یہ فقرہ اور جملہ ''تحقیر'' پر مبنی ہے، اس لیے کہ یہ منافق آبادی کے لحاظ سے معمولی اقلیت تھے یا اس لیےکہ ذلیل پیشہ، تقیہ باز اور بزدل لوگ تھے۔ جو خود صحابہ کے عہد میں بالکل گنتی کے رہ گئے تھے۔
«قال زید بن وھب:کنا عند حذیفة فقال ما بقي من أصحاب ھٰذه .....الایة (فقاتلوا أئمة الکفر) إلاثلثة ولا من المنافقین إلاأربعة...... أحدھم شیخ کبیر ولو شرب الماء البار ولما وجد بردہ» (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورہ براءۃ)
حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر تھے تو انہوں نے کہا کہ اس آیت (فقاتلوا ائمۃ الکفر) کے مصداق صرف تین شخص باقی رہ گئے ہیں او رمنافقین میں سے صرف چار...... ان میں سے ایک تو اتنا بوڑھا ہوگیا کہ اگر وہ ٹھنڈا پانی پئے بھی تو اسے ٹھنڈک محسوس نہ ہو۔بعض جگہ یا بعض اوقات ان کی تعداد بارہ بھی ذکر کی گئی ہے۔
«قال عمار ....... ولٰکن حذیفة أخبرني عن النبی صلی اللہ علیه وآله وسلم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم في أصحابي اثنا عشر منا فقا» الحدیث (رواہ مسلم)
حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ..... ہاں حضرت حذیفہ نے مجھے بتایا کہ حضور ﷺنےفرمایا میری اُمت میں بارہ منافق ہوں گے۔حتی إذا کنا بالعقبة فإذا أنا باثنی عشر راکبا قد اعترضوه فیھا قال فانبھت رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم بھم فصرخ بھم فولوا مدبرین..... قال ھؤلاء المنفقون إلی یوم القیمة (ابن کثیر تفسیر سورہ براءت)
یہاں تک کہ (چلتے چلتے جب )ہم گھاٹی پر پہنچے تو اچانک بارہ سوار ہمیں سامنے آتے ہوئے ملے، چنانچہ میں نے حضور ﷺ کو ان سے آگاہ کیا، آپنے ان کو زور سے آواز دی تو وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے....... آپ نے فرمایا یہ منافق لوگ ہیں جو ہمیشہ منافق ہی رہیں گے۔
امام طبرانی نے ان گھاٹی والوں کے یہ نام تحریر کیے ہیں:
معتب بن قشیر،دویعہ بن ثابت،جد بن عبداللہ، ابن بنتل بن عمرو بن عوف، حارث بن یزید الطائی، اوس بن قبظی، حارث بن سوید، سعد بن زرارہ، قیس بن فہد، سوید بن داعس بن الحنبلی، قیس بن عمرو بن سہل، زید بن اللعیت، سلالة بن الحمام و ہما من بنی قینقاع (ابن کثیر سورت براءت)
الغرض منافقوں کی تعداد گو ان سےکہیں زیادہ تھی تاہم مجموعی لحاظ سے کچھ زیادہ قابل ذکر جمعیت نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو ان کو نفاق کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ تاہم جتنے تھے شرارت پیشہ تھے او ربدنام تھے۔ اس لیے ''کچھ لوگ'' کہہ ان کی تحقیر کی گئی ہے۔
(2)
﴿مَن يَقولُ﴾ (جومنہ زبانی دعوے کرتے ہیں) جب سچی مسلمانی سے جھولی خالی ہوتی ہے اس وقت ایک مدعی کوزبانی کلامی اپنی''مسلمانی'' کاڈھنڈورہ پیٹنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔مشک خالص ہو تو عطار کے پروپیگنڈہ سے بےنیاز ہوتا ہے ورنہ عطار ہی کواس کی کارسازی کرنا پڑتی ہے۔ قرآن حکیم نے ان کی کیفیت کی یوں تصویرکھینچی ہے۔
