جولائی 1973ء

درسِ عبرت

﴿وَلَقَد أَهلَكنا ما حَولَكُم مِنَ القُر‌ىٰ...٢٧﴾... سورة الاحقاف


اس بے کراں وسعت کے باوجود دنیا کے اندر سخت گھٹن سی محسوس ہوتی ہے، زمین نے اپنے سارے دفینے اگل ڈالے ہیں مگر بھوک اور افلاس کا رونا جاری ہے۔ فضاؤں نے ابنِ آدمؑ کی تگ و تاز کے لئے اپنی گودیاں پھیلا دی ہیں مگر پاؤں میں چلنے کی سکت نہیں رہی۔ گلستانِ حیات میں رحمتوں کی بادِ نسیم چل رہی ہے۔ لیکن افسوس! سانس لینا مشکل ہو رہا ہے، بہاروں کی دلآویزی اپنے جوبن پر ہے مگر نگاہوں کی ویرانی نہیں جاتی۔ سازِ فطرت کے نغمے فضاؤں میں گونج رہے ہیں مگر قوتِ سامعہ ذوقِ سماعت سے محروم ہے۔

الغرض! رحمتیں عام ہیں مگر پالا زحمتوں سے پڑا ہے، یہاں قحط ہے، وہاں سیلاب، ادھر بموں کی بارش ہے، ادھر امراض کا طوفان، کہیں نااہل حکمرانوں کی نحوست ہے اور کہیں بد دیانت رہنماؤں کی شامت۔ صَدَقَ اللهُ وَرَسُوْلَه

﴿ظَهَرَ‌ الفَسادُ فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ لِيُذيقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم يَر‌جِعونَ ﴿٤١﴾... سورة لروم

لوگوں کے کرتوتوں سے خشکی اور تری (غرض ہر جگہ میں) فساد برپا ہے تاکہ ان کو ان کے کچھ عملوں کا مزہ چکھائے۔ ہو سکتا ہے کہ باز آجائیں۔

فرمایا:

﴿سير‌وا فِى الأَر‌ضِ فَانظُر‌وا كَيفَ كانَ عـٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلُ...٤٢﴾... سورة لروم

''روئے زمین پر چل پھر کر مشاہدہ کر لو کہ ان لوگوں کا کیسا (برا) انجام ہوا جو (تم سے) پہلے ہو گزرے۔''

یہ ہوش ربا فساد فی الارض اور اس کے ہولناک نتائج بد، جتنے جہاں کہیں اور جب کبھی پیش آئے حق تعالیٰ نے دہرا دہرا کر ان کی داستانیں انسانوں تک پہنچائیں۔ پہنچاتا آرہا ہے اور اب بھی پہنچ رہی ہیں۔

﴿تِلكَ القُر‌ىٰ نَقُصُّ عَلَيكَ مِن أَنبائِها...١٠١﴾... سورة الاعراف

آفات، مصائب، بربادیوں اور تباہیوں کے جو جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ دنیا آج بھی اور کل بھی یہی کہتی رہی ہے کہ، یہ سب زمانے کے اتفاقات ہیں، ان کے پیچھے کوئی مقصد اور اصول کار فرما نہیں ہے:

﴿وَما أَر‌سَلنا فى قَر‌يَةٍ مِن نَبِىٍّ إِلّا أَخَذنا أَهلَها بِالبَأساءِ وَالضَّرّ‌اءِ لَعَلَّهُم يَضَّرَّ‌عونَ ﴿٩٤﴾ ثُمَّ بَدَّلنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الحَسَنَةَ حَتّىٰ عَفَوا وَقالوا قَد مَسَّ ءاباءَنَا الضَّرّ‌اءُ وَالسَّرّ‌اءُ...٩٥﴾... سورة الاعراف

اور جس بستی میں ہم نے نبی بھیجا (جب نہ مانے تو) وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختیوں اور مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ (رب کے حضور) گڑ گڑائیں، پھر ہم نے سختی کی جگہ آسانی کو بدلا، یہاں تک کہ خوب بڑھے (چڑھے) اور لگے کہنے کہ اس طرح کی سختیاں اور راحتیں تو (کوئی نئی بات نہیں) ہمارے آباؤ اجداد کو بھی پہنچ چکی ہیں۔

جب کوئی قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے، تو پھر ان مغضوب قوموں کی راہوں پر چلنے سے کچھ زیادہ پرہیز نہیں کرتی، اس لئے وہ بھی انہی مصائب اور تباہیوں کا شکار ہو جاتی ہے، جس کی ان سے پہلے قومیں شکار ہوئیں۔

﴿فَأَخَذنـٰهُم بَغتَةً وَهُم لا يَشعُر‌ونَ ﴿٩٥﴾... سورة الاعراف" تو (اس كج فہمی کی سزا ميں) ہم نے ان کو ان کی بے خبری کے عالم میں اچانک دھر لیا۔

