اکتوبر 1973ء

دلائل الخیرات کا ورد

مولانا انوری لائل پوری مرحوم نے ایک دفعہ یہ انکشاف کیا تھا کہ:

ایک دفعہ رائے پور میں (یعنی حضرت رائے پوری سے) عرض کیا کہ 'الحزب الأعظم' کا ورد رکھتا ہوں! فرمایا:

دلائل الخیرات کو بھی اس کے ساتھ ملا لو!

مولانا کریم بخش (پروفیسر۔ مظفر گڑھی) مرحوم فرمانے لگے:

دلائل الخیرات کو میں پسند نہیں کرتا!

فرمایا کہ: ہمارے حضرت تو پڑھتے تھے اور اجازت بھی دیتے تھے۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب بھی اجازت دیتے تھے، حضرت شیخ الہند بھی اس کی اجازت دیتے تھے۔ آپ کے کہنے سے تو ہم چھوڑتے نہیں۔ الخ۔ (دار العلوم دیو بند، جولائی ۶۵ء)

دلائل الخیرات:

دلائل الخیرات حضرت امام ابو محمد عبد اللہ بن سلیمان جزولی حسنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۱۶؍ ربیع الاول ۸۷۰ء کی تالیف ہے۔

شاذلیہ:

صوفیائے کرام کے معروف سلسلہ شاذلیہ سے آپ کا تعلق تھا۔ شاذلیہ، حضرت امام ابو الحسن علی بن عبد اللہ الشاذلی متوفی ۲۵۶ھ کی طرف منسوب ہے۔ شاذلہ شمالی افریقہ (مرکش) میں ایک گاؤں کا نام ہے۔ مغرب اقصیٰ کے ایک شہر سبتہ کے قریب ۵۹۳ھ میں غمارہ نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پورا نام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد الجبار ہے۔ قبیلہ عموان سے آپ کا تعلق تھا۔ ۶۰۲ھ میں غمارہ سے ٹیونس تشریف لے گئے جب کہ آپ ابھی دس سال کے تھے۔ یہیں فقہ مالکی اور دوسرے علوم حاصل کئے۔ یہیں سے پھر وہ مشرق اوسط کو نکلے، پہلے اسکندریہ پھر مصر، حجاز، فلسطین، شام اور عراق گئے۔ اس دوران وہ شیخ ابو الفتح واسطی سے زیادہ متاثر ہوئے، ان سے اتفادہ کیا، پھر انہی کے ایما پر واپس مغرب کو تشریف لے گئے اور حضرت عبد السلام حشیش (متوفی ۶۲۶ھ) کے پاس جا کر تزکیہ و طہارت میں خوب کمال حاصل کیا۔ اس کے بعد حضرت حشیش کے حسبِ ارشاد فارس سے ٹیونس میں شاذلہ نامی گاؤں کا رخ کیا۔ یہی وہ مقام ہے جس کے نام سے آپ 'شاذلی' کہلاتے ہیں۔ حزب البحر حضرت شاذلی ہی کی تالیف ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ دعا موصوف کو الہام ہوئی تھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی شرح اور اس کے ختم کرنے کے طریق کار کی تفصیل پیش کی ہے۔

تحدیث نعمت:

عصر حاضر کے جلیل القدر محدث اور صاحب الاسانید حضرت شیخ محمد راغب بن محمود بن الشیخ ہاشم الطباخ حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریراً مجھے اپنی ان تمام اسانید اور مرویات کی اجازت فرمائی تھی جو آپ کی مشہور تالیف الأنوار الجلیةفي مختصر الإثبات الجلیةمیں مذکور ہیں، اس میں شیخ یوسف الحسینی الحنفی المتوفی ۱۱۵۳ھ اور شیخ عبد الرحمٰن بن عبد اللہ الحنبلی الحلبی المتوفی ۱۱۹۲ھ کی جو اسانید مذکور ہیں، ان کے ذریعے ''دلائل الخیرات'' مذکور کی سند بھی مجھے حاصل ہے۔

