سلسلہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں: جلد ۳ عدد ۴ شمارہ صفر المظفر ۹۳ھ
﴿وَالَّذينَ يُؤمِنونَ بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ...٤﴾... سورة البقرة
اور (اے پیغمبر!) جو (کتاب) تم پر اتری اور جو (کتابیں) تم سے پہلے اتریں، ان (سب) پر ایمان لاتے ہیں۔
(۱) مَآ (جو کچھ) اس کا مفہوم عام ہے، وحی جلی (کتاب اللہ)، وحی خفی (حدیث رسول اللہ) رسالت، خود ذاتِ رسول۔ کیونکہ ''جو کچھ'' میں یہ سب کچھ آجاتا ہے۔ جو کلام جبرائیل کے توسط سے نازل ہوا اس کو ''وحی جلی'' کہتے ہیں اور ملکۂ نبوت (جو منصب و عہدہ کے خصائص کا خصوصی حاصل ہوتا ہے) پر مبنی آپ کی حیاتِ طیبہ کے جد خدّوخال اُبھرے اس کو ''وحی خفی'' کہتے ہیں۔
(۲) اُنْزِلَ (اتارا گیا، نازل کیا گیا) اس کی کئی صورتیں ہیں۔ اوپر سے نیچے اتارنا مگر یہ اس کا لازمی جزو نہیں، ایک چیز کا ذہن میں آنا کسی شی کا پہنچا دینا اور وہ بذریعہ قاصد ہو یا بواسطہ القاء سبھی کو انزال اور نزول کہتے ہیں۔
یہاں پر مَا اُنْزِلَ سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور حدیثِ رسول بھی کیونکہ دونوں من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم تو بالکل ظاہر ہے، باقی رہی حدیث؟ تو وہ اس لئے کہ وہ خدائی القاء کا مظہر ہوتی ہے یا خدا کے پیغمبر کے منہ مبارک سے نکلی ہوئی ایک ایسی بات ہوتی ہے یا فعل، جس پر رب نے سکوت فرمایا ہوتا ہے جو اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ بھی منشاء الٰہی کے مطابق ہے ورنہ اس پر آپ کو ٹوک دیا جاتا۔ اس کے علاوہ رسول پاک ﷺ کی بعثت اور آپ کی ذات کو بھی انزال سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
﴿قَد أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكُم ذِكرًا ١٠﴾ رَسولًا..﴾... سورة الطلاق
خدا نے تم پر 'ذکر' (یعنی) رسول نازل فرمایا ہے۔
رسول کو 'ذکر' سے تعبیر کیا، کیونکہ وہ سراپا ''یادداشت'' ہوتے ہیں اور ذاتِ رسول کے بارے میں فرمایا کہ اسے اللہ نے اتارا ہے۔ کیونکہ پیغمبر خدا کی کتاب زندگی بھی سراپا قرآن تھی، اللہ کے رسول کی حیاتِ طیبہ خدا کی نگرانی میں تشکیل پاتی ہے۔ جو قومی، ملکی اور خاندانی چھاپ سے منزہ اور سراپا موہبت ربانی ہوتی ہے۔ کسی شے نہیں ہوتی۔ اس لئے آپ کے سراپا کو منزل من اللہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر خدا ئی حیات طیبہ قرآن کا عکس اور اس کی تعلیمات کا مرئی پیکر ہوتی ہے اور یہ چیز خدائی تحفظ اور نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کو منزل من اللہ کہہ کر قرآن حمید کی طرح اس کو بھی 'شریعت کا ماخذ' قرار دیا۔ اور جس طرح قرآن پر ایمان لانا جزو ایمان ہے۔ اسی طرح ذاتِ رسول پر اپنے تمام متعلقات کے ساتھ ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ کلمہ طیبہ کے دوسرے جزو 'محمد رسول اللہ' کا مفہوم بھی یہی ہے۔
