جولائی 1973ء

شیخ احمد عرب یمنی شروانی

مؤلف ''نفخة الیمن''

شیخ احمد بارہویں صدی کے آغاز میں یمن میں پیدا ہوئے اور معروف ہم عصر علماء سے استفادہ کیا۔ ان کے اساتذہ میں محسن نخعی، بہاء الدین آملی، علی زبیری اور ابراہیم صنعائی جیسے لوگ شامل ہیں۔

اوائل عمر سے سیر و سیاحت کا شوق تھا، بارہویں صدی کے اواخر یا تیرہویں صدی کے آغاز میں برصغیر ہندوستان میں آئے۔ مختلف شہروں میں گھومتے گھامتے کلکتہ آئے۔ یہاں مدرسہ عالیہ کلکتہ کے سیکرٹری ڈاکٹر لیمسڈاؤن (Lamasdown) سے ملاقات کی اور ڈاکٹر لیمسڈاؤن نے انہیں مدرسہ عالیہ میں عربی کی تدریس کے لئے مقرر کر دیا۔ مدرسہ عالیہ کا تاریخ نگار لکھا ہے۔'' اس (امر) کا پتہ نہ چل سکا کہ آپ کتنے دنوں تک مدرسے میں رہے البتہ ڈاکٹر لیمسڈاؤن کے سیکرٹری رہنے کا زمانہ ۱۸۲۱ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ آپ اس سے بعد تشریف لائے ہوں گے اور ۱۸۳۰ء سے پہلے گئے ہوں گے کیونکہ اس سال ڈاکٹر لیمسڈاؤن مدرسہ سے رخصت ہو گئے تھے۔

مدرسہ عالیہ میں درس و تدریس کے بعد لکھنؤ چلے گئے اور غازی الدین حیدر کے مصاحب ہوئے۔ یہیں سید اسماعیل خاں مرشد آبادی کی لڑکی سے شادی کی۔ غازی الدین حیر کے انتقال کے بعد بنارس کی راہ لی اور آخر میں نواب جہانگیر محمد خاں والئی بھوپال کے اتالیق مقرر ہوئے اور بھوپال میں سکونت اختیار کر لی۔

تاریخ وفات کے بارے میں جملہ تذکرہ نگار خاموش ہیں۔

تصانیف:

1. نفخة الیمن فیما نزول بذکرہ الشجن۔ یہ کتاب انہوں نے مدرسہ عالیہ کلکتہ کے صدر مدرس لیمسڈاؤن کی فرمائش پر لکھی تھی اور بہت عرصہ مدرسہ عالیہ کے نصاب میں شامل رہی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مدراس عربیہ کے نصاب بھی شامل ہو گئی اور آج کل بعض مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔

2. عجب العجائب: عربی مکتوبات کا مجموعہ ہے۔ مولوی عبد الرحیم کے بقول ''مدرسہ فورٹ ولیم کے ناظر اعلیٰ (پرنسپل) کے ایماء سے لکھی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۸۱۳ء میں بمقام کلکتہ چھپی ۔ مولوی عبد الرحیمؒ نے فورٹ ولیم کالج کا ذکر کیا ہے۔ غالباً مدرسہ عالیہ کے صدر مدرس کے ایما سے لکھی گئی تھی۔

3. الجواہر الوقاد في شرح بانت سعاد۔ مشہور نعت گو کعب بن زہیر کے قصیدہ بانت سعاد کی شرح ہے۔

4. مناقب حیدریہ۔ علامہ خود شیعی مسلک رکھتے تھے اور انہوں نے غازی الدین حیدر (م ۱۸۲۷ء، ۱۲۴۳ھ) فرمانروائے اودھ کی تعریف و ثنا میں یہ کتاب رقم کی ہے۔

5. شمس إقبال في مناقب ملك بھوپال۔ کتاب کا مضمون نام سے واضح ہے۔

6. حدیقةالأفراح۔

7. منہج البیان۔

8. الشافی۔

9. جوارس التفریح۔

10. بحر النفائس۔

11. المکاتیب: مولوی رشید الدین خان دہلوی (م ۱۲۴۹ھ، ۳۴-۱۹۳۳ء) اور شیخ احمد شروانی کے خطوط کا مختصر مجموعہ ہے۔ ۱۳۱۵ھ، ۱۸۹۷ء میں مطبع محتبائی دہلی سے شائع ہوا۔

