مسلمان ریاستوں میں اسلامی قانون سازی کے قابلِ غور مسائل

عالم اسلام کے ممتاز علمائے کرام کے ایک کنونشن کی کارروائی

۱۰ تا ۲۳؍ جولائی الجزائر میں علماء کا اجتماع ہوا جسے ''الملتقی السابع للتعرف علی الفکر الإسلامي'' کہا جاتا ہے یعنی ساتواں اجتماع اسلامی فکر کی نشاندہی کی غرض سے۔ ایسا اجتماع ہر سال حکومت الجزائر کی ''وزارۃ التعلیم الأصلي والشوؤن الدینية'' اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ پر منعقد کیا کرتی ہے۔

(التعلیم الأصلی سے مراد دینی تعلیم ہے)۔ امسال ساتواں اجتماع تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تمام عالمِ اسلام سے علماء مدعو تھے اور کسی غیر مسلم مستشرق کو شریک نہیں کیا گیا تھا۔ ترجمہ کا کوئی انتظام نہ تھا اور غیر عرب علماء میں صرف انہیں دعوت دی گئی تھی جو عربی زبان پر قادر ہوں۔ عرب ممالک کے علاوہ ایران، انڈونیشیاء، مالی، یوگنڈا، قمران سینیعال سے علماء شریک تھے۔ ممتاز شخصیتوں میں شیخ ابو زہرہ، دکتور الغزالی، دکتور عبد الرحمٰن بیصار، محمد عبد اللہ عنان (مصر) دکتور مصطفےٰ الزرقاء (اردن)، دکتور صبحی صالح (لبنان) عثمان الکعاک (تونس) الاستاذ محمد الفاسی (مغرب) دکتور عبد القہار مذکر (انڈونیشیا) قابلِ ذکر ہیں۔ شخصی دعوت نامہ پر راقم نے پاکستان کے واحد نمائندہ کی حيثیت سے شرکت کی۔ موضوع جو زیر بحث آئے وہ خالص علمی اور اہلِ پاکستان کے لئے بھی قابل توجہ اور فکر انگیز ہیں۔ خاص خاص نکات ہدیۂ قارئین ہیں۔

پہلا موضوع تھا ''الشریع الإسلامي و واقع التشریع الیوم في العالم الإسلامي'' یعنی اسلامی شریعت کے صحیح تقاضے کیا ہیں اور آج عالم اسلامی میں فی الواقع قانون سازی کس نہج پر ہو رہی ہے؟ کئی مقالے پڑھے گئے۔ خلاصہ یہ کہ آج سارے عالمِ اسلامی میں مغرب سے در آمد کیے ہوئے قوانین نافذ ہیں۔ اگر بعض قوانین شریعت کے موافق بھی ہوں تو ان کا منبع اور مصدر شریعتِ اسلامی نہیں۔ قوانین وضع کرنے والے اور فیصلہ دینے اور نافذ کرنے والے قاضی اور حاکم سب وہ ہیں جو اسلامی شریعت سے ناواقف ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ قرآن اور سنت کے بجائے اجنبی قانون اور اس کے مصادر اور نظائر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ صرف جزیرۂ عرب ایک استثناء ہے جہاں فی الواقع شریعت پر عمل ہوتا ہے اور بوقت ضرورت شریعت ہی کے مصادر کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قانون جنائی یعنی زنا، سرقہ اور دیگر جرائم کی حدود ویسی ہی نافذ کی جاتی ہیں جیسی کہ نص شرعی میں بتائی گئی ہیں (البتہ یہ امر قابل غور ہے کہ کیا اقتصادی نظام بھی شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور کیا مثال کے طور پر مغربی بنکاری کے متبادل کوئی اور نظام مکمل یا ناقص ہی سہی پایا جاتا ہے؟) بہرحال یہ ''طریقة الاتباع'' یعنی شریعت کی پیروی کا طریقہ ہے۔ دوسری جگہ تو ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو شرعی حدود نافذ کرنا اور ''ربوٰا'' کے بغیر صنعت و تجارت کو فروغ دینا موجودہ دور میں ناقابل عمل، محال اور باعثِ شرم تصور کرتا ہے۔ ان میں سے جو کھلم کھلا شریعت کی مخالفت کی جرأت نہیں رکھتے وہ ''التحیّل علی مقاصد الشریعة'' یعنی حیلہ بازی سے شریعت کے مقاصد ضائع کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قابلِ لحاظ یہ بات ہے کہ سب نہیں تو بیشتر اسلامی ممالک کے دستور میں اسلام کو مملکت کے دین کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود غیر اسلامی مصادر سے قانون کا عمل برابر جاری ہے۔ سیدہ زینب الغزالی نے پوری صراحت سے کہا کہ اسلامی ممالک کے امراء و حکام اسلام سے صرف اتنا کام لیتے ہیں جس سے ان کی سیاست کو سہارا ملے۔ دوسروں نے یہاں تک کہا کہ شرک اور کفر کا قرآنی مفہوم نقش و نگارِ طاق نسیان بن چکا ہے۔ قرآن میں بار بار آیا ہے:

1. ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِر‌ونَ ﴿٤٤﴾... سورة المائدة

2. ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورة المائدة

3. ﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ﴿٤٧﴾... سورة المائدة

جو الله تعالیٰ كی نازل كرده شريعت كے مطابق معاملات كا فیصلہ نہ كرے تووہ گروہ کافروں کا ہے، ظالموں کا ہے، فاسقوں کا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئے کہ شریعت کو نافذ نہ کرنا اور شریعت کو قانون سازی کا مصدر و مرجع نہ بنانا کفر ہے۔ اس کی رو س مسلمانوں کے جس ملک میں شریعت نافذ نہ ہو اسے مشکل ہی سے دار السلام کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ محض عقیدہ کی بات کرتے ہیں (اور اب تو شاطروں نے عقیدہ کو بھی نظریہ اور آئیڈیالوجی بنا کر رسوا کر دیا ہے) انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عقیدہ کی حفاظت صرف شریعت کرتی ہے اگر شریعت نہ ہو تو عقیدہ یوں کہنا چاہئے کہ روح بغیر جسم ہے اور دنیا میں اس کا وجود غیر محقق اور غیر مشخص ہے۔

اس علمی اجتماع کا نظام یوں ترتیب دیا گیا تھا کہ مقالوں کی تعداد کم تھی اور صبح ۸ سے ایک بجے تک اور شام ۴ سے ۸ بجے تک بیشتر وقت تعقیب (اظہار رائے) اور مناقشہ کے لئے مخصوص تھا۔ ہمارے دفتروں میں ضابطہ کی خانہ پری جس سست رفتار سے ہوتی ہے اس کے باعث میں دو روز کی تاخیر سے پہنچا تھا۔ اس وقت مندرجہ بالا مباحثہ نقطہ عروج پر تھا۔ شروع سے حاضر نہ تھا اس لئے ایک اجلاس خاموشی سے سنتا رہا۔ جب یہ اندازہ ہو گیا کہ ایک نکتہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے تو میں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ اصل مسئلہ اس دَور میں مسلم ممالک کے قانون ساز اداروں کی نوعیت اور ان کی صلاحیت کا ہے۔

