1. میرے قدیم آبائی مذہب کے متعلق میرے شکوک اور اس مذہب کے بے دلیل عقائد نے مجھے مذہب سے بے زار کر کے دینی حدود میں دھکیل دیا تھا لیکن اسلام کی حقائق آفریں تعلیمات کی روشنی مجھے لا دینی سے سلامتی کی راہ پر لے آئی ہے۔ صمیمِ قلب کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اسی نے مجھے ظلمت سے نور کی طرف کھینچا اور بہیمانہ زندگی سے نکل کر حیاتِ انسانی کی آغوش میں پہنچ گیا۔
2. شومیئے قسمت انگلستان نہایت ہی تنگ ظرف و متعصب واقع ہوا ہے۔ اس میں فلسفہ کا فقدان ہے۔ اس لئے اس کے بالمقابل دینِ اسلام سچا مذہب ہے جس میں روحانیت و صداقت، علم و عرفان کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
3. بائیبل کے ماننے والے آج اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں کیونکہ بائبل کی صحت تو مشکوک ہو گئی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہی کہ طلبِ حق و صداقت کے لئے اس کی ورق گردانی کی جائے۔ اب طالبِ حق کی تشفی اسلام میں ہی ہو سکتی ہے۔
4. میں نے بہت سے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا لیکن اسلام کی تعلیم میرے دل پر دوسرے مذاہب سے بڑھ کر اثر کرتی ہے۔ کیونکہ اس نے سکھایا کہ کوئی شخص اس کبریائی کا مالک نہیں جو ہمارے خالقِ حقیقی خداوند تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے۔ حالانکہ دوسرے مذاہب میں ایسے دیوتا اور اولیاء موجود ہیں جن کی وہ پرستش کرتے ہیں اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ بائبل کو مسیحی کلیسائے روم سے مطابقت دینے کے لئے اس قدر محرف و متبدل بنایا گیا ہے کہ اس کی صداقت پر یقین کرنا مشکل ہے۔
5. یہ معمہ حل طلب ہے کہ رومن کیتھولک و پروٹسٹنٹ مذہب کے اکابر علماء اور ان کی دیگر جماعتیں کیوں اسلام کے متعلق غلط بیانیاں پھیلا کر اسے مجموعۂ توہمات قرار دے رہی ہیں۔ جبکہ وہ سب کے سب خود بھی غلط بندشوں، رواجات و رسومات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں جن سے بیسویں صدی سے کہیں بڑھ کر گزشتہ تین ہزار سال کے صنم پرست مصر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میں خوش ہوں کہ مجھے ان باطلیات سے بدرجہا بہتر و معقول چیزیں مل گئی ہے۔
6. اسلام خالق و مخلوق کے درمیان رشتۂ امن و اتحاد قائم کرتا ہے۔ اسلام میں ربانی احکام پر بندگانِ خدا سے نیک سلوک کرنا ایک افضل ترین نصب العین ہے۔ اسلام عقل، فہم، ادراک اور دل و دماغ کو اپیل کرتا ہے۔
7. اسلام کے تصور میں اتنی وسعت ہے جتنی کہ بذات خود انسانیت میں اور یہ کفارہ یا شفاعت اور نجات ایسے عقائد سے جو مسیحی مذہب کی بنیاد ہیں، پاک و مبرا ہے۔ میں نے بہت سے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا، اور اسے اپنے رفقاء اور احباء کو دیتا رہا تاکہ وہ اس حق و صداقت کو اپنا سکیں جو بڑی دیر سے ان سے پوشیدہ تھا۔
8. میں نے اسلام جیسا اور کوئی دوسرا جمہوری مذہب نہیں پایا، جو مکمل، اکمل اور حوصلہ افزا ہو اور نہ اسلام کے سوا اور کوئی ایسا راستہ نظر آتا ہے جو اطمینانِ قلب اور تسکینِ حیات کا باعث ہو اور اس کے ساتھ ساتھ حیات اخروی کے لئے مواعظہِ حسنہ کا حامل ہو۔
9. میں نے بڑی کاوش اور جستجو سے اسلام کا مطالعہ کی، اس کی تعلیمات کا دوسرے مذاہب کی تعلیمات سے مقابلہ کیا اور انجام کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ صرف رسول اللہ ﷺ کا ہی دین ہے جو الٰہیات کا مظہر ہے جو اہلِ علم و دانش طبقہ الناس کے روحانی جذبات کو تسکین دیتا ہے۔
10. اسلام میں ہمیں شفاعت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا خدا رحمٰن و رحیم ہے۔ ہم پیدائشی گناہگار نہیں بلکہ اس دنیا میں سفید و شفاف برف کی طرح پاک و مزکّٰی روح لے کر آئے ہیں۔ ہمیں خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے مواقع حاصل ہیں۔ مگر مسیحی عقائد کی رو سے ہم اس وقت تک خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک بپتسمہ نہ لیں۔
