سورۃ الفاتحہ مکیۃ وھی سبع اٰیاتٍ
سورۂ فاتحہ مکے میں نازل ہوئی اور اس کی سات آیتیں ہیں۔
بِسْمِ اللہِ: (شروع) اللہ کے نام سے
سورۃ الفاتحہ (سورۂ فاتحہ) اس سورت کے اور بھی کئی ایک نام ہیں، زیادہ مشہور فاتحہ ہے۔ سورتوں کے جتنے نام ہیں، سب توقیفی ، یعنی الہامی ہیں۔ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تجویز کردہ ہیں۔ نبوت کے ابتدائی دور میں مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ اس لئے اس کو ''مکی'' کہتے ہیں۔
سن ولادت کے حساب سے ۵۴ھ میں، سن نبوت کے اعتبار سے ۱۴ میں، سن ہجری کے لحاظ سے ۱ھ میں، ۸؍ ربیع الاوّل پیر کے دن (۲۰ ستمبر ۶۲۲ء) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 'قبا' نامی گاؤں میں نزولِ اجلال فرمایا: ۰توقیفات الہامیہ از محمد مختار پاشا مصری، وجدول واقعات عظیمہ متعلق سیرۃ النبی ﷺ از قاضی سلمان منصور پوری)
بعض نے ۸؍ کے بجائے ۱۲؍ ربیع الاول تاریخ نزول تحریر فرمائی ہے، بہرحال ان تاریخوں سے پہلے کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو مبارک دور ہے وہ 'مکی' کہلاتا ہے۔ بعد کا مدنی۔ جو آیات اور سورتیں ۸؍ یا ۱۲؍ ربیع الاول سے پہلے نازل ہوئیں وہ مکی کہلاتی ہیں اور جو بعد میں نازل ہوئیں وہ مدنی ہیں۔
کہتے ہیں یہ مکی دور تقریباً ۱۲ سال ۵ ماہ اور ۲۱ دنوں پر مشتمل ہے اس میں کل ۹۲ سورتیں نازل ہوئیں جو پورے قرآن کے دو ثلث کے برابر ہیں اور مدنی دور میں کل ۲۱ سورتیں نازل ہوئیں جو ایک ثلث کے برابر ہیں۔
اس سورت میں آیات (۷) کلمات (۲۷) اور حروف (۱۴۰) ہیں۔ یہ عظیم سورۃ خلاصہ قرآن بھی ہے اور قرآنی علم و عمل (صراط مستقیم) کے حصول کے لئے ایک دعا اور مناجات بھی۔ اس میں پہلے ہدیۂ عقیدت، پھر عہدِ عبودیت اور آخر میں توفیق عمل کے لئے دعا کرنے کا ایک سلیقہ القا کیا گیا ہے۔ یہ تدریج فطرت کے عین مطابق ہے۔
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ...2﴾...سورة الفاتحة
(جو) نہایت رحم والا مہربان (ہے)
بِسْمِ اللہ (اللہ کے نام کے ساتھ) وہ مبارک نام جو نام کی حد تک بھی سراپا برکت ہو اور حصولِ برکت کے لئے ایک پاک اور مؤثر ذریعہ بھی، تو وہ صرف خدا کا نام نامی ''اللہ'' ہے۔ یہ خدا کا اسم ذاتی کہلاتا ہے، باقی سب تعارفی اور صفاتی نام ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ: ہر بھلا کام 'بسم اللہ' پڑھ کر کیا کرو، ورنہ برکت جاتی رہے گی۔ بھلا قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی اور چیز بھی بھلی ہو سکتی ہے بلکہ وہ تو خود ہی مبارک کتاب ہے۔ اسے بھی خود اللہ تعالیٰ نے 'بسم اللہ' سے شروع کیا ہے تاکہ اس کی برکتیں دنیا کے لئے عام اور آسان ہو جائیں اور دنیا بھی اس 'طرزِ آغاز' کے مطابق، اپنے آغازِ کار میں ایسا ہی کرے۔ اس نامِ نامی میں بڑی برکتیں ہیں، کیونکہ وہ ''اللہ'' ہے۔
دنیا میں اور بھی مبارک نام ہو سکتے ہیں اور ہیں لیکن نام کی حد تک وہ 'برکتوں اور رحمتوں' کے حصول کا ذریعہ بھی ہو؟ اللہ کے نام کے سوا اور کوئی نہیں، بخدا! اور کوئی نہیں! اس میں راز یہ ہے کہ دنیا محسوسات پر جان چھڑکتی ہے، جو اس سے ماوراء ہو، اسے وہ مان تو سکتی ہے لیکن اس پر قناعت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ جب وہ خدا کو محسوس اور مشہود نہیں پاتی تو 'وساطتوں' اور وسیلوں کے چکروں اور بھول بھلیوں میں پڑ کر خدا سے دور تر ہو جاتی ہیں۔ اس لئے 'بسم اللہ دے کر بتایا کہ: اگر خدا تمہیں دکھائی نہیں دیتا تو اس کا نام تو تمہارے پاس ہے! پھر فکر کاہے کا۔ اور ادھر ادھر دیکھنے کے کیا معنی؟
