مؤلفِ کتاب نے محض اختلافی نکتوں پر اپنے دلائل کی بنا رکھی ہے۔ متفقہ فیصلہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن احادیث کی تمام بحث میں کوئی ایک نظیر بھی ایسی نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ کسی مرتد کو ارتداد کی حالت میں زندہ رہنے کا حق ہے۔ اختلافات کی صورتِ تطبیق یہ ہے کہ مرتد کو مہلت توبہ دی جائے تو بہتر ہے۔ نہ بھی دی جائے تو چنداں مضائقہ نہیں۔ عورت کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر مرتدہ سرکشی پر اتر آئے تو وہ بھی مستوجبِ قتل ہے ورنہ اسے قید میں رکھا جائے گا اور توبہ کر لے تو مرد و عورت دونوں کے لئے معافی کی اجازت ہے اور یہ تمام مسائل الفاظ و معانی قرآن و حدیث سے اخذ فرمائے گئے ہیں۔
رہا احادیث کے قابلِ تاویل ہونے کا معاملہ سو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ احادیث کے مطالب کی تاویل و تعبیر کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل قرآنی آیات میں بھی نافذ ہے لیکن تاویل کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ایسی تاویل جس کے نہ الفاظ متحمل ہوں اور نہ اس کا مفہوم ہی درست ہو سکے، تفسیر بالرائے کے مصداق ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔ اس کے لئے تاویل کرنے والے کی ذہنی اور علمی صلاحیت، اس کی بے لوثی اور اخلاقی بلند فطری اور حقیقت پسندی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ایک جاہل مرد نے جس کا نام مجرم تھا، آیت﴿نَفعَلُ بِالمُجرِمينَ﴾ کا مطلب یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو جن کا نام مجرم ہے ہلاک کر دے گا۔ ایک شر پسند عالم رحمٰن یمامہ (جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہے) آیت بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں رحمٰن سے اپنی ہستی مراد لیتا ہے۔ ایک احمق لا تقربوا الصلوٰۃ کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ کسی کو نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ ایک پڑھے لکھے شخص کا دعویٰ ہے کہ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی نہیں تھے بلکہ نبیوں کی مہر تھے کہ جس پر مہر لگا دی اسے نبی بنا دیا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ حدیث «من بدل دینه فاقتلوہ» فرمودۂ رسول ہے ہی نہیں۔ یہ کسی ملا کا قول ہے۔ جناب مؤلف کتاب نے اس شخص کی طرح اس حدیث کو ملا کا قول کہنے کی جرأت تو نہیں فرمائی لیکن ایسی تاویل فرمائی ہے جو اوپر کی تاویلات سے بہت مشابہ ہے مثلاً ارشاد ہے کہ مولوی چراغ علی نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے۔ لیکن بیشتر اصحاب کے نزدیک یہ کوئی معقول سبب نہیں جس کی بناء پر حدیث کو رد کر دیا جائے (مطلب یہ ہے کہ کاش منقطع ہونے کے علاوہ اور وجہ کوئی ہوتی کہ اسے رد کیا جا سکتا) تاہم وہ فرماتے ہیں کہ اس کی تاویل کی جا سکتی ہے (جو نتیجۃً اس کے رد کرنے ہی کے برابر ہو گی) کہ اس میں لفظ اقتلوہ جو آیا ہے اس کو حقیقی معنوں میں نہ لیا جائے بلکہ اس کے مجازی معنے مراد ہوں یعنی ایسے شخص کو گمراہ سمجھ کر قتل کر دینا نہیں ہے بلکہ یہ معنے لیے جا سکتے ہیں کہ ایسے شخص کو گمراہ سمجھ لو اور جو کہتا ہے اس کی طرف توجہ نہ دو۔ اور دلائل کے سلسلہ میں انہوں نے بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ نے قبیلہ خزرج کے سردار سعدؓ کی بابت جو خلافت کا امیدوار تھا فرمایا کہ اقتلوا السعد أقتله اللہ یعنی اس کو مردہ تصور کر لو اور اس کی بات کی طرف توجہ نہ دو۔ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح من بدل دینه فاقتلوہ میں بھی یہ معنے ہیں کہ جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اسے مردہ تصور کر لو اور اس کی جانب توجہ نہ دو یعنی اسے مجرم نہ سمجھو۔ جو کہتا ہے کہنے دو۔ قطع نظر اس کے کہ حضرت عمر کا یہ واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ جناب مؤلف کو خود ہی اپنی اس تاویل پر اطمینان نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ یہاں تو خیز ہے یہ تاویل کر بھی لی جائے۔ لیکن امام مالک کی مؤطا کے بارے ''من ارتد عن الإسلام'' میں لفظ قتل نہیں ہے بلکہ گلہ کاٹ دینا آیا ہے۔ من غیر دینه فاضربوا عنقه یعنی جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اس کا گلا کاٹ دو، میں یہ تاویل نہیں چلے گی۔ تاہم چونکہ سزائے مرتد کی نفی مطلوب تھی اس لئے آگے چل کر انہوں نے بتایا ہے کہ خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح اس حدیث کی بابت یہ ہے کہ جو مسلمان مرتد ہو کر اپنا مذہب چھپا رکھے اور اسلام کا اظہار کرے تو اس کے اس نفاق کا راز کھل جانے پر توبہ کی پرواہ کیے بغیر اسے قتل کر دینا چاہئے۔
مؤلف ممدوح کو امام مالک کے اس موقف پر اعتراض ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کے اس برتر مقام، ارتقاء اور علم کا احترام کرتے ہوئے بھی ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ منافقین کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام صاحب نے جو قتل کا حکم دیا وہ رسول اللہ ﷺ کے طریق کے خلاف ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی ہٹ دھرمی پر آکر کس طرح حقیقت کی طرف سے آنکھ بند کر لیتا ہے۔ امام صاحب نے تو اس منافق کے قتل کو جرم ارتداد کے ثابت ہونے پر موقوف رکھا ہے۔ چنانچہ خود ہی مؤلف کتاب نے جو ترجمہ کیا اس میں یہ الفاظ ہیں:
On proof of his guilt he shall be stained.
