عالَمِ اسلام کے مصائب کا واحد سبب ہے
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت کے استحقاق کی بات چلی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«کان خلیفة رسول اللہ ﷺ في الصلوٰة رضیه لدیننا فرضیناہ لدنیانا»
نماز میں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ اور جانشین رہے حضور نے ان کو ہماری دینی قیادت کے لئے ناپسند فرمایا تو ہم نے ان کو اپنی دنیوی قیادت کے لئے پسند کر لیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گو بات بہت مختصر فرمائی ہے مگر کوزہ میں دریا بند کر دیا ہے، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت کے لئے وہی لوگ اہل ہیں جو ہماری دینی قیادت کے لئے بھی اہل ہوں۔ ورنہ؟ جواب واضح رہے!
مسلمانوں کے سیاسی رہنما کے بارے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«إن الخلیفة ھو الذي یقضي بکتاب اللہ ویشفق علی الرعية شفقة الرجل علی أھله فقال الأحبار صدق» (كتاب الأموال لابي عبيد)
مسلمانوں کا اصلی سیاسی سربراہ وہ ہے جو کتاب اللہ (قرآن مجید) کے مطابق فیصلے کیا کرے اور رعیت کے سلسلے میں یوں رحیم اور شفیق ہو جیسے کوئی اپنے اہل و عیال پر ہوتا ہے حضرت کعب احبارؓ نے یہ سن کر فرمایا، درست اور بجا فرمایا!
امام احمد بن ابی الربیع نے اسلامی ریاست کے سربراہ کی ایک تصویر بھی پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وینبغي أن یقسم نھارہ إقساما فأوله لذکر اللہ ویشکرہ وصدرہ للنظر في أمر الرععة ووسطه لأکله ومنامه (سلوك المالك في تدبير الممالك ص 81)
سربراہِ مملکت کے مناسب ہے کہ وہ اپنے دن کے اوقات تقسیم کرے۔ پہلا یعنی صبح کا وقت اللہ کی یاد کے لئے اور اس کے شکر کے لئے وقف کرے۔ دن کا ابتدائی حصہ امور رعایا کے لئے مخصوص کرے اور اس کا درمیانہ ٹائم کھانے اور دم لینے کے لئے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ:
وینبغي أن یقھر شھوته فإن من کان عبدھا لا یستحق الملك (ایضاً ص 82)
چاہئے کہ وہ اپنی (مسرفانہ) خواہشات کو دبا دے کیونکہ جو شخص ان کا غلام ہو جاتا ہے، وہ سربراہی کا اہل نہیں رہتا۔
امام ماوروی (ف 250ھ) نے لکھا ہے کہ:
سیاسی امامت کے لئے سات شرطیں ہیں، جن میں سے تین یہ ہیں:
1. عدالت: (سیاسی امامت کے اہل ایسے لوگ ہیں جو) محاسنِ اخلاق سے آراستہ، تقویٰ و طہارت میں فائق ہوں اور اخلاق و مروت اور شائستگی کے منافی امور سے پرہیز کرتے ہوں۔
2. علمی استعداد: صاحبِ اجتہاد ہوں یعنی قرآن و حدیث پر عبور رکھتے ہوں اور پیش آمدہ مسائل ان کی روشنی میں حل کر سکنے کا ملکہ رکھتے ہوں۔
3. سیاسی بصیرت: ملک و رعیت کے تقاضوں اور خصائص سے باخبر ہوں۔ (الاحکام السلطانیہ ص 4)
اور اس کو جو لوگ انتخاب کریں وہ ''بے بصروں اور بے خبروں'' کا ٹولہ نہ ہو بلکہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے علم و دیانت سے متصف حضرات ہوں:
الرأی والحکمة المودیان إلی اختیار من ھو للإمامة أصح وبتدبیر المصالح أقوام وأعرف (ایضاً)
یعنی ایسی رائے اور دانائی مطلوب ہے جو امامت کے لئے قابل ترین اور مصالحِ قوم کے لئے مضبوط اور باخبر شخص کے انتخاب پر منتج ہو۔
تقریباً تقریباً یہی شرائط ان کے وزراء اور مشیرانِ کار اور احکامِ اعلیٰ کے لئے بھی ضروری ہیں۔