الغرض: بسم اللہ، اس کی وحدانیت اور یکتائی کا اعلان بھی ہے اور اس کے 'خونِ یغما' سے فیض پانے کا ایک حسین ذریعہ بھی۔ سیر الی اللہ، تعلق باللہ اور اعتماد علی اللہ کا اظہار بھی ہے اور معیتِ الٰہی کے احساس اور تصور سے لبریز زمزمہ بھی۔
(۳) اَلرَّحْمٰنِ (نہایت رحم والا) یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی (تعارفی) نام ہے، فیضان رحمت و رافت کا یہ ایک ایسا بے پایاں اور بے کنار مظہر، الطاف و افضال کا ایک ایسا بے پایاں اور بے کارف مظہر، الطاف و افضال کا ایک ایسا 'حود فراموش' سمندر ہے، جہاں امتیاز نہیں، استثناء نہیں، حد نہیں، بس نہیں، محرومی اور تشنگی کا کوئی ذکر نہیں، اپنے اور پرائے کی بات نہیں۔ ساقی کا یہ ساغرِ رحمت' ازل سے گردش میں ہے اور تا ابد رہے گا یہ سبھی کچھ کسی کے 'استحقاق' کی بنا پر نہیں ہو رہا، محض اس کے کرام کا نتیجہ ہے۔
کہتے ہیں رحمٰن اور رحیم مبالغے کے صیغے ہیں! ٹھیک ہے، ہیں پر یہ بات ہمارے حساب سے ہے، جہاں تک خدا کی بات ہے وہاں یہ مبالغے، ابتدائیہ سے بھی درے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی پیرایۂ بیان 'صفات کمال' کو کما حقہ محیط نہیں ہے اور نہ اس سے وہ وافر ہو سکتا ہے۔ ہاں اس معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ: ایک شے کے خاصہ کی طرح اس سے اس کی رحمت کا ظہور بے حد و حساب اور بے ساختہ ہو رہا ہے۔ بیساختہ کہنا بھی ایک پیرایۂ بیان ہے۔ وہ وہ 'بے قابو' بھی نہیں ہے کیونکہ وہ خود 'قدیر' ہے۔
(۴) الرَّحِيم (خصوصی اور لازوال فضل و کرم اور عنایت والا) یہ بھی اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو اس امر کا غمّاز ہے کہ: گو اس کی خالقیّت اور ربوبیّت عامہ میں کوئی امتیاز نہیں، تاہم جن لوگوں کو اس سے خصوصی تعلق ہے وہ ان کا قدر دان بھی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ یہاں 'حیاتِ طیبہ' کی دولت کو ان کے لئے ارزاں کر دیتا ہے اور وہاں (اگلے جہاں) خوف و حزن کی گھڑیوں میں ان کا خصوصی مونس اور غمگسار بھی ہو گا۔
الرحیم کے لفظ کی یہ خصوصی ہیئت اس امر کی بھی غماز ہے کہ رحمت و رافت کی یہ بارش وقتی اور جذباتی نوعیت کی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس سے پاک ہے، بلکہ ذاتِ سرمدی کی لازوال عنایات کا یہ ایک غیر فانی کرشمہ ہے کیونکہ یہ اس کا خاصہ ہے، دنیا کی ہر فانی حکومت کا بھی یہی دستور ہے کہ گریڈ دے کر پھر اس کو ڈی گریڈ نہیں کرتی، ہاں اگر وہ خود اٹھا کر اسے پھینک دے تو یہ اور بات ہے۔
دو دلوں کے درمیان، پائیدار اور پرکیف تعلق کے لئے ضروری ہے کہ وہ 'پاک محبت، نیک خواہشات اور حسین توقعات'' کی اساس پر قائم ہو، اس میں نباہ بھی ہے اور کیف بھی۔ اس لئے لفظ ''اللہ'' کے ساتھ ''الرحمٰن الرحیم'' کا اضافہ کیا گیا تاکہ آپ اس سے ڈریں نہیں، اس کی طرف لپکیں۔ کیونکہ وہ نہایت ہی پیار کی شے ہے جہاں اس سے ڈرنے کا ذکر ہے۔ وہ بلا سے ڈرنا نہیں ہے بلکہ محبوب کے روٹھ جانے کے احساس کا نام ہے یا اس کے جمال و جلال کی ہیبت کی بات ہے۔