یہ طرفہ تماشا ہے کہ مغرب کے جمہوری نظام کو اسلامیت کی سند مل گئی اور کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ اس کے مضمرات و عواقب کیا ہیں۔ آج بیشتر اسلامی ممالک میں قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ قسم کے ادارے قائم ہیں جو اپنی اصل اور ہیئت کے لحاظ سے خالص مغربی ادارے ہیں جو چند ممالک باقی رہ گئے ہیں وہ بھی اس راہ پر گامزن ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر ممبر الا ما شاء اللہ علوم شرعیہ سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ بعض تو ہر لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں۔ انتخابات میں تقویٰ سے زیادہ زیر کی اور عیاری کام آتی ہے۔ ایسی پارلیمنٹ اگر کوئی قانون شریعت کے موافق بھی بنائے تو وہ مستند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تشریعِ اسلامی اور تشریعِ وضعی (جو وحی سے مستفاد نہ ہو) دونوں میں آویزش کا اصل راز یہ ہے۔ یہ نکتہ خاصا جاذب توجہ ثابت ہوا اور اجتہاد کی شرائط اور مفتی کی اہلیت کی بابت اس سے قبل جو کچھ کہا گیا تھا اس نے اس سیاق میں نئی اہمیت حاصل کر لی۔ بات خوب آگے بڑھی یہاں تک کہ اسلامی روایت میں تشریحِ وضعی جیسی کوئی چیز ہی نہیں۔ مسلمان کے لئے یہ تصور ہی محال ہے کہ شریعت کے مصادر سے بے نیاز ہو کر کوئی قانون بنایا جائے۔ تشریع صرف شریعت کے علماء ورثة الأنبیاء کا حق ہے۔ انہی کا یہ فرض ہے کہ شریعت کو جمود سے بچائیں اور نئے حالات میں اجتہاد کریں۔ یہ کوئی احتکار نہیں۔ اجارہ داری نہیں۔ نہ یہ کسی طرح بھی پاپائیت کے مترادف ہے۔ مسئلہ صرف اختصاص Specialization کا ہے۔ جس طرح ڈاکٹری اور علاج معالجہ ایک عوامی نمائندہ کے بس کی بات نہیں۔ یہی حال شریعت سے احکام کے استنباط کا ہے۔ عوام کو ایک ڈاکٹر یا ایک عالم شریعت پر جو اعتماد ہوتا ہے وہ اس کی مہارت فنی اور اخلاص کی بنا پر ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے مصالح مرسلہ اور حضرت عمر کے اجتہاد کا ذکر کیا جس کی آڑ لے کر تشریعِ وضعی کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ شیخ ابو زہرہ نے بالتفصیل اس کا جواب دیا۔ ایک صاحب نے اجتہاد کی بابت اقبال کے لیکچر کا حوالہ دیا۔ جس میں انہوں نے مغربی طرز کی پارلیمنٹ کو تشریع کا حق دینے کی راہ نکالی ہے۔ ان کا حوالہ بالکل برمحل تھا اور یقیناً ان کا رخ خاص طور سے میری طرف تھا۔ اس بات سے خوشی ہوئی کہ اب فکرِ اقبال عربوں میں عام ہے اور عرب علمی مطالعہ کے ذریعہ ان کے مرتبہ سے آشنا ہو گئے ہیں۔ لیکن میری نظر میں اقبال کا یہ موقف قابل قبول نہیں، مدت ہوئی پوری دلیلوں کے ساتھ میں اپنی اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔ بالاتفاق اور بالاجماع اجتہاد کے جو شرائط منقول ہیں اور جو حد درجہ معقول بھی ہیں انہیں پورا کرنے سے ایک مغربی طرز کی پارلیمنٹ ہمیشہ قاصر رہے گی۔ ''میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند''

استاذ احمد حمانی، جو الجزائر کی المجلس الإسلامي الأعلیٰ کے صدر اور جامعۃ الجزائر میں استاد ہیں، انہوں نے تشریعِ وضعی (جو وحی سے مستفاد نہ ہو) پر ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالی اور تاریخ سے ثابت کیا کہ یہ وہ زہر ہے جسے مغرب کی استعماری طاقتوں نے ایک منصوبہ کے تحت مسلم ممالک میں پھیلایا۔ نتیجہ یہ کہ مغرب کی سیاسی غلامی سے نجات پانے کے بعد بھی مسلمان مغربی قوانین میں جکڑے ہوئے بے دینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے پہلے قوانینِ وضعیہ (غیر شرعیہ) مصر میں رائج ہوئے۔ محمد علی پاشا یورپ کی نقالی پر فخر کرتے تھے۔ انہوں نے یورپ سے قوانین نقل کرا کے ''قانون نامہ'' جاری کیا اور قاہرہ اور اسکندریہ میں یورپین ججوں کا تقرر کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت شریعت کو قوانین کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت تھی لیکن سلطنت عثمانیہ نے ''المجلةالعدلیة'' تیار کرا کے یہ ضرورت پوری کر دی تھی۔ اس کے باوجود اسماعیل پاشا نے مصر میں المجلہ کا نفاذ روک دیا۔ حالاں کہ مصر سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ یہ وہی اسماعیل ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ''مصر یورپ کا ایک ٹکڑا ہے۔'' ایک موقع پر اسماعیل نے اعتراف بھی کیا کہ یورپین طاقتیں انہیں نپولین کا کوڈ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور شریعت محاکم شرعیہ میں سمٹ کر رہ گئی جن کا دائرہ اختیار احوال شخصیہ تک محدود تھا۔ اس پر بھی استعمار نے بس نہیں کی اور اپنے پٹھوؤں کے ذریعہ محاکم شرعیہ کو بھی بدنام کر کے ختم کرانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ مفتی عبدہ نے محاکم شرعیہ کی اصلاح کر کے انہیں بچانا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے بالآخر وہی ہوا جو ہونا تھا اور احوال شخصیہ بھی سول کورٹس کے دائرہ اختیار میں رکھ دیئے گئے۔ ۱۹۳۶ء میں مصر آزاد ہوا، ۱۹۴۲ء میں ایک نئے قانون مدنی (سول لاء) کا مسودہ تیار ہوا۔ عوام نے سخت احتجاج کیا کہ اس میں یہ تاکید نہیں ہے کہ جہاں قانون خاموش ہو وہاں شریعت سے رجوع کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلے درجہ میں قانون دوسرے درجہ میں عرف عام اور تیسرے درجہ میں شریعت اور اس پر بھی یہ کہ شریعت میں سے وہ حکم ڈھونڈ کر نکالا جائے جو قانون وضعی سے میل کھاتا ہو۔

