قومِ یہود

حیلہ گر، مفسد، سرکش، منافق، جارح

جن اور انسانوں کی تخلیق سے غرض یہ تھی کہ وہ مخالف عواطف اور میلانات کے باوجود خدا کی غلامی اور عبدیت کا ثبوت پیش کریں ﴿ما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورة الذاريات یہ مقصد نہیں تھا کہ رنگ، نسل اور ارضی اختلافات کے ترازو میں تلتے اور لڑتے رہیں لیکن جب انسانوں نے اپنے اس 'پس منظر' کو بھلا دیا تو وہاں آرہے جہاں عزتِ نفس، وقار اور حق خود اختیار کے نام پر، ابن آدم کی تذلیل کا اتمام ہو رہا ہے۔

قومِ یہود بالخصوص اس باب میں سب سے بازی لے گئی ہے۔ دین جو ابن آدم کی مشترک روحانی میراث ہے۔ انہوں نے اس کو بھی ایک نسلی جائداد بنا دیا ہے۔

یہودی نسلی طور پر حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹے ''یہودہ'' کی اولاد ہیں لیکن مذہبی لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھتے ہیں مر لطیفہ یہ ہے کہ ان کی یہودیت، موسویت میں تبدیل نہیں ہوئی، ہاں اپنی موسویت کو یہودیت کے تابع کر کے، اس کو اسی رنگ میں رنگ دیا۔ چنانچہ اپنے اس ڈبل استحقاق کی بنا پر ان کو یہ اصرار ہے کہ فلسطین ان کو ملنا چاہئے۔ کیوں؟ کہتے ہیں کہ یہود اربابِ موسویت یہاں پر بھی براجمان رہے ہیں۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ، اسی کو کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ،اگر یہ بات ہے تو کبھی سے آپ روس، امریکہ، برطانیہ اور جرمن وغیرہ میں بھی تو رہتے ہی آرہے ہیں۔ وہاں بھی آپ کو اپنے استحقاق کی جنگ لڑنا چاہئے تھی۔ خاص طور پر امریکہ میں تو عرصہ سے عملا اور معناً برسر اقتدار بھی تم ہو۔ ممکن ہے وہ یہ سوچتے ہوں کہ یہاں کے اصلی باشندے امریکن ہیں۔ اس لئے یہودیوں کا حق نہیں بنتا۔ تو فلسطین میں بھی آپ کی پوزیشن کا یہی حال ہے۔ کیونکہ اس کے اصلی باشندے کنعانی ہیں جو کنعان بن حام بن نوح کی اولاد ہیں یا عمالقہ ہیں جو لاد د بن سام بن نوح سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہودی یہودہ بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم بن تارح بن ناحور کی اولاد ہیں جو بارہویں پشت میں حضرت نوح سے جا ملتے ہیں۔

اس کے علاوہ: یہ اسرائیلی (اولاد یہودہ) کوئی ڈیڑھ سو سال کنعان میں رہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں اس کو چھوڑ کر مصر جا بسے ہیں اور ۴۰۰ سال مصر میں رہ کر پھر دوبارہ حضرت یوشع علیہ السلام کی سرکردگی میں اسے فتح کیا۔ اس کے بعد متعدد بار یہاں سے نکلتے اور آتے رہے۔ جم کر رہنے کا کبھی بھی ان کو موقعہ نہیں ملا تھا۔ اگر کبھی کبھار قبضہ کر کے کچھ عرصہ رہنے سے آپ پورے فلسطین کے اصلی مالک اور وارث بن سکتے ہیں تو جن مسلمانوں نے صدیوں یہاں ڈیرے الے ہیں ان کو اس کا کیوں حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے وارث کہلائیں اور یہ بجائے خود حقیقت ہے کہ یہاں پر باہر سے مسلمان درآمد نہیں کیے گئے تھے بلکہ وہاں کی مقامی آبادی ہی مسلمان ہو گئی تھی۔ اگر سارے باہر سے درآمد کیے گئے ہوتے تو ان پر شاید آپ کے اعتراض کی بھی گنجائش نکل سکتی۔

دراصل یہود ایک بہانہ باز اور حیلہ گر قوم ہے خوئے بدرابہانہ بسیار، کے مطابق خانہ ساز مفروضے تیار کر کے اس نے فلسطین پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رکھی ہے۔ گو اب وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں اور ایسے ہی حالات پیدا کر کے وہ اپنی بات عربوں سے منوا سکتے تھے جو حالیہ جنگ کی صورت میں انہوں نے پیدا کیے ہیں۔ جس کا ہمیں حد درجہ صدمہ ہے کہ سو پیاز بھی پورے ہوئے اور سو ڈنڈے بھی۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون!

