نومبر 1973ء

علامہ سعد الدین تفتازانیؔ

آٹھویں صدی ہجری کے مسلمان حکماء میں علامہ تفتازانی کا نام نہایت نمایاں ہے۔ ان کا نام مسعود اور لقب سعد الدین تھا۔ وہ خراسان کے شہر تفتازان میں صفر المظفر ۷۲۲؍ فروری۔ مارچ ۱۳۲۲ء میں پیدا ہوئے۔

تفتازانی نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں پائی۔ اعلیٰ تعلیم عضد الدین ایجی مؤلف ''مواقف'' (م ۷۵۶ھ) سے پائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قطب الدین رازی (م ۷۶۶ھ) سے بھی استفادہ کیا تھا۔ تفتا زانی نے جملہ مروجہ علوم صرف و نحو، منطق و فلسفہ، معانی و بیان اور اصول و تفسیر میں کمال حاصل کیا۔ ان کی شہرت جلد ہی دور دور تک پھیل گئی اور طلبہ ان سے استفادے کے لئے رجوع کرنے لگے۔

تفتازانی کی تصانیف سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مختلف شہروں میں قیام کیا۔ وہ جام، ہرات، سرخس، سمر قند، جبرون، ترکستان اور خوارزم میں مقیم رہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تفتا زانی نے مظفریہ حکمران فارس شاہ شجاع کے دربار میں ملازمت اختیار کر لی۔ تیمور نے ۷۸۰ یا ۷۸۱ھ میں خوارزم پر حملہ کیا اور شاہ شجاع کی سلطنت متاثر ہوئی۔ اس زمانے میں ملک محمد سرخسی نے اپنے بھتیجے محمد بن غیاث الدین کو لکھا (جو اس وقت تیمور کا درباری تھا) کہ تیمور سے منظور لے کر تفتا زانی کو سرخس بھیج دیا جائے۔ چنانچہ تفتازانی ملک محمد سرخسی کے پاس سرخس چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد امیر تیمور کو تفتازانی کے علم و فضل سے آگاہی ہوئی تو انہیں واپس سمر قند بلا بھیجا۔ تفتا زانی نے پہلے تو عذر کیا کہ وہ حجاز جانے کا ارادہ رکھتا ہے مگر مکرر طلبہ پر سمر قند چلا گیا۔ تیمور نے اپنے دربار میں صدر صدور کی حیثیت سے جگہ دی۔

۷۸۹ھ/ ۱۳۸۹ء میں شیراز فتح ہونے پر سید شریف جرجانی (م ۸۱۶ھ) بھی تیمور کے دربار سے منسلک ہو گیا۔ دونوں حکماء میں معاصرانہ چشمک پائی جاتی تھی جس کا اظہار جرجانی کی تالیفات میں تفتا زانی کے افکار و نظریات پر تنقید سے ہوتا ہے۔

تفتا زانی اور سید شریف جرجانی کے مابین اکثر علمی مباحثے اور مناظرے ہوتے تھے۔ ۷۹۱ھ میں اس مسئلے میں کہ ''اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ﴿ولـٰئِكَ عَلىٰ هُدًى مِن رَ‌بِّهِم...٥﴾... سورة البقرة" میں علامہ جار اللہ زمخشری (م ۲۸ھ) کے قول کے مطابق استعارہ تبعیہ اور استعارہ تمثیلیہ ونوں جمع ہو گئے ہیں۔'' مناظرہ ہوا اور نعمان الدین الخوارزمی معتزلی حکم قرار پائے۔ سید شریف کا پلہ بھاری ہوا۔

ایک دوسری روایت یہ ہے کہ دونوں حکماء کے درمیان دو مسئلوں پر مناظرہ ہوا۔

ایک اس قول پر ﴿خَتَمَ اللَّهُ عَلىٰ قُلوبِهِم وَعَلىٰ سَمعِهِم ۖ وَعَلىٰ أَبصـٰرِ‌هِم...٧﴾... سورة البقرة

دوسرا فلسفیانہ مسئلہ میں کہ غصہ انتقام لینے کا سبب بنتا ہے یا انتقام غصہ کا سبب ہے۔

اس مسئلہ میں جرجانی نے پہلی شق اور تفتازانی نے دوسری شق اختیار کی۔ شیخ منصور گازرونی کہتے ہیں کہ سید شریف جرجانی کے دلائل زیادہ وزنی تھے۔