الجزائر میں فرانس نے براہِ راست اپنی عدالتیں قائم کیں اور اپنے قوانین نافذ کیے۔ ایک مغرب زدہ مسلمان خاتون کی مدد سے احوالِ شخصیہ کی بابت شرعی قوانین کو بھی توڑا مروڑا۔ الجزائر کی آزادی کے دن عبوری حکومت نے اعلان کیا کہ تمام وہ قوانین جو الجزائر میں نافذ ہیں ان پر بدستور عمل جاری رہے گا۔ باستثناء ان قوانین کے جو استقلال اور سیادت (Sovereignty) کو ٹھیس لگاتے ہیں۔ یہاں پر استاذ حمانی، جو حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ہیں، وزیرِ تعلیم کی موجودگی میں سوال کرتے ہیں کہ کیا استقلال اور سیادت کو ٹھیس لگانے والی اس سے بڑھ کر کوئی اور صورت ہو سکتی ہے کہ شریعت کو ٹھکرا دیا جائے اور فرانس جس کے خلاف جہاد ہوا، اسکے قوانینِ وضعیہ بدستور ملک میں باقی رہیں۔

یہی اثرات، خاص طور پر مصر کے ذریعے تمام شرب ممالک میں پھیلے۔ چنانچہ آج سب جگہ تقریباً یکساں حالت ہے۔ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن حکومت لیبیا کا ۱۹۷۲ء کا اعلان ہے کہ حدود اور معاملات میں پوری طرح شریعت کا نفاذ ہو گا اور غیر شرعی قوانین سے ملک کو پاک کر دیا جائے گا۔ کرنل قذافی کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے عزم میں سچے ہیں۔ الجزائر کے صدر بومدین نے بھی ۱۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو قانونی کمیشن کے نام ہدایت جاری کی کہ 'ہمارے موجودہ قوانین ہمارے لئے بالکل اجنبی ہیں اور شریعت کے خلاف ہیں۔ ان میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی شریعت ہی قانون کا مصدر اور منبع ہو۔'' صدر بومدین بھی قول کے سچے اور بات کے پکے ہیں۔ جس زمانے میں میرا قیام الجزائر میں تھا انہوں نے زرعی اصلاحات کا آغاز کیا تو سب سے پہلے یہ اعلان کیا۔ ''جہاں تک میرا تعلق ہے میں کسی زمین کا مالک نہیں ہوں میں انقلابی کونسل کے ارکان اور وزراء کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ انہوں نے برضا و رغبت اپنی اپنی زمینیں دے ڈالی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی احکام جاری ہو چکے ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین کو ایسا ہی کرنا ہو گا۔ اس کے مطابق فہرستیں بھی تیار ہو چکی ہیں۔'' خدا انہیں توفیق دے کہ شرعی قانون کی بابت انہوں نے جو ہدایت جاری کی ہے اسے بھی عملی جامہ پہنا کر دکھلائیں۔

مصر کے قانون مدنی کی بابت یہ بات بڑے شد و مد کے ساتھ دہرائی گئی کہ وہ بڑی حد تک شریعت کے موافق ہے۔ اس ذیل میں یہ تاریخی حقیقت بھی ابھری کہ جب نپولین مصر سے پسپا ہوا تو وہ اپنے ساتھ معاملات (بیع، رہن، ہبہ وغیرہ) سے متعلق اسلامی قوانین کا مجموعہ لے گیا اور انہیں کو اس نے کوڈ نپولین کے نام سے ۱۸۰۴ء میں نافذ کیا۔ اس کا بیشتر حصہ 'شرح الدردیر علی مختصر خلیل'' کا ترجمہ ہے جو صدیوں مصر کے قضاۃ اور حکام میں متداول رہی ہے۔ استاد مصطفے الزرقاء نے اس بات کا مفصل اور مدلل جواب دیا انہوں نے کہا کہ مصر کا قانون مدنی شریعت کے موافق ہو تو ہو براہ راست شریعت سے ماخوذ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عدالتیں تفسیر و تشریح میں اسلامی فقہ کے مآخذ کے بجائے فرانس کے ماہرین قانون کی رائے اور وہاں کے نظائر کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ اصل مطلوب توافق نہیں۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ شریعت منبع اور مصدر ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا مغرب کی غلامی بدستور رہے گی۔