(۳) إِلَيكَ (آپ کی طرف، آپ پر) اس سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد اور کسی کی وحی، القاء اور الہام پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اس لئے صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے رویا، کشوف اور القاء گو صحیح بھی ہو سکتے ہیں، مگر ان پر ایمان لانا یا ان کی طرف 'دعوت' دینا دینی فریضہ نہیں ہے اور جو لوگ ان کی بنا پر جدید حلقے تشکیل دے کر ان کی 'نسبتوں' کے نام پر مہم چلاتے ہیں، اچھا نہیں کرتے بلکہ ملتِ اسلامیہ میں انتشار کے سامان کرتے ہیں اور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰۃ و سلام کی یکسوئی پر کاری ضربیں لگا کر اس کو ''بلبل ہزار داستان'' بنا ڈالتے ہیں وہ حلقے خانقاہی ہوں یا فقہی، کلامی ہوں یا سیاسی بہرحال یقین کے ساتھ ان کے لئے نہ منزل من اللہ ہونے کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان کی طرف دعوت کے سلسلے قائم کر کے خدا اور رسول کی نسبتوں کو کمزور کرنے کی کسی کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ متقیوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔
(۴) مِن قَبلِكَ (آپ سے پہلے) رسول اللہ ﷺ سے پہلے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر جتنا اور جیسا کچھ نازل ہوا بلا استثناء سب کو برحق ماننا ایمان اور اسلام کا جزو ہے کیونکہ سرکار عالی کی جناب سے جب کبھی جو کچھ بھی عطا ہوا حق تھا، صواب تھا، حالات اور وقت کے تقاضوں کا صحیح جواب تھا۔
﴿وَبِالءاخِرَةِ هُم يوقِنونَ ﴿٤﴾... سورة البقرة
اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں
اس آیت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی اور آپ سے سابق انبیاء علیہم السلام والصلوٰۃ کی وحی پر ایمان لانے کا تو ذکر ہے، لیکن حضور ﷺ کے بعد کی وحی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، کیا گیا ہے تو صرف آخرت کا کیا گیا ہے کیونکہ بعد میں اور کسی نبی کے آنے کا امکان نہیں رہا، اب انتظار تھا تو صرف اس گھڑی کا تھا جس میں انبیاء کرام کی مساعی جمیلہ، دعوت اور امتوں کے انکار اور اجابت کے نتائج کا کامل ظہور ہو جانا چاہئے۔ یعنی آخرت، معاد۔
بِالءاخِرَةِ (آخرت کے ساتھ، اخری، روزِ حشر) اس کو 'معاد' بھی کہتے ہیں، گویا کہ انسان ادھر پلٹ جاتا ہے، جدھر سے آیا تھا، اس کا نام ''یوم المیعاد'' بھی ہے، کیونکہ اسی دن جزا سزا کے سب وعدے پورے ہوں گے۔
موت، برزخ، نفخ صور جس کے ذریعے کائنات پر ہمہ گیر فناہ کا طاری ہونا ہے، نفخ صور ثانی جس کے ذریعے سب مردے زندہ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ محشر کے وہ کوائف جن سے ہر متنفس کو گزرنا ہو گا، پل صراط، وزن اعمال، شفاعت جلالِ الٰہی کے کامل اور واضح ظہور کا دن، بے لاگ اور جامع چیکنگ، احتساب، جنت و دوزخ کا مشاہدہ اور جنت و دوزخ کے فرزندوں کی تقسیم، لازوال غم و اندوہ اور چیخ و پکار اور غیر فانی بہار و مسرت، حیات سرمدی اور عیشِ دوام کے کامل ظہور کا وقت، یہ سب امور، آخرت اور اس سے متعلقات کے تحت آجاتے تھے۔