فرمایا: ان کے دل سیاہ اور پتھر ہو گئے تھے اور اپنی سیاہ کاریوں کا احساس کرنے کے بجائے ان کو سراہتے ہوئے، ان سے اور چمٹ رہے۔

﴿وَلـٰكِن قَسَت قُلوبُهُم وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطـٰنُ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٤٣﴾... سورة الانعام

مگر ان کے دل سخت ہو گئے تھے اور جو (بد عمل) کرتے تھے شیطان نے (ان کو ان کی نظروں میں) حسین کر کے دکھایا تھا۔''

بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ان کو خوش حال بنا دیا کہ شاید کچھ شرم کریں مگر اس کے بجائے جب وہ اور اترائے تو یہی مناسب سمجھا کہ یہ لا علاج ہیں ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہ گئے۔

﴿فَلَمّا نَسوا ما ذُكِّر‌وا بِهِ فَتَحنا عَلَيهِم أَبو‌ٰبَ كُلِّ شَىءٍ حَتّىٰ إِذا فَرِ‌حوا بِما أوتوا أَخَذنـٰهُم بَغتَةً فَإِذا هُم مُبلِسونَ ٤٤فَقُطِعَ دابِرُ‌ القَومِ الَّذينَ ظَلَموا...٤٥﴾... سورة الانعام

جب وہ (اس کو) بھول بسر بیٹھے (تو) ہم نے (بھی ان کو طرح دی) ان پر (دنیاوی) نعمتوں کے دروازے چوپٹ کھول دیئے، جب اس انعام و اکرام پر وہ اترائے (تو) ہم نے ان کو اچانک دھر لیا جس پر وہ بے آس ہو کر رہ گئے۔ اور ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی۔

کچھ قوموں کو اپنے وسائل، سیاسی قوت، اقتصادی قدرت اور ملکی استحکام کا گھمنڈ ہوتا ہے اس لئے وہ ان اصولوں اور مکارمِ حیات کی ضرورت کے قائل نہیں رہتے جو احکم الحاکمین نے ان کے لئے تجویز فرمایا ہے۔ مگر افسوس! ان کے جو قدرتی نتائج برآمد ہو سکتےتھے، ان سے وہ نہ بچ سکے۔

﴿وَلَقَد مَكَّنّـٰهُم فيما إِن مَكَّنّـٰكُم فيهِ وَجَعَلنا لَهُم سَمعًا وَأَبصـٰرً‌ا وَأَفـِٔدَةً فَما أَغنىٰ عَنهُم سَمعُهُم وَلا أَبصـٰرُ‌هُم وَلا أَفـِٔدَتُهُم مِن شَىءٍ إِذ كانوا يَجحَدونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ وَحاقَ بِهِم ما كانوا بِهِ يَستَهزِءونَ ٢٦﴾... سورة الاحقاف

اور ہم نے ان کو ایسے ایسے کاموں کا مقدور دیا تھا کہ تم کو (ان کا شر عشیر بھی) مقدور نہیں دیا اور ہم نے ان کو کان اور آنکھیں اور دل (سب ہی کچھ) دیئے تھے مگر ان کے (یہ) کان اور ا کی (یہ) آنکھیں اور ان کے (یہ) دل ان کے کچھ کام نہ آئے۔ کیونکہ وہ اللہ کی آیات کے منکر تھے جس (عذاب) کی وہ ہنسی اڑاتے تھے (آخر کار) ان ہی پر الٹ پڑا۔

فرمایا، اس کے علاوہ اور جو بھی ان کے سہارے اور حواری تھے وہ بھی ان حالات میں ان کے کچھ کام نہ آئے۔

﴿فَلَولا نَصَرَ‌هُمُ الَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ قُر‌بانًا ءالِهَةً ۖ بَل ضَلّوا عَنهُم...٢٨﴾... سورة الاحقاف

تو خدا کے سوا جن کو انہوں نے تقرب کے لئے اپنا معبود بنا رکھا تھا، انہوں نے (آڑے وقت میں) ان کی مدد کیوں نہ کی بلکہ (وہ تو الٹے وقت آنے پر) غائب ہو گئے۔

یہ سب باتیں ڈھکی چھپی نہیں رکھی گئیں، بلکہ ان سب کی یہ داستانیں، آپ سب کو بھی سنا دی گئیں۔ شاید آپ کو ہوش آجائے۔

﴿وَلَقَد أَهلَكنا ما حَولَكُم مِنَ القُر‌ىٰ وَصَرَّ‌فنَا الءايـٰتِ لَعَلَّهُم يَر‌جِعونَ ٢٧﴾... سورة الاحقاف

اور ہم نے تمہارے آس پاس کی (کتنی) بستیاں ہلاک کر دیں اور بدل بدل کر ہم نے (یہ) نشانیاں دکھائیں شاید یہ لوگ باز آجائیں۔