ان اسانید کی اجازت مجھے میرے شیخ حضرت مولانا عبد التواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کی معرفت حاصل ہوئی تھی اور میری ہی درخواست اور تحریک پر انہوں نے اس کے لئے حضرت مولانا طباخ رحمۃ اللہ علیہ کو 'اجازہ' کے لئے تحریر کیا تھا اور میری ہی تحریک پر انہوں نے اپنے لئے بھی 'اجازہ' حاصل کیا تھا۔ غالباً اسی علاقہ میں ہم دونوں (راقم الحروف اور میرے شیخ حضرت مولانا ملتانیؒ) کے سوا حضرت راغب طباخ رحمۃ اللہ علیہ کی اسانید کا سلسلہ اور کہیں نہیں ملتا۔ والحمد للہ علی ذلك۔

صوفیاء کے مخصوص اوراد:

دلائل الخیرات کی طرف اور بھی بہت سی ایسی چیزیں ملتی ہیں جن کا صوفیائے کرام کے ہاں بڑا چرچا ہے۔ مثلاً حزب البحر، حصن حسین، حزب النصر، حزب المقبول وغیرہ۔ ان کے ختم اور ورد کے لئے انہوں نے مختلف طریقے اور اجازتیں ایجاد کی ہیں، جن کو وہ روحانی سفر میں بہترین زادِ راہ تصور کرتے ہیں، گو ان کے ورد اور ختم کو ہم مطلقاً حرام اور ناجائز تو نہیں کہہ سکتے تاہم دل پوری طرح مطمئن بھی نہیں ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ جو انسان خدا کے حضور میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اپنی زبان کو ذریعہ بنا سکتا ہے اس کے لئے اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کسی دوسرے بزرگ کے بے ضرر الفاظ اور جائز تراکیب کو بھی اپنے جذبات کے اظہار کے لئے بنانا چاہے تو بنا سکے، ہم بھی اس پر صاد کرتے ہیں بشرطیکہ معاملہ اسی حد تک رہے۔ اگر بات اظہار مدعا اور جذبات کی ترجمانی کے بجائے 'تلاوت' کا رنگ اختیار کر جائے تو ظاہر ہے کہ اسے بالکل 'کارِ ثواب' تصور کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہو سکتا۔

صوفیائے کرام کے ان مخصوص اذکار و اوراد میں جو ایک بنیادی خرابی پیدا ہو گئی ہے وہ ان کے درود و وظیفہ میں عجمی تکلف ہے۔ یعنی پھر وہ وظیفوں کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیائے زیست اور اس کے متعلقات اور لوازمات سے اس کا تعلق برائے نام باقی رہتا ہے۔ حالانکہ اصل تصوف یہ ہے کہ دنیا باخدا گزاری جائے لیکن اب 'بے دنیا با خدا' یعنی رہبانیت کی سٹیج آجاتی ہے جہاں حقوق نفس اور حقوق العباد بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں، بلکہ اس لحاظ سے ان کی زندگی بہت ہی غیر متوازن ہو کر رہ جاتی ہے۔

اسلامی اذکار:

مسنون اذکار و اوراد کا جو طریق کار ہے، بالکل بیساختہ اور قدرتی ہے۔ اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے، گھر اور باہر، مسجد اور میدان اور مخصوص اوقاتِ عبادت میں ان کو پھیلا کر آسان کر دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے دلائل الخیرات اور حزب البحر وغیرہ جیسے اذکار کو یکجا کر کے ان کے لئے مختلف منزلیں اور ختم تجویز کیے ہیں انہوں نے دراصل اذکار مسنونہ کی اس فطری آزادی، اس کے بیساختہ پن اور یُسر جیسی حکمتِ عملی کو غارت کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان حضرات کی اس غیر حکمتِ عملی کی وجہ سے عام دنیا کو اسلام بہت ہی بوجھل اور مشکل محسوس ہونے لگا ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہو گا۔

بوجھل اذکار کا پس منظر:

جہاں تک صوفیائے کبار کا معاملہ ہے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ان اذکار کو 'عوامی وظیفہ' کی شکل میں پیش نہیں کیا تھا بلکہ انہوں ن یہ اوراد اور وظائف اپنے ان تلامذہ اور طلبہ کے لئے ایک غیر سرکاری تربیتی کورس کے طور پر تجویز اور تشخیص کیے تھے جن سے انہیں 'عوامی تعلیم و تربیت اور تبلیغ' کا کام لینا تھا جیسا کہ درس نظامی کا معاملہ ہے۔ یہ علماء کے لئے علمی کورس ہے، عوامی ضرورت اور ان کے دائرۂ معمولات کے اعتبار سے یہ دوسرے کے لئے بالکل ایک غیر متعلق شے ہے۔

جب اسلامی حکومت پر زوال آیا، خلفاء برحق کے بجائے بادشاہوں کا سلسلہ چل نکلا تو تزکیہ و طہارت کا وہ فریضہ جو خلافت کے فرائض منصبی میں داخل تھا اب وہ بھی متروک ہو گیا تھا، چنانچہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے اسلاف نے مختلف استعداد رکھنے والی تبلیغی ٹیمیں تیار کیں، جب وہ صوفیاء کے مخصوص اوراد اور مشق کا کورس پورا کر لیتے تو ان کو مختلف اکناف و اطراف میں عوام کے تزکیہ و طہارت کے لئے بھیج دیتے! اس تبلیغی ٹیم کے لئے مختلف عہدے اور منصب بھی تجویز کیے، کسی کا نام غوث، کسی کا قطب، کسی کا ابدال، کسی کا ولی الغرض مختلف ناموں سے ان کو مشخص کیا، اور باقاعدہ ان کے تبادلے بھی ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ ان اکابر نے جو محنتیں کیں شروع میں وہ کافی معنی خیز رہیں اور کافی حد تک اس میں وہ کامیاب بھی رہے لیکن عوام سے ان کے اس رابطہ کی حیثیت ایک اخلاقی ضابطہ کی تھی، اس کی پشت پر کوئی آئینی طاقت نہیں تھی، جس کی وجہ سے ان کو اپنی محنتوں کو کنٹرول اور محفوظ کرنے کے لئے بڑی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس لئے وہ عوام جن کی ایمانی عافیتوں کے تحفظ کے لئے ان بزرگوں نے یہ سلسلے جاری کیے تھے وہ عوام میں 'زود اعتقادی' کو تو جنم دے سکے جو بعد میں اکابر پرستی کی شکل میں نمودار ہوئی، لیکن اس اسلامی منہاج اور طرزِ زندگی کو وہ استواری اور ساتحکام نہ دے سکے جو خلافت جیسی آئینہ سرپرستی کے ذریعے ممکن تھی۔ اور یہ بالکل ایک قدرتی بات بھی ہے کہ:

قرآن بے سیف اور سیف بے قرآن، مومنانہ طرزِ حیات کی تخلیق اور اس میں استواری کے لئے کچھ زیادہ جاندار اور تسلی بخش سلسلے نہیں۔ قرآن باسیف کے یہ معنی نہیں کہ قرآنی فکر و عمل کا تحفظ جبر و اکراہ پر مبنی ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مناسب اور سازگار فضا پیدا کرنے میں خلافت جیسے اقتدار سے بڑی مدد ملتی ہے اور الناس علیٰ دینِ ملوکہم کے ذریعے ان نفسیات کو تقویت حاصل ہوتی ہے جو وسائل اور طاقت کی خوشگوار تخلیقات کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ جو باغ لگایا جاتا ہے اس کی نگہبانی کے لئے چوکس، پر شکوہ پاسبان کی ضرورت بھی ہوتی ہی ہے۔

منزلیں، تلاوت، ختم:

قرونِ اولیٰ میں جس کتاب کے لئے منزلیں، اس کے ختم اور اس کی تلاوت مقرر تھی، وہ صرف قرآن کریم تھا، دوسری کوئی ایسی کتاب نہیں تھی جس کے لئے کسی نے اتنا اہتمام کیا ہو، یہاں تک کہ اگر حضرت عمرؓ نے رحمۃ للعالمین ﷺ کے سامنے قرآن حکیم کے بجائے 'تورات' جیسی عظیم کتاب کی تلاوت کی جرأت کی تو آپ ناراض ہو گئے، دنیا جہاں میں اور جتنی کتابیں ہیں، ان کا مطالعہ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ منزلیں، وہ ختم اور یہ تلاوت؟ حاشا وکلا!......

