ذیل میں ہم رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث کی تشریح دے رہے ہیں، جس میں آنحضرت ﷺ نے امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور پھر عذاب کی مختلف شکلوں کی پیش گوئی فرمائی۔ گذشتہ چند سالوں میں رب العالمین سے بے اعتنائی اور عدمِ تعلق کی بنا پر ہمارے اندر جن بے شمار اخلاقی اور روحانی خرابیوں نے گھر کیا آج ہماری انفراوی اور اجتماعی مشکلات اور مصائب انہی کا نتیجہ ہیں۔ ملک و ملت کے بیسیوں دیگر الجھے ہوئے مسائل کے علاوہ گذشتہ چند روز کے ٹریفک اور مکانات گرنے کے حادثات پھر سیلابوں کی تباہ کاریاں دیدہ عبرت وا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار (مدیر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت پندرہ قسم کے کام کرنے لگ جائے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد یوں نقل کیا گیا ہے کہ طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ اس طرح لگاتار شروع ہو جائے گا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ پندرہ چیزیں کیا ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
1. جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے یعنی اس کی صحیح تقسیم کی بجائے خواہشات نفسانیہ کے مطابق تقسیم ہونے لگے۔
2. امانت کو غنیمت سمجھا جائے۔
یعنی اس کو اپنے مصارف کے اندر لایا جائے اور اس کی ادائیگی اور حفاظت کی ذمہ داری محسوس نہ کی جائے۔
ایک روایت میں آپ کا ارشاد اس طرح بھی آیا ہے کہ جب امانت کو ضائع کیا جائے یا امانت اُٹھ جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ امانت کے ضائع ہو جانے یا اُٹھ جانے سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
«اِذَا وُسِّدَ الْأمْرُ إِلٰیْ غَیْرِ أَھْلِه َانْتَظِرِ السَّاعَةَ» جب کام (اختیارات) نااہلوں کے سپرد ہو جائیں تو اس وقت قیامت کے آنے کا انتظار کرو۔
3. زکوٰۃ کی ادائیگی کو تاوان اور چٹی سمجھا جانے لگے۔
یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی خوش دلی کی بجائے بکراہت کی جائے (تنگ دلی سے ادا کی جائے)۔ ایک حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کو قحط میں مبتلا فرماتے ہیں۔ آج قحط کی وبا ہم لوگوں پر کچھ ایسی مسلط ہو گئی ہے ہ اس کی حد نہیں۔ ہزاروں تدبیریں اس کو ختم کرنے کے واسطے کی جا رہی ہیں مگر کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ بقول ؎
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ جب حق تعالیٰ شانہ کسی قوم پر ان کے گناہوں کی بدولت کوئی وبال یا مصیبت ڈالتے ہیں تو دنیا میں کس کی طاقت ہے کہ اس وبال کو ہٹا سکے۔ آپ لاکھ تدابیر کیجئے، ہزاروں قانون بنائیے جو چیز احکم الحاکمین مالک الملک کی طرف سے مسلط ہے وہ کسی انسان کے ہٹانے سے ہٹ نہیں سکتی جب تک کہ وہ ہٹانے کا فیصلہ نہ کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو معالج حقیقی ہیں انہوں نے مرض بھی بتلایا ہے اور اس کا علاج بھی بتلایا ہے۔ اگر مرض دور کرنا مقصود ہو تو صحیح طریقۂ علاج جو آپ ﷺ نے بتلایا ہے اس پر عمل کیجئے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم بھی اسی طرح ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہو گئی اور اس میں سے زکوٰۃ نہ نکالی گئی تو یہ زکوٰۃ جو سارے مال کے ساتھ مخلوط ہے۔ سارے مال کو ہلاک کر دے گی۔ یعنی اصلی مال بھی فنا اور ضائع ہو جائے گا اور تھوڑے نفع کی خاطر بہت سا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
4. آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے۔
5. اپنی ماں سے بدسلوکی اور نافرمانی کرنے لگے جائے۔
6. اپنے دوست سے حسنِ سلوک اور نیکی کرے۔
7. اپنے باپ سے بے وفائی اور نفرت برتے۔
یعنی دوستوں سے بے تکلفی اور والدین سے تکلف برتے جن باتوں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم کو چودہ سو سال پہلے متنبہ کر دیا آج وہ حرف بحرف ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور ہم ان کو تجربے بھی کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کی قدر نہیں کرتے۔ آج بھی اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کو مصائب سے نجات مل جائے تو پھر معلمِ حقیقی اور حکیمِ حاذق ﷺ کے بتلائے ہوئے اصولوں پر عمل کیجیے تو پھر دیکھیے کہ کیسا راحت و آرام انسانیت کو ملتا ہے۔
8. مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں یعنی کھلم کھلا شور و غوغا ہونے لگے۔
ایک روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ عنقریب میری امت پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنے لگیں گے۔ سو تم ان کے پاس مت بیٹھنا اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں (نمازیوں) کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے کہ مسجدوں کو بڑا مزیّن کیا جائے گا اور وہ ہدایت سے خالی ہوں گے۔
9. سب سے کمینہ، رذیل اور فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ کہلائے۔
یعنی قوم کا سردار وہ مقرر ہو گا جو سب سے زیادہ فاسق کینہ ور اور بدکار ہو۔ نہ کہ متقی اور پرہیز گار شخص۔
10. آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لئے کی جانے لگے۔
11. شراب نوشی عام ہو جائے گی۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ دین کی باتوں میں سب سے پہلے برتن کی طرح جس چیز کو الٹ دیا جائے گا وہ شراب ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیسے ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نام رکھ کر اس کو حلال کریں گے۔
اُمّت کی ہلاکت کا سبب
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ارشاد فرمایا کہ جب یہ امت شراب کو مشروب کے نام سے، سود کو منافع کے نام سے، رشوت کو تحفہ کے نام سے، حلال کرے گی اور مالِ زکوٰۃ سے تجارت کرنے لگے گی۔ یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہو گا۔ گناہوں میں زیادتی اور ترقی کے سبب۔
ایک اور روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت محمد ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
«اَلْخَمْرُ جِمَاعُ الْإِثْمِ وَالنِّسَآءُ حَبَآئِلُ الشَّيْطٰنِ وَحُبُّ الدُّنْيَا رَأسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ» (مشكوٰة شريف)
شراب خوری تمام گناہوں کا مجموعہ ہے۔ عورتیں مردوں کو پھنسانے کے لئے شیطان کا بہترین جال ہیں اور دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس حدیث کا ایک ایک جملہ قابل غور ہے۔ شراب کی حرمت صحیح احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے۔ جیسے اس حدیث شریف سے واضح ہو گا۔
«لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فِيْ الْخَمْرِ عَشَرَةٍ َعاصِرَھَا وَمَعْتَصِرَھَا وَشَارِبَھَا وَسَاقِيَھَا وَحَامِلَھَا وَالْمَحْمُوْلَةَ إِلَيْهِ وَبَائِعَھَا وَمُبْتَاعَھَا رَوَاھِبَھَا وَاٰكِلَ ثَمَنِھَا» (ترمذی شريف)
ترجمہ: شراب اور نشے سے تعلق رکھنے والے دس قسم کے آدمیوں پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لعنت فرمائی ہے۔ شراب کے تیار کرنے والے، تیار کرانے والے، پینے والے، پلانے والے، اُٹھا کر لے جانے والے، منگوانے والے، بیچنے والے، خریدنے والے، مفت دینے والے اور قیمتاً لینے والے پر۔
ایک روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو۔
شراب نوشی کے نقصانات
شراب نمازوں کی بربادی اور ضائع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چونکہ نماز دین کا بنیادی ستون ہے۔ جو چیز دین کے ستون کو گرا دے اس کے جِمَاعُ الْإِثْمِ اور حرام ہونے میں کیا شک باقی رہتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے جو ایک مرتبہ شراب پیتا ہے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے شراب کو پیا، نورِ ایمان اس کے سینے سے نکل جاتا ہے۔
12. مرد ریشم پہننے لگ جائیں۔
13. گانے والی عورتیں رکھی جانے لگیں۔
14. مزامیر یعنی گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے۔
ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی قوم میں فحاشی اور بدکاری کھلم کھلا اور علی الاعلان ہونے لگے تو ان میں ایسی نئی نئی بیماریاں پیدا ہوں گی جو پہلے کبھی سننے میں نہ آئی ہوں گی۔ آج غور کر لیں کہ کون سی بے حیائی ایسی ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھ لیں کہ کون سی بیماری اور آفت ایسی ہے جو ہم پر مسلط نہیں۔ گانے بجانے کی محفلوں میں شرکت کرنے والے بندر اور خنزیر بنا دیئے جائیں گے۔
