خلیفہ بلا ضل اور وصیِّ رسُول اللہ

نسل اور شخصیت پرستی کا غیر شعوری چرکا

سانپ نکل گیا، لکیر پیٹا کر

شیعہ حضرات کے رسالہ ماہنامہ ''معارف اسلام'' لاہور کا تازہ شمارہ ''علی و فاطمہ نمبر'' ہمارے سامنے ہے۔ اس فرقہ کی دوسری نگارشات اور مؤلفات کی طرح اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے بھی ایک قاری کو جو عام تأثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ:

ان حضرات کی دعوت

1. کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی بجائے حضرت علیؓ اور آپ کی آل کی طرف ہے۔

اور ان کے دین و شریعت کا ماخذ اور مرجع

2. سنتِ رسول اور اللہ کی کتاب نہیں ہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی اور آلِ اطہار ہے اس پرچہ میں ص 3-4 پر اس امر کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ:

''سنتِ رسول کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علی اور فاطمہ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھئے۔'' (معارف اسلام نومبر و دسمبر کا مشترکہ علی و فاطمہ نمبر)

اور ہر دور میں ان کا سیاسی رہنما۔

3. حضرت علیؓ اور آلِ اطہار ہے اور کوئی نہیں۔ اس لئے ان کے علاوہ اور جتنے ہیں، یہ لوگ ان کو صحیح جذبۂ وفاداری کے بجائے صرف ''تقیہ'' کے ذریعے بہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً جب کبھی کسی مسلمان حکومت پر کوئی مصیبت آتی ہے ان کو اس کا کوئی خاص صدمہ نہیں ہوا۔

اگر آپ بغداد میں چنگیزیوں کی یورش اور فتنوں کی تاریخ کے مطالعے کی کوشش کریں گے تو معاملہ آپ کو اس سے بھی زیادہ حوصلہ شکن نظر آئے گا۔

اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی محسوس ہو گا کہ ان کے اختلاف کا محرک اور باعث۔

4. کوئی ایسا امر بھی نہیں ہے کہ اس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی کسی طرح کوئی تلافی ہو جائے۔ بس یہ ایک فرضی نعرہ، بے وقت آواز اور بے محل رسہ کشی ہے جو صرف اس مثل کے مصداق ہے کہ:

''سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کر۔''

اب یہ لوگ اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بھی ضائع کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ملی قوت کا بے جا اسراف اور قومی اتحاد کا بے تحاشا ضیاع بھی ہو رہا ہے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

دینِ حنیف میں ان عناصرِ اربعہ کی پوزیشن:

اب اگر کوئی صاحبِ دماغ کسی تفصیلی تبصرہ کے بغیر بھی ان چاروں امور کے صرف عنوانوں پر ہی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے تو بتائیے! اس کی نگاہ میں ایسے مسلک کی آبرو کیا رہے گی جس کی عمارت مندرجہ بالا اربعہ عناصر کی بنیاد پر ہے یا اس دینِ حنیف سے اسے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟

(الف) جس کی دعوت شخصیتوں کی طرف نہیں، اصولِ حقہ کی طرف ہے۔

(ب) یا جس میں دین و شریعت کا ماخذ کوئی فرد ذاتی حیثیت میں یا کوئی خاندان نسلی حیثیت میں نہیں ہے بلکہ صرف وحی الٰہی ہے۔ یہاں تک کہ اس دین کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک بھی اس حیثیت سے مطاع اور پیشوا نہیں ہے کہ آپ قریش خاندان کے ایک فرزند ارجمند اور محمد بن عبد اللہ ہیں بلکہ صرف اس لئے ہمارے مطاع اور مقتدا ہیں کہ آپ ﷺ ''محمد رسول اللہﷺ'' ہیں۔ یعنی سرکاری منصب اور عہدہ کی بناء پر آپ ہماری توجہات کا مرکز ہیں ورنہ یہ ذاتِ گرامی نزولِ وحی سے پہلے چالیس سال کی عمر تک پہلے بھی تو ہم میں موجود ہی تھی۔

(ج) اسی طرح اس دین حنیف سے انہیں کیا نسبت ہو سکتی ہے جس میں نبوت کے لئے انتخاب کی ذمہ داری صرف خدا کا حق تصور کیا گیا ہے۔ لیکن سیاسی پیشوائی اور نیابت یا خؒافت کا ماملہ امت پر چھوڑ دیا گیا، کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست بندوں سے متعلق ہے۔ اس کی نشاندہی کے لئے وحی نے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں لی۔ اس لئے پوری آزادی اور دیانداری کے ساتھ جس کو لوگ ملک و ملت اور دینِ اسلام کے مستقبل، مفاد اور استحکام و ترقی کے لئے مفید سمجھ کر انتخاب کر لیں گے، وہی برحق ہو گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہو گا جب پہلے سے یہ نیابت یا خلافت کسی فرد یا خاندان کے نام الاٹ نہ کی جا چکی ہو اور نہ یہ کسی فرد اور گروہ کی میراث اور جاگیر سمجھی گئی ہو۔ ورنہ انتخاب کے معنی ہی فضول ہیں۔ اور یہ اصول واقعی صحیح بھی ہے اور برحق بھی کیونکہ جس نے انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ قسامِ ازل نے 'اہلیت اور صالحیت' کسی فرد اور خاندان کی میراث نہیں بنائی۔ آج یہ سرفراز ہوتی ہے تو کل دوسری کوئی قوم سربلند ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لیل و نہار نے یہ نظارے بھی دیکھے ہیں کہ حرمِ فراعنہ کو تو حق سے ہم کنار کر دیا گیا ہے اور خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ یا سرپرست کو طاغوت کے آساں پر جبہ سائی کے ذریعہ ذلیل اور رسوا کر ڈالا ہے۔ خدا کی قسم اس تقسیم کے پیمانے اس کے اپنے پاس ہیں، ہم اور آپ کیا جانیں کہ کون کس چیز کے قابل ہے۔

اب ان حالات میں کوئی ائمہ معصومین کی گرہ لگا کر خلافت کی گراں باریوں سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتا ہے اور یہ ہمارا روز و شب کا مشاہدہ ہے کہ نیک سے بد اور بد سے نیک پیدا ہو رہے ہیں، اہل سے نا اہل اور نا اہلوں سے اہل جنم لے رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ از خود کسی فردِ واحد یا خاندان کے نام سے اس کی الاٹ منٹ کا فیصلہ کوئی فطری اور دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

(د) اسی طرح اس دینِ حنیف میں ان لوگوں کی کیا کھپت ہو سکتی ہے جس میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نادانی نہیں تصور کی گئی کہ:

انسان حقائق اور درپیش مسائل کو چھوڑ کر کسی ایسے فرضی نعرہ اور لا حاصل منصوبہ کے نام پر امت کے اندر انتشار و افتراق کا ایک غیر مختتم سلسلہ جاری کر ڈالے جس کو اگر اب تسلیم بھی کر لیا جائے تو نتیجہ کوئی بھی برآمد نہ ہو۔ خلافت جس ترتیب سے انجام پا گئی ہے وہ ترتیب تو اب ٹوٹ نہیں سکتی جو پہلے منتخب ہوئے وہ بعد میں نہیں چلے جائیں گے اور جو بعد میں آئے ہیں، وہ پہلے نہیں آجائیں گے تو آخر ایک ایسے لا حاصل مشغلہ میں امت کی توجہ، محنت و وقت اور قوتیں کیوں ضائع کی جائیں۔

اگر یہ حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کے وصی کا مسئلہ ضرور طے ہو جائے تاکہ پھر امت سے غلطی نہ ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ لوگ ''ختم نبوت'' کے قائل نہیں ہیں اور غالباً اس کا ان کو انکار ہے۔ اس لئے وصی کوئی تھا یا نہیں تھا۔ اب بہرحال آپ کے فرض کر لینے سے تو وہاں کوئی تبدیلی ہونے سے رہی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اپنی فکری اور عملی قوتوں کے استعمال کے لئے کوئی دوسرا میدان تجویز کریں جس کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی بر آمد ہو۔

ائمۂ معصومین کا چکر:

جن لوگوں نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بر سر اقتدار فرد کے لئے 'ظل اللہ' یا 'امام معصوم' کے نعرے ایجاد کیے ہیں۔ انہوں نے امت کی آنکھوں سے نور اور دماغ سے شعور چھیننے کی کوشش کی ہے۔ جمہوری اقدار کو غارت کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کو تباہ کیا ہے۔ رائے اور تدبیر کی آزادی پر قدغن عائد کی اور ان سے اختلاف رائے کو مقام کافری سے ہم کنار کیا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی دانشمندانہ یا نیکی کا کام ہے۔

دینِ اسلام میں بندوں میں ''مقامِ عصمت'' صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ میکانکی طرز کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان سے لغزش کا صدور ممکن نہیں ہتا بلکہ محض اس لئے کہ وحیِ الٰہی ہر وقت ان کی رفیقِ حال رہتی ہے۔ ذرہ بھر ڈگمگاتے نہیں کہ وحیِ الٰہی آگے بڑھ کر اُن کو تھام لیتی ہے۔ ورنہ جو انسان وحیِ الٰہی سے ہم کنار نہیں ہے۔ وہ گو بذات خود پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لغزش سہو و نسیان اور خطا سے قطعی طور پر محفوظ نہیں رہتا۔ جب اس سٹیج پر پیغمبر کا یہ حال ہے تو غیر نبی کی جو پوزیشن ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ دراصل دنیا بعض انسانوں کے ذاتی فضل و تقدس یا وحی سے سرفراز ہونے کی بنا پر ان کو خصائص انسانی اور سرشتِ آدمیت سے بالکل بالا تر لے جاتی ہے۔ ان کے لئے وہ یہ تو تسلیم کر لیتی ہے کہ اسے سونا بھی چاہئے اور کھانا پینا بھی۔ سردی و گرمی کا احساس بھی ان کو ہو سکتا ہے اور غمی و خوشی سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کی سمجھ سے یہ چیز بالا تر ہے کہ ان سے بھول اور غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ چیز انہیں سمجھ میں آجائے تو وہ ''ائمۂ معصومین'' کی فرضی تخلیق کے سودا سے آزاد ہو جائیں۔ اور انسانوں کو انسان کے ہی درجے میں رہنے دیں اور ان میں ''وحی کی توانائیوں اور خدائی خصائص کی جھلکیوں'' کا جو سراب نظر آتا ہے وہ ان مدعیوں پر بے نقاب ہو جائے۔

شخصیت پرستی کا وہی پرانا روگ:

اوثان اور اصنام کی تاریخ کا ایک طالب علم اچھی طرح جانتا ہے کہ شخصیت پرستی کے جذبہ نے ہی انسان کو بتوں کے گھڑنے کا حوصلہ بخشا تھا۔ اور یہ ایک عجمی ذہنیت اور بت پرستانہ سرشت ہے کہ جس خاندان میں کوی ایک آدھ فرد ''فضل و تقدس'' کا مظہر بن جاتا ہے۔ بعد میں آنے والی اس کی ساری نسل کے لئے فضل و تقدس کا یہ استحقاق پیدائشی حق تصور کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ وحی نے صلحاء اور انبیاء کی تاریخ کے ہر موڑ پر اس قسم کے سنگ و میل اور نشان لگائے ہیں کہ اگر انسان ان کا بنظرِ غور مطالعہ کرے تو وہ شخصیت پرستی کے چرکوں اور فتنوں سے بچ جائے۔ حضرت آدمؑ کی آغوش میں ''قابیل''، حضرت نوحؑ کے گھر میں ''پسر نوح''، حضرت ''لوطؑ'' کے گھر میں ''کافر بیوی'' حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سامری، حضرت خلیل اللہ ؑ کے خانوادہ میں آزر، محمد رسول اللہ ﷺ وعلٰی جمیع الانبیاء کے کنبہ میں ابو جہل، ابو طالب اور ابو لہب کے ''مینارِ نامرادی'' نصب کیے تاکہ دنیا مقربینِ الٰہ کی بے چارگی اور خدا کی بے نیازی کا اندازہ کر لے مگر ان سے درسِ عبرت وہی روحیں لے سکتی ہیں جو نتائج کے اخذ کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں اور جنہوں نے سبھی کچھ اسی دنیا کو نہیں سمجھ لیا ہے۔

خاندانِ نبوت کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کا یہ غلو، آل اطہار کے بارے میں ان کا یہ افراط، حضرت علیؓ اور ائمۂ معصومین کے متعلق ان کی یہ مسرفانہ عقیدت دراصل اسی عہدِ کہن کی صدائے بازگشت ہے مگر ان کو اس کا ہوش نہیں ہے۔ بہرحال حق پر بعض افراد اور خاندانوں کی اجارہ داری اور کسی کو پسند ہو تو ہو اسلام کو پسند نہیں ہے اور نہ کوئی باہوش آدمی اس کو قبول کر سکتا ہے۔