قیامت بردوش آخرت کا یہ تصور، انسان کو تازہ دم اور محتاط رکھنے اور محتاط جینے کے لئے کافی موثر ہے۔ اس دن کی جواب دہی کے احساس کی یہ کڑک فلت کی بے ہوشی کے لئے زبردست تازیانہ ہے۔ اگر آخرت کی جواب دہی کا یہ احساس معدوم ہو جائے یا اس کا رنگ پھیکا پڑ جائے تو انسان جلد یا بدیر بے راہ ہو جائے بلکہ ہو جاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی اور فکر و عمل کا یہ قافلہ کسی خاص مقصد کے تحت ایک خاص منزل کی طرف رواں واں ہے جس کا بہرحال کوئی ٹھوس انجام ضرور ظاہر ہو کر رہے گا۔ جنہوں نے اس کا احساس نہیں کیا، ﴿أَنا۠ رَبُّكُمُ الأَعلىٰ ﴿٢٤﴾... سورة النازعات" کی صدائیں بلند کیں، بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست جیسے بول بولے اور غفلت و بے ہوشی جیسی غارتِ گر آخرت کے ہاتھوں تباہ ہوئے اور عملاً انہوں نے اس امر کا اعلان کیا کہ خدا کوئی نہیں، اگر ہے تو دوبارہ زندہ کرنے اور بے خطا امت پر قادر نہیں (العیاذ باللہ)
آخرت، توحید کے اتمام اور کامل ظہور کی ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں رب کے سوا اور سب کی آسیں ٹوٹ جائیں گی۔ سب سہارے غائب ہو جائیں گے، لا إلٰه إلا اللہ کے مضمون کا انسان اپنی انہی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا، انبیاءِ کرام علیہم السلام کی جس دعوت کو ایک مجذوب کی بڑ اور خیال خام تصور کیا کرتا تھا۔ اب ان سب حقائق کو مشہود و موجود پائے گا اور داعیان حق کی تکذیب و تصدیق کے سب نتائج اپنے سامنے محسوس کرے گا۔ حق اور باطل کی آویزش میں حق کیونکر بھاری ہوتا ہے، اس دن سب کو اس کا علم ہو جائے گا۔ یہ وہ عظیم حقائق ہیں جن کی بنا پر 'آخرت' نے تصور کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے جو دراصل اپنی ذات کو متوازن رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لئے رب کی طرف سے انسان کے لئے ایک 'عظیم توفیق' مہیا کی گئی ہے جو لوگ اس توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں وہ دراصل بہت بڑی سعادت اور عظیم سہارے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوِ حاضر کے متنبیوں اور عہدۂ نبوت کے وکانداروں نے ''بالاٰخرۃ'' سے مراد حضور کے بعد آنے والی وحی اور نبوت مراد لی ہے حالانکہ یہ قرآن کی خاص اصطلاح ہے۔ قولی قرینہ کے بغیر جہاں بھی یہ لفظ آتا ہے قیامت ہی مراد لی جاتی ہے۔ بہرحال یہ ان کی تحریف ہے۔ تفسیر نہیں ہے۔
(۲)هُم يوقِنونَ (یقین رکھتے ہیں) جو تصور آخرت، انسان کی دارین کے فوز و فلاح کا ضامن ہو سکتا ہے وہ صرف اور صرف وہی تصور ہے جو 'یقین اور اذعان'' کی بنیاد پر قائم ہے۔ ''خوفِ خدا، خوف آخرت، خوف انجام اور بے کلی'' کا دامن گیر رہے، اس کی موٹی نشانی ہے، آخرت کے بارے میں جو عام احساس اور تصور پایا جاتا ہے، وہ ایک سطحی اعتراف کی شکل ہے اس کی جڑیں نہیں ہیں اس لئے ہماری زندگیاں اس آب و تاب سے خالی ہیں جو اسلامی تصور آخرت کا قدرتی نتیجہ ہو سکتی ہے۔
﴿أُولـٰئِكَ عَلىٰ هُدًى مِن رَبِّهِم ۖ وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٥﴾... سورة البقرة
یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی (آخرت میں من مانی) مرادیں پائیں گے۔
