سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ

قسطِ اوّل


حال میں ایک کتاب بزبان انگریزی بنام Punishment of Apostacy in Islam (اسلام میں سزائے مرتد) سرکاری ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ سے شائع ہوئی ہے۔

اس کتاب کے مؤلف پاکستان پاکستان کے ماہر قانون سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مسٹر ایس۔ اے۔ رحمٰن ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں مصر کے مسیحی تبلیغی جماعت کے سربراہ سیمویل زدمیر کا یہ بیان نقل فرمایا ہے کہ:

''مصر میں انتہائی سرگرمیوں کے باوجود صرف چند اشخاص نے ترکِ اسلام کر کے مسیحی دین اختیار کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ سزائے قتل مرتد کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔''

مذکورہ مسیحی تبلیغ کے سربراہ نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر واٹسن امریکی مشنری کے حوالہ سے مصر کے اندر مسیحی تبلیغی مشن کی تاریخ ۱۸۵۴ء تا ۱۸۹۵ء کے واقعات کا ذِکر ہے کہ ''پچھتر مسلمان جو جو اس دوران عیسائی ہو گئے تھے ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ کیونکہ اسلام کے مذہبی اور سیاسی قانون میں آزادیٔ ضمیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فاضل مؤلف کو مسیحی مبلّغ کے اس ریمارک سے بڑی ہمدردی ہے اور اس افسوسناک صورتِ حال یا مسیحی مبلغین کی ناکامی کا ذمہ دار انہوں نے علماء و فقہائے اسلام کو ٹھہرایا ہے۔ جنہوں نے قتلِ مرتد کی سزا کو اسلام کا ایک قطعی حکم قرار دیا ہے۔ لیکن ان ائمہ فقہاء یعنی امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام حنبل رحمہم اللہ کو اس گناہ کا مرتکب سمجھنا زیادتی ہے کیونکہ اس قصور کی جُڑ (نعوذ باللہ) پیغمبرِ اسلام ﷺ تک پہنچتی ہے۔ جنہوں نے وحی قرآنی کی روح کو سمجھے بغیر مرتد کو واجب القتل قرار دیا اور اس کے بعد خلفائے راشدین نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے اس حکم پر بغیر سوچے سمجھے عمل کیا۔ بد قسمتی سے تمام علمائے امت نے بھی اس سے اتفاق کر لیا اب اس حادثاتی صورتِ حال پر محض فقہاء کو مورد الزام ٹھہرانا تقاضائے انصاف کے خلاف ہے۔

خود فاضل مؤلف کو اعتراف ہے کہ اب تک ملتِ اسلامیہ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ اسلام سے پھر جانے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ چنانچہ اس کے حق میں انہوں نے ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے (ص ۴) جنہوں نے بتایا ہے کہ اسلام سے پھر جانا سیاسی اور مذہبی بغاوت کے مترادف ہے۔ اور لکھا ہے کہ:

''پیغمبر اسلام ﷺ کے ارشادات، حضور ﷺ کا عمل، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے، ان کا نفاذ، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق رائے اور بعد کے تمام فقہا کا اجماع نیز قرآن حکیم کی دلالۃ النص (جسے مؤلف نے Indirect Verses سے تعبیر فرمایا ہے) سب نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے'' باوجود اس کے مؤلف موصوف کا یہ دعویٰ ہے کہ مرتد کو سزائے موت کا مستوجب قرار دینا اسلام کے خلاف ہے۔

مؤلف کتاب کے اس اعتراف کے باوجود ان کا یہ ارشاد کہ ''مرتد کو سزائے موت کا مستوجب قرار دینا اسلام کے خلاف ہے۔'' نہ صرف یہ کہ حیرت ناک ہے بلکہ نتیجۃً اس امر کا اعلان ہے کہ تمام ملتِ اسلامیہ میں ایک شخص بھی صاحبِ بصیرت، صائب رائے یا ذی شعور نہ تھا، بلکہ سب دین سے بیگانہ، کور ذوق یا فاتر العقل تھے کہ اسلام کا یہ اجماعی عقیدہ صریحاً قرآن و سنت کے خلاف ہے اور مفسرین و فقہا و علمائے اسلام کی غلط فہمی کے باعث پیدا ہوا جیسا کہ ارشاداتِ مؤلف ممدوح سے مترشح ہوتا ہے۔