آسمانی کتابوں کے سوا روحانیت کے تصور سے بعض دوسری کتابوں سے اس قسم کا معاملہ کرنا دراصل عجمی تکلفات ہیں۔ عجمی تکلف کا یہ خاصہ ہے کہ:

اصل سے نقل، فرض سے نقل، مستحب سے مباح اور سنت سے بدعت وغیرہ عزیز ہوتی ہے۔ ان کے عمل کا محرک بھی عبادت سے زیادہ خوش فہمیوں کی تسکین ہوتی ہے، اعمال میں ترقی کرنے کے بجائے، ادل بدل کر منہ کا مزہ بدلنے والی بات ہوتی ہے۔ ٹھوس پر کم اور سطحیت پر زیادہ نگاہ رہتی ہے۔ یہی کیفیت صوفیاء کے اوراد کی ہے۔ اہلِ احسان صوفیاء کے بعد عجمی ڈھب کے صوفیوں نے اذکار اور اوراد میں جن تکلفات کی بھرمار کی ہے۔ اہلِ احسان صوفیاء کے بعد عجمی ڈھب کے صوفیوں نے اذکار اور اوراد میں جن تکلفات کی بھرمار کی ہے۔ ہزار نیک نیتی کے باوجود اس میں جتنی سر دردی کی گئی ہے اسے عجمی چلّہ کشی اور رہبانیت کا چربہ ہی تصور کیجئے۔

اذکار اور اوراد سے غرض یہ ہوتی ہے کہ احساس و شعور اور اندرونی داعیہ کے ساتھ مسنون، عبارت، بزرگوں کے الفاظ یا اپنے الفاظ میں اپنے رب کے حضور میں دعا کی جائے۔ نذرانۂ عقیدت پیش کیا جائے۔ ان کی تلاوت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ کہیں بھی محمود اور مطلوب بات سمجھی گئی ہے۔ اس لئے ہمارا نقطۂ نظریہ ہے کہ حضرت مولانا کریم بخش مرحوم نے اس سلسلہ میں جو خیال ظاہر کیا تھا، وہ بجا اور صحیح ہے۔

ان اوارد کا سب سے بڑا ضرر یہ ہے کہ عموماً لوگ ان اوارد کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کم کرتے ہیں اور اسی کو ہی وہ سبھی کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ دعا کم ہوتی ہے، دعا کی تلاوت ہوتی ہے، حمد و ثنا کم کی جاتی ہے، حمد و ثنا کی تلاوت کی جاتی ہے، اظہارِ مدعا اور درخواستِ دعا کا شعور برائے نام ہوتا ہے صرف کارِ ثواب سمجھ کر اس کی رٹ ہوتی ہے۔

ہمارے نزدیک ایسی کتاب جس کے الفاظ و عبارت کی تلاوت بھی کارِ ثواب ہوتی ہے وہ صرف قرآن کریم ہے مگر اب لوگوں نے یہ خاصیت دوسرے اذکار بھی تصور کر لی ہے ۔


حاشیہ

یعنی قرآن کریم وحی متلو (ایسی وحی جس کی تلاوت بھی مقصود ہے) ہونے کی بنا پر اگر معنی پر دھیان دیئے بغیر بھی پڑھا جائے تو باعثِ برکت اور کارِ ثواب ہے اگرچہ تدبر اور تفکر سے تلاوت بہت بڑی چیز ہے لیکن دوسرے اور اد کا اگر کوئی فائدہ ہے تو اپنے معنوی غور و فکر کی بدولت صرف الفاظ کی تلاوت کوئی حیثیت نہیں رکھتی حتیٰ کہ اگر حدیث بلکہ حدیث قدسی کو بھی وحی متلو کی شکل دے دی جائے تو یہ صحیح نہ ہو گا، لہٰذا تلاوت صرف قرآن کریم کا خاصہ ہے (مدیر)