مِںْ رَبِّھِمْ (اپنے رب کی طرف سے) ہدایت اور سیدھی راہ سے مراد، ربانی راہ اور ہدایت ہے، جو اب صرف قرآن و حدیث میں محصور ہے۔ 'مِنْ رَّبِّھِمْ' کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ انسان کی اپنی مرتب کردہ رہنمائی اپنے لئے یا غیر کے لئے حیوانی خواہشات اور بہیمی میلانات کے اتباع کی ایک شکل ہے اصولی نہیں ہے۔ اس سے مختلف پگڈنڈیوں پر پڑ کر ابن آدم کی جمعیت اور شیرازہ بکھر تو سکتا ہے مجتمع نہیں ہو سکتا، کیونکہ انسان کے حیوانی میلانات جداجدا ہوتے ہیں۔ اس لئے سب کا رخ بھی جدا جدا ہو سکتا ہے۔ الغرض انسانی اور ملکی نظام کے استحکام اور وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ''ربانی رہنمائی'' ایک فطری ضرورت ہے جس کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اولاد آدم اپنے مختلف اور خود ساختہ معیاروں کی بنا پر چھوٹی چھوٹی اور حقیر سی ٹکریوں میں بٹی جا رہی ہے اور بٹ کا ائتلاف اور باہمی ربط و ضبط کے امکانات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے علاوہ خدا جس طرح سب کا خدا ہے اسی طرح ساری مخلوق بھی اسی کی مخلوق ہے اس لئے اپنے بندوں کے لئے یکساں اور قابل قبول نظام حیات بھی وہی دے سکتا ہے دوسرا نہیں۔ کیونکہ بندوں کے ملکی اور نسلی احوال و ظروف کے اس قدرتی اختلاف اور نزاکتوں کو جس طرح وہ رب سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور ان غیر مصنوعی اختلافات کو باقی رکھ کر ان کو ایسی اصولی لڑی میں پرو کر ایک ایسے 'کلمۂ جامعہ' کے گرد جمع کر دینا جو ملکی وحدت، طرزِ حیات کی پاکیزگی، فوز و فلاح اور خدا جوئی جیسی توفیق مہیا کر سکے خدائی پیمانے کا یہ کام صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ بس مِنْ رَبِّھِمْ کی قید اس پس منظر کے سلسلے کی ایک لطیف تلمیح ہے۔
یہاں پر متقیوں کی جن پانچ صفاتِ حسنہ اور خصائص کا ذِکر کیا گیا ہے، ربّانی راہ کا حصول اور اس پر گامزن رہنے کی توفیق، ان کا فطری اور قدرتی نتیجہ ہے۔ ان پانچ صفات کے نتیجے کے طور پر سیدھے راستے کی بشارت دینے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام ایک نظامِ حیات ہے اور اس کے احکام اس سلسلے کی غیر منفک سنہری کڑیاں ہیں مگر ان کے خاطر خواہ اور موعود نتائج اور ثمرات کا ظہور اس کے جزوی احکام پر موقوف نہیں ہے بلکہ وہ اس امر پر منحصر ہے کہ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے پورا پورا قبول اور نافذ کیا جائے۔ جزوی شکل میں توڑ پھوڑ کر اس کو اپنانے کی کوشش نہ کی جائے اس لئے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً﴾(اسلام میں سارے داخل ہو جائیے۔ ورنہ بات نہیں بنے گی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ عالم اسلام کی محرومی کا باعث اسلام سے اس کی جزوی بستگی ہے تو بےجا نہ ہو گا۔
(۱) المُفلِحونَ (مرادیں پانے والے) فَلَح کے معنے زمین جو تنااور فَلِح کے نیچے کا ہونٹ پھٹا ہوا ہونا اور اَفْلَحَ کے معنے درست ہونا ہے۔ یعنی بگڑی بنا لینے والے۔ یہ سلسلۂ مضمون کی تیسری کڑی ہے جو آخر میں تیسرے سرے پر واقع ہے۔ مضمون کی ترتیب یہ ہے کہ:
اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے قبول کرنے والے وہ لوگ جو جزوی طور پر بعض احکام پر قناعت نہیں کرتے، وہ ''ربانی راہ یعنی سیدھے راستے'' پر پڑ جاتے ہیں، اگر وہ اس پر گامزن رہے تو مرادیں پا لیں گے، بگڑی بن جائے گی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ بالفاظ دیگر: اس سلسلۂ مضمون کی ترتیب ٹوٹ گئی تو پھر متوقع ثمرات اور نتائج کے حتمی، اصولی اور قدرتی نتیجہ والی بات نہ رہے گی۔ بخت و اتفاق اور فضل و رحمت کی بات اور ہے۔
﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَروا سَواءٌ عَلَيهِم ءَأَنذَرتَهُم أَم لَم تُنذِرهُم لا يُؤمِنونَ ﴿٦﴾... سورة البقرة
(اے پیغمبر!) جن لوگوں نے (قبولِ اسلام سے) انکار کیا ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو (عذابِ الٰہی سے) ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں۔
(۱)كَفَروا(میں نہ مانوں)كَفَروا(میں نہ مانوں کے رسیا) کفر اصل میں چھپانے کو کہتے ہیں۔ جو شخص ازراہِ جہل، بنا برعناد، بر سبیل حجود یا نفاق بنیادی حقائق دینیہ کا انکار کرتا ہے یا دوسرے شرعی احکام کی تکذیب کرتا ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کو کافر کہتے ہیں (خازن) اور اس کے اس طرزِ گریز، اسلوبِ انکار اور عملِ فرار کا نام کفر ہے۔ اسی طرح جو لوگ منصوص حقائقِ شرعیہ میں رد و بدل کرتے ہوئے ایسی 'تاویل' کا سہارا لیتے ہیں جس کی زبان اور مضمون کے لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہوتی یا وہ اپنی سفلی خواہشات اور سیاسی مصالح کی بنا پر 'تلعب بالدین' (دین سے کھیلتے اور شغل) کرتے ہیں، تو وہ بھی کفر کا ارتکاب کرتے ہیں: حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
إن المخالف قد یخالف نصامتوا ترا ویزعم أنه مؤول ولکن تاویله لا انقد اح له أصلا في اللسان لاعلي قرب ولا علي بعد ذلك كفرو صاحبه مكذب وإن كان يزعم أنه مؤول (التفرقة بين الإسلام والزندقة)
یعنی مخالف کسی متواتر نص کی مخالفت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مؤول ہے مگر اس کی اویل کے لئے قریب یا بعید زبان میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی تو یہ کفر ہے اور اس کا مرتکب مکذب (تکذیب کرنے ولا) ہے، اگرچہ وہ اس زعم میں رہے کہ وہ 'مؤول' ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
''تاویل کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہوتی ہے جو کتاب و سنت اور اجماع کے مخالف نہیں ہوتی، دوسری وہ ہوتی ہے جو ان سے متصادم ہوتی ہے۔ ایسا مؤوّل زندیق ہوتا ہے خواہ وہ یوں کیوں نہ کہے کہ اس حدیث کے راوی کے بارے میں مجھے اطمینان نہیں یا اس کے معنے دوسرے ہیں۔''
ثم التأویل تأویلان، تأویل لا یخالف قاطعا من الکتاب والسنة واتفاق الأمة وتأويل يصادم وأثبت بقاطع فذلك الزندقة.... سواء قال لا اثق بھؤلاء الرواة أو قال اثق بھم لكن الحديث مؤول ثم ذكر تأويلا فاسد الم يسمع من قبله فھو الزنديق
مندرجہ بالا آیت میں کَفَرُوْا سے مراد وہ لوگ ہیں جو بوجوہ 'میں نہ مانوں' کے اصول پر قائم ہیں اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ، کَفَرُوْا کا بدل ہے۔ اس وقت اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جن لوگوں کا شیوہ 'میں نہ مانوں' ہے یعنی وہ جن کو ڈرانا نہ ڈرانا یکساں ہے، وہ کلمہ نہیں پڑھیں گے۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کو راہ پر لانے کے لئے جتنی اور جیسی کچھ بھی کوششیں کی جائیں گی، رائیگاں ہی جائیں گی مگر بایں ہمہ ہمیں اتمام حجت، تبلیغ کے حصولِ ثواب اور اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہونے کے لئے تبلیغ اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھنے کا حکم ہے ویسے بھی یہ امور علم الٰہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کون اس سٹیج پر ہے اور کون ابھی اس سے ورے ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے ایک داعیٔ حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی بہرحال انجام دے۔ صالح عنصر تو بچ جائے گا۔ اور جو بےکار اور ردی ہو گا، وہ خود بخود اپنے انجام سے ہم کنار ہو کر رہے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر اس انکشاف کا فائدہ؟ سو وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو اس ذہنی کوفت سے نجات دلانے کے لئے ہے جو ان بد نصیبوں کو دیکھ دیکھ کر آپ کو ہوتی رہتی تھی۔ اس کیفیت کے ازالہ کے لئے دوسرے مقام پر یوں فرمایا:
﴿فَإِنَّما عَلَيكَ البَلـٰغُ وَعَلَينَا الحِسابُ ﴿٤٠﴾... سورة الرعد" ﴿فَلا تَذهَب نَفسُكَ عَلَيهِم حَسَرٰتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٨﴾... سورة فاطر
''میں نہ مانوں'' کے ان بیماروں کا دوسری جگہ یوں ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَئِن أَتَيتَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ بِكُلِّ ءايَةٍ ما تَبِعوا قِبلَتَكَ...١٤٥﴾... سورة البقرة
جن لوگوں كو كتاب دی گئی ہے اگر آپ سارے دلائل بھی ان کے پاس لے آئیں، تب بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں۔
﴿إِنَّ الَّذينَ حَقَّت عَلَيهِم كَلِمَتُ رَبِّكَ لا يُؤمِنونَ ٩٦ وَلَو جاءَتهُم كُلُّ ءايَةٍ حَتّىٰ يَرَوُا العَذابَ الأَليمَ ٩٧﴾... سورة يونس
اور (اے پیغمبر!) جو لوگ آپ کے رب کے حکم (عذاب) کے مستوجب ٹھہر چکے ہیں، وہ تو جب تک عذاب درد ناک کو دیکھ نہ لیں گے کسی طرح ایمان لانے والے ہیں نہیں اگرچہ (دنیا جہاں کے) تمام معجزے ان کے سامنے (کیوں نہ) آموجود ہوں۔
الغرض جو لوگ یہ تہیہ کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ بہرحال اپنے سابقہ موقف پر ڈٹے رہیں گے۔ ان کو تبلیغ کرنا ان کے لئے قطعاً مفید نہیں ہو سکتا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ زبردستی کسی سے کچھ نہیں منواتا۔ صرف دعوت دیتا ہے، سمجھاتا ہے اگر وہ مان لیں تو بہتر، اگر نہیں تو نہ سہی۔
(۲) انذار (وارننگ دینا، نتائج بد سے آگاہ کرنا، متنبہ کرنا) اس کے معنی دھمکی دینا نہیں، بلکہ غلط نتائج سے مطلع کرنا ہیں۔ اندیشوں سے اعتراز اور پرہیز کرنے کے لئے اگر گنجائش اور وقت باقی ہو تو اس سلسلے میں تنبیہ کرنے کو 'انداز' کہتے ہیں اور اگر گنجائش باقی نہ رہے تو اس کا نام 'اعلام اور اخبار' ہے:
إن کان للزمان اتساع بحیث یسع فیه الاحتراز عن المخوف به فإنذار وإلا إعلام وإخبار لا إنذار (كشف المحجوبَين علي تفسير الجلالين ص ۱۰)
﴿خَتَمَ اللَّهُ عَلىٰ قُلوبِهِم وَعَلىٰ سَمعِهِم ۖ وَعَلىٰ أَبصـٰرِهِم غِشـٰوَةٌ ۖ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٧﴾... سورة البقرة
ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے اور (آخرت میں) ان کو بڑا عذاب (ہونا) ہے۔