﴿إِذا جاءَكَ المُنـٰفِقونَ قالوا نَشهَدُ إِنَّكَ لَرَسولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ إِنَّكَ لَرَسولُهُ وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّ المُنـٰفِقينَ لَكـٰذِبونَ ﴿١﴾... سورة المنافقونجب مناق آپ کے پاس آتے ہی تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں (ٹھیک ہے) اللہ جانتا ہے کہ واقعی آپ اس کے رسول ہیں (مگر) اللہ گواہی دیتا ہےکہ منافق پکے جھوٹے ہیں۔﴿الَّذينَ قالوا ءامَنّا بِأَفوٰهِهِم وَلَم تُؤمِن قُلوبُهُم...٤١﴾... سورة المائدةجو لوگ اپنے منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے(مگر) ان کےد ل ایمان نہیں لائے۔﴿يَحلِفونَ بِاللَّهِ إِنَّهُم لَمِنكُم وَما هُم مِنكُم وَلـٰكِنَّهُم قَومٌ يَفرَقونَ ﴿٥٦﴾... سورة التوبةوہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ایک ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں بلکہ یہ ڈرپوک ٹولہ ہے۔ قسمیں صرف آپ کوخوش رکھنے کےلیےکھاتے ہیں اس لیے نہیں کہ اللہ خوش ہو۔﴿يَحلِفونَ بِاللَّهِ لَكُم لِيُرضوكُم...٦٢﴾... سورة التوبةبات یہ نہیں تھی کہ کلمہ تو صدق دل سے پڑھا، بعد میں تذبذب میں پڑ کر ان کو تکلفات کی راہ اختیار کرنا پڑی بلکہ کلمہ بھی نیت بد سے پڑھا۔
﴿وَإِذا جاءوكُم قالوا ءامَنّا وَقَد دَخَلوا بِالكُفرِ وَهُم قَد خَرَجوا بِهِ...٦١﴾... سورة المائدةجب وہ آپ کے پاس آتے ہیں(تو) کہتے ہیں ہم ایمان لائے، حالانکہ جیسے کفرلیے ہوئے آئے ویسے ہی لیے ہوئے واپس ہوگئے۔اور ساتھ ساتھ وہ کڑھتے بھی ہیں کیونکہ ان کی دال نہیں گلتی۔
﴿وَإِذا لَقوكُم قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ...١١٩﴾... سورة آل عمرانیہ (منافق) جب تم سے ملتے ہیں (تو) امنا کہتے ہیں او رجب علیحدہ ہوتےتو غصے کےمارے انگلیاں کاٹتے ہیں۔نفاق کی ابتداء۔ منکر وحی اور دشمن دین بہادر ہو تو ''کفر بواح'' (ڈنکے کی چوٹ کفر) کا حامل ہوتا ہے، اگر وہ بزدل یا سیاسی گھاگ اور شاطر ہو تو اس کا کفر ''کفر نفاق'' ہوتا ہے۔ او ریہ عموماً اس وقت کروٹ لیتا ہے، جب ماحول اس کےلیے سازگار نہیں رہتا۔ مکہ میں کفر غالب تھا، اس لیے کفر نہ صرف ''کفر بواح'' تھا بلکہ جارح بھی تھا، اس لیے اس وقت کمزور اپنا ایمان یوں چھپاتے تھے جس طرح کوئی چور سے اپنی دولت کو۔ لیکن مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے مسلمان ہوجانے کے بعد فضا یکسر بدل گئی تھی، خاص کر غزوہ بدر کے بعد، اس لیے جو منکر حق سیاسی شاطریا بزدل تھے، انہوں نے اپنے کفر کو یوں چھپایا جس طرح چور چوری کو چھپاتا ہے۔ بس اس کانام نفاق ہے۔ تقیہ کی طرح نفاق کا محرک بھی زیادہ تر خالصتاً سیاسی رہا ہے، چنانچہ مدینہ منورہ میں جب حضور ﷺہجرت کرکے تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی کے سر پر ''تاج سروری'' رکھا جانے والا تھا مگر حضورﷺکی تشریف آوری کے بعد لوگوں کی توجہ بدل گئی۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک، آفتاب عالمتاب کے سامنے حقیر ذرہ کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ اس لیے جھوٹی عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ، وہ''کفر در بغل'' مسلمانوں میں گھل مل گیا اور ماراستین بن کر اپنےمکروہ منصوبوں کی تکمیل میں اپنی پوری عمر کھپا دی۔ علیہ ما علیہ
نفاق کادوسرا نام تقیہ ہے۔ حقائق کو چھپانا اور اندھیرے میں رکھ کر مارنا، دونوں کاطول و عرض ہے۔