دیت نامیوں پر کیا گزری، جرمنیوں کا کیا حشر ہوا، عربوں کو کن مصائب کا سامنا ہے اور کس شرمناک ہزیمت سے دو چار ہوئے، خود ہم نے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں کتنے ہولناک زخم کھائے ہیں؟ کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ جوان داستانوں کو ایک کہانی یا غیر کی بپتا سمجھ کر سنتے ہیں اورسن کر بے پرواہ ہو رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود بھی ایک کہانی بن جائیں گے۔ جو دوسروں سے عبرت نہیں پکڑتے، وہ خود سامانِ عبرت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور ہم سب کا روز کا مشاہدہ ہے۔

پاکستانی لوگ، خاص کر پیپلز پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد، جس ناگفتہ بہ کردار، نابکار طرزِ حیات، ننگِ دین اخلاق اور غیر اسلامی فکر و عمل کو اوڑھنا بچھونا بنا کر چل رہے ہیں، وہ اس امر کا غماز ہے کہ، وہ اپنے مکروہ سفرِ حیات کے بد نتائج سے بے پرواہ ہو کر چل رہے ہیں۔ بلکہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ، خوب کر رہے ہیں۔﴿يَحسَبونَ أَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعًا﴾ (کہف) اور متوقع ہیں کہ سب خیر رہے گی۔ ظاہر ہے یہ صورتِ حال خطرناک ہے۔

قومِ احقاف نے جب انبیاء کی ایک نہ سنی تو بادلوں کی شکل میں اللہ کے عذاب الیم نے ان کی طرف رخ کیا، اپنی سیاہ کاری کے انجام سے غافل لوگ دیکھ کر جھوم اُٹے اور بولے۔

﴿هـٰذا عارِ‌ضٌ مُمطِرُ‌نا...٢٤﴾... سورة الاحقاف

(آہا) یہ تو ایک ابر ہے (اور) ہم پر برستا ہوا (معلوم ہوتا ہے)

آواز آئی!

﴿بَل هُوَ مَا استَعجَلتُم بِهِ ۖ ر‌يحٌ فيها عَذابٌ أَليمٌ ٢٤ تُدَمِّرُ‌ كُلَّ شَىءٍ بِأَمرِ‌ رَ‌بِّها...٢٥﴾... سورة الاحقاف

(نہیں نہیں، اب نہیں ہے) بلکہ یہ وہی (عذابِ خدا) ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہیں(یہ بڑے زور کی) آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے۔ جو اپنے رب کے حکم سے ہر شے کو تہس نہس کر دے گی۔

دراصل یہ ساری تباہی اس امر کا نتیجہ ہوتی ہے کہ کام الٹے کرتے ہیں اور سیدھے انجام کی توقع رکھتے ہیں۔

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ وَرِ‌ثُوا الكِتـٰبَ يَأخُذونَ عَرَ‌ضَ هـٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ‌ لَنا...١٦٩﴾... سورة الاعراف

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے کہ وہ کتاب کے وارث (تو) بنے (لیکن اگر ان کو دین کے بدلے اس دنیائے دُوں کی کوئی چیز مل جائے تو لے لیتے ہیں اور ہانکتے ہیں کہ یہ گناہ تو ہمارا معاف ہو ہی جائے گا۔

مسلمانو! بہت ہو چکی، اب سنبھلو، ہوش میں آؤ۔ وقتی اور عارضی منفعت اور آسودگی کے لئے اپنی دائمی اور ابدی راحتوں کو غارت نہ کرو۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر جو رخنے پڑ گئے ہیں ، ان کی اصلاح حال کی طرف توجہ دو۔ اور رب کے حضور توبہ کرو، خدا کی طرف سے اتمام حجت ہو چکا ہے اب فیصلہ ہونے کو ہے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر کرے خدا کو منانے کے لئے اس کی طرف رجوع کرو۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ پہلی قوموں کو غفلت کے جو دن دیکھنے پڑے گے، وہ دن ہم پر نہ آجائیں۔

«رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَةٌ وَفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةٌ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.»