یعنی جب اس کا جرم ارتداد ثابت ہو جائے تو اسے قتل کیا جائے۔ لیکن مؤلف کتاب یہ سمجھے کہ منافق کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مؤلف موصوف امام مالک پر خلاف پیغمبر ﷺ حکم دینے کا الزام جڑنے کے بعد ص ۶۵ بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حدیث کے الفاظ مشتبہ ہیں۔ لوگوں کو صحیح یاد نہ رہنے اور ان حالات کو نظر انداز کرنے کے باعث جو اس حدیث کا پس منظر ہیں یہ بات کہہ دی گئی تھی۔ در پردہ یہ ان لوگوں کے خلاف جو اس حدیث سے مرتد کا حکم واضح طور پر اخذ فرماتے ہیں۔ الزامات کی ایک فہرست ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشہ حدیث کے یہی معنے ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا۔ اس میں اقتلوا کی وہ تاویل نہیں چل سکتی کیونکہ یہ لفظ قتل نہیں بلکہ ضربِ عنق (گردن کاٹ دینا) ہے تاہم محدثین نے اس کے پس منظر کو نہیں دیکھا اور اس حدیث کی تاویل کی جا سکتی ہے کہ مرتد کو صرف اس صورت میں قتل کیا جائے گا جبکہ وہ حربی ہو جائے۔ کیونکہ الفاظِ احادیث میں اختلاف ہے (یعنی ایک میں قتل کرنے کا حکم ہے اور دوسری میں گردن کاٹنے کا) لہٰذا دونوں غلط ہیں اس لئے اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ استدلال کی اس قوت کا مظاہرہ فرمانے کے بعد دوسری احادیث کے بارے میں مصنف موصوف کا رویہ بھی فروتر ہے (ص ۶۶-۶۷)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایسے کسی شخص کو جو توحیدِ الٰہی اور میری رسالت کا اعتراف کرے، قتل نہیں کیا جا سکتا سوا ان تین صورتوں کے کہ اس نے کسی کو ناحق قتل کیا ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود ارتکابِ بدکاری کرے یا یہ کہ وہ اپنے دین سے پھر کر اپنی جماعت سے الگ ہو جائے۔ (بخاري باب النفس بالنفس وترمذي)
پھر بخاری میں ایک اور حدیث باب القسامہ میں یوں آئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان تینوں صورتوں کے علاوہ کسی پر قتل کی شرعی سزا نافذ نہیں فرمائی۔ یعنی وہ جس نے ناحق قتل کا ارتکاب یا ہو یا محصن ہو کر زنا کیا ہو یا خدا اور رسول سے جنگ کر رہا ہو کہ اسلام سے پھر گیا ہو۔ ایسی ہی ایک حدیث سنن نسائی میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے جس میں واجب القتل شخص کے ذکر میں الفاظ یوں ہیں کہ تیسرا وہ جو مسلمان ہونے کے بعد پھر مرتد ہو جائے۔ سنن نسائی کی ایک حدیث جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے اس میں تیسری قسم کے واجب القتل شخص کا ذکر اسی طرح ہے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے۔ پھر سنن نسائی میں ایک اور حدیث میں مرتد کو مسلمانوں کا شمن بتایا گیا ہے۔ ابو داؤد کے باب الحکم في من ارتد میں تیسرے زمرہ کے واجب القتل اشخاص کی بابت بتایا گیا ہے کہ جو لوگ محاربین باللہ والرسول ہیں انہیں یا تو قتل کر دیا جائے گا یا سولی دے دی جائے گی یا جلا وطن کر دیا جائے گا۔ یہ الفاظ سورہ مائدہ آیت نمبر ۳۰ کا ہی مفہوم ہیں۔ حضرت عثمان سے اندریں باب دو احادیث مروی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبرِ اسلام ﷺ سے سنا ہے کہ ان تین صورتوں کے علاوہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے۔ وہ شخص جو مسلمان ہو کر مرتد ہو جائے یا شادی شدہ ہو کر مرتکبِ زنا ہو یا کسی شخص کو ناحق قتل کر دے (باب ما یحل به دم المسلم) اسی باب کی دوسری حدیث حضرت عثمان کی روایت کردہ ہے جس میں آخری مستوجب القتل کی بابت یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد مرتد ہو جائے۔ پھر جب اسلام سے نکل کر مشرکین میں جا ملے تو اس کا خون حلال ہو جائے گا۔