بہرحال ان کےمتعلق قرآن حکیم کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ایمان کےسلسلے میں زبانی کلامی کتنے ہی بلند بانگ دعاوی کریں، دل میں جب تک نفاق کا کوڑھ ہےقبول نہیں ہیں اورنہ ہی ان کی یہ لفظی شاطرانہ مسیحائی اُن کےکچھ کام آئے گی۔ (وما هم بمؤمنین)
حضورﷺ کا ارشادہے:
«إن اللہ لا ینظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم و أعمالکم» (مسلم۔ ابوہریرہ)
اللہ تعالیٰ تمہاری شکل و صورت او ردھن دولت کونہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہ تمہارے دلوں اور اعمال پر رہتی ہے۔یعنی اگر دل میں کوڑھ تو تمہاری صد سالہ ریاضتیں بےکار ہیں اگر دل میں نور ایمان اعمال کی اساس ہے تو بعض بشری کمزوریوں سےدرگزر بھی ممکن ہے۔
(3)
﴿ يَخادِعونَ﴾(دھوکا دیتے ہیں) یہاں سے ان کے بزدلانہ اور گھٹیا کردار کی تفصیل پیش ہونے لگی ہے سب سے پہلے وہ چیز پیش کی گئی ہے جو ''جان نفاق'' ہے یعنی مخادعت ہے۔بے خدا سیاسی دنیا میں اس کا نام ڈپلومیسی ہے اس کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ اندھی اور برخود غلط ہوتی ہے، اندھی اس لیے کہ اس کی آنکھوں میں حیا نہیں ہوتی او رانجام سے بے پرواہ ہوکر عارضی ''وقت کٹی'' کی بنیادوں پر اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کرنے میں مصروف ہے اور برخود غلط اس لیے کہ اپنی ان بوالعجبیوں میں فاش اور عریاں ہون ےکے باوجود اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہوتی ہے کہ گو سامنے خدا بھی ہے،پر ان کو بھی ''طرح دینے'' میں وہ بالکل کامیاب ہے۔
کسی کو اندھیرے میں رکھ کراس کے استحصال کرنے کا نام ''مخادعت'' (دھوکا دینا) ہے، ظاہر ہےکہ منافقوں کے سامنے خدا کی یہ حیثیت نہیں کہ اس کو اندھیرے میں رکھا جاسکے، کیونکہ وہ اس معاملہ میں تو خوف زدہ رہتے تھے کہ کہیں خدا ان کا یہ راز فاش نہ کردے۔
﴿يَحذَرُ المُنـٰفِقونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيهِم سورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِما فى قُلوبِهِم...٦٤﴾... سورة التوبةمنافق اس امر سے خائف رہتے تھے کہ کہیں ان پر کوئی سورت نازل ہوکر ان کے دلوں کا راز فاش کردے۔اس لیے یہاں پر اصل مخادعت، خدا کے نام پر مسلمانوں کا استحصال کرنا اور اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ ہمارے نزدیک مخادعت کی یہ نوعیت جہاں محدود دائرہ میں انفرادی ہوسکتی ہے وہاں اس سے کہیں زیادہ سیاسی اور اجتماعی ہے جو عموماً سیاسئین سوء کا شعار رہا ہے۔ اپنے اقتدار او رسیاسی ساکھ کے استحکام کے لیے خدا اور رسول کے نام کو استعمال کرکے عوام کو اپنے گرد جمع رکھنے کا دستور، منافقت کا پرانا دستور ہے۔ گو وہ نہ سمجھیں، تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت اور تاریخی تجربہ ہے کہ ایسے لوگ زیادہ دیر تک پس پردہ نہیں رہ سکے او رننگے ہوکر بالآخر اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔
﴿فَما بَكَت عَلَيهِمُ السَّماءُ وَالأَرضُ وَما كانوا مُنظَرينَ ﴿٢٩﴾... سورة الدخان" تو وہ یوں تباہ ہوئے کہ آسمان و زمین کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا او رنہ ان کو کچھ مہلت دی گئی۔......