مرزا ناصر قادیانی کی لن ترانیاں

تبصرہ، بعد اور ورے، بھرم کی بات، دھمکیاں

۲۹؍ اپریل کو آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے سفارش کی کہ احمدیوں (مرزائیوں) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس پر جناب مرزا قادیانی ثم ربوی نے ایک تبصرہ کیا جو روزمانہ (۱۳؍مئی) میں شائع ہوا جس کو بعد میں، نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف انجمن احمدیہ پاکستان نے پمفلٹ کی صورت میں شائع کر کے ملک بھر میں مفت تقسیم کیا جو اس وقت ہمارے سامنے پڑا ہے۔

تبصرہ کیا ہے؟لن ترانیاں ہیں۔ الزامی جوابات ہیں اور طنز و تعریض کی بوچھاڑ ہے جس کا خلاصہ مع جواب حاضر ہے۔

(الف) قرار داد کی خبر پڑھتے ہی تمام مرزائیوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور مختلف خطوط تاروں اور پیادوں کے ذریعے ہر ایک نے رضا کارانہ طور پر ہر قسم کی قربانی دینے کی پیش کش کی۔ ص ۲

اس کی وضاحت حکومت ہی کر سکتی ہے کہ اس ’قربانی‘ سے ان کی کیا غرض ہے؟

(ب) اگر قانون بن بھی جائے تو قانون یہ کہتا ہے کہ ہر وہ احمدی جو خود کو غیر مسلم سمجھتا ہے، وہ اپنے نام رجسٹر کروائے، چونکہ ہم اپنے کو غیر مسلم نہیں سمجھتے، لہٰذا نام رجسٹر کروانے کی ضرورت نہیں۔ ص۳

دراصل بات یہ نہیں کہ جو احمدی خود کو غیر مسلم سمجھتا ہے وہ نام رجسٹر کروائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ، جو خود کو احمدی تصور کرتا ہے وہ اپنا نام رجسٹر کروائے تاکہ اقلیتوں میں ان کا نام آجائے۔ یہ ظاہر ہے کہ قرارداد میں اقلیت کی سفارش کرنے والوں کے نزدیک مرزائی غیر مسلم ہیں اور جو احمدی لکھوائے گا خود بخود وہ غیر مسلم اقلیت قرار پا جائے گا۔

(ج) قرار دادِ اقلیت کی سفارش کرنے والی اسمبلی کوئی بڑی اسمبلی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ سارے نہیں ہیں، چند ہیں۔ ص ۴

جس ریاست کی اسمبلی ہے وہ اپنی آبادی کے اعتبار سے ساری اور مکمل ہے۔ کیا اس کے دوسرے فیصلوں کو بھی یہ کہہ کر کہ اسمبلی معمولی سی ہے رد کیا جا سکتا ہے؟ ویسے یہ تو فرمائیں کہ پاکستان میں خود مرزائی کتنے ہیں؟

(د) کہتے ہیں کہ: صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامہ میں ختم نبوت کو ماننا شامل ہے۔ لہٰذا قومی اسمبلی کے فیصلے کی رو سے مرزائی اقلیت ہو گئے مگر یہ غلط ہے، کیونکہ اس کے جو الفاظ ہیں، ان سے یہ معنی لینا جائز نہیں، ورنہ شیعہ، اہلحدیث، بریلوی اور نزول مسیح کے قائل لوگ بھی غیر مسلم ہو جائیں گے۔ ص ۵

دراصل یہ مغالطہ دہی کی ایک بھونڈی کوشش ہے، ورنہ بات صرف اتنی ہے کہ ملکی آئین، معروف معنوں میں ’ختم نبوت‘ کو جمہور کے مطالبہ کے پیش نظر تحفظ دینا چاہتا ہے۔ اگر اس کے الفاظ کما حقہ اس مفہوم کو محیط نہیں ہیں تو منشا اور غرض کے صحیح ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر کوئی کمی رہ گئی تو لفظی اصلاح بعد میں بھی کی جا سکے گی۔

(ر) مرزائی بھی ختم نبوت کے قائل ہیں، مسیح موعود کے آنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ بعد میں آئے بلکہ ورے کے ہیں۔ ص ۵

معنی بعد میں نہیں، ورے کے ہیں۔ ایک نیا لغت تیار ہو رہا ہے یعنی پچھلی جانب سے آنے والے کے ہیں، بعد میں آنے والے کے نہیں ہیں۔ اس لئے ہم ختم نبوت کے منکر نہیں ہیں، سبحان اللہ، کس قدر علمی بات کہی ہے؟ تیرہ سو سال بعد جو صاحب آئے کیا اس کو، بعد میں آنے والا کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ کی تاویل کی کیا تک؟ اس کے علاوہ خاتم النبیین کی پچھلی جانب سے آنے والے کے کیا معنی ہیں، پیغمبری کی کتنی جانب ہیں؟ اور اس کا حاصل کیا ہے یہی نا کہ ان کے بعد آیا! اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمراہ ہے مگر پچھلی جانب میں ہے تو یہ چوروں والی بات ہوئی، اس کے علاوہ اس ’ورے‘ کے معنی میں ’اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سجاح نامی نبیہ بھی نبی تھے، تو ثابت ہوا کہ ’ورے‘ کے معنی میں ہو یا بعد کے نقب زنی ہے۔ ان کی وہی سزا جو چور کی۔ مگر چور وہ جو ردائے ختم نبوت کا چور۔