پس یہ ہیں اسلامی ریاست کے وہ حکمران جن سے نیک توقعات قائم کرنا ممکن اور بجا ہوتا ہے۔ مگر افسوس! ایک طویل عرصہ سے ملتِ اسلامیہ اس قسم کی قیادت سے محروم چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے وہ ادبار و نکبت اور تنزل کی دلدل میں روز افزوں دھنستی چلی جا رہی ہے۔
ملتِ اسلامیہ کا ہر فرد اپنے اپنے علاقہ اور ملک کے سیاسی حکمرانوں اور ان کے مشیروں اور وزیروں کی زندگی کا مطالعہ کرے اور پھر سوچے کہ جو خدا اور اس کے رسول کے وفادار نہ ہو سکے، جن کی آنکھوں میں رب العٰلمین اور رحمۃ للعالمین ﷺ کی شرم باقی نہ رہی، جن کے لیل و نہار شراب و کباب میں غرق رہے، جو تشریعی امور میں خدا کے لئے اقتدارِ اعلیٰ کے قائل نہ رہے اور جو اپنی کرسی، اپنی بادشاہت، اپنے اقتدار اپن، اپنے عیش و آرام، اپنے کرّوفر اور اپنے ذاتی اغراض سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری بگڑی بنائیں گے، ہم پر رحم کریں گے، ملک و ملت کی شرم ان کو مارے گی، غریب عوام پر وہ رس کریں گے، پاک صاف زندگی گزارنے، محتاط رہنے اور باخدا لمحات بسر کرنے کی کوئی طرح ڈالیں گے یا اس کا کچھ سامان کریں گے۔ یہ آپ کی بہت بڑی بھول ہے۔ اگر آپ غور فرمائیں گے تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ بے خدا دنیا دار قیادت ہی عالمِ اسلام کے تمام مصائب کا واحد سبب ہے۔
اور اگر ملّتِ اسلامیہ چاہتی ہے کہ بھلے دِن آئیں اور ان آزاردہ مصائب سے نجات پائے تو اسے چاہئے کہ ہر جگہ ''نظامِ قیادت'' بدلے۔ بھلے آدمیوں کو آگے لائے، جاہ پرست، عیاش، بے خدا، اسلام اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ لوگوں کو قیادت کے منصب سے معزول کر دے۔ ان کے سر سے تاجِ کجکلا ہی اتار لے اور ان کے قدموں کے نیچے سے تختِ شاہی کھینچ لے۔ پھر یہ روحانی قیادت ان باخدا لوگوں کے حوالے کرے جو ''میری میں فقیری'' کا منظر پیش کرتے ہیں، جو شہزادگی نہیں کرتے، پہرہ دیتے ہیں۔ قوم کو آرام کی نیند سلاتے ہیں اور خود گلیوں اور کچوں میں گھومتے اور فلاکت زدوں کا پتہ لگاتے ہیں، جن کی زندگی قول و عمل کے تضاد سے پاک ہوتی ہے، جو پاک لوگ کہلاتے ہیں اور تاجدار ہو کر بھی خدا کے حضور سر بسجود رہتے ہیں تاکہ یہ لوگ ہمارے پیش امام بھی ہوں اور جرنیل بھی۔ اور اگر آپ کو ایسے لوگوں کی تلاش نہیں ہے تو پھر امن و سکون کی تلاش چھوڑ دیجئے! روئیے اور مزید نوحہ خوانی کے لئے تیاری کیجئے! باور کیجئے شاہ سعود اور قذافی بہت کم یاب ہیں بلکہ نایاب ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؎
در عجم گروید ام ہم در عرب
مصطفےٰ نایاب ارزاں بولہب
اب کے حج کی تقریب کے موقعہ پر جو سرکاری وفد تشریف لے گیا تھا، اس کی قیادت وزیرِ اطلاعات جناب کوثر نیازی نے کی تھی۔
ہمارے نزدیک یہ بھی ایک لطیفہ ہے! قائدِ وفد اور ان کے محترم لیڈر نعرہ تو ماسکو اور پیکنگ برانڈ سوشلزم کا لگاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ مکہ و مدینہ کی یاترا کا تکلف بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ شاید اسی لئے اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎
شاید اسی لئے اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎
اگر بایں مسلمانی کہ دارم!