احوال شخصیہ سے متعلق شرعی قوانین کی بابت کہا گیا کہ ان میں فی الواقع اجتہاد اور اصلاح کی ضرورت ہے جیسے کہ وہ چلے آرہے ہیں۔ بڑی دشواری بلکہ بے دردی کے موجب ہیں۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ یہ شریعت کی نہیں بلکہ مخصوص مذہب کی بات ہے۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فقہاء کا اختلاف رحمت ہے۔ مختلف مذاہب کے سامنے رکھا جائے تو عملی دشواریوں کا حل پہلے سے موجود ہے۔ تلفیق مانا ہوا اصول ہے جس کی رو سے نیک نیتی کے ساتھ اور مصلحت عامہ کو سامنے رکھ کر مختلف مذاہب کے فتاوٰی پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ مفقود الخبر شوہر کے مسئلہ میں جو عملی دشواری محسوس کی گئی اس کو اسی طرح حل کیا گیا ہے۔ البتہ اگر شریعت کو مغری تصورات کے سانچے میں ڈھالنا مقصود ہے (جیسا کہ تعداد ازواج کے مسئلہ میں) تو یہ تو شریعت کو مسخ کرنا ہے۔ ایک دینی پیشوا ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ یہ بھی اجتہاد ہے۔

اس مناقشہ میں ضمنی طور پر جو باتیں کہی گئیں وہ بھی کچھ کم سبق آموز نہیں۔ ایک یہ کہ بعض خالص اسلامی فقہی اصطلاحیں ہیں جن کا اس دور میں سیاسی اغراض کے لئے ناجائز استعمال عام ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر لیجئے 'جہاد' اور 'شہید'۔ سیدہ زینب الغزالی نے زور دے کر کہا کہ 'جہاد' صرف وہ ہے جو 'اعلاء کلمۃ اللہ' کے لئے ہو۔ اب خیال کیجئے سیاسی اقتدار کی خانہ جنگی میں بھینٹ چڑھنے والے جنہیں ہم شہید کہتے ہیں کیا وہ جہاد کی اس تعریف کا مصداق ہیں؟ ان فقہی اصطلاحات کے ناجائز استعمال سے وہ مقاصد جو اسلام کی نظر میں مقدس نہیں' مقدس بنتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں رومیوں کے مسلسل حملوں کے خلاف شمالی افریقہ کے لمبے ساحل کے دفاع کی غرض سے ایک رضا کارانہ تنظیم قائم تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیوں کا ایک سلسلہ تھا جنہیں رباط کہتے تھے۔ یہاں فدائی عام انسانوں کی طرح خود کسب معاش کرتے اور ساتھ ہی ساتھ فوجی تربیت بھی حاصل کرتے تھے اور ہمہ وقت دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ان کی شجاعت اور جذبۂ شہادت ضرب المثل تھا۔ یہ صحیح معنی میں اسلام کی خانقاہیں تھیں جو جوش عمل اور جہاد بالسیف کے غلغلہ سے معمور تھیں۔ الجزائر میں ان سرفروش مجاہدوں کو ''مسبّل'' کہا جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ نظام آج تک باقی تھا اور الجزائر کی جنگِ آزادی میں ان مسبّلین کے کارنامے نمایاں رہے۔ پہاڑی علاقہ میں جہاں قبائلی اپنے روایتی نظام کے ساتھ رہتے ہیں، ہمیں وہ مقامات دیکھنے کا موقع ملا جہاں ناپام بمب گرے لیکن یہ مسبلین ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ نوجوان طالب علم جنہیں علماء کے اس اجتماع میں سوالات کرنے اور بعض کو مختصر تقریریں کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے یہ جتایا کہ ان کے آباء نے اسلام کی خاطر جہاد کیا تھا اور اب وہ ملک کی تعمیر میں اسلام کا بول بالا چاہتے ہیں۔ یہ نوجوان کورس کی شکل میں جو ترانہ گاتے تھے وہ یوں شروع ہوتا ہے۔