کتاب کے مضامین کو حسب ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1. ارتداد اور قرآن

2. ارتداد اور سنت

3. ارتداد اور خلافت راشدہ

4. ارتداد اور فقہاء

5. خلاصہ اور نتیجہ

ان کے تمام دلائل کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ ارتداد بجائے خود کوئی جرم نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کے خلاف جو لوگ محاربہ پر اتر آئیں صرف ان کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ انہوں نے مرتد کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ مرتد حربی اور مرتد غیر حربی جس کو انہوں نے امن پسند مرتد سے تعبیر فرمایا ہے لہٰذا خلفائے راشدین، مفسرین، فقہا اور علماء میں سے جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ امن پسند مرتد واجب القتل ہے اس نے خدا و رسول کے احکام کو غلط سمجھا ہے۔ بظاہر ذاتِ آنحضرت ﷺبھی نعوذ باللہ اس غلط فہمی میں مبتلا معلوم ہوتی ہے۔ لیکن انہوں نے احادیث کو اس بے دردی سے رد کرنے میں مصلحت نہیں دیکھی جس بیدردی سے مسٹر پرویز نے رد کیا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں مؤلف ممدوح کا کام زیادہ شوار ہو گیا ہے۔ راقم الحروف نے ان کی اس دشواری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک مفصل مضمون ان کے نقطۂ نظر کے خلاف قلمبند کیا ہے۔ خاصا طویل ہونے کے باعث اس کی اشاعت معرض التوا میں ہے۔

اس مختصر تحریر میں صرف ان امور کی نشان دہی کرنا پیش نظر ہے جن کی جانب توجہ نہ دینے کے باعث یہ نہایت غیر مفید بلکہ انتہائی مضر کتاب انہوں نے تالیف فرمائی۔

یہ امر انتہائی المناک ہے کہ اس کتاب میں جو طرزِ استدلال اختیار کیا گیا ہے وہ تحقیقی، منطقی، استدلالی اور اصولی اعتبار سے ان کو معتبر ہستی سے بہت فروتر ہے۔

سب سے پہلے تو ارتداد کی دوگونہ تقسیم ہی غلط ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس پوری کتاب میں کسی ایک مرتد امن پسند کا ذکر نہیں ہے کہ اسے امن پسندی کی بنا پر واجب القتل نہ سمجھا گیا ہو بلکہ ایک مرتد شخص بھی ایسا نہیں بتایا گیا جو پاداشِ ارتداد میں قتل نہ کیا گیا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ عہدِ رسالت مآب ﷺ اور عہدِ خلفائے راشدین میں جو مرتد بھی بارگاہِ رسالت یا خلفائے راشدین کی عدالت میں پیش ہوا اور اس نے توبہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا گیا اور کوئی مرتد قتل سے نہیں بچ سکا۔ یہی ایک امر واقعہ اس امر کے ثبوت کو کافی ہے کہ مرتد کا قتل کیا جانا احکامِ خدا و رسول کے عین مطابق ہے۔ ورنہ کیوں کر ممکن تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے خلفاء احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے اور یہ کیونکر ممکن تھا کہ مفسرین و فقہا کتاب و سنت کے خلاف فیصلے دیتے۔

الزاماً: پھر یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ مرتد حربی کو قتل کا حکم ہے کیونکہ کسی بھی حربی کو قتل کا کم نہیں ہے۔ حربی سے مقاتلہ کا حکم ہے اور قتل و مقاتلہ دو مختلف احکام ہیں۔ حکم قتل تعزیری ہے اور حکم قتال دفاعی۔ مرتد کو پاداش جرم میں قتل کرنے کا حکم ہے۔ قرآن حکیم میں اہلِ محاربہ سے خواہ کافر اصلی ہوں یا مرتد قتال کا حکم ہے۔ اور مرتد کو قتل کا حکم ہے چنانچہ جن مرتدوں کو قتل کیا گیا ان کو حربی کہنا ہی غلط ہے کیونکہ وہ بوقتِ قتل حربی نہ تھے بلکہ صرف ارتداد کے مجرم تھے۔ اہلِ دانش و بصیرت کے نزدیک قتل کا حکم ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ ارتداد جرم ہے۔