مولف کتاب نے ان احادیث کے الفاظ میں معمولی تفاوت کو بہانہ بنا کر، حالانکہ سب کا مفہوم ایک ہے۔ تمام احادیث کو ساقط الاعتماد سمجھ لیا ہے۔ ان میں سے کوئی حدیث یہ ظاہر نہیں کرتی کہ مرتد کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اس کی باتوں پر توجہ نہ دی جائے۔ ان احادیث کے علاوہ ایک حدیث اور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا اور پھر معاذ بن جبلؓ بھی وہاں بھیجے گئے۔ جب وہ یمن پہنچے تو حضرت ابو موسیٰؓ نے ان کو خوش آمدید کہا اور تشریف رکھنے کی خواہش کی لیکن اس وقت ایک یہودی پیش ہوا جو مسلمان ہو کر پھر یہودی ہو گیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے کہا کہ میں نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ خدا و رسول کے احکامات کے بوجب پہلے اسے قتل نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ تب حضرت معاذؓ وہاں بیٹھے۔
اس واضح حدیث کی تاویل فاضل مؤلف کے علاوہ اور کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ بہت ممکن ہے کہ وہ یہودی یمن کے اسوہ عنسی مدعیٔ نبوت کی حمایت میں داخل ہو گیا ہو۔ اسود عنسی وہ شخص ہے جس نے ایک فوج مسلمانوں کے خلاف تیار کی تھی اور آنحضرت ﷺ کے متعین فرمودہ دو اصحاب عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔
دلیل کی قوت ملاحظہ فرمائیے کہ شاید ایسا ہوا ہو، اس لئے قتل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث میں واضح طور پر مذکور ہے کہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو کر پھر اسلام سے پھر گیا تھا۔ اگر دیگر کوئی قصور مستوجبِ قتل ہوتا جو جناب مؤلف کے اپنے ذہن کی اختراع ہے تو لازم تھا کہ اس حدیث میں اس کی نشاندہی ہوتی۔ ورنہ ممکنہ نہ تھا کہ ایک شخص کو مستوجبِ قتل قرار دیا جائے اور اس کا وہ جرم نہ بتایا جائے جس کی بنا پر اسے قتل کرنا واجب ہو۔ بلکہ وہ جرم بتایا جائے جو جرم ہی نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ محارب قیدی کو قتل ہی کیا جائے۔ حضرت معاذؓ کا اصرار صرف ایک یہی قتل ہے۔
اس سلسلہ میں جناب مؤلّف کی یہ دلیل بڑی معنی خیز ہے کہ حضرت معاذ بن جبل نے اس مرتد یہودی کے قتل کا مطالبہ اللہ اور رسول دونوں کے حکم کے بموجب کیا تھا۔ چونکہ قرآن میں مرتد کے لئے قتل کی سزا کہیں بھی موجود نہیں ہے بلکہ محارب اللہ کے لئے قتل کا حکم ہے۔ اس لئے ضرور وہ یہودی محارب تھا۔ اس قول کا تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہو گا کہ مؤلف کے نزدیک قرآن میں تو مرتد کی سزا نہیں ہے لیکن حدیث میں ہے۔ مؤلف کے لئے تحت شعوری اعتراف سے انکار مشکل ہے کیوں کہ انہوں نے مرتد کی سزا کا ذکر نہ ہونا صرف قرآن میں بتایا ہے ورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل نے کتاب و سنت دونوں کی بنا پر قتل کا مطالبہ کیا تھا اور دونوں میں کہیں بھی قتل مرتد کی سزا مذکور نہیں ہے۔ اس سے بظاہر یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ مؤلف موصوف نے محارب اللہ کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اسلام کے خؒاف تلوار اُٹھائے یعنی حربی ہو۔ حالانکہ محارب اللہ والرسول کے معنے خدا اور رسول کے احکام کے خلاف کرنے والے کے ہیں۔ اس زمرہ میں فسق و فجور، رہزنی و ارتداد و بدکاری وغیرہ سب شامل ہیں اور سب کو محدثین نے محاربین باللہ سے تعبیر فرمایا ہے اور قرآن حکیم میں جہاں جہاں بھی حرب اللہ والرسول کا لفظ آیا ہے۔ غالباً ہر جگہ معصیت مراد ہے۔ کہیں بھی جنگ مراد نہیں ہے۔ چنانچہ آیت ﴿إِنَّما جَزٰؤُا الَّذينَ يُحارِبونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ...٣٣﴾... سورة المائدة" کے تحت صاحب تفسیر ماجدی نے لکھا ہے کہ:
''محاربہ سے مراد معصیت اور مخالفت یا اللہ اور اس کے رسول کے قانون کو توڑنا ہے۔''
(بحوالہ لغات لسان العرب و تاج العروس)
اور لکھا ہے کہ:
''اہل تفسیر تو سب اس طرف گئے ہیں نیز محدثین کی بھی یہی رائے ہے۔ یعنی کسی نے بھی محاربین اللہ والرسول سے حربی مراد نہیں لیا۔''
اب کیسی غلطی ہو گی۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ صرف ایسے مرتدین مستوجب سزا ہوں جو جرائم رہزنی، نہب و قتل کا ارتکاب کریں۔ اس خیال کی حماقت کا بیان کرتے ہوئے علامہ جصاص فرماتے ہیں کہ:
جرم مسلمان کرے تو اس کی بھی یہی سزا ہے۔
قطع نظر اس کے کہ حربیوں کو قتل کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ہے۔ ان سے مقاتلہ کا حکم ہے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے۔ غرض اس آیت کا مفہوم بھی جو مؤلف کتاب نے بتایا، خود ساختہ اور افسوسناک معنوی تحریف ہے۔
ظاہر ہے کہ اس یہودی مرتد کے باب میں ان تمام قیاس آرائیوں کی بنا محض یہ ہے کہ جناب مؤلف کسی صورت نہیں چاہتے کہ مرتد کے لئے سزائے موت کا حکم ثابت ہو۔ اس سلسلہ میں ایک نہایت حیرت انگیز جرأت یہ بھی فرمای کہ حضرت معاذؓ بن جبل کا یہ فیصلہ محض ان کا ذاتی اجتہاد تھا۔ اور شاہ ولی اللہ نے بدلائل یہ ثابت کیا ہے کہ خواہ کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت ہو (بجز پیغمبررِ اسلام ﷺ کے) ضروری نہیں کہ اس کے اجتہاد کو بہرحال درست سمجھا جائے اور بحوالہ سید الشریف جرجانی بتایا ہے کہ صحابہ کی ہر بات قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ یعنی حضرت معاذؓ کی بات قابلِ تسلیم نہیں ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باب میں جناب جسٹس رحمٰن کی اس رائے کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیے:
•« أعلمھم بالحلال والحرام معاذ»
یعنی حلال و حرام کے مسائل سب سے زیادہ جاننے والے معاذؓ ہیں۔
• یجیٔ معاذ یوم القيامة إمام العلماء بين يدي العلماء
یعنی قیامت کے روز حضرت معاذ تمام علماء کے امام کی حیثیت سے علماء کے آگے آگے ہونگے۔
• خدوا القراٰن من أربعة من ابن مسعود وأبّي ومعاذ بن جبل وسالم
یعنی قرآن سمجھنا چاہو تو چار اصحاب سے سمجھو۔ ابن مسعود، ابی، معاذ بن جبل اور سالم سے۔
• قد سن لکم ھذا معاذ فاصنعوا (مسند احمد ص ۲۴)
یعنی یہ طریق کار معاذ نے بتایا ہے بس اس پر عمل کرو۔
حضرت معاذ بن جبل کی اس غلطی کا سبب بھی جناب مؤلف نے یہ بیان فرمایا ہے کہ معاذ کے ذہن میں خدا و رسول کے واضح احکام نہ تھے۔ (ص ۷۲)
گویا غیر واضح ذہن کی بنا پر انہوں نے اس پر یہودی کے قتل پر اصرار کیا لیکن جناب مؤلف نے اس امر پر غور نہ فرمایا کہ اس قصور میں (معاذ اللہ) نہ صرف حضرت معاذ بلکہ ابو موسیٰ اشعری بھی ملوث تھے کہ انہوں نے اس یہودی کو سزائے موت دی بلکہ اس وقت کے جملہ حاضرین اور تمام صحابہ جنہوں نے بعد میں اس پر کوئی اعتراض کبھی نہیں کیا بلکہ خود ذاتِ مبارک آنحضرت ﷺ نے بھی جن کے عہد میں یہ واقعہ پیش آیا کوئی اعتراض نہیں کیا تو کیا ان سب کے ذہن میں احکاماتِ خدا و رسول واضح نہ تھے؟
خدا اور رسول کے نزدیک مرتد کے واجب القتل ہونے کا ثبوت اس سے زیادہ واضح اور ممکن نہیں۔
اس کے بعد مولف نے ان دو احادیث کو بھی محلِ مقید بتایا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک عورت کو ارتداد کے جرم میں قتل کا حکم دیا۔ جناب مؤلف کی تحقیق اندریں باب یہ ہے کہ ان احادیث میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے اور دوسری حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے مروی ہے اور دونوں کی روایات میں بعض ایسے اور ساقط نام ہیں جن کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھا گیا۔ لہٰذا یہ حدیث مشکوک ہے اور مبہم بھی ہے کیونکہ اس میں اس عورت مقتولہ کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ وہ امن پسند مرتدہ تھی یا محاربہ مرتدہ۔ باوجود اس کے انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ وہ ضرور محاربہ تھی ورنہ قتل نہ کی جاتی۔ بس غلط طرزِ استدلال کو مصادرۃً علی المطلوب کہتے ہیں اور فن مظاہرہ میں اس کو حماقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث دوسرے احکام و احادیثِ صحیحہ کی تائید کرتی ہیں۔ چنانچہ علامہ سمرائیؒ نے قتلِ مرتدہ کے حق میں علامہ سرخسی حنفی کے جو دلائل نقل کئے ہیں ان میں دو عورتوں ام مروان اور ام فرقہ کے حکمِ قتل کے علاوہ اس حدیث سے بھی استدلال فرمایا ہے جس میں ہر شخص کے قتل کا حکم ہے جو دین سے پھر جائے اور لکھا ہے کہ موجبِ قتل صرف جرمِ ارتداد ہے۔ خواہ وہ مرد سے سرزد ہو یا عورت سے اور اس کی تائید میں شارح بخاری علامہ عینی کے دلائل بھی پیش کئے گئے ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور زہری اور ابراہیم نخعی کی رائے بوضاحت درج ہے کہ مرتد مرد ہو یا عورت۔ اگر ایمان نہ لائے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور اس کی تائید میں حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد اور حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت میں ایک مرتدہ عورت کے قتل کئے جانے کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ فلم ینکر ذالك علیه أحد کہ ایک فرد متنفس بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم سے انکار کیا ہو اور حضرت معاذ بن جبلؓ سے یہ حدیث مروی ہے:
أیما امرأة ارتدت عن الإسلام فادعھا فإن عادت وإلا فاضرب عنقھا
یعنی جو عورت اسلام سے پھر جائے اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی جائے اگر اسلام قبول کر لے تو بہتر ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔
اس کے مقابلہ میں بعض احادیث اور تعاملِ صحابہ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مرتدہ عورت کو قتل کی بجائے قید و بند کا حکم ہے جس کی بنا پر انہیں قتل کرنا منع ہے اور ان اصحاب کی دلیل یہ ہے کہ عورتوں کو قتل کی ممانعت ہے۔
چنانچہ خود جناب مؤلف نے اس حدیث کا ترجمہ درج فرمایا ہے کہ ''اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو اسے قتل نہ کرو (ص ۷۲) اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر مرتد مرد ہو تو اسے قتل کر دیا جائے ورنہ عورت کے قید کی کیا ضرورت تھی۔
رہا عورت مرتدہ کا حکم اس کا فیصلہ متفقہ طور پر یہی ہے کہ وہ بہرحال مجرم ضرور ہے۔ سزا کے باب میں وہ رامیں ہیں کہ اسے قتل کیا جائے یا سخت قید و بند میں رکھا جائے۔ لیکن اس باب میں بھی سب متفق ہیں کہ مرتدہ عورت بھی اگر تشدد یا فساد پر آمادہ ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔ غرض یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ کسی صورت میں اس کے اس جرم کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مرتدہ عورت کے اگرچہ قتل سے منع کیا گیا ہے تاہم اسے سخت قید و بند میں رکھے جانے کا حکم ہے۔ جومؤلف کی رائے کے برخلاف ہے کیونکہ موصوف دنیا میں کسی سزا کے قائل ہی نہیں۔
یہ امر بجائے خود قابلِ غور ہے کہ مرتد کے واجب القتل ہونے کا جہاں کہیں بھی حکم آیا ہے۔ ہر جگہ اس کا سبب ارتداد بتایا گیا ہے۔ جس طرح قاتل کی سزا قتل بوجہ ارتکابِ قتل ہے اور زانیٔ مصن کی سزا قتل بوجہ ارتکاب زنا ہے۔ اسی طرح مرتد کی سزا قتل بوجہ ارتکابِ ارتداد ہے۔ اس میں کسی جگہ حربی ہونے کا شاخسانہ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا حکم قتل مرتد کے معنے لغۃً، اصطلاحًا، شرعاً اور دیانۃً اس کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتے کہ ارتداد جرم مستوجب سزائے موت ہے۔
جرم ارتداد کی سنجیدگی اور شدت کا ثبوت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کردہ حدیث متعلق ابن سرح سے بھی ہوتی ہے۔ مؤلف کتاب نے اس حدیث کو بھی انوکھی تاویل و تعبیر کا ہدف بنایا ہے۔
اس واقعہ کا خلاصہ جو روایت حضرت عبد اللہ بن عباس و روایت حضرت سعد بن وقاص میں مذکور ہے، یہ ہے کہ:
''ایک شخص عبد اللہ بن مسرح بارگاہِ رسالت کی سیکرٹری شپ سے ہٹ کر کفار سے جا ملا تھا۔ اس پر حضور نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن فتح مکہ کے روز اس نے حضرت عثمانؓ کے پاس پناہ لی۔ حضرت ممدوح اسے حضور کی خدمت میں لے آئے اور درخواست کی کہ اس کی بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور نے اسے دیکھا اور خاموش رہے۔ دوسری بار درخواست کرنے پر بھی چپ رہے۔ تیسری بار درخواست پر اس کی بیعت قبول فرمائی گئی۔ تاہم سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے جب اس کی بیعت سے ہاتھ روک لیا تھا تو کیا تم میں سے کوئی مرد رشید ایسا نہ تھا جو اسے قتل کر دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ حضور نے اشارہ فرما دیا ہوتا۔ ارشاد ہوا کہ نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آنکھوں کی خیانت کرے۔'' (ابو داود، کتاب الحدود، باب من ارتد)
