مقدمۃ التفسیر والتعبیر

شمارہ ہذا سے ہمارے محترم دوست مولانا عزیز زبیدی مسلسل تفسیر قرآن کا آغاز فرما رہے ہیں۔ تفسیر اور مفسر کے بارے میں تو ہم کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ کیونکہ تفسیر و تعبیر قارئین کے سامنے ہے اور مفسر جانے پہچانے لیکن اس بابرکت افادہ کو قائم رکھنے کے لئے احباب سے درخواست ہے کہ مولانا موصوف کے حق میں متنوع پریشانیوں اور الجھنوں سے نجات کے لئے دعائے خاص فرمائیں جن میں سے مولانا کی اہلیہ کی علالتِ مدید اور کچھ عرصہ سے خود مولانا کی ناسازیٔ طبع خاصی اہم ہیں۔

سلسلۂ تفسیر سے قبل مقدمۂ تفسیر ہدیۂ قارئین ہے جس میں موصوف نے قرآن اور خود اپنے بارے میں بہت سی مفید معلومات کے علاوہ اپنا تفسیری فکر و ذوق اور اسلوب و انداز ملحظات (Notes) کی صورت میں بیان کیا ہے جس سے اس تفسیر کی اہمیت و ضرورت بھی واضح ہو رہی ہے۔ (ادارہ)

ترجمہ:

شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی بن سعادت علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ (م 1331ھ / 1836ء) نے قرآنِ حمید کا ترجمہ کیا تھا۔ گو اس کی بعض باتیں کھٹکتی ہیں تاہم مجموعی لحاظ سے خوب ہے، اس لئے ہم نے بنیاد اسی ترجمہ کو بنایا ہے۔ جزوی تغیّر کے سوا باقی سارا ترجمہ ان کا ہے۔

تفسیر و تعبیر:

تفسیر اور تعبیر کا انداز، تبلیغی اور خطابی رکھا ہے کیونکہ یہ اس کا قدرتی اسلوب اور مطلوب ہے۔﴿بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ...٦٧﴾... سورة المائدة" لغوی معنی حد درجہ ضروری ہیں لیکن میں زیادہ تر قرآنِ حکیم کو اس کے سیاق میں دیکھتا ہوں۔ سیرۃ الرسول ﷺ اور ان احوال و ظروف کو سامنے رکھتا ہوں، جن میں اس کا نزول ہوا مگر اپنے دور میں بیٹھ کر اور یوں جیسے ہم اس سے کچھ پوچھنے چلے ہیں یا ہمیں وہ کچھ بتانے آیا ہے۔

قراءت:

جیسا کہ ہر ملک کا حال ہے، عرب قبائل میں بھی بعض الفاظ کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف تھا اس لئے قرأت قرآن میں بھی وہ رنگ باقی رہا لیکن یہ گھبرانے کی کوئی بات نہ تھی۔ مادری زبان اور لہجہ کی مجبوری تھی۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد تھا کہ:

«إن ھذا القراٰن أنزل علی سبعة أحرف» یہ قرآن سات طرح پر اترا ہے (مسلم عن عمرؓ)

یعنی جب مضمون ایک ہے تو پھر خیر ہے۔

«کلا کما محسن فلا تختلفوا» (بخاری عن ابن مسعود) دونوں ہی اچھا پڑھتے ہو، لڑو نہیں۔

قُرّاء:

ان کے ذریعے اور انہ کی مختلف قرأتوں کے ساتھ ہم تک قرآن پہنچا۔ اپنے اس مختلف اسلوب میں ہم تک جن بزرگوں کے ذریعے یہ قرآن پہنچا، ان کا نام قراءِ سبعہ (سات قاری) ہے جن کے اسماءِ گرامی یہ ہیں:

1. حضرت نافع، ابو رویم مولیٰ جعونۃ (ف 169ھ) یہ امام مالک کے استاذ نہیں، دوسرے ہیں۔

2. ابن کثیر: أبو معبد عبد اللہ بن کثیر الداري ( ف 120ھ)