﴿الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿٢﴾ الرَّحمـٰنِ الرَّحيمِ ﴿٣﴾... سورة الفاتحة
ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے نہایت رحم والا مہربان ہے
یہ بسم اللہ، اللہ نے خود پڑھی بھی ہے اور سکھائی بھی ہے۔ یہ دونوں باتیں اس کو سجتی ہیں، کیونکہ وہ اسی کا اہل ہے کہ وہ خود بھی اپنے گُن گائے۔ (کما أثنیت علی نفسك)
(۵) اَلْحَمْدُ (ہر طرح کی حمد و ثنا) حسن و زیبائش کی دل ربائی کو دیکھ کر ایک جوہری کی زبان سے بے ساختہ جو 'واہ وا' نکل جاتی ہے یا بے حد و حساب اس کی کرم نوازیوں پر شکر و امتنان کے جذبہ سے سرشار ہو کر قلب و نگاہ اور زبان سے بے اختیار جو 'خراجِ عقیدت' ادا ہو جاتا ہے، کتاب و سنت کی زبان میں اسے 'حمد' کہتے ہیں۔ یہ طوطے کی رٹ، دِل غافل کی صدا، نگاہِ فریب خوردہ اور زبانِ بے ذوق کا ورد نہیں ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آتا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، یہ دراصل دلِ خبیر، نگاہ نکتہ نواز، وارادتِ پرکیف، عشق ادا شناس، ذوق بیداغ اور زبانِ زمزمہ سنج کی ایک ادائے دل نواز ہے۔ لیکن
؎ ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تاپخشی
حمد و ثنا کے سارے روپ اور انداز، خدا ہی کو سزا وار ہیں، کیونکہ یہ اس کا حق اور آپ کا فریہ ہے، وہ تمام صفاتِ کمال، خیر و برکت، جمال و جلال اور حسن و خوبی سے متصف، مالک، داتا اور سرچشمہ ہے، یہ سبھی کچھ اس کا ذاتی اور حقیقی ہے، باقی اور کہیں جتنا اور جیسا کچھ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے، وہ سب اس کی ''دین، عطا اور بخشش'' ہے۔ بالکل عارضی اور مستعار ہے۔ اس لئے پیرایۂ مجاز میں دوسروں کی جتنی تعریف اور توصیف ہو جاتی ہے، وہ بھی دراصل اسی ذات پاک والا صفات کو ہی پہنچتی ہے، کیونکہ وہی ان کا اصل مالک، خالق اور وارث ہے، کون کوئی گھر سے لایا ہے باباً حضرت امام ابن رجب حنبلیؒ نے شرح اربعین حدیث ۲۶ کے تحت اللہ کی نعمتوں اور بندوں کے حمد و شکر پر جو روشنی ڈالی ہے، پڑھنے کے قابل ہے اور بڑی جاذب ہے۔ لکھتے ہیں: کہ امام ابو عمر والشیبانی فرماتے ہیں کہ: کوہِ طور کی ملاقات میں حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ: الٰہی! نماز پڑھی، صدقہ خیرات کیا یا فریضۂ رسالت ادا کیا، وہ بھی تو تیری ہی توفیق سے کیا، میں نے خود کیا کیا، تو پھر میرے شکر کے کیا معنی؟ فرمایا: (بس یہ احساسِ ممنونیت ہی) میرا شکر ہے۔ یہی جواب و سوال حضرت داؤد علیہ السلام سے ہوا۔ ص ۱۷۶۔ حضرت امام ابو بکر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ: الحمد للہ کہنا بھی تو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت ہے۔ اس لئے بظاہر جو آپ اس کی حمد کرتے ہیں وہ بجائے خود ''واجب الادا'' ایک نعمت ہو جاتی ہے، یعنی نعمتیں بڑھیں گی، حمد و شکر کا فریضہ اپنی جگہ آپ کے ذمہ رہے گا، مگر یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے آپ کے اس تہیہ کو ہی 'حمد و شکر' سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ حضرت عمرو بن عبد العزیز کے ایک گورنر نے ان کو لکھا کہ: رب کی نعمتیں بہت ہی ہو گئیں ہیں اور مجھے یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ میرا اہل و عیال اس کے شکر سے قاصر ہے، جواب دیا کہ: میں سمجھا تھا، کہ آپ نے اللہ کو سب سے بہتر سمجھا ہو گا ( ) بندہ پر وہ جو بھی انعام کرتا ہے، وہ جب اس پر 'الحمد للہ' کہتا ہے، تو نعمت کے مقابلہ میں، اس کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے یعنی وہ جس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرتا، بس تھوڑے کو بہت سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ گھبرائیں نہیں! (ما حصل ص ۱۷۶)