﴿وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُرونَ ﴿٩﴾... سورة البقرة" کا یہی مطلب ہے کہ وہ مخادعت اور منافقت کے قدرتی بدنتائج سےبچ نہ سکے۔
(4)
﴿فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا﴾ (اللہ نے ان کامرض او ربڑھا دیا) ٹھوکر لگنے پر اگر آنکھیں کھل جائیں تو یہ صحیح عبرت پذیری ہے، جس کی خدا قدر کرتا ہے ، اگر اس کے بجائے کوئی شخص پینترے بدل بدل کر اپنی کج روی کا تحفظ کرنے میں اور زیادہ تیز ہوجائے تو خدا اتنی ہی نسبت سے، کڑھنا،حسرت و نامرادی کی آگ میں جلنا اس کا مقدر بنا دیتا ہے۔ جیتا ہے او رکڑھتا ہے، جتنا سلجھاتا ہے اس سے کہیں زیادہ الجھتا ہے۔ بس اسی حسرت و یاس میں عمر تمام ہوجاتی ہے۔بہرحال اہل نفاق کی یہ دوسری بدنصیبی کا ذکر کیاگیا ہے۔
(5)
﴿لا تُفسِدوا﴾(فساد نہ کرو) جو لوگ اپنی نادانیوں کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ان کو اپنی ایک غلطی کو ہضم کرنے کیلئے سینکڑوں غلطیوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ان کی تخرینی سرگرمیاں بھی بڑھ جایا کرتی ہیں۔مثلاً ریاست کے حصول کے لیے ایمان کوٹھہرایا، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نادانی نہیں ہوسکتی مگر اپنے دل کو فریب دین کے لیے انہوں نے دھونس دھاندلی، مکروفریب او ر ریشہ دوانیوں کے سینکڑوں چکر چلا ڈالے تاکہ ننگوں کی ایک جمعیت بن جائے، اور وہ اس حمام خانے میں تنہا ننگے نہ رہیں۔
اسی طرح ایمان کا یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف او رمروت ملحوظ رکھنے کے باوجود ان میں جذب ہونے یا ان کی دوستی کا دم بھرنے سے پرہیز کیا جائے مگر یہ چیز منافقوں کی پالیسی کے خلاف تھی، اس لیے ''صلح کل'' کے وعظ کی آڑ میں شکار کھیلتے رہے، اس پر قرآن کو کہنا پڑا کہ بھائی چارہ باہم کفار تو ہوسکتا ہے، مسلم اور کافر کے درمیان نہیں ہوسکتا۔ اگر اس نکتہ کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فساد فی الارض کے طوفان اٹھ کھڑے ہوں گے۔
﴿وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَرضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ ٧٣﴾... سورة الانفالاور جو کافر ہیں، ایک دوسرے کے وارث اور دوت ہیں، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہوگا او ربڑا فساد (مچے گا)بس اس کے جواب میں وہ سیاسی زبان میں کہتے ہیں کہ کافر و مسلم کی تفریق تنگ نظر ہے۔ انسانیت یا کم از کم رنگ و نسل اور وطن کے وسیع تر نظریہ پر بھائی چارہ اور دوستی کی بنیاد رکھنا چاہیے، اس لیے ہم جو کچھ کررہے ہیں، وہ اصولی، اصلاحی اور عالی ظرفی کی بات ہے، فساد فی الارض کے طعنے دینا غلط ہے۔ خدا نےکہا کہ حدود اللہ کی پرواہ نہ کرنا ہی فساد فی الارض کی جڑ ہے۔ مگر گندم نما جو فروشوں کے لیے ان کا اعتراف کرنا مشکل ہے۔ اگر گندم کو گندم اور جو کو جو رکھ کر معاملہ کیا جائے تو عدل بھی ہے او رانصاف بھی، اگر جو کو گندم کہنے پر اصرار کیا جائے تو خلاف حقیقت ہونے کے علاوہ اس میں باہم الجھاؤ کے سامان بھی پیدا ہوجائیں گے او رہوئے۔ مشرقی پاکستان کے کچھ لوگوں نے قوم ہنود کی دوستی سے دم بھرنے کا جو تجربہ کیا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ اہل نفاق کا یہ تیسرا نمونہ وعظ ہے۔ایمان کا تقاضا ہے کہ ایمانی غیرت سلامت رہے، مسلمانی کا احترام کیا جائے، انسانی بنیاد پر حسن معاملہ الگ بات ہے لیکن اعداء اللہ سے سلسلہ اخوت بڑھانا یا ان میں جذب ہونے کی کوشش کرنا، منافقت کی نشانی ہے، بگاڑ جڑ پکڑے گا اس سے امن غارت ہوگا یا ایمان۔
(6)
﴿كَما ءامَنَ السُّفَهاءُ﴾ (جیسا کہ احمق ایمان لائے) ایمان کی بات منافق بھی کیا کرتے تھے، یعنی ضرورت ایمان کے وہ بھی قائل تھے، لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ وہ ایسے ایمان پر ایمان رکھتے تھے جو ان کی مرضی کے تابع ہو او روہ ان کے پیچھے چلے، اور یہ جو بھی حماقت كريں، اس کے لیے وہ کوئی وجہ جواز مہیا کرے۔ جب ان سےکہا گیا کہ ہمیں یہ ایمان قبول نہیں ہے، اگر ایمان چاہتے ہو تو یوں ایمان لاؤ، جیسے میرے رسولؐ کے صحابہ نےنمونہ پیش کیا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نےجو کچھ کہا آپ کے سامنے ہے۔ راہ حق میں لٹ جانے کو صحابہ کرام ایمان کی معراج تصور کرتے تھے، ان کا ایمان دین کے تابع، جان قرآن کے تابع او رمال کتاب و سنت کے تابع تھے۔
اس لیےمنافق ان کو دیوانہ اور العیاذ باللہ احمق کہتے تھے کہ ان لوگوں نے ''دین ضیاع'' قبول کیا ہے۔ لیکن خدا فرماتا ہے کہ دراصل یہ خود احمق ہیں، صحابہ کا دین ،''دین ضیاع'' نہیں، ''دین وفا'' ہے۔
﴿إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَموٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ...١١١﴾... سورة التوبة" کے مقام کے یہ اہل رسوخ لوگ ہیں جن کو سمجھنا اہل نفاس جیسے بد ذوق او رکاروباری سوداگروں کے لیے مشکل ہے۔
(7)
﴿إِنَّما نَحنُ مُستَهزِءونَ﴾( ہم تو ان کو بناتےہیں )اہل نفاق کی یہ ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ فریقین کےساتھ یہ بزدل کس طرح پیش آتے ہیں؟ یعنی مسلمانوں سےملے تو کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ لوگوں سے ملتے تو کہتے یار! دل بُرا نہ کرنا، ہم تو مسلمانوں کو اُلو بناتے ہیں، ورنہ ہمیں ان سے کیا سروکار؟ یہ بالکل ویسی بات ہے ، جیسی کچھ آج کل سیاست باز حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔بہرحال یہ ان لوگوں کے گھٹیا کردار کے نمونے ہیں جن کے سامنے کوئی روحانی، اخلاقی اور عقلی اقدار اور اصول نہیں ہوتے، بلکہ ان کے سامنے کچھ ''سفلی مقاصد'' ہوتے ہیں، جن کے حصول کے لیے ذلیل سے ذلیل تر راہ اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
(8)