اولاد:

محمد عباس شروانی (م ۱۳۱۵ھ / ۹۸-۱۸۹۷ء) نامور صاحبِ تالیف ان کے فرزند ہیں۔

تلامذہ:

مولوی رحمٰن علی مؤلف ''تذکرہ علمائے ہند'' نے ان کے دو شاگردوں کا ذکر کیا ہے۔

(۱) مولوی اوحد الدین بلگرامی اور (۲) مفتی خلیل الدین بن نجم الدین کاکوروی (م ۱۲۸۱ھ / ۱۸۶۴ء)

ماٰخذ:

1. لباب المعارف العلمیة جلد اول مولوی عبد الرحیم

2. تذکرہ اہلِ دہلی سر سید احمد خاں

3. تذکرہ علمائے ہند مولوی رحمان علی مع تحشیہ مولوی محمد ایوب قاری۔

4. قاموس المشاہیر جلد اول نظامی بد ایونی

5. تاریخ مدرسہ عالیہ حصہ دوم عبد الستار

مکہ معظمہ کے روزنامہ 'الندوۃ' نے مسئلہ قادیانیت پر سعودی عرب اور ممالک اسلامیہ کے ممتاز و مقتدر علماء کا ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ قادیانیت اور یہودیت و صیہونیت کے درمیان خفیہ رابطے موجود ہیں۔ انہی رابطوں کی بنیاد پر اسرائیل میں قادیانیوں کا ایک بہت بڑا مرکز کام کر رہا ہے۔ یہ مشترکہ بیان روزنامہ 'الندوۃ' کی ۱۶ء جون کی اشاعت میں شائع ہوا ہے اور مشترکہ بیان دینے والوں میں نائجیریا کے علما۴ِ دین الشیخ السید امین کتبنی، الشیخ حسن المشاط، الشیخ محمد نور سیف، الشیخ حسنین المخلوف، مفتی مصر السابق، الشیخ ابو بکر جرمی اور سعودی عرب کے علماء میں الشیخ محمد علوی المالکی۔ الشیخ اسماعیل زین، الشیخ محمود ندیم الطرازی الشیخ عبد اللہ بن سعد وغیرہ شامل ہیں۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام اور وحدت اسلامیہ کے خلاف قادیانیت برسرپیکار ہے۔ چونکہ مسلمان استعماری طاقت کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں۔ اس لئے انگریزی استعمار نے قادیانیت کو پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کیا جائے اور مسلمانوں کا جذبۂ جہاد کمزور کیا جائے۔ آج قادیانیت اور یہودیت و صیہونیت کے درمیان خفیہ اور گہرے مضبوط رابطے موجود ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کر کے اسلامی قوت کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ اس غرض کے لئے مختلف عرب ممالک میں بھی قادیانیت کے مراکز کام کر رہے ہیں اور اسرائیل کے زیر قبضہ مصری، شامی اور اردنی علاقوں میں بھی قادیانیت کے مرکز قائم ہیں اور قادیانی اپنے اغراض و مقاصد کے لئے کروڑوں روپے صرف کر رہے ہیں۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں قادیانیوں نے اپنا مرکز افریقہ منتقل کر لیا ہے اور افریقہ میں مسلمان مبلغین کی تعداد ناکافی ہے۔ اس لئے خدشہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ مرکز افریقی مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاریاں کرنی چاہئیں۔ ہم تمام اسلامی حکومتوں اور جماعتوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ قادیانیت کے زبردست خطرے کو پہچانیں اور اس کے مقابلے کا چیلنج قبول کریں۔ اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ تمام اسلامی حکومتیں پہلے تو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں نیز مسلمان ملکوں کی حدود میں اس گمراہ فرقے کو کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور قادیانیت کے خلاف جہاد کے لئے مکہ معظمہ کو اہل اسلام کا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے۔
حوالہ جات

تاریخ مدرسہ عالیہ کلکتہ حصہ دوم ص ۱۸۳

لباب المعارف العلمیہ جلد اول ص ۲۱۹

تذکرہ اہل دلی ص ۷۰