الحمد للہ، کہہ کر اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی حمد و ثنا کی ہے، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی حمد و ثنا کیا کرتا ہے
(کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِك) کیونکہ یہ خود ثنائی اسے زیب بھی دیتی ہے، زیب کیا، اپنی تعریف آپ ہی کر سکتا ہے۔ غور کیجئے! خدا ہو کر جب وہ خود اپنی حمد کرتا ہے تو دوسروں کو تو اس سے بھی سوا کرنی چاہئے!۔ بس اتنی جتنی بس میں ہو، اس کی صحیح شکل یہ ہے کہ زبان سے اس کے گُن گائیں اور عمل سے اس کی عبدیّت کا ثبوت دیں، ان شاء اللہ! ان حَمَّادُوْنَ میں آپ کا نام لکھ دے گا، جن کا تورات اور انجیل میں بھی ذکر آیا ہے (دارمی)
(۶)
لِلہِ (اللہ تعالیٰ کا حق ہے) ''ل'' کے معنی استحقاق کے ہیں۔ یعنی حقیقی حمد و ستائش کی مستحق ذات، صرف اللہ کی ذات ہے۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر جاذب اور کوئی نہیں، نہ اس سے بڑھ کر کوئی اَن تھک داتا، کارساز اور محسن ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کے نام پر، ورے ورے یا پرے پرے، دنیا اس وقت غیر اللہ سے ناطے جوڑتی ہے، جب باریک بین نگاہ ٹھوکر کھا جاتی ہے، جو نگاہ حسن شناس اس کے 'حسنِ لا یزال' اور اس کے حدود فراموش الطاف و افضال کے مطالعہ میں سدا مستغرق رہتی ہے، یقین کیجیے! وہ نگاہ، غیر اللہ کی خالی اور مستعار چکا چوند کے نظارہ سے ہمیشہ کے لئے فرصت پا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، جو ''اللہ والے'' ہوتے ہیں وہ پوری دنیا میں رہ کر بھی اس سے گریزاں گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔
(۷)
رَبِّ (پالنہار) یہ وہ ذات کریم ہے، جو سامان استحکام کے لئے مناسب مواقع اور فرصت بھی مہیا کرتی ہے۔ ''بتدریج'' اس لیے کہ زیست (زندگی، حیات) یک دم اپنے پورے کمالِ زیست کی بھی متحمل نہیں ہے، زندگی ہو کر جو اس قدر کمزور ہو کہ وہ اپنے بوجھ کی آپ بھی بہ آسانی متحمل نہ ہو، وہ اپنے رب کی ربوبیت کی کس قدر محتاج ہو گی یا اس حال میں تھام کر اسے جو ذات کریم چل رہی ہے، اس کا کتنا کرم ہے؟ اس کا اندازہ سبھی کر سکتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا صفاتی نام ہے۔ غور فرمائیےً اس کی صفت اور اس کی ادا کا یہ صرف ایک پہلو ہے! خود ذات پاک کیا ہو گی؟ کون اس کا صحیح اندازہ کر سکتا ہے؟
(۸)
اَلْعٰلَمِیْنَ (تمام جہان) عالم کی جمع ہے۔ ماسوی اللہ جو کچھ ہے، سب کو 'عالم' کہتے ہیں۔ ذرّوں سے لے کر مہیب پہاڑوں اور سیّاروں تک، حقیر سے مچھر سے لے کر ہاتھی اور اس سے بھی بڑے دیو ہیکل جانوروں تک سبھی جدا جدا عالَم ہیں۔ اس لئے عالمین کہا گیا ہے یعنی جتنے بھی عالم ہیں، ان سب کا جو روزی رساں اور رب ہے، اسے اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے مفہوم میں 'مساوات' کا تصور بھی پنہاں ہے، لیکن سوشلسٹ کی مساوات کا نہیں، خدائی مساوات کا۔ کیونکہ اس میں یک گونۂ 'مساوات' بھی ہے اور بقدر فرق مراتب خصوصی امتیاز بھی۔ چیونٹی اور ہاتھی، ذرہ اور پہاڑ، رائی اور مہیب سیاروں کو ان کی طبعی حیات اور بقا کے لئے جتنا اور جیسا کچھ مل رہا ہے، یکساں نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔
(۹)
اَلْرَّحْمٰن (بڑی عنایات اور رحمتوں والا) خدا کی ربوبیت عامہ اور خاصہ اور اس کی یہ ساری کرم نوازیاں اور مہربانیاں، اس لئے نہیں ہیں کہ وہ بندوں کے ووٹوں سے خدا بنا ہے، لہٰذا بندوں کا حساب بھی اسے چکانا ہے، یا کسی نے اتنی کمائی کر لی ہے کہ بس اسے خرید ہی لیا ہے۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں! بلکہ اس لئے اور صرف اس لئے لطف و کرم کی یہ بارش کر رہا ہے کہ، اس کے لطف و کرم اور عنایات کے ''بحرِ بے کنار'' کا سیلاب تھمتا ہی نہیں۔
سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي. جل جلاله.(۱۰)
اَلرَّحِیْمِ (لازوال اور خصوصی عنایات والا) یعنی یہ رنگ جذباتی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس سے پاک ہے، رحمت پر مبنی ہے، لازوال ہے اور خدا کی قدر دانی کا مظہر ہے۔
﴿مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ٤﴾... سورة الفاتحة"
(جو روزِ جزا کا مالک ہے۔)(۱۱)
مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ (جو روزِ جزا کا مالک ہے) دنیا کا یہ گھروندا بچوں کا کھلونا نہیں کہ بنایا بن گیا، ڈھایا ڈھ گیا، جوڑا جڑ گیا، توڑا ٹوٹ گیا اور بات آئی گئی ہو گئی! بلکہ یہ ایک قافلہ ہے جو طوعاً و کرہاً، ایک مقصد اور حکمت کے تحت، ایک حتمی اور متعین منزل کی طرف رواں واں ہے، جہاں پہنچ کر ہر ایک پورا پورا اپنے 'سفرِ حیات' کا انجام دیکھے گا۔ اچھا رہا تو اچھا، بُرا رہا تو بُرا۔
مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ کہہ کر اسی 'حقیقتِ منتظر' کی طرف توجہ دلائی کہ: جو دنیا خود رواں دواں ہے تمہیں اس میں کہاں رہنا ملے گا۔ یہ سفر کافی لمبا ہے، منزل بہت دور ہے، جو سو گئے رہ گئے، جو خالی ہاتھ پہنچے یا متاعِ کاسد لے کر سدھارے وہ مارے گئے۔ مانا! وہ بڑی رحمتوں والا ہے، پر اپنے اندر ہی کوئی کشش نہ ہوئی تو خاک کسی کو پیار آئے گا۔ رحمٰن و رحیم کے معنی، استحقاق سے بڑھ کر قدر دانی کے ہیں، اگر سرے سے استحقاق کا خانہ ہی خالی رہا تو اس سے 'بڑھ کر' کی توقع کوئی کیسے کرے گا؟
مالک تو وہ آج بھی ہے، لیکن 'میری تیری' کی آوازیں ابھی آتی ہیں، کل یہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائیں گی، اس لئے واقعۃً کے ساتھ عملاً بھی یہ سارے ہمہمے، سہارے اور حوصلے غائب ہوں گے اور صرف اسی ذاتِ برحق کا نقارہ بجتا ہو گا۔ اسباب و علل کی یہ سب کڑیاں معدوم ہو جائیں گی، کہیں سے کوئی صدا نہیں اُٹھے گی کہ ''میں''! بلکہ چار دانگ عالم یہی سنائی دے گا کہ: الٰہی! تُو ہی تُو!
«ھُوَ الْأوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ» اپنی اصلی شان میں اس دن جلوہ گر ہو گا جس کا سبھی لوگ مشاہدہ اور احساس کریں گے۔ آواز دینے پر بھی کوئی آواز نہیں آئے گی، بالآخر اسی کے نام کا بگل بجے گا، جس کا باقی رہا۔
﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ ۖ لِلَّهِ الوٰحِدِ القَهّارِ ﴿١٦﴾... سورة غافر