﴿اللَّهُ يَستَهزِئُ بِهِم﴾ (الله ان كو بناتا ہے) دوسروں کا تماشا کرنےوالےکبھی خود بھی تماشا بن جاتے ہیں او ریہ عموماً ہوتا ہی رہتا ہے۔اسی کو ''ان کو بنانا'' کہا گیا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مذاق او رمخول کرکے وہ خوش تھے کہ ایک دن یہ بھولے بھالے لوگ مات کھاجائیں گے۔بس یہ سوچ کر پھر وہ انہیں ذلیل راہوں پر مطمئن ہوکر پڑ جاتے تھے جو اپنے ذلیل مقصد کے لیے انہوں نے اختیار کرلی تھیں۔ پروگرام گھٹیا او رطریق کار نامعقول، اس پر خوش فہمی ابلہانہ کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں، اس کے کیا کہنے! ظاہر ہے کہ اب ایسے آج نہیں تو کل بالآخر تماشا ہی بنیں گے۔ رسوا ہوں گے۔ ذلیل ہوں گے اور اپنے انجام کو پہنچ کر دنیا کے لیے درس عبرت بنیں گے۔
﴿اللَّهُ يَستَهزِئُ بِهِم وَيَمُدُّهُم﴾ سےیہی مراد ہے۔ دوسرے مقام پر اسے یوں بیا ن کیاگیا ہے۔
﴿وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا أَنَّما نُملى لَهُم خَيرٌ لِأَنفُسِهِم ۚ إِنَّما نُملى لَهُم لِيَزدادوا إِثمًا ۚ وَلَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿١٧٨﴾... سورة آل عمراناور جو لوگ انکاری ہیں اس خیال میں نہ رہیں کہ ہم ان کو جوڈھیل دےر ہے ہیں کچھ ان کے حق میں بہتر ہے ہم تو ان کو صرف اس لیےڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اور گناہ سمیٹ لیں او ر(آخرکار) ان کو ذلت کی مار ہے۔قرآن حکیم کےمطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جزا میں مثاکلہ بھی ہوسکتا ہے، اس لیے قیامت میں ان مستہزئین کو جو سزا دی جائے گی اس میں بھی یہی قدرتی رنگ ابھر آئے گا۔
﴿يَومَ تَرَى المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ يَسعىٰ نورُهُم بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمـٰنِهِم بُشرىٰكُمُ اليَومَ جَنّـٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٢﴾ يَومَ يَقولُ المُنـٰفِقونَ وَالمُنـٰفِقـٰتُ لِلَّذينَ ءامَنُوا انظُرونا نَقتَبِس مِن نورِكُم قيلَ ارجِعوا وَراءَكُم فَالتَمِسوا نورًا فَضُرِبَ بَينَهُم بِسورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فيهِ الرَّحمَةُ وَظـٰهِرُهُ مِن قِبَلِهِ العَذابُ ﴿١٣﴾ يُنادونَهُم أَلَم نَكُن مَعَكُم ۖ قالوا بَلىٰ وَلـٰكِنَّكُم فَتَنتُم أَنفُسَكُم وَتَرَبَّصتُم وَارتَبتُم وَغَرَّتكُمُ الأَمانِىُّ حَتّىٰ جاءَ أَمرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الغَرورُ ﴿١٤﴾ فَاليَومَ لا يُؤخَذُ مِنكُم فِديَةٌ وَلا مِنَ الَّذينَ كَفَروا ۚ مَأوىٰكُمُ النّارُ ۖ هِىَ مَولىٰكُم ۖ وَبِئسَ المَصيرُ ﴿١٥﴾... سورة الحديد''اس دن منافق مرد اور منافق عورتوں مسلمانوں سےکہیں گے کہ (ذرا تو) ہماراانتظار کرو کہ تمہارے (اس ) نور (روشنی) سے ہم بھی(فائدہ) اٹھا لیں (تو ان سے) کہا جائے گاکہ (انہیں) اپنے پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ اور (کوئی اور) روشنی تلاش کرلو، اس کے بعد ان (دونوں فریقوں) کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی (اور) اس میں ایک دروازہ ہوگا (پھر جو)دروازے کی اندرونی طرف (ہے جدھر مسلمان ہیں) اس میں (تو خدا کی) رحمت ہوگی اور اس کی (جو)بیرونی طرف (ہے جدھر منافق ہیں)ادھر عذاب (الہٰی) ہوگا (یہ منافق)مسلمانوں سے پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا (دنیامیں) ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ کہیں گے، تھے تو سہی مگر تم نے آپ اپنے تئیں بلا میں ڈالا اور (اسی بات کے) منتظر رہے (کہ مسلمانوں پر کوئی آفت آنازل ہو) اور شک میں (پڑے) رہے اور (انہی محال) آرزؤوں نے تم کو دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ حکم خدا آپہنچا (یعنی موت) اور دغا باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تم کو دھوکے دیتا رہا۔ تو آج نہ تو تم (ہی) سے کچھ معاوضہ قبول کیا جائے اور نہ ان لوگوں سے جو (صریح) انکار کرتے رہے، تم سب کاٹھکانہ ہی دوزخ ہے او روہی تمہاری رفیق ہے اور (وہ کیا ہی) بُرا ٹھکانا ہے۔''گویا کہ اللہ یستھزی بھم کی یہ بھی ایک شکل ہےکہ قیامت میں ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں وہ مسلمانوں کے ساتھ کیاکرتے تھے۔بہرحال منافقوں نے دنیا میں بھی استہزاء کا مزہ چکھا اور آخرت میں بھی چکھیں گے ۔ اگر کسی کو کسی بات سے اتفاق نہیں ہے تو نہ سہی لیکن اس کا مذاق اڑانا کسی طرح بھی اندیشہ سے خالی نہیں ہے۔مگر افسوس! جس استہزاء کا انجام اس قدر سنگین ہے، دنیا میں اس کا چلن اتنا ہی عام ہے، کبھی شیخ کی پگڑی کا مذاق اڑایا جاتاہے تو کبھی اس کی ڈاڑھی کا، کبھی اس کے سجدوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہے اور کبھی اس کی تسبیح کی، کبھی اس کی کسی نیکی پر مخول کیا جاتا ہے او رکبھی اس کی چال ڈھال پر ۔ بہرحال جو لوگ اس راہ پر دوڑ رہے ہیں، انہیں اس کا انجام یاد کرلینا چاہیے۔
(9)
﴿وَما كانوا مُهتَدينَ﴾ (نہ وہ سیدھی راہ پر قائم رہے) یعنی ان منافقوں نےدنیا کی عارضی منفعت، وقتی آسودگی اور گھڑی پل کے مزوں پر ایمان سعادت اور ابدی اخروی فوز وفلاح کو قربان کر ڈالا۔ اب بھی جو شخص انہی راہوں پرچلے گا اس کا بھی انجام اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ سنت اللہ ہے۔
قوم ثمود کے ذکر میں فرمایا:
﴿وَأَمّا ثَمودُ فَهَدَينـٰهُم فَاستَحَبُّوا العَمىٰ عَلَى الهُدىٰ فَأَخَذَتهُم صـٰعِقَةُ العَذابِ الهونِ بِما كانوا يَكسِبونَ ١٧﴾... سورة فصلتباقی رہے ثمود؟ تو ہم نے ان کو رستہ دکھا دیا تھا مگر انہوں نے سیدھا رستہ چھوڑ کر گمراہی اختیار کی ، انجام یہ ہوا کہ ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان کو ذلت کے عذاب کی کڑک نے آلیا۔غرض یہ ہے کہ : نفس و طاغوت کے پیچھے لگ کر جو لوگ حق کی راہ چھوڑ دیتے ہیں، ان کا انجام عموماً بڑا حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ ایک تو ان کو یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے، دوسرا یہ کہ راہ راست کھو دیتے ہیں، اس لیے پھر ٹامک ٹوئیوں میں سرمارتے مارتے ہلاکت خیز گڑھوں میں گر کر ہمیشہ کے لیے برباد ہوجاتے ہیں۔ أعاذنا الله وإياكم منھا۔
۔۔۔۔۔۔۔::::::۔۔۔۔۔۔