تیمور ہر دو حضرات کی عزت و تکریم کرتا تھا مگر سید شریف کو اس لئے ترجیح دیتا تھا کہ وہ نسباً سید تھا، اور اس لحاظ سے وہ تفتا زانی سے برتر تھا۔ دونوں حضرات میں آئے دن مناظرے ہوتے رہتے تھے۔ ایک روایت ہے کہ تفتا زانی کو ایک مناظرے میں زک اٹھانی پڑی اور اس صدمے کو برداشت نہ لا کر ۲ محرم ۷۹۲ھ/ جنوری ۱۳۹۰ء کو سمرقند میں فوت ہو گئے۔ 'حبیب السیر' نے سال وفات ۷۹۷ھ لکھا ہے۔

تفتازانی کی میت سرخس منتقل کر دی گئی اور وہیں جمادی الاولیٰ ۷۹۲ھ کو تدفین عمل میں آئی۔

تفتازانی کے ہزاروں شاگردوں میں سے صرف دو کے نام تذکروں میں ملتے ہیں۔

(۱) حسام الدین الحسن بن ابی وردی (۲) برہان الدین حیدر

تصانیف:

تفتا زانی نے سولہ سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی اور آخر دم تک قلم ہاتھ سے نہ رکھا۔ ان کی بے شمار کتابیں یادگار ہیں۔ آرمینیس ویمبرے نے ایک قول نقل کیا ہے کہ ''اس کی کتابوں کی تعداد اس کی عمر کے سالوں سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔'' علامہ ابن خلدون (م ۸۰۸ھ) نے مصر میں تفتازانی کی چند کتابیں دیکھیں تو تفتازانی کا ذکر ''ایک زبردست فاضل'' کے لقب سے ''مقدمہ'' میں کیا۔

تفتا زانی نے جملہ مروجہ علوم میں کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ ذیل میں کتابوں کی فہرست موضوع دار دی جاتی ہے۔

صرف و نحو:

1. شرح التصریف العیز: عز الدین عبد الوہاب بن ابراہیم زنجانی کی کتاب 'التصریف' کی شرح ہے۔ مؤلف نے شعبان ۷۳۸ھ میں سولہ سال کی عمر میں لکھی۔ چونکہ یہ عز الدین زنجانی کی کتاب کی شرح ہے اس لئے شرح التصریف کو بعض اوقات 'زنجانیہ' کا نام دے دیا جاتا ہے۔

2. رسالة الإرشاد: حاجی خلیفہ (م ۱۰۶۷ھ) نے اسے ارشاد الہادی لکھا ہے۔ عربی نحو ی یہ کتاب تفتا زانی نے اپنے بیٹے کے لئے لکھی تھی۔ ۷۷۴ھ یا ۷۷۸ میں مکمل ہوئی۔ حاجی خلیفہ (م ۱۰۶۷ھ) نے اس کی کئی شرحوں کا ذکر کیا ہے۔

معانی و بیان:

تفتا زانی نے اس موضوع پر سکاکی (م ۶۲۶ھ) کی تالیف 'مفتاح العلوم' کے تیسرے حصے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ تین کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے دو محمد بن عبد الرحمان قزدینی (م ۷۳۹ھ) کی 'تلخیص المفتاح' کی شرحیں ہیں۔

تیسری براہِ راست مفتاح کی شرح ہے۔

3. مطول: عام طور پر 'شرح المطول' مشہور ہے۔ ہرات میں ۷۴۸ھ/۱۳۴۷ء میں لکھی گئی۔

4. مختصر المعانی: تلخیص کی نسبتاً شرح ہے۔ درسِ نظامی میں شامل ہے۔

5. شرح القسم الثالث في المفتاح: مفتاح کے تیسرے حصے کی یہ شرح شوال ۷۸۷ھ میں سمر قند میں مکمل ہوئی۔ اسے مختصر المعانی یا مول جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ مخطوطات کی صورت میں بعض کتب خانوں میں اس کے نسخے ملتے ہیں۔

منطق:

6. شرح رساله شمسیه، شرح شمسیه : نجم الدین علی قزوینی الکاتبی (م ۶۷۵ھ) کی کتاب ''رسالہ شمسیہ'' کی شرح ہے۔ جام میں جمادی الآخرہ ۷۵۲ھ میں مکمل ہوئی۔

7. تهذیب المنطق والکلام: کتاب کا پورا نام 'غایت تهذیب الکلام في تحریر المنطق والکلام' ہے۔ یہ اہم کتاب رجب ۷۸۹ھ/۱۳۸۷ء میں مکمل ہوئی۔ کتاب کا پہلا حصہ منطق اور دوسرا علم الکلام میں ہے۔ پہلا حصہ علماء کی توجہ کا باعث بنا۔ اس کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں۔ اس کی شرح تہذیب دس نظامی میں شامل ہے۔