صحیح بخاری میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ یقیناً میری امت کے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلاتِ موسیقی کو (خوشنما تعبیروں سے) حلال کر لیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو قیامت تک کے لئے بندر اور خنزیر بنا دے گا۔ (اللہ ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھے) ایک دوسری حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ آخری زمانہ میں میری امت کے کچھ لوگ بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہو جائیں گے۔ (اللہ ہمیں محفوظ رکھے) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا وہ توحید اور رسالت کا اقرار کرتے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ بلکہ (برائے نام) نمازیں بھی پڑھتے ہوں گے، روزے بھی رکھتے ہوں گے اور حج بھی کرتے ہوں گے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حیرانگی کے عالم میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ان کا یہ حال کس وجہ سے ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ آلاتِ موسیقی، رقاصہ عورتوں اور طبلہ اور سارنگی وغیرہ کے دلدادہ اور رسیا ہوں گے اور شرابیں پیا کریں گے۔ سو وہ ساری رات اسی لہو و لعب ہی میں مصروف رہیں گے لیکن جب صبح ہو گی بندر اور خنزیروں کی شکل میں مسخ ہو چکے ہوں گے۔ (فتح الباری)
آج معاشرہ پر نگاہ ڈالیے تو آپ کو بڑے بڑے حاجی اور نمازی ان عیوب میں مبتلا نظر آئیں گے جو گانے بجانے کو گناہ سمجھنے کی بجائے آرٹ اور کلچر کا نام دیتے ہیں اور ساری رات کلبوں میں گزار دیتے ہیں۔
15. امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لطن طعن سے یاد کرنے لگے یعنی ان کو برا بھلا کہا جانے لگے۔
(آج ہر شخص اپنے آپ کو عقل مند، فقیہ اور مجتہد سمجھتا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ائمہ مجتہدین اور بزرگانِ دین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے) تو اس وقت سرخ اندھیری، زمین میں دھنسنے اور شکلوں کے مسخ (بگڑنے) کا انتظار کرو۔
ایک روایت میں کچھ زائد الفاظ آئے ہیں کہ سرخ آندھی، زلزلہ، زمین میں دھنسنے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کے آنے کا اس طرح انتظار کرو جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ جس قسم کی پریشانیاں حوادث اور مصائب آج ہم پر نازل ہو رہے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کو چودہ سو سال پہلے آگاہ کر دیا ہے اور صاف صاف بتلا دیا ہے کہ خدا کی نافرمانی سے دنیا میں مصائب آتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری سے کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ پھر آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خاص خاص گناہوں پر خاص خاص قسم کے حوادث اور مصائب آتے ہیں اور مخصوص طاعات پر مخصوص انعامات نازل ہوتے ہیں۔ جیسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ وضو اچھی طرح کیا کرو۔ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور تیرے محافظ فرشتے تجھ سے محبت کرنے لگیں گے۔ (طبرانی صغیر)
نماز کا کچھ حصہ گھر میں مقرر کر لو اس سے گھر کی خیر میں اضافہ ہو گا اور جب گھر میں جایا کرو تو گھر کے لوگوں کو سلام کیا کرو۔ اس کی برکت تم پر بھی ہو گی اور گھر کے لوگوں پر بھی۔
آخر میں مَیں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ نے مندرجہ بالا حدیث میں پڑھ لیا ہے کہ کن کن گناہوں پر خدا کی طرف سے مصیبتیں آتی ہیں اور کن کن کاموں پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا آپ ان تمام کاموں کو چھوڑنے کی اور ایسی مجلسوں سے بچنے کی کوشش کیجئے جو مصائب کے نازل ہونے کا باعث بنیں اور پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرنے، صبح کو قرآن حکیم کی تلاوت اور ہر چھوٹے بڑے کو سلام کرنے کی عادت بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ کہنے سننے پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