یہ امر خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسا دینی مسئلہ جو اتنی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ اجتماعی حیثیت اختیار کر چکا ہو اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے گا اس میں حقیقت پوشی یا کذب بیانی سے کام لینا ہی پڑے گا۔

میرے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کتاب زیرِ نظر کے مؤلف نے بھی دیدہ و دانستہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش فرمائی ہو بظاہر ان کے معاونین نے ان کو غلط فہمی میں ڈال کر ان کی توہین کی ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مفسرین و فقہائے اسلام میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس نے ارتداد کو بدترین جرم اور مرتد کو مستوجب قتل نہ قرار دیا ہو۔ مؤلف کتاب نے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ:

''متقدمین مفسرین میں سے کم از کم ایک شخص علامہ ابن حیان اندلسیؒ اور عہد حاضر کے فقہا میں سے شیخ محمد شلتوت نے بوضاحت تمام اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ محض ارتداد کی پاداش میں قتل کا حکم انصاف کے خلاف ہے اور بتایا ہے کہ علامہ حلبیؒ اور علامہ ابن الہمامؒ نے بھی اس خیال کی تائید فرمائی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اسلام سے پھر جانے (یا ارتداد) کی کوئی سزا نہیں ہے۔'' ص ۱۳۴

میں نہایت جرأت کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ صریح غلط بیانی ہے کیونکہ ان اصحاب میں سے کسی نے بوضاحت تمام کیا اشارۃً کنایۃً بھی یہ نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف ابن حیان اپنی مبسوط تفسیر موسومہ بحر المحیط میں آیت مَنْ یَرْتَدِدْ الخ الآیہ کے تحت فرماتے کہ اس آیت میں حبوط الدنیا کا مطلب ہے حبطه باستحقاق قتله  ج ۴ ص ۱۵۰

انہوں ے کہیں نہیں کہا کہ محض ارتداد کی پاداش میں قتل کا حکم انصاف کے خلاف ہے وہ تو اس کا ثبوت آیت قرآنی سے دیتے ہیں۔

اب علامہ محمود شلتوت کو لیجئے۔ ملت اسلامیہ کے مستند علماء کو علامہ موصوف کے بعض افکار سے اختلاف ہے۔ امور دینی میں نہ ان کی رائے وقیع مانی جاتی ہے اور نہ ان کو فقہا میں شمار کیاجاتا ہے۔ تاہم اس باب میں کہ مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے وہ بھی تمام علما سے متفق ہیں۔ ان کی تالیف کتاب الفتاویٰ صفحہ ۱۶۱ و ۱۶۲ ملاحظہ ہو۔ اس میں بوضاحت بتایا گیا ہے کہ جو مسلمان ہو کر کافر ہو جاوے وہ فرمانِ نبوت کے بموجب واجب القتل ہے۔

حلبیؒ اور ابن ہمامؒ کے باب میں یہ ارشاد کہ ان اصحاب کے خیال میں ارتداد کی کوئی سزا اس دنیا میں نہیں ہے سراسر خلافِ واقعہ ہے۔ اس کے برعکس ہر دو اصحاب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ ہاں علامہ ابن الہمامؒ نے توبہ کے لئے کچھ مہلت دی ہے کہ إن قتله قاتل قبل عرض الإسلام کرہ ولا شيئ یعنی اگر کوئی شخص (مرتد کو) اسلام پیش کرنے سے پہلے ہی قتل کر دے تو یہ فعل مکروہ ہے لیکن قاتل سے باز پرس نہ کی جائے گی (شرح فتح القدیر ابن الہمام ص ۳۸۶، ۳۸۷) ظاہر ہے کہ جو شخص اس شد و مد سے قتل مرتد کا حامی ہو وہ اس سزا کو غیر منصفانہ کیسے کہہ سکتا ہے۔

علامہ حلبیؒ اس بارے میں اس سے بھی زیادہ متشدّد معلوم ہوتے ہیں وہ کہتے کہ مرتد کو اسلام لانے کے لئے کہا جائے اگر انکار کرے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ تین دن کی مہلت نہ تو واجب ہے نہ ہی مستحب ہے۔ (بحوالہ حاشیہ بالا) ایسی صورت میں کتاب کی تحقیقی حیثیت جو رہ جاتی ہے وہ ظاہر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی امور حقائق کے خلاف بتائے گئے ہیں۔ جن کی تفصیل مفصل مضمون میں کی گئی ہے۔