مر از کعبہ می راند حقِ اوست
لطیفہ پر لطیفہ یہ کہ:
مفتی محمود جیسے عظیم عالمِ دین کو بھی ان کی قیادت میں جانا پڑا، رخ کعبہ کو، امام وزیرِ اطلاعات اور مقتدی مولانا مفتی محمود؟ عجیب ہی نظارہ دیتا ہے!
جو بھی لوگ بر سر اقتدار آئے ہیں، حکام عموماً ملکی آئین اور قانون کے بجائے سیاسی حکمرانوں کی دل جوئی کو سب سے زیادہ حرزِ جاں بنا لیتے ہیں۔ جس کا خمیازہ اس وقت ان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جب کوئی دوسرا گروہ برسرِ اقتدار آجاتا ہے۔
اصل میں سارا فساد ملکی قانون اور آئین سے غداری کا ہے۔ اگر حکام اس سلسلہ میں ثابت قدم رہیں تو حکمران بھی سیدھے ہو جائیں اور یہ خود بھی ہر افتاد سے محفوظ رہیں۔ ہماری ملکی عدالتِ عالیہ ہمارے سامنے ہے وہ قانون اور دستور کا تحفظ کرتی ہے اور پوری جرأت اور دیانتداری کے ساتھ کرتی ہے۔ اس لئے ہر حکومت غیر آئینی دھاندلی کرتے ہوئے سو بار سوچتی ہے۔ اگر دوسرے حکام بھی ایسا ہی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم کا معیار بلند نہ ہو اور ملت کا ہر فرد اپنے آپ کو معزز نہ سمجھنے لگے۔
حضرت قاضی شریح کی عدالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ جس میں قاضی موصوف نے قانون کے نفاذ میں کوئی تامل نہ کیا حالانکہ حضرت علیؓ خلیفۂ وقت تھے۔ اگر ہمارے حکام بھی اس روش پر چل نکلیں تو ہر دَور کے ارباب اقتدار بھی کچھ سوچ کر ہی قدم اُٹھایا کریں۔ بہرحال حکام کو قانون سے بغاوت کر کے حکمرانوں کی ذاتی ''جی حضوری'' سے کچھ زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ یہ بات ان کی سمجھ میں آجائے۔
کہتے ہیں درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے (اور صحیح نہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے) تو موجودہ حکمرانوں کے عہد میں غنڈہ گردی اور دھاندلی نے جتنے اور جیسے کچھ بال و پر نکالے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ اربابِ اختیار خود ہی مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں یا حکومت پُرامن شہریوں کو عزت اور جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ بہرحال صورت جو بھی ہو یہ اس امر کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ یہ حکمرانی کے اہل نہیں ہیں۔
حال ہی میں دن دہاڑے گوجرانوالہ کے بارونق اور بھرے بازار میں پستولوں سے مسلح ملزموں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے چار افراد کو شدید زخمی کر دیا اور برتنوں کی مشہور دکانوں سے ہزاروں روپے کی نقدی لوٹ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، ملزموں نے برتنوں کے دکانداروں کو گالیاں دیں، جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں اور بھاگتے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو زخمی کر کے اس سے ٹیکسی چھین کر بھاگ گئے۔ جس سے علاقہ میں اتنا خوف و ہراس پھیلا کہ علاقہ بھر میں راہ گیروں نے زمین پر لیٹ کر جان بچائی۔ (وفاق ۲۲؍ جنوری)
ہم حیران ہیں کہ گورنر اور صدر سے لے کر پیپلز پارٹی کے ایک رضار کار تک، جب بولتے ہیں تو مخالف سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو ''خون کی ندیاں'' تک بہا دینے کی دھمکیاں دے ڈالتے ہیں بلکہ ان سے جیلیں بھی بھر دیتے ہیں لیکن ان مٹھی بھر سماج دشمن عناصر کے سلسلہ میں انہوں نے یوں چپ سادھ رکھی ہے، جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا اربابِ اختیار صرف پر امن شہریوں کو دبانا جانتے ہیں یا مجرموں کی ان دھاندلیوں کا کچھ علاج بھی ان کے پاس ہے؟