خلفاءِ راشدین کی خلافت کو برحق اور خود خلفاء کو باخدا ماننے کے باوجود ہم نہ ان کو معصوم تصور کرتے ہیں اور نہ کسی کے تمام افکار اور اعمال کو غلطیوں سے منزہ اور پاک مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ سبھی اللہ والے تھے، دیانتدار اور دانش مند بزرگ تھے لیکن بہرحال انسان تھے۔ گو ان میں صدیق بھی تھے اور ملہم اور محدث بھی تاہم وہ بدرجہا پیغمبرانہ عصمتوں سے درے تھے۔ اگر امت اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتی تو ہم اسے ہی حق سمجھتے اور ان سابقون الاوّلون سے الجھنے کو اپنے لیے بد بختی اور کورذوقی تصور کرتے اور اگر اس نے حضرت علیؓ کے بجائے دسری بزرگ ہستیوں کو اس کے لئے انتخاب کر لیا تو ہم اسے ہی حق تصور کرتے ہیں۔ اور یہی اصول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضرت امیر معاویہؓ کے سامنے رکھا تھا اور اسے ہی برحق قرار دیا تھا۔ تفصیل آگے آئے گی۔ (نہج البلاغہ۔ جلد ۴ ص ۸)

کیونکہ اس سے کسی فرد کی ''جاہ طلبی اور اقتدار پرستی'' کی پیاس بجھانا مقصود نہیں ہے، خدمتِ دین منظور ہے۔ سو وقت کے اہل الرائے جس کو دیانتداری کے ساتھ اپنا رہنما اور دین کا خادم پسند کر لیتے ہیں اسے ہی ہم صحیح اور برحق سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور جتنے طریقے ہیں وہ افراط اور تفریط سے محفوظ نہیں ہیں۔

حضرت علیؓ کے لئے وصیت، حضور ﷺ کے لئے سامانِ تہمت ہے:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آلِ رسول کے لئے زکوٰۃ کو حرام قرار دیا تھا تاکہ آپ پر یہ الزام نہ آئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے لئے نبوت کا کاروبار کیا ہے۔ اسی طرح اگر پیغمبرِ خدا ﷺ حضرت علیؓ یا کسی اور خانوادہ نبوت کے لئے خلافت کی وصیت فرماتے تو دنیا کو بد گمانی کا یہ بجا موقعہ مل جاتا کہ حضور نے نبوت کا یہ سارا ڈھونگ (العیاذ باللہ) اپنے خاندان کے اقتدار کے لئے رچایا تھا۔ حالانکہ آپ ﷺ کی ذات گرامی ان تمام الزامات اور دھبّوں سے منزہ اور پاک ہے ۔

حکمتِ الٰہی کام کر گئی:

واقعۂ قرطاس ایک مشہور واقعہ ہے۔ کاغذ، قلم، دوات کے مطالبہ پر جو شور و غل ہوا۔ اس پر ہزاروں نے افسوس کیا۔ کسی نے اس کی ''عدمِ تعمیل'' کے جوابات تیار کئے۔ شیعوں کے خوش فہم طبقہ نے اپنی جگہ پر اس کے یہ معنی قرار دیئے کہ ''حضور حضرت علیؓ کے لئے وصیت لکھنا چاہتے تھے'' اور سنیوں نے یہ اعلان کیا کہ ''دراصل آپ ﷺ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے لئے تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ہمارے نزدیک ان میں سے ایک پہلو بھی قطعی نہیں ہے۔ سب باتیں رجماً بالغیب کی حیثیت رکھتی ہیں یا استنباطات ہیں۔ اصلی اور سچی بات یہ ہے کہ:

اس سلسلہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو بھی فیصلہ کرنا چاہتے تھے وہ حکمتِ الٰہی کو منظور نہ تھا اور بالکل اسی طرح اس موقعہ پر تنازع، جھگڑا اور شور برپا ہوا جس طرح ''شبِ قدر'' کی دریافت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیش آیا تھا۔ حضور ﷺ سبِ قدر کی تعیین فرما دینا چاہتے تھے مگر یہ بات حکمتِ الٰہی کو منظور نہیں تھی۔ اس لئے غائب سے تنازع اور جھگڑے کا سامان کیا گیا اور وہ کامیاب رہا۔ اسی طرح یہاں پر بھی من جانب اللہ تنازع اور جھگڑا کھڑا ہوا تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کام کو ''امت کی صواب دید اور شورائیہ'' پر چھوڑ دیں اور آخر یہی ہوا۔ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ یا حضرت علیؓ (ادب المفرد کی روایت کے لحاظ سے) کی یہ عدمِ تعمیل کچھ شعوری نہیں معلوم ہوتی بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے ہ کسی ائبی قوت کے ذریعے غیر شعوری طور پر ان سے ایسا سرزد ہو گیا۔ ورنہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک حکم فرمائیں اور کوئی صحابہؓ لیت و لعل یا تعمیل سے گریز کرے۔ یہ صحابہؓ کی روایات، نفسیات اور عشق کے قطعاً خلاف ہے۔

اب جو چیز حکمتِ الٰہی کو منظور نہیں تھی، اس کے خلاف کسی گروہ کا اصرار، حکمتِ الٰہی کی تغلیط کے مترادف ہو گا۔ بہرحال ہمارے نزدیک امت کے کسی فرد کی خلافت کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نص کی تلاش سعی لا حاصل ہے اور حکمتِ الٰہی کے اشارات اور تلمیحات کو نہ سمجھ سکنے کا نتیجہ ہے۔ اب اس کے بعد جس کا جتنا جی چاہے اپنا وقت ضائع کرے۔

جو کچھ ہم نے اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے اس کی تائید شیعہ حضرات کی کتب سے بھی ہوتی ہے چنانچہ فلک النجاۃ کے مصنف قرطاس والے واقعہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

وأما سكوته عليه السلام بعد التنازع ما كان من عنده بل كان بوحي كما بين في مقامه فصار أمر الكتابة منسوخا بالوحي

اور پھر آنحضرت ﷺ کا سکوت فرمانا تنازع کے بعد بھی اپنی جانب سے نہ تھا بلکہ یہ بھی وحی سے تھا پس امرِ کتابت بوجہ رفع فساد، تاکہ جنگ اور ارتداد تک نوبت نہ پہنچے، بوحی الٰہی منسوخ ہوا۔

نوٹ: یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اس کتاب پر شیعہ حضرات کے مندرجہ ذیل اکابر اور ائمہ نے بھی تقریظیں اور تائیدی نوٹ لکھے ہیں۔ گویا کہ یہ کتاب تمام شیعہ حضرات کی مصدقہ اور مستند ہے:

1. حضرت سید ابو الحسن الموسوی الأصفهانی النجفی المجتهد

2. حضرت مولانا محمد علی قمی مجتہد کربلائے معلیٰ

3. رئیس الفقهاء الکملاء مولانا سید کلب مہدی مجتہد

4. حضرت سید علامہ محمد سبطین

5. حضرت حکیم سید محمد ممتاز حسین شاہ صاحب رضوی

6. صدر المفسرین علامہ سید علی الحائری

7. حضرت مولانا سید راحت حسین صاحب مجتہد گوپالپوری

8. حضرت مولانا سید محمد صاحبدہلوی

اس کے علاوہ حافظ ابن حجر کا قول (جو میری گزارشات کے مطابق ہے) نقل کر کے ''فلک النجاۃ'' کے مصنف نے ص 327 / 1 پر اس کی تائید بھی کی ہے۔ فھو المقصود وللہ الحمد۔

انا للہ وانا الیہ راجعون:

خلیفہ اور وصی کے سلسلہ میں جتنی روایات، نصوص اور حکایات بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک بھی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جا سکے اور شیعہ حضرات نے جن حکایات اور روایات کو 'معارف اسلام علی و فاطمہ نمبر' میں بنیاد بنا کر ذکر کیا ہے ان کو پڑھ کر ان لوگوں کی علمی کم مائیگی پر انتہائی رحم آتا ہے۔ اگر وہ لوگ کربلا کے سانحہ کے بجائے اپنی اس بے بضاعتی پر ماتم کیا کریں تو شاید بہتر رہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک صاحب بھی ایسے اہلِ علم نہیں ہیں جس کو روایات کے سلسلہ میں ان غیر ذمہ دار لوگوں کو غیر علمی دھاندلیوں پر غیرت آئے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔

خلافت، علیؓ کی سٹیج نہیں:

ہمیں اس شمارہ میں یہ پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کہ ان کے نزدیک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صرف وصیِ رسول نہیں کچھ اور بھی ہیں، مثلاً

1. یہ کہ حضرت علیؓ حضور کے سوا اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بھی ہیں۔ (العیاذ باللہ (ص 47.48)

2. یہ کلمۃ اللہ، یہ عین اللہ، یہ اذن اللہ، یہ نفس اللہ، یہ وجہ اللہ، یہ کرم اللہ، یہ مظہر اللہ، یہ نور اللہ، یہ نوری (ص 58)

3. ان کی زیارت نبیوں کی زیارت، ان کی زیارت عبادت، ان کا ذِکر حضور پاک کا ذِکر، ان کا ذکر اللہ کا ذکر (ص 58)

4. ﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤﴾... سورة النجم" حضرت علی کی شان میں ہے۔ (ص 59)

5. سارے باغ قلم بن جائیں۔ سمندر سیاہی بن جائیں۔ جن شمار کرنے والے اور انسان لکھنے والے پھر بھی حضرت علیؓ کے فضائل شمار نہیں کر سکیں گے۔ (ص 59)

6. شاید آپ اللہ ہیں (العیاذ باللہ) ص 60)

7. شافعی مر گیا مگر نہ سمجھ سکا کہ علی اس کا رب ہے یا اللہ اس کا رب ہے (نقلِ کفر کفر نبا شد) (ص 60)

8. حضور نے حضرت علی کو دس لاکھ علوم تعلیم فرمائے۔ (ص 63)

9. حضور اور حضرت علی کے پاک ناموں کی شفاعت سے

1. آدم صفی اللہ کی توبہ قبول ہوئی۔

2. نوح نجی اللہ کو عالمی طوفان سے نجات ملی۔

3. عیسیٰ روح اللہ کو سولی سے نجات ملی اور ملکوت میں جگہ ملی۔

4. ان کی برکعت سے حضرت موسیٰ نے جنود فراعنہ پر فتح پائی۔

5. ان کے صدقے میں حضرت ابراہیم کی آگ گلزار ہوئی۔

6. ان کے طفیل حضرت ایوب کو شفا نصیب ہوئی۔

7. ان کی وجہ سے حضرت یعقوب کو بچھڑا ہوا یوسف ملا۔ (ص 68)

10. ؎ ولی ولی کی صدا تھی جہاں جہاں تھا      علی علی نظر آئے جدھر جدھر دیکھا (ص 69)

اگر حضرت علیؓ کا یہی تعارف اور شان ہے جو ان حضرات نے ''معارف اسلام'' کے ذریعے پیش کیا ہے تو یقین کیجئے! اس ذاتِ گرامی کے لئے نیابتِ رسول اور خلافت کے مقام کی تلاش سب سے بڑی گھٹیا کوشش ہے۔ آپ کے لئے مقامِ عرش پر نیابتِ خدا چاہئے۔ کیونکہ دینِ اسلام میں تو محمد رسول اللہ ﷺ کا بھی یہ مقام نہیں ہے جو حضرت علیؓ کے لئے تشخیص کیا گیا ہے۔ پھر حضرت علیؓ حضور کے نائب اور خلیفہ یا وصی کیسے؟ اور اس کے لئے جھگڑا کیوں؟ حضرت علیؓ کے لئے تو اب مقام وہ تلاش کیجئے جہاں انسانیت کے بجائے الوہیت برا جمان ہو۔ اس لئے ہمارا خیال ہے کہ اگر عقائد اور خیالات میں سچے اور سنجیدہ ہیں تو آپ کو ان صحابہ کرام کا شکوہ نہیں کرنا چاہئے، جنہوں نے ان کو انتخاب نہیں کیا تھا۔ کیونکہ بندوں کے لئے نیابت بندہ کی چاہئے۔ جو خدا ہوں یا خدا کی برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ان کو وہ یہاں پر کیسے انتخاب کرتے؟ بہرحال شیعہ حضرات کے یہ نظریات دیکھ کر ہمیں اپنے بریلوی اور رضا خانی دوست یاد آگئے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ شخصیت پرستی میں ان میں سے کون دوسرے سے بازی لے گیا ہے۔ شیعہ یا بریلوی؟ موحد امت میں یہ بھی عجیب چیز ہیں۔ نظرِ بد دور یہ بھی کلمۂ توحید کا ورد کرتے ہیں۔ خدا جانے کس منہ سے؟