(س) اگر کسی نے فساد برپا کیا تو اس کو پتہ لگ جائے گا۔ ص ۵

۵۳ ؁ء والے ہنگاموں کی بات دل سے نکال دو، ہم موت سے نہیں ڈرتے، وقت آنے پر دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔

؎                        جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں

                                                        ہاتھ شیروں پہ نہ ڈال اے روبہ زار و نزار        (ص ۹-۱۱)

معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں نے متوازی تیاری ایسی کر لی ہے کہ اگر حکومت کچھ نہ کر سکی تو یہ خود کچھ کر کے دکھا ڈالیں گے۔ بہرحال یہ حکومت کا فرض ہے کہ اس کا جائزہ لے، ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟

(ق) احمدیو! تیار رہو شاید تم کو قربانیاں دینا پڑیں۔ ص ۱۴

خدا جانے کس بل بوتے پر ’چور‘ الٹا کوتوال کو ڈانٹ رہے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے، اسے بار بار سوچ!

مرزائیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، بات صاف صاف بتائیں، مدعی نبوت مرزا صاحب کو نہ ماننے والے کافر ہیں یا مسلم؟ اگر کافر ہیں تو پھر بھی آپ ’’مسلم اقلیت‘‘ اگر وہ کافر نہیں ہیں تو پھر یہ نبوت کی وہ کون سی قسم ہے جس کا اقرار اور انکار یکساں ہے؟ اگر وہ کافر نہیں ہیں تو پھر آپ خود بخود کافر ٹھہرے، اقلیت کوئی الزام نہیں۔ آ پ کا اصلی مقام ہے۔

کیا مرزائیوں میں تقیہ بھی جزوِ ایمان ہے۔ اگر نہیں تو پھر جرأت سے کام لیں اور تسلیم کریں کہ آپ اقلیت میں ہیں۔

جناب مرزا ناصر نے ضمناً اپنی وہ خدمات بھی گنوا دیں جو الیکشن کے دنوں میں پیپلز پارٹی اور صدر بھٹو کے لئے انجام دیں۔

ہم مانتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو بھی آپ کی خدمات کا احساس ہو گا۔ پیپلز پارٹی مسلمانوں کے مقابلے میں قادیانیوں کو جس طرح لفٹ دے رہی ہے اس کا حساب تو بالآخر مسلمان کسی وقت ضرور کریں گے لیکن مرزائیوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کی یہ خدمات کچھ نرالی نہیں ہیں۔ انہوں نے انگریز جیسے اسلام دشمن کی وہ خدمات انجام دیں کہ رہے نام اللہ کا۔ ان کے بعد ملک میں جو بھی بر سرِ اقتدار آیا ان کی چاپلوسی اور جاسوسی کر کر کے جس طرح اعتماد حاصل کرتے رہے، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اگر آپ کی خانہ ساز نبوت اور مسلمانی یہی ہے جس پر آپ کو ناز ہے تو آپ کو مبارک ہو اس سے وہ کافر ہی بہتر جو باضمیر ہو۔ اور جس کو آپ ’خدائی نشان‘ قرار دے رہے، وہ نشانِ رحمت نہیں، استدراج ہے، ایک دن آئے گا جب آپ اس کمبل کو اتار پھینکنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ کمبل آپ کو چھوڑے گا نہیں۔ ان شاء اللہ۔

آپ سمجھتے ہیں کہ وقت کے حکمران آپ کا ساتھ دیتے ہیں، اس لئے یہ بھی کچھ حقانیت کا نشان ہے، اگر یہ بات ہے تو یہ ’عظیم نشان‘ یہودیوں کے پاس آپ سے بڑا ہے۔ دس کروڑ عربوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے، بڑی طاقتیں ان کی پشت پر رہتی ہیں، الغرض یہ مٹھی بھر یہودی جو غالباً تعداد میں آپ کے لگ بھگ ہوں گے آپ سے کہیں زیادہ طاقت میں ہیں۔ مگر یہ ’’عظیم نشان‘‘ ان کی حقانیت کی دلیل نہ بن سکا۔ اور ان شاء اللہ نہ آپ کے یہ کام آئے گا۔