مغربی پاکستان میں چار صوبے ہیں جن میں سے تین وہ ہیں جو آئے دن ''گولی'' کی زبان میں بات کرتے ہیں، علیحدگی کی دھمکیاں دیتے ہیں اور حکمران پارٹی کو کھرکھری سناتے رہتے ہیں، لیکن صدر محترم سن کر یوں چپ سادھ لیتے ہیں جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں لیکن چوتھا صوبہ پنجاب ایسا بد نصیب ہے کہ جب کہیں موقع ملتا ہے، صدر بھٹو اور ان کے کارندے دوسروں کا غصہ بھی اس پر نکال لیتے ہیں۔
دو بھائیوں کا ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک تو بت کو مانتا اور اس کی پوجا کرتا تھا لیکن دوسرا بہت گستاخ تھا اور اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کیا کرتا تھا۔ ایک دِن بت نے اپنے ماننے والے سے کہا کہ اپنے بھائی کو میری بے ادبی کرنے سے باز رکھو ورنہ میں تمہاری ٹانگ توڑ دوں گا۔ وفادار پجاری بولا: حجور میں تو بے قصور ہوں، جو قصور وار ہے آپ اس کی ٹانگ توڑیں میری کیوں توڑتے ہیں؟ بت بولا: وہ تو مجھے مانتا ہی نہیں۔ اس لئے اس سے گلہ نہیں لیکن تم تو مجھے مانتے ہوں لہٰذا میں تو تمہاری ہی ٹانگ توڑ سکتا ہوں۔
''قومی اسمبلی کے نائب قائد ایوان اور مرکزی وزیرِ صحت شیخ محمد رشید نے کہا ہے کہ قومیائے جانے والی جائیداد اور دیگر ذرائع پیداوار کے جائز یا ناجزئ ہونے یا معاوضہ کی جانچ پڑتال کر کے تشخیص کرنے کے اختیارات ہائی کورٹ یا دیگر عدالتوں کو دینے سے حکومت کا اختیار غیر مؤثر ہو کر رہ جائے گا۔'' (وفاق۔ ۲۲ جنوری)
عدالتوں کے سلسلے میں وزیرِ صحت کے یہ اندیشے اور ریمارک محتاط نہیں ہیں، اس کے علاوہ اس کے یہ معنے ہیں کہ حکومت قانون اور آئین کی راہ اختیار کرنا نہیں چاہتی۔ عقل بڑی کہ بھینس؟ گویا کہ اربابِ اختیار عقل و ہوش سے کام لینے کے بجائے دھونس سے کام لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر یہ اندیشہ ہو کہ حزاب اقتدار اسے حربہ کے طور پر مخالف جماعتوں اور افراد کے خلاف استعمال کریں گے تو ہم دعویٰ سے یہ کہتے ہیں کہ جائیدادوں کے سلسلے میں اتنے بڑے اقدام کی ان سے قطعاً کوئی توقع نہیں ہے۔ ورنہ سب سے پہلے ان کو اپنے معنوی ''مورثِ اعلیٰ'' سے شروع کرنا پڑے گا۔
بہتر یہ ہے کہ اس شق میں یہ اضافہ بھی کیا جائے کہ جن خاندانوں یا افراد کو انگریزوں نے یا ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی دوسرے کجکلاہ نے ملک دشمنی یا غلط وفاداری کے صلے میں منقولہ یا غیر منقولہ جو جتنی وار جیسی کچھ جائیداد دی ہو وہ پوری چھان پھٹک کے بعد ان سے چھین لی جائے۔
اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ یہ کلہاڑا کہاں سے آغازِ کار کرتا ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ایک ''فقیہ شہر'' سے لے کر ایک رندے باوہ خواہ کجکلاہ تک کون کون سے حسیں چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔ کاش! کوئی بندۂ خدا اُٹھے اور یہ فریضہ انجام دے تاکہ دیا اپنی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھ لے کہ ''چور چور'' کا شور مچانے والوں میں خود کتنے چور ہیں؟
افغانستان سے ایک ''بابا'' آئے ہیں، کہاں کہاں سے گھوم پھر کر آئے ہیں؟ بھارت کی آنکھوں کا تارا کیوں بنے رہے؟ افغانستان کی سرزمین ان کو ''پاک دیس'' سے زیادہ راس آئی؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں، جو دل ہی دل میں اُٹھتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ؎