کیا یہ بھی ان کے لئے کوئی قابلِ رشک مقام ہے؟

اگر بندہ بھی الوہیت کے خصائص میں الٰہ العالمین کا شریک اور سہیم ہے تو ہمیں معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء، اصفیاء اور اتقیاء کو بندوں کی اصلاح اور تبلیغ کے لئے کیوں بھیجا۔ کیوں کہ دنیا پہلے بھی اسی قسم کے گھناؤنے عقائد، شرک و بدعت، کفریات اور توہمات سے اٹی پڑی تھی۔ آخر ان حضرات کو آکر بھی اگر یہی کرنا تھا تو یہ کام تو ان بزرگوں کی تشریف آوری سے پہلے بھی ہو رہے تھے۔

خدا تعالیٰ نے ان کو بھیجنے کا تکلف کیوں کیا؟

کیا یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے کوئی قابلِ رشک مقام ہے کہ ان کو انسانیت سے محروم کر کے خدا بنا ڈالیں، تولنے لگیں تو انہیں رسولوں سے بھی اونچا لے جائیں۔ کام کا موقعہ آئے و ان کے لئے خواجگی اور شہزادگی کے سوا اور کوئی کام پسند نہ آئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کی جرأت مندانہ گھڑیاں پیش آجائیں تو ان کو ''تقیہ'' جیسی بزدلانہ دیوار کے پیچھے لا کر دکھایا جائے، مقامِ عزیمت کی تفسیر کا کوئی عملی مرحلہ آئے تو معذرتوں کی اوٹ میں چلے جائیں، شجاعت اور بہادری کی داستانیں سنانے کھڑے ہوں و مرحب و عنتر کے معرکوں، خیبر و حنین کی جنگوں کے سب سے بڑے فاتح نظر آئیں، غیروں کی توپوں سے لڑ جائیں، ان کے قلعوں کو مسمار کر ڈالیں اور ٹوٹی ہوئی تلوار کے ذریعے دشمنوں کی صفوں کو تہہ و بالا کر دیں لیکن گھر میں ان کی یہ حالت دکھائی جائے کہ۔

اس کو حضور نے خلافت کی وصیت کی مگر یار دوست ان سے پوچھے بغیر آگے بڑھ کر خلافت پر قبضہ کر لیں تو سرکار بہادر گھر کی چار دیواری میں مہینوں دبکے بیٹھے رہیں اور بات کہنے کی اور رسول کی وصیت کے اجراء اور نفاذ کے لئے ان کی ساری ہمتیں جواب دے جائیں۔ باغ فدک کا سوال پیدا ہو تو لب تک نہ ہل سکیں اور یہ ساری باتیں صرف ''تقیہ'' کے چورن کے ذریعے ہضم اور گوارا ہتی رہیں۔ اف ان نادان دوستوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کس مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے۔

ہمارا علیؓ:

بخدا ہمارا علیؓ ان کے علیؓ سے بہت مختلف ہے۔ وہ بے باک مجاہد، نڈر سپاہی اور لومۃ لائم کے خوف سے بے نیاز اور انتہائی شجاع اور بہادر ہے۔ اس لئے انہوں نے یہ اعلان کیا تھا:

والذي خلق الحبة وبرئ النسمة لو عھد إليّ رسول الله ﷺ عھدا لجاھدت عليه ولم أترك ابن أبي قحافة يرقي درجة واحدة من منبره

بخدا اگر حضور ﷺ نے مجھے (خلافت کے سلسلہ میں) کوئی وصیت کی ہوتی تو میں ڈٹ کر جہاد کرتا اور ابن ابی قحافہ (حضرت ابو بکرؓ) کی کیا مجال تھی کہ وہ منبرِ رسول کی ایک سیڑھی پر بھی قدم رکھ سکتے۔ (فضائل الصدیق للعشاری)

ہمارا اس پر ایمان ہے کہ حضور ﷺ نے آپ کے لئے وصیت کی ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کو کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرتا۔ اگر کرتا تو حضرت علیؓ اس کو کبھی نہ چھوڑتے۔

حضرت علیؓ کا استدلال:

چنانچہ نہج البلاغہ میں حضرت علی کی یہ تصریح بھی آئی ہے کہ:

''مہاجرین اور انصار کی شورائیہ جس کو انتخاب کر لے وہی برحق خلیفہ ہے۔ اگر کوئی اس کو نہ مانے تو اس کے ساتھ جنگ کریں، فإن أبٰی فقاتلوہ علی أتباعه غير سبيل المومنين (نهج البلاغة مصري تختي خورد جلد ۲ ص ۸)

ایک دفعہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے عجیب پتے کی بات کہی، فرمایا:

کان خلیفة رسول الله ﷺ في الصلوٰة رضية لديننا فرضيناه لدنيانا

کہ نماز میں وہ حضور ﷺ کے خلیفہ اور نائب تھے۔ حضور ﷺ نے آپ کو ہمارے دین کی امامت کے لئے پسند فرمایا تو ہم نے ان کو اپنی دنیا کی امامت کے لئے پسند کر لیا۔

ومن کتاب له علیه السلام إلٰي معاوية أنه بايعني قوم الذين بايعوا أبا بكر و عمر و عثمان وعلي ما بايعوھم عليه فلم يكن للشاھد أن يختار ولا للغائب أن يرد و إنما الشوري للمھاجرين والأنصار فإن اجتمعوا علي رجل وسموه إما ما كان ذٰلك لله رضي فإن خرج من أمرھم خارج بطعن أو بدعة ردوه إلي ما خرج منه فإن أبٰي قاتلوه علي أتباعه غير سبيل المؤمنين (نهج البلاغه۔ مطبوعه مصر۔ تختي خورد جلد ۲ ص ۸)

یعنی حضرت امیر معاویہؓ کو خط لکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے لکھا کہ مجھ سے اس قوم نے بیعت کی جس نے حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور اسی شرط پر کی تھی جس شرط پر ان کی کی تھی۔ اب نہ کسی حاضر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی اور کو پسند کرے اور نہ کسی غائب کو اس کا اختیار ہے کہ وہ اسے رد کرے۔ اتھارٹی اور سند صرف مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی ہے۔ اگر وہ کسی ایک شخص کی امامت پر متفق ہو کر اس کو امام بنا لے تو اسی میں اللہ کی رضا ہو گی۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کی اطاعت نہ کرے۔ یا اس پر اعتراض کرے تو اس کو اس کی اطاعت کے لئے مجبور کرو۔ اگر انکار کر دے تو اس کے ساتھ جنگ کرو۔ کیونکہ اس نے مومنوں کی راہ کے خلاف راہ اختیار کی۔

غور فرماؤ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے سلسلہ میں دو اصول ذکر فرمائے ہیں:

1. ایک یہ کہ نماز جیسی دینی عظمت اور پیغمبرانہ منصب میں جو شخصیت حضور کی خلیفہ اور نائب ہو گی وہی سیاسی لحاظ سے خلیفہ اور امام بھی ہونی چاہئے اور یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مرض الوفات میں حضور ﷺ نے نماز کی امامت حضرت ابو بکر رضٰ اللہ عنہ کے سپرد فرمائی تھی۔ مگر اس تلمیح کو وہ حضرات کیا سمجھیں، جنہوں نے اصولوں کے بجائے خاندانوں کے پیمانوں سے خلافت کی کھیر تقسیم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

2. دوسرا یہ کہ مہاجرین اور انصار کی شورائیہ ہی اس سلسلہ کی آخری سند ہے وہ جسے اپنی امارت کے لئے انتخاب کر لے، وہی حق ہو گا اور اس کے خلاف جو کرے اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسی ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ:

خلافت کسی کے لئے مخصوص نہیں تھی اور نہ کسی کے حق میں بطور وصیت الاٹ ہوئی تھی ورنہ شورائیہ سے استناد کے کیا معنیٰ؟ بہرحال حضرت علیؓ کے بیان کردہ اصول کے مطابق مہاجرین اور انصار کی شورائیہ نے سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ کا انتخاب کیا تھا۔ اس لئے ''خلیفہ بلا فصل'' حضرت ابو بکرؓ ہوئے، حضرت علیؓ نہ ہوئے۔ ہماری بات نہیں مانتے تو نہ مانئے لیکن حضرت علیؓ کے سامنے تو کم از کم دم نہ مارئیے کیونکہ ایمان اور عشق کے دعوے کی یہ شرطِ اولیں ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔ اور اس سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ملتِ اسلامیہ کے جمہور کا اعتماد، ''خلیفہ'' کے انتخاب کے لئے بنیادی حیثیت رکھا ہے۔ اور وہ بلا شبہ حضرت ابو بکرؓ کو حاصل تھا۔ آپ کے انتخاب میں تمام مہاجرین و انصار نے حصہ لیا اور تقریباً ان کی امامت پر سب کا اجماع ہوا اور اگر ایک آدھ نے اختلاف کیا بھی تو محض ذاتی رنجش کی وجہ سے مگراس کے باوجود ان میں سے کسی ایک نے بھی اس انتخاب کو چیلنج نہ کیا تھا۔ اس کا جواب خدارا ''تقیہ'' کی آڑ میں نہ دیں اور لگی لپٹی بغیر کہیں۔ خدا کوئی کسی کا نہیں۔

بایں دعویٰ، حضرت علیؓ کو فاش کر دیا:

یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ یہ اہلِ بیت کے نادان دوست جس ذات گرامی کی عظمتوں اور رفعتوں کی وکالت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہی اس کو اپنے دور کے لحاظ سے ''غیر منقول شخصیت'' ثابت کر رہے ہیں۔ یہ تو یہ حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مہاجرین اور انصارین اور انصار نے حضرت علیؓ کو منتخب نہیں کیا تھا بلکہ اس کا وہاں پر کوئی مذکور بھی نہیں تھا۔ اگر اسے ''ہلے گلے'' کی بات بھی بنا لی جائے تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بھی کسی نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ اگر یہ ثابت بھی کر دیا جائے کہ فلاں نے نام لیا تھا تو یہ ہرگز ہرگز ثابت نہیں کیا جا سکے گا کہ جمہور صحابہؓ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی یا کم از کم حضرت صدیق اکبرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کے انتخاب کے موقعہ پر کسی نے حضرت علیؓ کا نام لیا ہو یا اس کے بعد چھ (۶) ناموں کی فہرست میں سے حضرت علیؓ نے اکثریت کا اعتماد حاصل کیا ہو۔ اگر نہیں حاصل کیا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت دوسرے اکابر صحابہ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اتنے مقبول نہیں تھے، جتنے دوسرے تھے۔ یہ قوم کے اعتماد کی بات ہے۔ آپ اور میرے جذبات اور عقیدت مندیوں کی بات نہیں ہے۔ دیکھا یہ ہے کہ اپنے بھائیوں میں سے کون سے بھائی کو جمہور کا اعتماد حاصل ہے اور وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔ اب کسی سے کوئی کیا کہے۔ بہرحال شیعہ حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کو زیرِ بحث لا کر ان کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کیا، بلکہ متوقع مقام سے نیچے گرانے کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے تاثر اور عقیدت مندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

سیاسی سے زیادہ آپ اہلِ علم تھے:

ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہؓ کے نزدیک اس وقت کے اکابر صحابہ کی بہ نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ آپ کے خاندان کے سارے حضرات اتنے سیاستدان نہیں تھے جتنے وہ اہل علم تھے۔ ''لکل فن رجال''۔ ہر جج اور اہل علم، ضروری نہیں کہ وہ بڑا سیاستدان بھی ہو۔ ہم نے بعض ایسے جج بھی دیکھے ہیں جو ریٹائر ہونے کے بعد، جس قدر وہ عدالتِ عالیہ کے منصب پر کامیاب رہے ہیں، سیاست کے میدان میں اتنے کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ بلکہ قلم دان چھوڑتے ہی ان کی بنی ہے۔ ہمارے نزدیک نہ یہ عیب کی بات ہے اور نہ طعن کی، بلکہ صلاحیتوں کے مختلف پیمانوں کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ''علم و قضا'' کے باب میں بہت اونچے مقام پر تھے۔بلکہ آپ اونچے قسم کے ادیب اور انشا پردار ز بھی تھے اور ایسے لوگ عموماً سیاسی کم ہوا کرتے ہیں۔ گو ناممکن نہیں تاہم کم یاب ضرور ہیں۔ ان باتوں کو تولنے کے لئے عقیدت کی ترازو بہت کمزور ہوتی ہے بلکہ اس کے قاضی ٹھوس حالات اور واقعات ہوتے ہیں اس لئے اگر ہر خلیفہ کے دور میں اقتدار کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے پتہ چل جائے گا کہ کون سیاسی باب میں کامیاب رہا ہے اور کون نہیں کامیاب رہا۔ میری عقیدت کتنی دہائیاں دے، کتنے واسطے دے، کتنی چلائے، کتنی تڑپے اور کتنی ہی اس کی نزاکتوں پر بنے۔ بہرحال واقعات کی بے رحم گردش اپنے کانٹےاور راستے بدل کر چلنا نہیں جانتی، سیدھی چلتی ہے۔ پوری رفتار کے ساتھ چلتی ہے۔ جتنے پردے ہوتے ہیں ان کو چاک کرتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے۔ جتنی دہائیاں اور فریادیں ہوتی ہیں۔ ان سے بہری، گونگی اور اندھی ہو کر دوڑتی ہے جو اس کا راستہ روکتا ہے وہ اس کو روند کر گزر جاتی ہے۔ اور یہ سبھی کچھ اس کا فطری اندز ہوتا ہے، عادلانہ ہوتا ہے، غیر ظالمانہ ہوتا ہے۔ واقعات کا یہ تصرہ اور کچا چِٹھا سب سے زیادہ بے لوث مؤرخ ہوتا ہے۔ بے خطا نقاد اور توانا مناد ہوتا ہے۔ بے غبار آئینہ اور مصفا شیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے جو لوگ، کسی وجہ سے بھی، ان واقعات سے آنکھیں بند کر کے چلنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نقوش کو چھپانے میں وقت کا اسراف ہی کریں گے۔ بہرحال حضرت علیؓ اور دوسرے خلفاء کے سیاسی دور کے حالات اور واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ان کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے کہ کون اس میں کامیاب رہا اور کون نہیں۔ کون بہتر سیاستدان تھا اور کون نہیں۔ مہاجرین اور انصار نے جن پر جس جس دور میں جو فیصلہ کیا اور جس کے بارے میں اعتماد اور اطمینان کا جو مظاہرہ کیا وہ کس قدر صحیح تھا یا کس قدر بے جا تھا؟ ہاں دَور کی پُر آشوبی کا بہانہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت علیؓ کے عہدِ خلافت کی صفت نہیں تھی بلکہ حضرت ابو بکرؓ کے عہد کی پُر آشوبی اور فتنہ سامانی اس سے کہیں زیادہ حوصلہ شکن، درد ناک اور آناً فاناً تھی۔ حضرت علیؓ کو ایک وسیع و عریض مملکت پالی پوسی ملی، جتنی خرابی تھی اس وقت کفر و ایمان کی نہیں تھی انتظامی قسم کی تھی۔ غیروں سے نہیں اپنوں سے تھی۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ کے دور میں انتظامی خرابی بھی تھی اور کفر و ایمان کی بھی، اپنوں کی بھی تھی اور غیروں کی بھی، اندرونی بھی تھی اور بیرونی بھی۔ لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ کامیاب رہے، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ بن الخطاب کو کہنا پڑا کہ

''آج جس مقامِ عزیمت کا مظاہرہ حضرت صدیق اکبرؓ نے کیا اگر میں ہوتا تو اس میں فیل ہو جاتا۔''

اس لئے دور کی پُر آشوبی کی آڑ بھی تقیہ جیسی آڑ ہے۔ سیاسیات کے ماہرین اور علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ خلافت کے لئے اہلِ علم کی بہ نسبت سیاسی مدبر زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ اگر دونوں کا اجتماع ہو جائے تو نورٌ علیٰ نور ہو ا۔ لیکن سیاسی تفوق سے عاری انسان کے لئے اس وقت تک خلافت کے دائرہ میں قدم رکھنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں جب تک قوم میں اس سے بہتر اور موزوں آدمی مل سکتے ہوں۔

پائے چوبیں:

اب آپ ان کے بنیادی دلائل ملاحظہ فرمائیں:

لغت میں:

''مختلف لغت کی کتابوں میں 'وصی' کے معنے حضرت علی بیان کئے گئے ہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ وصی رسول تھے۔'' (معارف اسلام نومبر، دسمبر 1963ء ص 14)

شیعہ دوستوں کی سطحیت کی اس سے بد تر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ''وصی رسول'' کے معنی لغت میں تلاش کیے جائیں۔

دراصل لغت میں ''وصی'' کے معنے عام لحاظ سے کیے گئے ہیں کہ دنیا میں نفیاً یا اثباتاً وصی کس کے لئے استعمال ہو رہا ہے لیکن اسے اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہے یا غلط؟ یعنی شرعی لحاظ سے۔

وصیت کا حکم:

''قرآن میں وصیت کرنے کا حکم ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر نے وصیت نہ کی ہو۔'' (ص 15)

کیا وصیت، صرف وصیتِ خلافت ہی رہ گئی ہے۔ اگر وہ بھی وصیتیں ممکن ہیں تو پھر اس سے آپ کو کیا فائدہ؟ ہاں حضور نے ''خلیفہ'' کی تعیین کے سوا نظامِ خلافت کے سلسلہ میں اور متعدد وصیتیں فرمائی ہیں مثلاً کیسے ہوں، جب منتخب ہو جائیں تو ان کی اطاعت کیسی ہو وغیرہ وغیرہ مگر یہ باتیں آپ کے مطلب کی نہیں ہیں۔

تاریخ طبری وغیرہ کا حوالہ:

آیت﴿وَأَنذِر‌ عَشيرَ‌تَكَ الأَقرَ‌بينَ ٢١٤﴾... سورة الشعراء" کے نزول پر حضور نے اپنے قرابت داروں کو جمع کرا کے پوچھا تھا کہ کون ایسا ہے جو میری مدد کرے اور میرا وصی اور خلیفہ بنے؟ قوم نے تو جواب نہ دیا، حضرت علیؓ نے کہا میں حاضر ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ علیؓ میرا وصی اور خلیفہ ہے۔ تم اس کا حکم مانو۔'' (ص 15)

اس کا جامع اور پہلا اور آخری جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہی ناکارہ ہے اور صرف قصے کہانیوں کے عجائب گھر میں رکھنے کے قابل۔ دوستو! مسئلہ 'وصی رسول اللہ' کا اور دلائل یہ؟ معلوم شد بافندگی۔

اس طرح ایک اور روایت حضرت ابو سعید خدریؓ کی نقل کی گئی ہے جسے سن کر بس، سبحان اللہ اور واہ واہ کہہ لیجئے ورنہ ان طفل تسلیوں کا خون ہو جائے گا۔

امام حسنؓ کا ارشاد:

مستدرک حاکم سے امام حسنؓ کا ایک خطبہ نقل کیا گیا ہے۔ اس میں 'أنابن الوصی' کے الفاظ ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اس روایت کو بھی چھپا کر تہ خانوں میں دکھ دیجئے تاکہ اس کو دنیا کی ہوا نہ لگنے پائے ورنہ۔ ہاں اس کا یہ پہلو بھی سوچنے کے قابل ہے کہ اتنا جاندار خطبہ دینے والا خطبہ دے کر خلافت سے حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہو جاتا ہے۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے؟ کہو گے ''تقیہ''ً تو ہم عرض کریں گے کہ آپ بھی اسی اسوۂ حسنہ کا اتباع کریں، تقیہ کریں اور ثواب لوٹیں۔ منقار زیرِ پر رہیں اور مزے کریں۔