متحدہ جمہوری محاذ کا مستقبل

متحدہ جمہوری محاذ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن سمجھی گئی تھی، اور جس طرح یہ محاذ ابھرا تھا، ایوانِ کسریٰ کے کنگرے ہل گئے تھے، ہر طرف یہ شور برپا ہو گیا تھا کہ، آیا ہی آیا، بھٹو گیا ہی گیا۔ متحدہ محاذ کے صفِ اول کے رہنما گو اب بھی اس اعتماد کے اہل ہیں، لیکن نیپ اور جماعت اسلامی کے ماسوا جماعتی حیثیت سے باقی تمام شامل جماعتوں کو جو ٹیمیں دستیاب ہوئی ہیں، ان کا سیاسی شعور، سیاسی ضمیر اور سیاسی سلیقہ کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے، خاص کر وہ لیگ جو دوسری تمام لیگوں کی دادی اماں ہے، سیاسی شعور رکھنے کے باوجود اپنے کاروباری سیاسی ضمیر کی وجہ سے، سب کے لئے خاص آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے اور صدر بھو کی ملازمت اختیار کر لینے کے بعد مسٹر دولتانہ خاص طور پر اس مسلم لیگ کے لئے فتنہ کا موجب ہیں، جو متحدہ محاذ میں شرکت کرنے کے باوجود مسٹر دولتانہ کی رہنمائی سے حسن ظن رکھتے اور ان کے ہاں شرف باریابی پا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر متحدہ جمہوری محاذ، محاذ میں ان کی شرکت پر پہلے سنجیدہ غور کر لیتا اور ان کی شمولیت کو اتنی جلدی خوش آمدید نہ کہتا تو متحدہ جمہوری محاذ اتی جلدی اپنا بھرم نہ گنوا پاتا۔ محاذ میں شامل جماعتیں گو تھوڑی ہوتیں، بارعب ہوتیں، اور یہ لوگ منتوں سے اس کے سہارے کی بھیک مانگتے اور شاید پھر چند دن نباہ بھی سکتے۔ لیکن افسوس! جلدی میں جو آیا ’بسم اللہ‘ اور ’الحمد للہ‘!

باقی رہیں دوسری جمیعتیں؟ سو وہ دونوں بزرگوں کی جماعتوں ہیں، ان کے سیاسی تعاون سے ان کی دعائیں زیادہ قابل اعتماد ہیں۔

نیپ اور جماعت اسلامی اگر دونوں اپنے تک اتحاد کا دائرہ محدود رکھتیں تو ان کی پوزیشن حالیہ پوزیشن سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتی، افسوس تو یہ ہے کہ بارہا متحدہ محاذ کا مزہ چکھنے کے باوجود جماعت اسلامی نے ان سے کوئی سبق نہیں لیا۔ غلطی دوسروں کی ہوتی ہے ساکھ اس کی بھی گر جاتی ہے۔ جن جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کھوکھلے ہوتے ہیں ان سے اتحاد کی پینگیں بڑھانا سیاسی لحاظ سے کچھ دانشمندانہ اقدام نہیں ہوتا۔

پولیس ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا

ساہیوال ضلعی پولیس نے گذشتہ چھ ماہ میں ستاون لاکھ روپے کی مالیت کی مسروقہ اشیاء برآمد کیں۔ (نوائے وقت)

پولیس با اصول اور مخلص ہو تو قوم گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر سو سکتی ہے، زیر دست زبردست کے چرکوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ملک کو فساد اور ہنگاموں کی وباء سے سلامت رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ان کے سینوں میں ’’دلِ مسلم‘‘ بھی آباد ہو تو وہ ’’کتاب و سنت اور قرآن علم و عمل‘‘ کی بہتر پاسبان بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ساہیوال ضلعی پولیس کی اس کارکردگی پر بہرحال ہم ان کو مبارک دیتے ہیں۔

پولیس ایک عظیم ادارہ ہے جس کے بغیر ملکی نظم و نسق کو بحال رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن جب ان کو روگ لگ جائے تو یہ بجائے خود ’’عذاب‘‘ ثابت ہوتی ہے۔

پولیس کی سب سے بڑی کمزوری، پیسہ اور حکمرانوں کی خوشنودی کا حصول ہے۔ جو پولیس افسر پیسہ کے لالچ میں پڑ جاتے ہیں، وہ فساد ہنگاموں اور جرائم کی آبیاری کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر ان کے وارے نیارے نہیں ہوتے۔

حکمران ٹولے کی دل جوئی کے لئے اپنے کو استعمال کر کے جس طرح وہ ذلیل ہو جاتی ہے وہ شاید اس کی گراوٹ کی آخری حد ہو سکتی ہے۔ چند عارضی حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے پوری قوم کے جمہوری حقوق کو پامال کر گزرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب دوسرا گروہ برسرِ اقتدار آتا ہے وہ اس کی ضرور ہی خبر لیتا ہے۔ اب تو پولیس نے خاص کر جس طرح حالات پیدا کر ڈالے ہیں، اس کی وجہ سے اس کا مستقبل حد درجہ تاریک نظر آتا ہے، اور کچھ نہیں کہا جا سکتا  ان کے ہاتھوں جن مظلوموں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، کل وہ ان سے کیا معاملہ کریں گے۔ کاش پولیس! چند ایک راج دلاروں کی خاطر اپنے مقام و مرتبہ کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کر سکتی۔