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
آتے ہی عدم تشدد کا درس دینے کو اُٹھ دوڑے مگر عدمِ تشدد کے اسی ماحول سے جب کبھی آواز بلند ہوئی تو یہی سنائی دیا کہ ''ہم گولی کی زبان میں بھی بات کرنا جانتے ہیں۔'' ؎
رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے
طرفین نے شور مچا رکھا ہے، حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی ملک کو آئین نہیں دیتی، وہ کہتے ہیں اپوزیشن لیتی ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو آئین دیتی ہے وہ ملک کے لئے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی عمر درازی کے لئے دیتی ہے اور اپوزیشن جو مانگتی ہے وہ ملک اور قوم کے لئے مانگتی ہے۔ فرق صرف تعبیر کا نہیں، نیتوں کا بھی ہے۔ بہرحال صورتِ حال کچھ بھی ہو ملک کو اب آئین مل جانا چاہئے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی اس توتکار کے درمیان کہیں ''آئین کی مرغی'' حرام نہ ہو جائے اور یہ بہت بڑا المیہ ہو گا۔
شورشؔ میاں چلا اُٹھے ہیں کہ اب بیشتر صحافی بھی حکومت کے چوبداروں میں ہو گئے۔ جو قوم کے بجائے حکومت کی ترجمانی کرتے ہیں، إلا ما شاء اللہ۔ (نوائے وقت ملخصاً)
جناب! اب ذہن یہ بن گیا ہے کہ انسان انسانیت کا نہیں، آنت کا نام ہے اس لئے روٹی، کپڑا اور مکان پہلے اور وہ بھی جیسے بن پڑے کماؤ۔ یہ وہ نعرہ ہے جو موجودہ اربابِ اختیار نے قوم کو دیا ہے اور صرف اس لئے دیا ہے کہ دنیا نظریۂ پاکستان کے پیچھے دوڑنا بھول جائے۔ بس روٹی دیکھ کر پھول جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ضمیر اور ایمان کی بات بھی ایک کاروباری نعرہ بن جاتا ہے۔
جن صحافیوں کا ذہن یہ بن گیا ہو، ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مفادِ عاجلہ سے بلند ہو کر ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے لئے قلم اور زبان کی زکوٰۃ نکالیں گے؟ بہت بڑی بھول ہے۔
دراصل ملّتِ اسلامیہ کے جس بھی فرد یا طبقہ کو اربابِ حکومت ملک و ملت کے بجائے اپنے ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں وہی ملک و ملت سے غداری کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ قوم کی سیرت اور کردار کو مسخ کر کے وہ ملک کی کوئی بہتر خدمت انجام نہیں دیتے کاش! اپنی ذات سے بالا تر ہو کر یہ لوگ ملک اور قوم کی کچھ خدمت کر سکتے۔ اقتدار آنی جانی شے ہے۔ ملک اور قوم سدا رہنے والی حقیقت ہے۔ عارضی چسکے کے پیچھے لازوال ملّی دولت کو پامال کرنا، بہت بڑی ملک دشمنی ہے۔ خدا ہوش دے!
تحریکِ استقلال کے رہنما ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خاں نے صدر بھٹو پر الزام لگایا ہے کہ:
''سربراہ مملکت کے ليے ایک محل تعمیر ہو رہا ہے جس پر 16 کروڑ لاگت آئے گی اور ڈیڑھ کروڑ روپیہ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیرِ نو پر خرچ کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔'' (نوائے 23؍ جنوری)
صدر بھٹو نے غریب عوام کو روتی کپڑا دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی بسملہ 'اول خویش بعد درویش' کے اصول پر شروع کر رہے ہیں۔ عوام گھبرائیں نہیں، دنیا با امید قائم، کبھی تو آپ کی بھی خدا سنے گا۔
حوالہ جاتفضائل ابی بکر الصدیق للعشاریؒ