3. أبو عمرو: ابو عمرو بن العلاء بن عمار الخزاعي البصري (ف 254ھ)

4. عاصم کوفی: أبوبکر عاصم بن أبی النجود الاسدي الکوفي (ف 128ھ)

5. حمزہ: أبو عمارہ حمزہ بن حبیب الزیات التیمي (ف 156ھ)

6. کسائي: أبو الحسن علي بن حمزہ النحوي مولیٰ بني أسد (ف 189ھ)

7. ابن عامر: أبو عمران عبد اللہ بن عامر الیحصبي الیمني (ف 118ھ)

جس قاری کے شاگرد جہاں پہنچے، وہاں ان کی قرأت کا اسلوب رائج ہوا۔ پاک و ہند میں بہ روایت حفص (ف 190ھ) حضرت عاصم (ف 128ھ) کی قرأت عام ہوئی اور یہی اب ہمارے سامنے ہے۔

اسانید:

شروع میں ''قرآن و حدیث'' کی بہ قاعدہ روایت اور حکایت کے لئے بہ قاعدہ سند کی ضرورت تھی جب یہ مدون ہو گئے۔ رجال اسانید سامنے آگئے۔ اختراع اور وضع کا خطرہ جاتا رہا تو اب سند ضروری نہ رہی، ہاں مناسب ضرور سمجھی گئی البتہ ''مؤلفین کی کتب'' کے حوالے کی پابندی پھر بھی باقاعدہ لازمی رہی۔ چونکہ اسناد امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام کے خصائص میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تاقیامت اس کا جو سلسلہ جاری ہے۔ اس کے پسِ پردہ کچھ قدرتی عوام بھی ضرور کار فرما ہیں:

راقم الحروف کی اسانید:

جن صاحب الاسانید اساتذہ سے راقم الحروف نے قرآن و حدیث کی اسانید حاصل کیں، وہ تین ہیں۔ دو سے تو کچھ قراءۃً، کچھ سماعاً اور کچھ اجازۃً حاصل ہوئیں اور ایک سے صرف ''اجازۃً'' مگر اس کا سلسلہ پہلے دو سے کافی وسیع ہے اور قرآن و حدیث کے علاوہ تقریباً تقریباً دوسرے تمام متداول علومِ عربیہ کی کتب کی اسانید بھی کچھ اس کے دائرہ میں آگئی ہیں۔ پہلے دو بزرگوں کے نام یہ ہیں۔

حضرت مولانا عبد التوابؒ:

حضرت مولانا عبد التواب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے ''ولی اور محدّث'' تھے۔ شیخ العرب والعجم حضرت سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مسند احمد بن حنبل کے مرتب شیخ احمد بن عبد الرحمٰن البناء المعروف بالساعاتی (من قطان مصر القاہرہ) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ہم نے آپ سے سنن دارمی، جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد کے کچھ حصے سبقاً پڑھے اور بقیہ کتب احادیث اور مرویات کی انہوں نے اجازت مرحمت فرمائی۔ (قال أجزته بالإجازۃ الخاصة والعامة)

حضرت الشیخ احمد اللہ دہلوی:

راقم الحروف کے دوسرے شیخ، شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ابن الحاج القاری امیر اللہؒ ہیں۔ 1359ھ میں صحیحین پوری۔ موطا مالک مکمل، سنن اربعہ کی کچھ حدیثیں اور بیضاوی شریف تا مقام درس پڑھیں۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ نے ان ایام میں جامع ترمذی کی تدریس میرے سپرد فرمائی تھی اور بعض فتاویٰ بھی مجھ سے لکھوائے تھے۔ والحمد للہ علیٰ ذلك (وما قلت ھذا الا تحدثا بنعمة اللہ)

آپ، حدیث شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الشیخ حسین بن محسن الانصاری الخزاعی سے روایت کرتے ہیں۔ آپ نے بھی مجھے اجازۂ خاصہ و عامہ سے نوازا (إني قد أجزت الطالب المذکور کما أخذت قراءة و سماعا إجازة عن مشائخ أجلاء أعلام)