ہم نے سنا تھا کہ اب کے بجٹ میں پولیس کے لئے خاصی رقم مختص کی گئی ہے لیکن معلوم ہوا کہ، وہ پولیس کی تنخواہوں کا معیار بلند کرنے کے بجائے اس کی نفری بڑھانے اور پولیس کی ایک سو گن پولیس کی تنخواہوں کے لئے ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ پولیس کی تنخواہیں، ان کی گزر اوقات کے لحاظ سے مناسب مقرر کرنا چاہیں۔ تاکہ وہ ایمان داری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں، بحالات موجودہ ان سے ’خیر‘ کی توقع رکھنا عبث ہے، وہ تو اب اپنے منصب اور عہدہ کا کاروبار ہی کریں گے کیونکہ اس کے سوا ان کے لئے اور کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے اور ہم پولیس سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنے عہدہ اور منصب کی لاج رکھیے، خدا ضرور آپ کی لاج رکھے گا۔ یقین کیجئے!

وقار بھی سلامت رہے گا اور روٹی بھی باوقار ملے گی۔ ان شاء اللہ۔

قومی اسمبلی کا یہ بہت بڑا ضیاع ہے

پیپلز پارٹی کے رکن رانا تاج احمد نون نے یہ شکایت کی کہ بعض اخبارات نے یہ لکھا ہے کہ خصوصی اجلاس میں حلف اٹھانے کے دوران میں نے ایوان میں پہلی بار بات کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایوان کا رکن ہوں اس کے باوجود اخباری نمائندے مجھے نہیں پہچانتے، اس کا سبب خود ہی بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ چونکہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اخباری نمائندے یہی سمجھتے ہوں کہ میں پہلی بار بولا ہوں، اسپیکر چوہدری فضل الٰہی نے برجستہ جواب دیا، ممکن ہے اخباری نمائندے ڈیڑھ سال میں پہلی بار ایوان میں آئے ہوں۔ اس پر ایوان میں زبردست قہقہہ پڑا۔ (جسارت ۴ جولائی)

ہم نے اپنے ادارتی کالموں میں بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے کچھ شرائط ہونا چاہئیں۔ تعلیمی صلاحیت، سیاسی خدمات، فکر و نظر کے اعتبار سے اس کا کوئی قابلِ ذکر مقام وغیرہ جیسی صلاحیتوں کے لئے ان کو اپنا کوئی سرٹیفکیٹ مہیا کرنا ضروری ہو۔ ورنہ قومی امنگوں، وقت، کارکردگی اور پیسے کا ضیاع ہی ضیاع ہو گا۔

رانا تاج احمد تو اتفاق سے زد میں آگئے ہیں ورنہ ان اسمبلیوں میں اکثریت ’رانا تاج احمد‘ جیسے معزز رکنوں کی ہے۔ ہاتھ کھڑا کرنا جانتے ہیں، بہتوں کو متعلقہ اور زیر بحث بل کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کیا بلا ہے۔

؎                        خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں

                        خبر نہیں کہ روش بندہ پروری کیا ہے

ہمارے عوام ابھی عوام ہی ہیں، کسی کو پرکھنے کے معیار ان کے نجی ہیں، قومی نہیں ہیں۔ عموماً ان کو ووٹ دیتے ہیں جو مالی لحاظ سے با اثر ہو یا کوئی معروف گدی اور پیرومرشد کا سوال ہو۔ باقی رہا یہ سوال کہ: ملک اور قوم کے مسائل کیا ہیں اور ان کے لئے کس قسم کے لوگ موزوں اور مناسب ہو سکتے ہیں؟ ان کو کچھ پتہ نہیں ہے اس لئے سر دست حکومت کو عبوری طور پر از خود کچھ انتخابی شرائط مقرر کر دینا چاہئیں تاکہ لوگوں کی بھی تربیت ہو سکے اور ہماری معزز اسمبلیوں کو معزز ممبر بھی شایان شان مل سکیں۔ گو پیپلز پارٹی کا فائدہ اسی میں ہے کہ ایسے ہی ’’گم سم‘‘ ممبر اُن کو ملیں جو ان کے سامنے دم بخود رہیں اور وہ کچھ نہ جانتے ہوں کہ کیا ہونا چاہئے، تاہم یہ ایک پارٹی کے مفاد کی بات ہے، لیکن قومی مفاد اور مستقبل کا تقاضا ہے کہ اس کی اسمبلیوں میں معزز ممبر دیدہ ور ہوں، مقلد ٹائپ گے، ’’صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ‘‘ والی بات نہ ہو ورنہ قوم کا نہ پہلے کچھ بنا ہے اور نہ آئندہ ہی بنے گا۔