بہرحال ہم اس کے حق میں نہیں ہیں کہ یہودیوں کی ریاست قائم ہو یا عرب اس کی آئینی حیثیت تسلیم کر کے آئینی جواز اس کو مہیا کریں۔ کیونکہ یہ قوم مکار، مفسد، حیلہ گر، سرکش، تخریب پسند، منافق، ملعون، محرّف، جرائم پیشہ اور جارح ہے۔ یہ جہاں بھی قدم رکھیں گے، خیر نہیں ہو گی۔ ان کے بار میں قرآن حکیم نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ واضح اور حد درجہ بصیرت افروز ہیں۔

قرآنِ حمید کا اصرار ہے کہ یہ ملعون قوم ہے:﴿بَل لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفرِ‌هِم...٨٨﴾... سورة البقرة

مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین لوگ ہیں: ﴿أُولـٰئِكَ شَرٌّ‌ مَكانًا...٦٠﴾... سورة المائدة

راہِ راست سے دور: ﴿وَأَضَلُّ عَن سَواءِ السَّبيلِ ﴿٦٠﴾... سورة المائدة

حق کا انکار، جان بوجھ کر اور صرف ذاتی شمنی اور ضد کی بنا پر کیا کرتے تھے:

﴿وَءاتَينـٰهُم بَيِّنـٰتٍ مِنَ الأَمرِ‌ ۖ فَمَا اختَلَفوا إِلّا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ العِلمُ بَغيًا بَينَهُم...١٧﴾... سورة الجاثية

یعنی انکار کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ، بات دوسرے قبیلے کے کسی فرد کے منہ سے نکلی ہے، یعنی وہی سراپا نسلی خمار۔

اپنے بارے میں وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ خدا کے چہیتے اور روحانی اولاد ہیں:

﴿نَحنُ أَبنـٰؤُا اللَّهِ وَأَحِبّـٰؤُهُ...١٨﴾... سورة المائدة

دوسروں کے متعلق ان کا نعرہ تھا کہ وہ سب دوزخی ہیں:

﴿وَقالَتِ اليَهودُ لَيسَتِ النَّصـٰر‌ىٰ عَلىٰ شَىءٍ...١١٣﴾... سورة البقرة

اور اپنی تمام تر بد کرداریوں کے باوجود سدا اس موڈ میں رہتے تھے کہ لوگ ان کے گن گائیں:-

﴿يُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا...١٨٨﴾... سورة آل عمران

اپنی حماقتوں کے سلسلے میں یہ خوش فہمی رکھتے تھے کہ خیر سلّا ہے، معاف ہو جائیں گی۔

﴿وَيَقولونَ سَيُغفَرُ‌ لَنا...١٦٩﴾... سورة الاعراف

لوگوں کا استحصال کرتے اور ناحق ان کے مال کھاتے تھے:

﴿وَأَكلِهِم أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ...١٦١﴾... سورة النساء

جھوٹ موٹ پر جان چھڑکتے اور حرام کو شیرِ مادر سمجھتے تھے:

﴿سَمّـٰعونَ لِلكَذِبِ أَكّـٰلونَ لِلسُّحتِ...٤٢﴾... سورة المائدة

عہد شکن لوگ ہیں:﴿أَوَكُلَّما عـٰهَدوا عَهدًا نَبَذَهُ فَر‌يقٌ مِنهُم...١٠٠﴾... سورة البقرة

﴿ثُمَّ تَوَلَّيتُم مِن بَعدِ ذ‌ٰلِكَ...٦٤﴾... سورة البقرة

مرضی کے خلاف خدا بھی آکر کہے تو اکڑ جاتے ہیں:

﴿أَفَكُلَّما جاءَكُم رَ‌سولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُكُمُ استَكبَر‌تُم...٨٧﴾... سور ةالبقرة

بعض کو صرف جھٹلاتے اور بعض کو قتل بھی کر ڈالتے:

﴿فَفَر‌يقًا كَذَّبتُم وَفَر‌يقًا تَقتُلونَ ﴿٨٧﴾... سورة البقرة

انبیاء سے احتجاج کیا کرتے تھے:﴿لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَ‌ى اللَّهَ جَهرَ‌ةً...٥٥﴾... سورة البقرة

جہاں کیفیت یہ ہے وہاں اطاعت کا کیا سوال؟ بلکہ وہ انبیاء سے یہاں تک کھل کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم خود صاحب علم و فہم ہیں آپ کے محتاج نہیں ہیں:

﴿وَقالوا قُلوبُنا غُلفٌ...٨٨﴾... سورة البقرة

الٹ کرنا ان کی فطرت تھی:﴿ فَبَدَّلَ الَّذينَ ظَلَموا قَولًا غَيرَ‌ الَّذى قيلَ لَهُم...٥٩﴾... سورة البقرة

﴿قالوا سَمِعنا وَعَصَينا...٩٣﴾... سور البقرة

خدا نے منّ و سلویٰ یا، کہا، مسور کی دال وغیرہ چاہئے:

﴿ لَن نَصبِرَ‌ عَلىٰ طَعامٍ و‌ٰحِدٍ...٦١﴾... سورة البقرة

ٹال مٹول، بس خوئے بدرا بہانہ بسیار: گائے کے ذبح کا واقعہ ملاحظہ ہو۔ (۲/۹۶ تا ۲/۹۷)

یہ بد نصیب قوم پتھر تھی بلکہ پتھروں سے بھی سخت:﴿فَهِىَ كَالحِجارَ‌ةِ أَو أَشَدُّ قَسوَةً

سمجھ لینے کے بعد کلام الٰہی میں تحریف کرنا ان کا دستور ہو گیا تھا:

﴿يُحَرِّ‌فونَهُ مِن بَعدِ ما عَقَلوهُ﴾

دین میں بھی بدنام سیاسی چالیں چلنا ان کا شیوہ تھا:

﴿ أَتُحَدِّثونَهُم بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيكُم لِيُحاجّوكُم بِهِ عِندَ رَ‌بِّكُم...٧٦﴾... سورة البقرة

اور درجہ کے شیخ چلی تھے:

﴿لا يَعلَمونَ الكِتـٰبَ إِلّا أَمانِىَّ وَإِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ﴿٧٨﴾... سورة البقرة

خود مرتب کرنا اور پھر کہنا کہ یہ نوشتہ الٰہی ہے:

﴿يَكتُبونَ الكِتـٰبَ بِأَيديهِم ثُمَّ يَقولونَ هـٰذا مِن عِندِ اللَّهِ...٧٩﴾... سورة البقرة

کیوں؟ صرف مادی منفعت کے حصول کے لئے:

﴿ لِيَشتَر‌وا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا﴾

وہ خدا پر بھی معترض اور ناراض ہو جاتے تھے کہ ان کی مرضی کو خدا نے ملحوظ نہیں رکھا۔

﴿بَغيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضلِهِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ...٩٠﴾... سورة البقرة

بلکہ ناك بھنويں چڑھا كر تحقير سے خدا کی بات کا ذکر کرتے تھے:

﴿ماذا أَر‌ادَ اللَّهُ بِهـٰذا مَثَلًا﴾*﴿ما وَلّىٰهُم عَن قِبلَتِهِمُ الَّتى كانوا عَلَيها

بلکہ خدا کی یہ وحی لانے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھی اپنا مخالف سمجھتے تھے:

﴿ قُل مَن كانَ عَدُوًّا لِجِبر‌يلَ﴾

اللہ کے رسول کا مذاق اُڑاتے اور اپنا نوکر بنا کر ان سے بات کرتے:

﴿ لا تَقولوا ر‌ٰ‌عِنا﴾

كتمانِ حق کی بیماری ان کو الگ تھی:

﴿لَيَكتُمونَ الحَقَّ وَهُم يَعلَمونَ ﴿١٤٦﴾... سورة البقرة

جس خطے میں اس 'قماش' کی قوم جگہ پائے گی وہ کیا باقی رہنے دے گی۔ دیکھ لیجئے۔! ابھی عرب کی سرزمین میں اس نے قدم رکھا ہی ہے کہ عرب تہ و بالا ہو رہا ہے۔ جب جم کر بیٹھنے کا ان کو موقعہ ملا تو خدا جانے کیا ہو۔ بہرحال سوچ لیجئے! کیا کرنے لگے ہیں اور کس کو جگہ دنے لگے ہیں۔