(۱) خَتَمَ (مہر لا دی) مہر ہمیشہ خط، آرڈر اور مضمون کے اختتام اور تکمیل پر ان کے آخر میں لگائی جاتی ہے پہلے نہیں گویا کہ مضمون اور خط کی تکمیل ہی مہر ثبت کرنے کا باعث اور نتیجہ ہوتی ہے، مہر خط اور آرڈر یا مضمون کا باعث نہیں ہوتی۔ یہاں پر 'مضمون' آیت ﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَروا سَواءٌ عَلَيهِم﴾ میں مذکور ہو گیا ہے یعنی 'میں نہ مانوں'۔
مہر لگانے سے مراد یہ ہے کہ غلط کام پر انسان کے دل میں جو خلش کبھی کبھار چٹکیاں لیتی رہتی ہے، وہ اب جاتی رہتی ہے۔ ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، اس کی طرف سے پھر کبھی صدا بلند نہیں ہوتی اور نہ احتجاج ہوتا ہے۔ اب ان کو ضمیر کی طرف سے کسی فطری مزاحمت اور ملامت کا کھٹکا بھی باقی نہیں رہتا۔ بلکہ اپنی کج روی، بد عملی اور کفر بازی کو بنظر استحسان دیکھنے لگ جاتے ہیں۔
﴿وَهُم يَحسَبونَ أَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعًا ﴿١٠٤﴾... سورة الكهف
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خوب کام کر رہے ہیں۔
اور اس پر وہ پوری طرح مطمئن ہو رہتے ہیں:
﴿إِنَّ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنا وَرَضوا بِالحَيوٰةِ الدُّنيا وَاطمَأَنّوا بِها...٧﴾... سورة يونس
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کا کھٹکا ہی نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر وہ مطمئن ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ آسمانی کتابوں سے نفرت بھی کرتے ہیں:
﴿ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَرِهوا ما أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحبَطَ أَعمـٰلَهُم ﴿٩﴾... سورة محمد
یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ وہ خدا کی نازل کردہ آیات سے نفرت کرتے ہیں، تو خدا نے ان کا کیا کرتا ضائع کر دیا۔
صرف نفرت نہیں استہزاء بھی کرتے ہیں: ﴿إِنَّما نَحنُ مُستَهزِءونَ﴾
وہ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن کے سوا کچھ اور لاؤ یا اسی میں کچھ رد و بدل کر دو:
﴿بِقُرءانٍ غَيرِ هـٰذا أَو بَدِّلهُ...١٥﴾... سورة يونس
جب یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت دل سے احساس، نگاہوں سے دیدِ حق اور کانوں سے شنیِ حق کی ساری توقیق چھن جاتی ہے، حجود و انکار ان کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ حق سے ان کو وحشت ہونے لگتی ہے۔
معصیت کوشی، خدا فراموشی، نفس و طاغوت کی چاکری، داعیان حقِ سے عداوت، نفرت، بدوں سے الفت اور محبت ان کی غذا ہو جاتی ہے۔ بس یہ وہ 'کیفیت' ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے مختلف ناموں سے یاد فرمایا ہے۔
حضرت امام ابن قیمؒ (ف ۷۵۱ھ) نے ان کی پوری لسٹ اور فہرست دے دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
ختم، طبع، اکنہ، غطاء، غلاف، حجاب، وقر، غشاوہ، ران، غل، سد، قتل، صمم، بکم، عمی، صد، صرف، شد علی القلب، ضلال (بعید) اغفال، مرض، تقلیبِ افئدہ الحول بین المرء وقبلہ، ازاغۃ القلوب، خذلان، ارکاس، تثبیط، تزیین، ان کی تطہیر و ہدایت سے پرہیز، احیاء کے بعد اماتت قلوب کے سامان، روشنی کا چھین لینا، قلب قاسی، سینہ کی تنگی (صدر ضیق) (شفاء العلیل ص ۹۲)