علمائے محدثین نے اس حدیث کی کئی زاویہ ہائے نظر سے تشریح فرمائی ہے لیکن جس امر پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ابن سرح جرمِ ارتداد کی پاداش میں قتل کا مستوجب ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے توبہ کرلی اور پھر مسلمان ہو گیا۔ اس لئے قتل سے بچ گیا۔ تاہم حدیث سے عیاں ہے کہ اگر اسے قتل ہی کر دیا جاتا تو قابل باز پرس نہ تھا۔ چنانچہ بعض علماء بشمول ابن ہمام کا یہی مسلک ہے کہ مرتد کو توبہ وغیرہ کا موقع دینا کوئی امر مستحب نہیں ہے اسے استتابہ کہتے ہیں ایسا کیا بھی جا سکتا ہے اور نہ بھی کیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔
یہ نیاز مند اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اس حدیث سے اس موقف کو کیا تقویت پہنچتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔ جناب مؤلف نے اس کے لئے جو استدلال فرمایا ہے وہ نہایت ہی دلسپ ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ''اسے واجب القتل حضور ﷺ نے اس لئے قراردیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے دشمنوں سے مل کر سیاسی دشمنی کی حیثیت میں پیش ہوا تھا محض مرتد نہ تھا۔ اگر محض ارتداد کی پاداش میں حد شرعی کا مستوجب ہوتا تو حضرت عثمانؓ کا اسے پناہ دینا امکان میں نہ تھا۔
یہ امر واقعہ کہ حضرت عثمان نے اسے پناہ دی، زبردست ثبوت اس بات کا ہے کہ اس کو قتل کی سزا محض ارتداد کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ مستحق سزا محارب مشرکین کے ساتھ شامل ہو جانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے باعث تھا۔ ص ۷۷
مقامِ حیرت ہے کہ ایک مرتد کو اسلام کے دشمنوں میں شامل ہو جانے کے بعد جبکہ آنحضرت ﷺ نے اسے مستوجب قتل قرار دے دیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کا پناہ دینا جناب مؤلف کے نزدیک قابلِ فہم ہے لیکن محض جرمِ ارتداد کے مجرم کو پناہ دینا ناقابلِ فہم ہے ور آنحالیکہ خود جناب مؤلف نے اس کے جرائم کی فہرست میں ارتداد کے علاوہ مشرکینِ قریش سے ساز باز کرنے، کلامِ الٰہی میں تحریف کرنے اور وحیِ الٰہی کے ساتھ تمسخر کا ذکر فرمایا ہے۔ ص ۷۶،۷۷
میرے نزدیک تو یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ وہ اگر محض مرتد ہوتا تو حضرت عثمان اسے پناہ نہ دیتے۔ لیکن چونکہ اس نے دوسرے سنگین تر جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور حضور نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس لئے حضرت عثمانؓ نے پناہ دی۔ اس عجیب و غریب صورت حال کو زبردست ثبوت کہنا عجیب ہے۔ مجھے ہرگز یقین نہیں کہ ایسی اوٹ پٹانگ بات جناب مؤلف کے ذہن کی پیداوار ہو یقیناً یہ مسٹر پرویز جیسے گنجلک ذہن کی تخلیق ہو سکتی ہے۔
مؤلف نے مزید فرمایا ہے کہ اس سلسلہ میں دس بارہ اشخاص اور بھی مستوجب قتل قرار دیئے گئے تھے۔ اور وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور ان کے خلاف جنگ کی تھی۔ اس لئے انہیں مستوجبِ قتل قرار دیا گیا تھا۔ آگے فرمایا ہے کہ ان میں سے صرف چار کو قتل کیا گیا اور باقی مجرموں کو آنحضرت ﷺ نے معاف فرما دیا۔ (ص ۷۸)
اس تحقیق کے بعد کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ جن کو معاف کیا گیا۔ انہیں کس حسن کارکردگی کے صلہ میں معاف فرما دیا اور جو قتل ہوئے ان کا جرم کیا تھا؟ جو ناقابلِ معافی تصور فرمایا گیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مؤلف محقق کو اس کا علم نہ ہو شاید کسی مصلحت سے انہوں نے بیان کرنا مناسب خیال نہیں فرمایا۔ تاہم علامہ شبلی نے ان کی تفصیل (بحوالہ زرقانی و ابن ہشام یوں بیان فرمائی ہے۔ (اواخر بیان فتح مکہ)