11. مسیحی تعلیمات بہت ہی تحکمانہ اور ادعائی ہیں۔ آپ کتنی ہی معزز و مشرف زندگی بسر کریں لیکن اگر آپ کو اطمینانِ قلب اور روح کا چین و قرار میسر نہیں ہے تو یہ زندگی بیکار محض ہے۔ اسلام کی سادگیٔ حسن نے ہمیں امن و آتشی سے ہمکنار کیا ہے اور ہم کامل طور پر خوشی و مسرت کی مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔
12. اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسلمان ہونا دنیا کی بہترین نعمت سے متمتع ہونا ہے۔ دینِ اسلام عالمگیر وسعت رکھتا ہے۔ ابدی اور ازلی۔ مطہر و مزکّٰی اور الہامی ہے۔ ورنہ ہرگز ہرگز پھل پھول نہیں سکا تھا۔
13. بدی سے اجتناب اور نیکی کی افزائش اور اس کی نشر و اشاعت کا نام اسلام ہے۔ ہم سب اس حقیقت کے شاہد ہیں۔
14. اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان کے ذریعہ عمل ہو سکتا ہے لیکن اسلام کہا ہے کہ عمل کے ذریعہ ایمان ہو۔
15. اسلام ایک دلربا مذہب ہے اس مذہب حقہ کے پاک اور سیدھے سادھے اصول اور فطری قانون محیر العقول ہیں۔
16. اسلام کے خصوصی خط و خال جنہوں نے میرے دل میں گھر کر لیا، وہ توحید باری تعالیٰ، فرقہ بندی کے جھمیلوں سے آزادی اور خالق و مخلوق کے درمیان کسی وسیلے کا نہ ہونا ہے۔
17. میں نے تقریباً ہر مذہب کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اسلام کے متعلق بھی کثیر مطالعہ کیا ہے۔ جوں جوں میں اسلام کا مطالعہ کرتا جاتا تھا۔ مجھے یقین ہوتا جاتا تھا کہ یہ بنی نوع انسان کا حقیقی مذہب ہے۔ اس پر چل کر ہی انسان اپنی ذات میں مکمل ہو سکتا ہے اور اپنے مقاصد سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔
18. اسلام کا تمام نسل انسانی پر یہ بڑا احسان ہے اور کسی دوسرے مذہب یا سوسائٹی کو اس قدم عظیم کامیابی حاصل نہیں۔ تمام نسل انسانی میں مساوات برادری ہر ایک کو ترقی کے برابر کے مواقع زندگی کے معیار اور ہر بات میں اسلام نے مساوی حقوق کا درجہ دیا۔ ہر ایک کو اپنی سعی و عمل کے نتائج کی برابر کی ضمانت دی۔ اسلام کے نظامِ حیات میں کالے اور گورے میں امتیاز نہیں۔ اسلام تمام نسلِ انسانی کو ایک ہی کنبہ کے افراط تصور کرتا ہے۔ افریقہ، انڈیا، انڈونیشیا حتیٰ کہ جاپان تک ہر قوم اور ہر نسل کے انسانوں، قوموں اور نسلوں میں جن میں بے شمار اختلافات بھی موجود ہیں ان میں مصالحت موافقت اور وحدتِ خیال کے سلسلے میں اسلام نے بہت عظیم پارٹ ادا کیا ہے۔ مشرق اور مغرب کی تہذیبوں میں آج کل جو تصادم ہو رہا ہے۔ میرا یقین ہے کہ دونوں کے درمیان اسلام اور صرف اسلام ہی موافقت اور تعاون کی راہیں کھول سکتا ہے۔
19. سیل کے ترجمۃ القرآن کی ایک کاپی میں نے خریدی اور ابتداء سے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ دورانِ مطالعہ میں نے بسا اوقات مختلف مسائل پر اپنے مقامی دوستوں سے تبادلۂ خیالات کیا۔ اس پاک کتاب کے مسلسل مطالعہ نے مجھ پر مبرہن کر دیا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو صراط مستقیم دکھاتا ہے۔ اس کی محیر العقول طاقت و قوت محسوس کر کے اسلام کا والہ و شیدا ہو گیا۔
20. مسیحی تحکم اور توہم پرستی مجھے ہرگز متاثر نہیں کر سکتی۔ اسلامی اصول عقلی اور عملی ہیں۔ صرف اسلام ہی الہامی اور حقیقی ،مذہب ہے۔
21. میرا آبائی مذہب مسیحیت تھا اور ایک مسیحی کی حیثیت میں مجھے ہمیشہ یہی بتایا گیا تھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ اور ان کے حامیوں نے اسلام کو بزورِ شمشیر پھیلایا ہے۔ مجھے عیسائی مذہب کے تحت یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام نے جب تلوار کے ذریعہ مذہب کو پھیلایا تو اس نے بہت سے لوگوں کو غلام بنا لیا اور اسی طرح مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام غلامی کا محرک ہے لیکن جب میں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اسلام کے خلاف یہ غلط پروپیگنڈہ تھا۔ دراصل اسلام اخلاق کا حامل ہے۔ اس نے اخلاق و کردار کی بلندی سے اسلام کو رائج کیا ہے اور اسلامی مساوات میں غلامی اور آقائی میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اسلام کی انہی خوبیوں کے پیشِ نظر میں نے اسلام قبول کیا۔