اب ان دلائل پر ایک نظر ڈالیے جو فاضل مؤلف کتاب نے قتل مرتد کے خلاف اس کتاب میں پیش فرمائی ہیں۔

اس باب میں سب سے پہلے انہوں نے قرآن حکیم سے استدلال فرمایا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ مرتد اس دنیا میں کس سزا کا مستوجب ہے (ص ۱۰) اپنے اس دعوے کو ثبوت میں انہوں نے علامہ سمرائیؒ کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جہاں جہاں مرتد کا ذکر لفظاً یا معناً آیا ہے ان آیات پر میں نے غور کیا اور مختلف تفاسیر کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرتد کی سزائے قتل کتاب (قرآن حکیم) میں نہیں آئی بلکہ سنت سے ثابت ہے۔ ص ۱۰

ساتھ ہی ان کاکہنا ہے کہ فقہا نے کتاب و سنت دونوں سے جو نتائج اخذ فرمائے ہیں ان میں اختلافات ہیں۔ (احکام مرتد سمرائی ص ۱۲)

لیکن آگے چل کر ان اختلافات کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ اختلافات کے باوجود ہر مفسر کا اس امر میں اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ جن مفسرین نے سورۂ بقرہ کی آیت ۲۱۷ «من یرتدد منکم عن دینه» سے مرتد کی سزا قتل ثابت فرمائی ہے ان میں ابو حیان اندلسی کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے اس کا ذکر علامہ سمرائی نے نہیں کیا لیکن علامہ نیشا پوریؒ کا خیال بحوالہ غرائب القرآن (ج ۲ ص ۲۱۸) بتایا ہے کہ اس میں «حبطت أعمالھم في الدنیا» کا مطلب انہوں نے بتایا ہے کہ «فلما تفوته من فوائد الإسلام العاجلة فيقتل عند الظفر به ويقاتل إلي أن يظفر به» یعنی اعمال کا حبوط فی الدنیا اس لئے ہے کہ مرتد، اسلام کے فوری فائدہ سے محروم رہ جاتا ہے کیونکہ قابو میں آتے ہی اسے قتل کر دیا جاتا ہے یا اس سے جنگ کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ قابو میں آجائے۔

گویا علامہ سمرائی کو گرچہ قرآن میں قتلِ مرتد کا حکم صراحۃً نہیں ملا لیکن ان کو اعتراف ہے کہ مفسرین نے یہ معنی آیات کلامِ الٰہی سے اخذ فرمائے ہیں اور مفسرین میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس نے مرتد کی سزا قتل نہ بتائی ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن حکیم سے استنباطاتِ احکام کا صرف ایک ہی طریقہ نہیں ہے کہ کسی حکم کے لئے مخصوص الفاظ ہی استعمال کئے گئے ہیں بلکہ نصوص قرآنی کی صراحت کے علاوہ وہ احکام جو دلائل النص یا اشارۃ النص سے ثابت ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح فرض واجب العمل ہیں جس طرح صراحۃ النص سے ثابت ہونے والے احکام۔ مثلاً مرتدین کے باب میں جس طرح ارشادِ باری ہے کہ﴿مَن كَفَرَ‌ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِ‌هَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ وَلـٰكِن مَن شَرَ‌حَ بِالكُفرِ‌ صَدرً‌ا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل" (یعنی جو لوگ ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو گئے اور کھلے دل سے کفر اختیار کر لیا ان پر اللہ کا غضب نازل ہو گا) بجز اس صورت کے جبکہ ان کو جبراً ایسا کرنا پڑا ہو اور ان کا دل ایمان پر سے مطمئن ہو۔ اس طرح کی تہدید ان کے حق میں بھی آئی ہے جنہوں نے قتل کا ارتکاب کیا۔﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـٰلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا ﴿٩٣﴾... سورة النساء" (یعنی جس نے عمداً کسی مسلمان کو قتل کیا ہو اس کی سزا دائمی جہنم ہے اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب رکھا گیا ہے) اب اگر کوئی شخص اس آیت کے پیش نظر یہ دعویٰ کرے کہ قرآن میں قاتل کی کوئی سزا نہیں تو کتنی بڑی حماقت ہے۔ اہلِ دانش نے جس طرح قرآن حکیم کی دلالۃ النص اور دوسری آیات سے جن میں کہیں قتل کا حکم بصراحت موجود نہیں ہے) قاتل کو آنحضرت ﷺ کی احادیث کی صراحت سے مستوجب قتل قرار دیا ہے۔ اسی طرح دوسری آیات (جن میں مرتد کے قتل کا حکم بصراحت موجود نہیں ہے) صحیح احادیث کی صراحت سے مرتد کو مستوجب قتل قرار دیا ہے۔ چنانچہ خود علامہ سمرائی بھی جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں قتلِ مرتد کا حکم موجود نہیں ہے بلکہ یہ حکم سنتِ نبوی سے ثابت ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ صراحۃ النص سے مرتد کا مستوجب قتل ہونا ثابت نہیں اسی طرح خود قاتل کا بھی صراحۃ النص سے مستوجب قتل ہونا ثابت نہیں۔ قاتل کی سزائے قتل کا جہاں بھی ذکر ہے وہ استنباطی ہے۔ تصریحی نہیں ہے۔