یہ لو! مکان کا وعدہ بھی پورا ہو گیا

لائل پور میں اڑھائی ہزار افراد پر مشتمل ساڑھے چار سو غریب خاندانوں کی مقامی بستی غریب آباد کو امپروومنٹ ٹرسٹ اور میونسپل کمیٹی نے پولیس کی نگرانی و حفاظت میں بلڈوزر چلا کر مسمار کر دیا، اخبار لکھتا ہے کہ:

بوڑھے، بچے، جوان، عورتیں اور اور مرد اپنے کچے گھروں کو مسمار ہوتا دیکھ کر چیخ و پکار کرتے رہے مگر انہیں گھروں سے سامان تک نکالنے کی مہلت نہ دی گئی اور آج صبح تمام مکینوں کو گھروں سے باہر نکال کر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا گیا۔ سنگدل عملہ نے دس گھنٹے مسلسل بلڈوزر چلا کر ہزاروں افراد کی ہنستی بستی آبادی کو کھنڈر میں بدل دیا۔ ہزاروں بچے، عورتیں اور مرد سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے مقامی انتظامیہ کی انسانیت سوزی کے خلاف نوحہ کناں ہیں۔

متاثرین نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ بعض گھرں میں قرآن مجید کے نسخے تھے وہ بھی اُٹھانے کی مہلت نہیں دی گئی اور انہیں بھی ملبے میں دبا کر شہید کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء کے ضمنی انتخاب کے موقع پر یہاں پر شیخو پورہ روڈ پر ’’بھٹو نگر‘‘ کے نام سے ایک بستی قائم ہوئی تھی جسے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی خدمت نے چند ہفتوں میں مسمار کر دیا تھا اب مزدوروں اور غریبوں کی یہ دوسری بستی ہے جسے مقامی انتظامیہ نے قانون و اخلاق کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسمار کر دیا ہے۔ (نوائے وقت ۴؍ جولائی)

؎                                        تن ہمہ داغ و اغ شد پنبہ کجا کجا نہم

اخلاص ہو تو بساط سے بڑھ کر وعدہ نہیں کیا جا سکتا، جب قوم کا استحصال منظور ہوتا ہے تو سبز باغ دکھا کر قوم کی مت مار دیتے ہیں، بعد میں جب ’’وعدوں کا کمبل‘‘ لپٹ جاتا ہے تو چھڑائے نہیں بنتی۔ یہی مشکل آج برسرِ اقتدار گروہ کو درپیش ہے۔

بات بات میں ان کا ہر کارکن یہی کہتا ہے کہ غریبوں اور مزدوروں کا استحصال نہیں کرنے دیا جائے گا لیکن جب عوام نے ان کو غور سے دیکھا تو ’’تھوک کا استحصال‘‘ کرنے والی خود یہی پارٹی نکلی۔

روٹی کی بات چلی، تو عوام نے سوچا، لوے مانڈے ملیں گے۔ جب وقت آیا تو ’’نانِ جویں‘‘ بھی بصد مشکل ہاتھ آئی۔ کپڑے کا رونا روئے تو آواز آئی، فکر نہ کرو، بس ہم آگئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ اب بوسکی پہننے کو اور لطیف بستر حاصل ہوں گے، جب بازار کا رخ کیا تو تن ڈھکنے کو کھردرا کھدر بھی ہاتھ نہیں ملاتا۔

مکان کی کسر رہ گئی تھی جن کو کوٹھیوں کے خواب دکھائے گئے تے اب ان کے جھونپڑوں پر بلڈوزر چلا کر ان کی یہ آخری حسرت بھی پوری کی جا رہی ہے۔

دنیا میں بڑے فراڈ سنے ہیں لیکن اپنے عوام اور قوم سے جو فراڈ ان لوگوں نے روا رکھا ہے، شاید وباید۔

امن کے ان داعیوں نے غنڈوں جیسے درندے شاید پال رکھے تھے کہ جو جہاں سے کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے بھوکے بھیڑیے کی طرح ان مجبوروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

حکمرانوں سے کوئی جا کر کہے کہ:

کیا قوم نے اسی لئے آپ پر اعتماد کیا تھا۔ اتنے بڑے آدمی ہو کر کیا آپ لوگ بھی اپنے بے گناہ قوم سے جھوٹے وعدے کیا کرتے ہیں؟ اُف۔

باقی رہی قرآن حکیم کی بے حرمتی؟ سو ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ قرآن کی صحت، طباعت کے لئے تو ضرور مصر ہیں، لیکن یہ کہ قرآن ان سے صحیح بات بھی کہے؟ اسے اس کی وہ اجازت نہیں دے سکتے۔

دراصل قصور عوام کا ہے، فراڈ کرنے والے فراڈ کرتے ہی رہے ہیں اگر کوئی دھوکہ کھا جائے تو ان کی بے خبری ان کو نتائج بد سے کبھی بچا نہیں سکی۔

﴿ظَهَرَ‌ الفَسادُ فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ﴾