22. جب عیسائیت کے بہت سے عقائد و مسائل سے میرا اطمینانِ قلب نہ ہوا تو میں نے قرآن پاک کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس میں مجھے اسلام ایک متبرک، پاکیزہ اور بنی نوع انسان کے لئے نافع، کامل و جامع مذہب نظر آیا اور یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو گئی کہ اسلام میں نجات کسی ابن اللہ کی قربانی کی منت کش نہیں بلکہ ہر ایک متنفس کا نیک و بد فعل اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور ہر ایک شخص کی نجات اس کے اپنے ہی افعال سے وابستہ ہے۔
23. میں نے اسلام کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران اسلام کی معقولیت اور جمہوریت سے بہت اثر قبول کیا۔ اسلام برحق دین ہے اور انسانی دست برد سے پاک ہے۔
24. ایک پادری کی حیثیت سے مجھے دوسروں کو ان باتوں کی تعلیم دینا پڑتی تھی جن کو میں خود نہ سمجھتا تھا اور میں دوسروں کو ان باتوں کی ترغیب دیتا تھا جنہیں میں خود دل سے تسلیم نہ کرتا تھا۔ اس کشمکش کے ماحول میں میرے ضمیر نے مجھے تحقیق و تجسس پر ابھارا اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے کے بعد آخر کار میں نے اسلام میں تمام حقائق پا لیے اور مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام کامل مذہب ہے۔
25. میں اسلام کی اس لئے تعریف کرتا ہوں کہ کسی خاص ملک و ملت کا نہیں بلکہ ہمہ گیر اور عالمگیر مذہب ہے۔
26. میں نے بڑے عرصہ تک اسلام کا مطالعہ کیا ہے، جو روحانی اور اخلاقی خوشی و مسرت اور اطمینانِ قلب مجھے یہاں میسر آیا ہے کسی اور مذہب میں نہیں آیا۔
27. میں ہمیشہ سے ایسے امن اور آشتی کا متمنی رہا ہوں۔ جو بالآخر مجھے گوشہ اسلام میں میسر آئی یہ سراسری فطری اور رحمت و آشتی کا مذہب ہے۔
28. میں مسلمان ہونے پر بڑا فخر محسوس کر رہا ہوں۔ قرآن حکیم نے مذہب اسلام کی جو تعلیمات دی ہیں، ان کو بہت واضح فطرت کے عین مطابق اور پوری طرح قابلِ عمل پاتا ہوں۔ مذہبِ اسلام میں خاص طور پر خواتین کو معزز درجہ دیا گیا ہے وہ عورتوں کے حق میں مساوات کا اس حد تک حامی ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔
29. جو شخص بھی حضرت محمد ﷺ عرب کے جلیل القدر پیغمبر کی حیاتِ مقدسہ، آپ کے عظیم کردار اور عمل کا مطالعہ کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے کس طرح اپنی دعوت کو پیش کیا اور کس طرح اپنی پاکیزہ زندگی بسر کی۔ اس کے لئے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں کہ وہ اس عظیم اور جلیل پیغمبر کی عظمت اور عزت اپنے دل میں محسوس کرے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ﷺ خدا کے رسولوں میں بڑی ہی عزت والے رسول ﷺ تھے۔ میں جو کچھ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں آپ میں سے اکثر اصحاب شاید اس سے واقف بھی ہوں۔ لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ میں جب بھی آپ ﷺ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتا ہوں تو میرے دل میں عرب کے اس عظیم اور لاثانی نبی کی نئی عظمت اجاگر ہو جاتی ہے۔
30. اسلام کی عبادت و ریاضت میں انتہائی خضوع و خشوع اور سادگی و خلوص کو دیکھ کر مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ اسلام دنیا کا اعلیٰ ترین مذہب ہے۔
31. میں اسلام کے سچے سیدھے سادھے کھرے اور فطری دین میں داخل ہو کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ یہ دین تحکمانہ عقائد سے پاک ہے۔ اس میں ملا گری، پروہتائی یا پادریانہ نظام نہیں ہے۔ اس کی عالی ظرفی اور لچکدار اصولوں نے میری عقل و دانش کو اپیل کی۔
32. قرآن کریم بلاشبہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے نسل انسانی کی رہنمائی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اسلام کی عالی ظرف تعلیمات قرآن کریم کے بغور مطالعہ کا باعث ہوئیں اور انہیں فطری اور عقلی پا کر میں نے سچے دل سے ۱۸ دسمبر ۱۹۶۴ کو اسلام قبول کر لیا اور اسلام کی تبلیغ کرنے میں اپنی جان مال عزت کو تادمِ زیست وقف کر دیا ہے۔ اللہ قبول کریں اور توفیق ازراں فرمائیں۔ آمین۔