یہ طریق استنباط صرف قتلِ مرتد کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد تعزیری احکام بصراحت موجود نہیں ہیں۔ مثلاً شراب نوشی کی شرعی سزا کا کوئی ذکر صراحتاً قرآن حکیم میں نہیں ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ سزا جائز ہی نہیں ہے اور جس طرح کہا جائے کہ ارتداد کوئی جرم نہیں اسی طرح شراب نوشی بھی جرائم کی فہرست سے خارج سمجھا جا سکتا ہے اور تاوقتیکہ شراب پینے والا کسی اور جرم کا مرتکب نہ ہو مستوجب سزا نہیں ہو گا۔ اس قسم کے تمام شبہات فقہی بصیرت کے منافی ہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ متعدد مفسرین نے قرآنی آیات سے قتل مرتد کا حکم اخذ فرمایا ہے۔ مثلاً مفسر ابن حیان کا ذکر اوپر آچکا ہے۔

سورۂ توبہ کی آیت ۱۱ تا ۱۳ میں ہے کہ:﴿وَإِن نَكَثوا أَيمـٰنَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم.....إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿١٣﴾... سورة التوبة

اگر وہ لوگ عہد (یعنی اسلام قبول کر لینے کا عہد) کرنے کے بعد اپنے عہدوں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کر کے ان لیڈروں سے جنگ کرو۔

یہ ترجمہ مؤلف کتاب نے خود بحوالہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ درج فرمایا ہے۔ لیکن اس پر یہ تنقیح فرمائی ہے کہ لفظ عہد کا جو مفہوم ڈاکٹر صاحب نے لیا ہے، مستند تفاسیر اس کی تائید نہیں کرتیں۔ اس عہد سے مراد اسلام نہیں بلکہ معاہدۂ امن ہے لیکن انہوں نے یہ حقیقت نظر انداز فرما دی ہے کہ معاہدۂ امن بجائے خود عہد اسلام کے مترادف ہے۔ تاہم اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ فضلائے عصر جن کے علم و فضل کا خود مؤلف کو اعتراف ہے۔ قرآنی آیت سے مرتد کی سزائے قتل ثابت کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا ترک بھی ترکِ عہد کی ایک صورت ہے۔

سورۃ آلِ عمران ۸۶ تا ۹۱ میں ہے کہ جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا انہیں مہلت نہ دی جائے گی۔ ہاں توبہ کر لیں تو اللہ مغفرت کرنے والا ہے۔ مہلت نہ دی جانے میں جہاں جلد عذاب میں ڈالے جانے کی وعید ہے وہاں یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ اسے فوراً قتل کرایا جائے گا۔