اخوان کے سربراہ حسن الہضیبی وفات پا گئے

مصر کے روزنامہ 'الاہرام' نے خبر دی ہے کہ ۱۰ نومبر کو اخوان المسلمین کے سربراہ حسن الہضیبی انتقال کر گئے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیه راجون۔

موصوف کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ تھی، اخوان المسلمین سے وابستہ ہونے سے پہلے موصوف مصر کے کورٹ آف اپیل کے جج تھے۔ اخوان کے بانی حسن البنا کے بعد اخوان نے ۱۹۶۹ء میں حسن الہضیبی کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ ۱۹۵۳ء میں ان کو اور ان کو بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مصر کے موجودہ صدر انور السادات نے ۱۹۷۲ء میں انہیں رہا کیا تھا۔ (امروز ۱۸ء نومبر)

بات یہ نہیں کہ فلاں عظیم شخصیت دنیا سے رخصت ہو گئی، کیونکہ تابہ کے؟ آخر یہی ہونا تھا، جب محمد رسول اللہ ﷺ جیسی مبارک ہستی دنیا میں نہ رہی تو اور کس کے متعلق کوئی شخص دعوے کر سکتا ہے کہ اسے یہاں ہی رہنا ہے؟ بلکہ اصل رونا اس بات کا ہے کہ دنیا نے ہمیشہ بھلے آدمیوں، باخدا رہنماؤں، داعی حق تحریکوں کی قدر نہیں کی، جو ان کا بھلا چاہتے ہیں، انہی کے ساتھ عموماً برا کیا ہے۔

'اخوان' دنیائے عرب کی ایک ایسی دینی تحریک تھی، جو احیاء دین، اعلاء کلمۃ اللہ اور ملت اسلامیہ کی سربلندی کے لئے ابھری اور ہمارے دیکھتے دیکھتے دنیائے عرب پر چھا گئی، قریب تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی اور بڑی طاقتوں کی سیاسی داشتہ یہود جیسی منحوس ریاست کا بھی ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو جاتا لیکن مغربی سامراج اور دین محمد علی صاحبها ألف ألف صلوٰۃ وسلام کی دشمن طاقتوں کی سازش کی نذر ہو گئی اور یہ سبھی کچھ انہی مصریوں اور اس کے ہمنوا دوسرے مسلمان ملکوں کے ہاتھوں ان کو سولی پر لٹکوا کر ان کی دنیا، آخرت اور تاریخ کو سیاہ کیا۔

اسی طرح حجاز میں ''محمد بن عبد الوہاب'' رحمۃ اللہ علیہ کی جو تحریک اُٹھی وہ بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں حجاز تک محدود ہو کر رہ گئی، ترکیوں، مصریوں اور عجمیوں نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، متحدہ ہندوستان کے رضا خوای اور برخود غلط بریلوی لوگوں سے بدخواہوں نے بڑا کام لیا۔ ورنہ پورا عالمِ اسلام ''حاملِ دین'' ہوتا اور ملّتِ اسلامیہ ایک ایسی ملی وحدت سے ہمکنار ہو چکی تھی ہوتی جو بالکل ناقابلِ تسخیر ہوتی۔

ہند میں مجاہدین کی ایک جماعت نے کروٹ لی تو خدا دشمن طاقتوں اور بعت کے رسیا بد نصیب لوگو نے طوفان کھڑا کر ڈالا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ابھی تک ان ظالموں نے حق کے ان داعیوں کے ''جرم حق'' کو معاف نہیں کیا۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

افسوس تو یہ ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی تحریک شروع ہوتی ہے تو دنیا داروں سے زیادہ بزعم خود دیندار اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس سے بڑھ کر سیاہ بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان سے خطرہ 'دین فروشوں اور سیاہ کاروں' کو نہیں۔ اگر ہے تو صرف 'حاملِ اسلام تحریکوں' کو!! ان کی اکثریت شعبدہ باز سیاسی مداریوں کے پٹارے کی چیز ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر کوئی خدا کا نام لیتا ہے تو بقول اکبر الٰہ آبادی مرحوم ؎
لوگوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا کر کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
وَاَکْلِھِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ (۴/۱۶۱)