عام روایت کی رو سے جن دس شخصوں کی سزائے کی سزائے موت کا اعلان کیا گیا تھا ان کا حال یہ ہے کہ وہ شدید مجرم تھے۔ تاہم سات اشخاص خلوص سے ایمان لائے اور ان کو معافی دے دی گئی۔ صرف چار شخص قتل ہوئے تین مرد اور ایک عورت۔ عبید اللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، حویرث بن نقید اور ابن خطل کی لونڈی قریبہ۔
اس عبارت سے واضح ہے کہ چار کے سوا تمام کے معاف کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے ۔ باقی چار کے قتل کا موجب یہ بتایا گیا ہے کہ:
ابن خطل اور ابن صبابہ دونوں خونی مجرم تھے۔ ابن خطل جو اسلام لا چکا تھا اپنے ایک مسلمان خادم کو قتل کر کے مرتد ہو گیا تھا اور حویرث نے آنحضرت ﷺ کی دو صاحبزادیوں کو اونٹ سے گرا دینا چاہا تھا۔ حضرت علی بن ابی طالب نے اسے قتل کرا دیا اور قریبہ ابن خطل کی لونڈی اور مکہ کی ایک مغنیہ تھی جو آنحضرت ﷺ کے ہجو میں گیت گایا کرتی تھی۔
اس بارے میں متعدد روایات ہیں جن کے الفاظ میں اختلاف ہے لیکن جس کے قتل پر سب کا اتفاق ہے۔ صرف ابن خطل تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ابن خطل کے سوا اور کسی کے قتل کا ذکر نہیں ہے۔ (بخاری باب فتح مکہ)
یہ شخص مرتد بھی تھا۔ اور قاتل بھی لیکن حضور نے بعض قاتلوں کو بھی مسلمان ہونے کے بعد معاف فرما دیا تھا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ابن خطل کے قتل کا صرف ایک ہی سبب تھا اور وہ اس کا مرتد ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے اس کا ذکر ''باب قتل المرتد'' میں کیا ہے۔
غرض اس لمبی چوڑی بحث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ محض جرم ارتداد مستوجب قتل ہے۔ اگر ان اشخاص میں سے جنہیں حضور نے فتح مکہ کے روز معاف فرما دیا تھا ایک متنفس بھی ایسا تھا جو امن پسند مرتد کی جدید اصطلاح کے پیش نظر قابلِ درگزر رہا تو شاید کوئی سبیل تاویل کی ممکن ہوتی۔
مؤلف کتاب نے موت کے سزاوار اشخاص جن میں سے صرف تین ایسے اشخاص کے نام بتائے ہیں جو مرتد ہو گئے تھے۔ ایک ابن سرح جو مسلمان ہو گئے اور معاف کر دیئے گئے۔ دوسرے مقید بن صبابہ جسے فتح مکہ کے روز عبد اللہ بن کلبی نے قتل کر دیا۔ تیسرا ابن خطل جسے حضور کے حکم سے قتل کیا گیا۔
ابن سرح کی بیعت کے باب میں آنحضرت ﷺ کا تامل فرمانا اس امر کی دلیل ہے کہ بعض مرتدین کی توبہ بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ ایسے واقعات احادیث سے ثابت ہیں کہ بعض مرتدین کو استتابہ سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا اور قاتلوں سے باز پرس نہیں کی گئی۔ مقیس بن صبابہ مرتد بھی تھا اور قاتل بھی جس کے باعث اسے قتل کیا گیا اور خطل محض ارتداد کی پاداش میں قتل ہوا۔ غرض ان تمام واقعات سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ مرتد مستوجب قتل ہے۔
اسی طرح کا واقعہ قبیلہ عکل کے ان اشخاص کا ہے جو متعدد جرائم، ارتداد اور بے رحمانہ قتل کے الزام میں گرفتار ہو کر بارگاہِ نبوت میں حاضر کئے گئے اور انہیں اُسی بے رحمی کے ساتھ قتل کا حکم ہوا۔
مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ ان کو محض ارتداد کے جرم میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ قتل اور سرقہ کی پاداش میں ایسا ہوا لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ مرتد قابل تعزیر نہیں ہے بلکہ اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ان لوگوں کو مرتد ہونے کے بعد ہی ایسے جرائم کے ارتکاب کی جرأت ہوئی۔ اگر مسلمان ہو جاتے تو بعض دوسرے مجرمانِ قتل کی طرح انہیں معاف کر دیا جاتا۔ گویا اصلی سبب ا ن کے قتل کا مرتد ہو جانا ہی ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو جب وہ یمن کی جانب روانہ ہوئے۔ حکم دیا تھا کہ جہاں کہیں بھی مرتد ملے اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دو۔ مؤلف کتاب فرماتے ہیں۔ مولانا محمد حسن سنبھلی نے ہدایہ کے حاشیہ پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (ص ۷۹) یعنی اگر یہ ضعیف نہ ہوتی تو وہ اسے صحیح تسلیم فرما لیتے لیکن اہلِ علم کا حوصلہ قابلِ داد ہے کہ اگر وہ ایسی کوئی ضعیف ترین حدیث بھی پیش فرما دیتے جس میں ارتداد کو ناقابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہو تو وہ تسلیم کر لیتے۔ اس طرح مؤلف نے سنن ابی داؤد کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کو گالی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اسے قتل کر دیا اور حضور ﷺ نے اس کو قصاص سے بری قرار دیا اور لکھا ہے کہ اس کے سلسلہ رواۃ میں عکرمہ اور شعبی ہیں جنہیں مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث بھی ناقابلِ اعتبار ہے تاہم وہ لکھتے ہیں۔ قتل نہیں ہوئی۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی آنحضرت کو گالی دے (نعوذ باللہ) تو وہ مرتد نہیں ہے۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ کتاب و سنت میں اشتعال انگیزی کی سزا قتل کہاں آئی ہے اور اگر فی الواقع ملّتِ اسلامیہ میں ہر اشتعال انگیزی کے جرم کو قتل کا مستوجب قرار دیا ہے تو شاید ایسی جابر حکومت دنیا میں کوئی نہیں ہے۔
اسی طرح ایک یہودی نے حضور ﷺ کو السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہا (جو بد دعا کے الفاظ ہیں) اصحاب نے اس کے قتل کی اجازت مانگی تو رحمتِ مجسم نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف کتاب کو موقف یہ ہے کہ ایسی اشتعال انگیز حرکتیں بھی قابلِ معافی ہیں تو مرتد کو کیوں واجب التعزیر سمجھا جائے۔ سابقۃ الذکر حدیث میں جو موقف جناب مؤلف نے اختیار فرمایا کیا یہ اس کے متضاد نہیں؟ اشتعال انگیزی اگر موجبِ قتل جرم ہوتا تو اسے کیوں چھوڑ دیا جاتا۔ حدیث اول تو مؤلف ممدوح کے خیال کی خود تردید ہے۔ اس سے قطع نظر کوئی جناب ممدوح کو سمجھائے کہ شرع کے تمام احکام مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ تو یہودی تھا۔ اس پر شرعی سزا خلاف عہد اور خلافِ اسلام تھی۔ ہاں اگر وہ مسلمان ہو کر اس عورت کی طرح ایسی بات کرتا تو یقیناً قتل کر دیا جاتا کیا اتنی سیدھی بات بھی محل اشتباہ ہو سکتی ہے۔
قتل مرتد کے باب میں اتنے واضح احکام اور اس کے خلاف اس ضعف استدلال کے باوجود مؤلفِ کتاب کا ارشاد ہے کہ انہوں نے کوئی حدیث ایسی نہیں دیکھی جسے اس حکم کے مستند حامیوں نے بغیر کسی تذبذب کے تسلیم کر لیا ہو (ص ۸۰) اور اس نیاز مند کا دعویٰ یہ ہے کہ اس باب میں کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس سے مرتد کے واجب القتل ہونے پر کسی بھی حق پسند کو تذبذب لاحق ہوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ساری کتاب میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ارتداد کا قابلِ درگزر جرم ہونا ثابت ہو۔ (باقی آئندہ)
حاشیہ
[1] حدیث بالا کے مفہومِ مخالف سے مرتد مرد کا واجب القتل ثابت کرنا اگرچہ الزاماً درست ہے لیکن واضح رہے کہ مرتدہ کو قتل کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے والی کوئی حدیث صحیح نہیں بلکہ سخت ضعیف ہیں اور حنفیہ میں سے جو لوگ مرتدہ کے قتل کی بجائے اسے کسی دوسری سزا کا مستوجب قرار دیتے ہیں بظاہر اس کی وجہ صرف تقلید ہے کیونکہ عورتوں کے قتل سے اجتناب والی حدیث کے مختلف طرق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حدیث کسی مرتدہ کے حکم سے متعلق ہے ہی نہیں بلکہ ان حربی عورتوں سے متعلق ہے جو لڑائی میں حصہ نہیں لیتی۔ دراصل جناب ایس۔ اے رحمٰن صاحب نے قتل کے حکم کو مرتد مرد سے مخصوص کرنے والوں کی تقلیدی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش فرمائی ہے۔ مرتدہ عورت کے بارے میں قید کا حکم مرجوع ہونے کے باوجود موصوف کے موقف کی تائید نہیں کرتا جیسا کہ عباسی صاحب کی اگلی عبارت سے واضح ہے۔ ۱۲۔ مدیر۔