حضرۃ الشیخ الطباخ الحلبی:

حضرت شیخ محمد راغب طباخ بن الحافظ محمود بن الہاشم الطباخ الحلبی رحمۃ اللہ علیہ راقم الحروف کے تیسرے شیخ اور بزرگ ہیں جن سے مجھے ''اجازہ'' کے اصول کے پر قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے بیشتر علوم و فنون کی کتابوں اور ان کے مؤلفین تک کی اسانید اور مرویات کی اجازۂ عامہ حاصل ہوئی۔ اس اجازہ میں راقم الحروف اور حضرت مولانا عبد التواب رحمۃ اللہ علیہ دونوں استاذ شریک ہیں۔ قصہ یوں ہوا کہ حضرت طباخ کی کتاب ''الأنوار الجلیلة في مختصر الأثبات الحلبیة'' نظر سے گزری تو مؤلفِ کتاب کی اسانید کی وسعت اور ہمہ گیری سے بہت متاثر ہوا۔ حضرت مولانا عبد التواب رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے خصوصی روابط تھے، ان کی معرفت ان سے اجازت طلب کی تو حضرت مولانا عبد التواب رحمۃ اللہ علیہ کی درخواست پر انہوں نے ہم دونوں کو اجازۂ عامہ سے نوازا۔ ہفت روزہ الاعتصام کے مدیر مولانا بھوجیانی نے مولانا عبد التواب رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ کے تذکرہ میں حضرت طباخ حلبی کا جو ذکر فرمایا ہے وہ صرف میری اسی روایت پر مبنی ہے۔

قرآنِ حمید کی سند جو حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم کی روایت پر مبنی ہے اس کا اہم ذریعہ بھی حضرت الطباخ کی اسانید ہیں۔ میری سند یوں ہے:

سندِ قرآن:

اجازۃً: مجھے شیخ محمد راغب طباخ حلبی سے وہ اپنے شیخ کامل الموقف حلبی سے وہ اپنے والد احمد الموقف سے۔ وہ عبد الرحمٰن الموقف حنبلی سے، وہ عبد اللہ موفق الدین سے وہ شیخ عبد الرحمٰن دمشقی سے، وہ شیخ محمد بصیر سے، وہ شیخ مصطفےٰ الشہیر بالعم سے وہ شیخ محمد بقری سے۔۔۔۔ وہ شیخ علی شبر املسی اور شیخ سلطان المزاحی سے، ونوں شیخ عبد الرحمٰن یمنی سے، وہ اپنے والد شیخ یمنی وار شیخ شہاب الدین احمد سنباطی سے۔

شیخ شحاذہ الیمنی شیخ طبلاوی سے وہ شیخ الاسلام القاضی زکریا الانصاری سے وہ شیخ عثمان الزبیدی سے وہ ابو الخیر جزری سے وہ عبد الرحمٰن بغدادی سے وہ شیخ ابن الصائغ سے وہ علی بن شجاع صہر الشاطبی سے وہ ابو القاسم بن فیرہ بن خلف الرعینی الشاطبی سے وہ علی بن ہذیل سے وہ ابو داؤد سلیمان اموی سے وہ سیدنا ابو عمر والدانی صاحب التیسیر (ف ۴۴۴ھ) سے وہ اپنی مخصوص اسانید کے ذریعہ قراء سبعہ سے، قاری عاصم والی سندیوں ذکر کی:

ہم سے ابو الحسن طاہر بن غلبون نے، ان سے ابو الحسن الہاشمی الفریر (نابینا) مقری نے، ان سے ابو العباس احمد بن سہیل الاشنانی نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں میں نے ابو عبید بن الصباح سے قرآن پڑھا، انہوں نے حفص سے، انہوں نے عاصم سے پڑھا۔ حضرت عاصم نے حضرت ابو عبد الرحمٰن السلمی اور حضرت ابو مریم زر بن حبیش سے پڑھا۔