«شعبُ الجزائر مُسْلِم الجزائر» میں بسنے والی قوم مسلم ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس دور کے مسلمانوں میں جو لوگ عبادات صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں ان میں اکثریت وہ ہے جو ان عبادات کو فضائل نفسیہ سے کوئی ربط نہیں دیتی۔ حالانکہ ان عبادات سے مقصد فضائل اخلاق کی تربیت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تعلیم و تربیت کا اور وعظ و ارشاد کا نقص ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ جہل کے ساتھ عبادت کرتے ہیں اور ساری عمر اس جہل پر قانع رہتے ہیں۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مشین کی طرح جنبش لب اور چند جسمانی حرکات یا جسمانی مشقت کا نام عبادت ہے۔ پھر وہ عبادت کرتے ہیں اور بدترین اخلاق، جھوٹ، جعل فریب، دھوکہ بازی، حرص لالچ، کسبِ حرام میں لگے رہتے ہیں اور انہیں کبھی ان دونوں میں کوئی تناقص محسوس نہیں ہوتا۔

سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ شرعی احکام کی حکمت سمجھنے اور بیان کرنے کا اہتمام کیا جائے مثلاً ایک طریقہ تو یہ ہے کہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے 'ربوٰا' کی حرمت سے متعلق مسائل بیان کر دیئے جائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عصری علم الاقتصاد کی روشنی میں یہ بتایا جاتا کہ ''ربوٰا'' سے معاشرے کو اور عدل کی قدر کو کیا نقصان پہنچتا ہے اور کس طرح ایک کا سود لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات بن جاتا ہے۔ اس طرح خطاب مسلم اور غیر مسلم دونوں کو عقل سے ہو گا۔ اس سے مسلم کا ایمان علی وجہ البصیرہ پختہ ہو گا اور غیر مسلم ایمان لائے بغیر بھی ربوا کی حرمت کا قائل ہو جائے گا۔ جیسا کہ میں نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا میرے علم میں مقاصد الشریعۃ کو پروان چڑھانے کی صرف وو قابل ذکر کوششیں ہوئیں۔ ایک قفال شاشی نے کی اور دوسری شاہ ولی اللہ نے۔ ماضی میں مختلف وجوہ کی بناء پر یہ علم پختگی اور کمال کو نہ پہنچ سکا۔ موجودہ دور میں قدیم اور جدید تعلیم کی فریق کی وجہ سے اس علم میں ترقی کے مواقع بہت محدود ہیں۔ پوری اہلیت کے بغیر جو کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان میں علمی گہرائی نہیں ہوتی۔ دراصل یہ مسئلہ عقل اور وحی میں تطبیق کا ہے۔ جو مختلف فلسفیوں کے نظام فکر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ الجزائر کے ایک دینی معہد کے مدیر شیخ ابراہیم بیوض نے خوب کہا۔ ان کے الفاظ نقل کرنے اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ ''عقل دیدۂ بینا ہے اور شریعت روشنی کا منبع۔ نہ تو بصیرت سے محروم آنکھ روشن میں کچھ دیکھ سکتی ہے اور نہ دیدۂ بینا کو اندھیرے میں کچ نظر آسکتا ہے۔ یہ ہے رشد و ہدایت کے میدان میں عقل و شرع کا تلازم'' یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس قدیم طرز کے سادہ اور بے نیاز عالم دین کے سامنے الجزائر کے وزیر تعلیم سراپا عجز و انکسار تھے اور اس عالم دین کا کردار دیکھئے کہ آنکھوں کے آپریشن سے پوری فراغت بھی نہ ہوئی تی۔ ہسپتال سے سیدھے قاعۃ المحاضرات (کانفرنس ہال پہنچے اور ٹھیک وقت مقررہ پر اپنا مقالہ پڑھا۔ محض وعدہ وفا کرنے کی خاطر بغیر اس کے کہ انہیں کوئی مادی فائدہ ہو۔

آخر میں اس پر بھی غور کیا گیا کہ شریعت کی تنفیذ تو امراء حکام اور حکومتوں کا منصب ہے۔ علماء اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو تجویز پسند کی گئی وہ یہ کہ مختلف ممالک میں شریعت کو قانونی سانچہ میں ڈھالنے اور زندگی کے نئے مسائل میں اجتہاد کرنے کی جو کوششیں جاری ہیں۔ ان میں ربط پیدا کرنے کے لئے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا جائے جو سیاست میں ملوث نہ ہو اور جس میں علم اور اجتہاد کے شرائط کا پورا پورا لحاظ کیا جائے۔ اس طرح شریعت کی تنفیذ کے لئے راہ ہموار ہو سکے گی اور سارے عالم اسلام میں بیداری اور فکر کی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