8. ضابطة إنتاج الاشکال: مولانا عبد السلام ندوی نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔

علم کلام وما بعد الطبیعات:

9. شرح المقاصد: مابعد الطبیعات اور علم کلام کے موضوع پر تفتازانی نے ایک رسالہ 'مقاصد الطالبین في أصول الدین' لکھا۔ بعد ازاں اس کی شرح ذی القعدہ ۷۸۴/۱۳۸۳ء میں سمر قند میں مکمل کی۔

تهذیب المنطق والکلام کا جائزہ منطق کی کتابوں میں لیا جا چکا ہے۔

10. شرح عقائد نسفی: عمر محمد النسفی (م ) کی تالیف 'عقائد نسفی' کی شرح ہے جو خوارزم میں شعبان ۷۶۸/۱۳۶۷ء میں مکمل ہوئی۔ تفتازانی کی شرح پر کئی شرحیں لکھی گئیں ہیں اور یہ کتاب مدارسِ عربیہ میں مقبول و متداول ہے۔ 'خیالی' اس کی معروف شرح ہے جس پر علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی (م ۱۰۲۱ھ) نے حاشیہ لکھا ہے۔

11. ایک رسالے میں ابن عربی (م ۶۳۸ھ) کی 'فصوص الحکم' پر محاکمہ ہے۔

اصولِ فقہ:

12. التلویح إلیٰ کشف حقائق التنقیح: صدر الشریعت اول کی تالیف 'تنقیح الاصول' کی شرح ذو القعدہ ۷۵۸ھ / ۱۳۵۷ء میں مکمل کی۔

13. شرح شرح المختصر في الأصول یا شرح الشرح

ابن حاجب (م ۶۴۶ھ) نے اصول فقہ مالکی میں رسالہ 'المختصر المنتهیٰ' لکھا۔ اس کی شرح علامہ عضد الدین ایجی (م ۷۵۶ھ) نے لکھی۔ ایجی کی شرح کی شرح تفتا زانی نے کی ہے۔

قانون:

14. المفتاح: فقہ شافعی کی فروع پر ایک مخطوطے کی صورت میں برلن میں محفوظ ہے۔

15. فتاوےٰ حنفیہ: ذو القعدہ ۷۶۹ھ میں یہ فتاویٰ مرتب کیا۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (Incyclopedia of Islam) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ آج کل فتاوےٰ حنفیہ معدوم ہے۔

16. اختصار شرح الجامع الکبیر: جامع الکبیر امام محمد شیبانی (م ۲۵۶ھ) کی مشہور تالیف ہے۔ الخلاطی نے اس کا اختصار کیا۔ مسعود بن محمود نے اس کی شرح لکھی۔ اس شرح کا نامکمل اختصار ہے۔

تفسیر قراٰن:

17. کشف الاسرار وعدۃ الابرار: فارسی زبان میں قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ اس نام کی تفسیر خواجہ عبد اللہ انصاری (م ) نے لکھی ہے جس کا جدید ایڈیشن جناب علی اصغر حکمت کے سعی و اہتمام سے طہران سے ۱۳۷۸ھ میں شائع ہوا ہے۔

18. شرح (یا حاشیہ) کشاف: جار اللہ زمخشری (م ۵۲۸ھ) کی تفسیر کشاف کا نامکمل حاشیہ (یا شرح) جو برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں بصورت مخطوطہ موجود ہے۔ ۸ ربیع الاول ۷۸۶ھ میں سرخس میں لکھی گئی۔

حدیث:

19. شرح اربعین نووی: شارح صحیح مسلم امام نووی (م ۶۷۶ھ) کی اربعین کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں تفتا زانی سے بھی ایک شرح منسوب ہے۔

لسانیات:

20. النعم السوابیخ في شرح الکلام النوابیخ: زمخشری (م ۵۲۸ھ) کی کتاب نوابیخ کی شرح ہے۔

21. ترجمہ بوستانِ سعدی: شرف الدین سعدی شیرازی (م ۶۹۱ھ) کی بوستان کا ترکی زبان میں ترجمہ ہے۔

مآخذ:

(۱) انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (۲) حکمائے اسلام حصہ دوم (عبد السلام ندوی)

(۳) الفوائد البہیہ (عبد الحی لکھنوی) (۴) تاریخ بخارا (اردو ترجمہ) ارمینیس دیمبرے

(۵) مقدمہ ابن خلدون (ابن خلدون)