حضرت سلمی فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابن مسعودؓ سے پڑھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا۔

حضرت زر بن حبیش فرماتے ہیں میں نے حضرت عثمان اور حضرت ابن مسعودؓ سے پڑھا۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے اخذ کیا۔'' (ملخصاً) ملاحظہ ہو۔ ''الأنوار الجلیة في مختصر الإثبات الحلبیة''

''وھذہ بعض الأسانید التي أدت إلینا ھٰذہ الروایات رواية وتلاوة (کتاب التیسیر ص 15)

یہ وہ کچھ سندیں ہیں جو ان روایات (مذکورہ فی الکتاب) نے ہم تک پہنچائی ہیں روایت اور تلاوت کے طریقے پر۔

آج کل ان اسانید کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن یہ ''سنت اسلاف'' ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس 'سلسلۃ الذہب' سے منسلک ہو جانے کی وجہ سے ہماری بھی مغفرت ہو جائے۔ أقول قولي ھذا کما قال عمر بن الخطاب:

«أرجو أن أکون معھم بحبي إیاھم وإن لم أعمل بمثل أعمالھم» (بخاری)

استفادہ:

تفسیر و تعبیر کے سلسلہ میں ہم نے ممکن حد تک بلا امتیاز مسلک و ملّت اور بلا امتیاز فن و کتب، سب سے استفادہ اور کسبِ فیض کیا ہے لیکن اس کی حیثیت زیادہ تر حاصل مطالعہ کی ہے۔ مجموعی مطالعہ سے جو ایک ''ذہن'' بنتا ہے اس سے زیادہ کام لیا ہے۔

اس سلسلہ میں گو بہت سی باتیں اکابر سے بعینہٖ بھی آگئی ہوں گی بلکہ اس سے احتراز کسی کے لئے ممکن بھی نہیں، تاہم نقلی غرض کم ہے۔ غرض یہ ہے کہ گو ہم سب کچھ گھر سے نہیں لائے اور نہ کوئی لا سکتا ہے بلکہ سبھی کچھ انہی کا ہے تاہم معینہ فرد، کتاب یا مسلک کی ترجمانی کم ملحوظ رہی ہے بلکہ قرآن حکیم کو آزاد رکھا ہے، کیونکہ لوگ پابند ہیں، قرآن کسی کا پابند نہیں ہے۔ اس لئے کوشش کی ہے کہ اس کو ''اسلاف'' کی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس سے پرہیز کیا جائے کہ متداول طبقاتی ماحول کے مطابق وہ کسی کا ''چاوش'' بھی دکھائی دے۔ جزوی توافق تو ممکن ہے لیکن پورا مجموعہ کسی ایک کی ''چھاپ'' بن کر رہ جائے؟ اس ''چاکری'' سے قرآن حکیم کو بالا تر رکھنے کی سعی و کوشش کی جائے گی۔ إن شاء اللہ۔ وما توفیقي إلا باللہ علیه توکلت وإلیه أنیب، فھو حي

تلخیص:

ہر رکوع کے آخر میں ''صورت و معنی'' کے عنوان سے متعلقہ رکوع کی تلخیص پیش کی جائے گی جن کو احکام و مسائل سے زیادہ ''تذکیر'' کہہ سکتے ہیں۔

اپنی اس ''تفسیر و تعبیر'' کے سلسلہ میں تفسیر و تعبیر کی حد تک گو ہم خود پوری طرح مطمئن ہیں تاہم ہمیں اپنی تعبیر پر اصرار بھی نہیں ہے۔ مجھے اپنی علمی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا بھی شدید احساس ہے۔ اس لئے غلطی اور لغزش کو کبھی بھی خارج از امکان تصور نہیں کیا۔ ہاں نیت کی حد تک ''فتور'' سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کیونکہ یہ کام اک عظیم عبادت ہے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری مدد فرمائے کہ یہ ضائع نہ ہو۔ آمین