قرآن حکیم کی آیت آل عمران ۱۰۶، ۱۷، سورۂ نساء کی آیت ۱۳۷ اور سورہ نمل کی آیات میں جن کو مؤلف نے بھی پیش کیا ہے۔ مرتد کے لئے عذاب، دردناک عذاب اور ناقابل مغفرت ہونے کا خصوصی ذکر ہے اور یہ امر ان کو مستوجب قتل قرار دیتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں تو تمام کفار کو قتل کرنا چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ وہ بھی مستوجب قتل ہیں بشرطیکہ وہ اسلام کے خلاف عداوت کا مظاہرہ کریں یا غدّاری کے مرتکب ہوں۔ چونکہ مرتد کا ارتداد بجائے خود غدّاری ہے اور اسلام کے خلاف عداوت کا مظاہرہ ہے۔ اس لئے وہ مستوجب قتل ہے امن پسند مرتد کی اصطلاح مہمل ہے جو آج تک کسی نے استعمال نہیں فرمائی۔ یہ امر نہایت واضح ہے کہ اصلی کافر اپنے کسی وعدے سے نہیں پھرتا لیکن مرتد اپنے عہد سے پھرتا ہے اور اسی کو غداری کہتے ہیں۔

سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳،۳۴ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ سے لڑتے اور ملک میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا قتل ہے۔ ہاں اگر قابو میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو اللہ مغفرت اور رحمت والا ہے۔

محدّثین (بخاری وغیرہم) کے نزدیک مرتد کو محارب قرار دیا گیا ہے اور چوری، ڈاکہ اور زنا کے مرتکبین کو بھی محارب کہا گیا ہے۔ مرتد کے قتل اور باقی جرائم کے لئے مختلف سزائیں ہیں۔ آیت میں واضح اشارہ قتل مرتد کا ان الفاظ میں ہے کہ جو لوگ توبہ کر لیں تو معافی کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت جیسے مرتد پر عائد ہوتی ہے۔ دوسرے جرائم متذکرہ آیت پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ توبہ بھی کریں تو سزا سے نہیں بچ سکتے۔

سورۂ مائدہ کی آیت ۵۴ میں ہے کہ جو لوگ دین سے پھر جائیں اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو (دین میں) لے آئے گا جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔

اس میں بھی یہ اشارہ ہے کہ مرتد کو ہلاک کرنے سے اسلام کا كچھ نہیں بگڑتا لہٰذا ان کے قتل میں تامل نہ کیا جائے۔

اس سورۃ کی آیت ۱۰ میں دنیوی اغراض کی خاطر اسلام سے پھر جانے والے کے باب میں ارشاد ہے کہ ایسا شخص دنیا و آخرت دونوں کھو بیٹھا۔

دنیا کھونا زندگی سے ہاتھ دھونا نہیں تو اور کیا ہے (ابن حیان نے بھی یہی خیال ظاہر فرمایا ہے)

غرض آیات قرآنی سے قتل مرتد کے اشارات اور اس حکم کی رہنمائی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح قاتلِ عمد کے قتل کی آیات متعلقہ سے ہوتی ہے۔ صراحت کے ساتھ نہ مرتد کے قتل کا حکم مذکور ہے نہ قاتل کے قتل کا۔ دوسری آیات میں قصاص اور نفس بالنفس وغیرہ کے جو الفاظ ہیں ان کی تاویل جو شخص چاہے حسب منشا کر سکتا ہے۔ وہ اتنا مشکل نہیں ہے جتنا مرتد کی سزائے موت سے انکار مشکل ہے کیونکہ مرتد کے لئے قتل کا لفظ صراحتاً موجود نہیں ہے اسی طرح قاتل کے لئے بھی لفظ قتل نہیں ہے۔ قصاص کا لفظ ہے۔ قصاص کے بہت سے معنی ہیں اور عام معنی بدلہ کے ہیں اور بدلہ قتل پر موقوف نہیں ہے۔

مؤلف کتاب کا موقف یہ ہے کہ قرآن میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے لہٰذا اگر احادیث اور فقہ میں ایسا حکم ہے تو وہ قرآن کے خلاف ہے۔ یہ دونوں قضایا درست نہیں ہیں۔ منطقی طور پر یہ استدلال سراسر غلط ہے۔ ان کا یہ ارشاد یہاں تک درست ہے کہ قرآن میں یہ حکم صراحت النص کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس حکم پر دلالت اور اشارات کرنے والی نصوص موجود ہیں۔ ایسی ہی نصوص کو ڈاکٹر حمید اللہ نے Indirect Verses سے تعبیر فرمایا ہے۔

اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ قرآن میں قتلِ مرتد کی سزا موجود نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے تب بھی احادیث کو کسی منطقی یا شرعی دلیل سے مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جرائم کی بے شمار اقسام ایسی ہیں جن کا مرتکب مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ (مسلسل)