آپ نے ''تقیہ'' جیسے طلسم کا سکوت توڑ کر کون سی نیکی کمائی ہے؟

شورائیہ خدائی عہدوں کے لئے نہیں:

شیعہ کے معارفِ اسلام نے لکھا ہے کہ:

''شورےٰ وغیرہ کا محتاج تو ایک اقتدار مملکت سنبھالنے والا ہی ہو سکا ہے۔ خدائی عہدوں والا نہیں۔'' (خلاصہ ص 7)

یعنی جب یہ حضرات دلائل کےمیدان میں اُترے ہیں تو عجیب ہی لگتے ہیں۔ بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ خلافت کا تعلق نظامِ مملکت سے ہے تو شوریٰ وغیرہ کا وہ خود بخود محتاج ہو گیا اور اگر خانقاہیت سے ہے تو ہمارا اس میں آپ سے جھگڑا نہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو ہو گا اور رہے، ہمیں اس سے کیا۔

نیز ہمارے علم میں ''غیراز رسول و نبی'' دنیا جہاں میں اور کوئی ایسا تنظیمی عہدہ اور منصب نہیں ہے جو ''وحیِ الٰہی'' سے تشکیل پاتا ہو اور نہ کوئی بڑی سے بڑی ہستی رسول کے سوا شریعت اور دین کا ماخذ ہوتی ہے۔ خدا جانے آپ یہ دور کی کوڑی کہاں سے ڈھونڈ کر لائے ہیں۔ حضور عالی! یہ مقام دلائل کا ہے محرم کی مرثیہ خوانی کا نہیں ہے کہ الفاظ کے ہیر پھیر اور خوش گلو سے کام چل جائے گا نہ یہ سینہ کوبی کا مرحلہ ہے کہ کاغذ کوبی سے اس کا حق ادا ہو گا۔ یہ سنجیدہ مقام ہے ٹھوس اور سنجیدہ بات کیجئے۔ سدا محرم کے دن نہیں ہوتے کہ بناوٹی آنسوؤں، مصنوعی بین اور تکلف مآب سینہ کوبی سے گرمیٔ محفل کے سامان ہو جائیں گے۔

آپ سے مسائل پوچھئے:

''ارشاد ہوتا ہے کہ خلافت چوتھی جگہ پر ملی۔ اگر کبھی بھی نہ ملتی تو بھی آپ کی 'خلافتِ محمدیہ یا نیابتِ الٰہیہ'' پر سرمو فرق نہ آتا۔'' (ص 8)

اگر یہ بات ہے تو پھر جھگڑا کاہے کا؟ جب ایک قوم فرضی بات کے فرض کر لینے سے بہل سکتی ہے تو دنیا میں اس کو بہلا لینا مشکل نہیں ہوتا۔ اگر بغیر نظامِ مملکت کے کسی کی خلافت کا کاروبار چل سکتا ہے تو اس سے زیادہ پر امن شہری اور کون ہو سکتا ہے۔ جھگڑا تو وہ کرے جو شیخ چلی کے فرضی منصوبوں سے کام نہ چلا سکے۔

اس کی دلیل یہ بھی دی ہے کہ دنیا نے مسائل کے سلسلہ میں ہمیشہ آپ کی طرف رجوع کیا ہے۔ (ص 8) سو عرض ہے کہ ہم کب کہتے ہیں مسائل ان سے نہ پوچھئے! ہم نے تو پہلے ہی لکھ دیا ہے کہ وہ اچھے مفتی، بہترین ادیب، بڑے قاضی اور کامیاب عالمِ دین ہیں۔ اس لئے جتنے مسائل چاہو پوچھو۔ لیکن یہ بات آپ کو کس نے بتائی ہے کہ جو مفتی ہو وہ ضرور خلیفہ بلا فصل ہی ہو گا۔ کیا بات اور دلیل میں کوئی تک ہے؟

صوفیاء کے روحانی جدِّ امجد:

معارف لکھتا ہے کہ:

'صوفیاء کے تمام سلسلوں کی انتہا امیر المؤمنین پر ہوتی ہے اور وہاں سے بلا فصل ذاتِ رسول تک پہنچتی ہے۔' (ص 7)

اگر دلائل کا سر منہ یہی ہے جو پیش کیا گیا ہے تو ظاہر ہے خلافت بھی ایسی ہی کوئی ثابت ہو گی۔ اے بندۂ خدا! اگر مراد، نظامِ مملکت کے دینی سربراہ سے نہیں بلکہ خانقاہیت سے ہے، تو رہے، چشمِ ما روشن دل ماشاد!

وغیرہ غیرہ:

اس کے علاوہ کبھی خم غدیر کا واقعہ پیش فرماتے ہیں۔ کبھی ولایت حج کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔ کبھی انت منی بمنزلة ھارون من موسٰی کا ورد فرمانے لگ جاتے ہیں۔ کبھی بسترِ خواب کو حضرت علیؓ کے حوالے کرنے کا واسطہ دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہسب باتیں ہیں اور وہ بھی محرم کے دنوں میں دن بھر کے مارے دھاڑے ہوئے بے ہوش میں بیٹھ کر کرنے کی۔ جہاں بات تولی جاتی ہو، وہاں ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پیغمبرِ خدا نے کسی رنگ میں کسی کی تعریف کر دی۔ کوئی کام اسے بتا دیا یا کوئی بات کہہ دی تو بس وہ خلیفہ بلا فصل بن گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پیغمبرِ خدا ﷺ عمر بھر نہ کسی سے کوئی بات کریں نہ اس کو کوئی کام بتائیں اور نہ کسی کی کوئی جائز خوبی ذکر کریں۔ اگر کچھ کر بیٹھیں تو اسے پہلے ''خلیفہ بلا فصل'' کا وثیقہ لکھ کر دیں۔ خلافت تمام ملتِ اسلامیہ کے دینی اور دنیوی مستقبل، وقار، استحکام اور فلاح و صلاح کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا نام ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں باتیں بھی اسی معیار کی ہونی چاہئیں۔ کچے دھاگوں سے کام چلانے سے خلافت کے تانے بانے بننے کا شغل کچھ مفید کام نہیں دے گا۔
حوالہ جات

فلك النجاة في الإمامة والصلوٰةالمعروف به غایة المرام في معیار الإمام عربی مع اردو ترجمہ جلد اول ص 339 مطبوعہ نوائے وقت پریس لاہور طبع دوم 3 جنوری 1950ء مؤلف، حافظ علی محمد صاحب، مترجم امیر الدین صاحب