''علومُ الحدیث'' پر ایک ناقدانہ نظر:
اگرچہ امام ابن الصلاحؒ کو تفسیر، حدیث، فقہ، اصول اور لغت وغیرہ مختلف علوم و فنون میں یدِ طولےٰ حاصل ہے اور خصوصاً اصولِ حدیث میں تو آپ امامت و اجتہاد کے بلند درجہ پر فائز ہیں اور آپ کی اس شہرۂ آفاق تصنیف کو اس فن میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے لیکن بفحوائے ''لکل جواد کبوة ولکل صارم نبوة ولکل عالم ھفوة'' جلیل القدر امام ابن الصلاحؒ سے بھی کچھ فروگزاشتیں ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ چنانچہ آپ النوع الاول کے فوائد مہمہ میں سے دوسرا فائدہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
إذا وجدنا فیما یروی من أجزاء الحدیث وغيرھا حديثا صحيح الإسناد ولم نجده في أحد الصحيحين ولا منصوصًا علي صحته في شيء من مصنفات أئمة الحديث المعتمدة المشھورة فإنا لا نتجاسر علي جزم الحكم بصحته فقد تعذر في ھذه الأعصار الاستقلال بإدراك الصحيح بمجرد اعتبار الأسانيد الخ
يعنی آپ كے نزديك متاخرين كے لئے كسی حديث كی تصحیح جائز نہیں اور اس سلسلہ میں صرف متقدمین پر ہی انحصار کرنا چاہئے لیکن علماءِ کرام نے آپ کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجرؒ اس پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ثم ما اقتضاه كلام ابن الصلاح من قبول التصحيح من المتقدمين ورده من المتأخرين قد يستلزم رد ما ھو صحيح وقبول ما ليس بصحيح فكم من حديث حكم بصحته إمام متقدم اطلع المتأخر فيه علٰي علة قادحة تمنع من الحكم بصحته ولا سيما إن كان ذلك المتقدم ممن لا يري التفرقة بين الصحيح والحسن كابن خزيمة وابن حبان''
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
''والأظھر عندي جوازہ لمن تمکن وقویت معرفته''
علامہ عراقیؒ امام نوویؒ کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''وما رجحه النووي ھو الذي علیہ عمل أھل الحدیث فقد صح جماعة من المتأخرین أحادیث لم نجد لمن تقدمھم فیما تصحیحا''
اور علامہ ابن جماعۃ فرماتے ہیں:
''قلت مع غلبة الظن أنه لوصح لما أھمله أئمة الأعصار المتقدمة لشدة فحصھم واجتھادھم فإن بلغ واحد في ھذه الأعصار أھلية ذٰلك والتمكن من معرفته احتمل استقلاله''
چنانچہ حافظ ابن الصلاح کے معاصرین نے ہی کئی ایسی احادیث کی تصحیح کی ہے جن کی متقدمین سے صحت ثابت نہیں تھی اور آپ سے متاخر ائمہ نے بھی کئی ایک احادیث پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ مثلاً آپ کے معاصر علماء میں سے صاحب ''الوہم والایہام'' حافظ ابو الحسن بن قطانؒ نے حضرت ابن عمرؓ کی درجِ ذیل روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے:
أنه یتوضاء ونعلاه في رجليه ويقول كان رسول الله ﷺ يفعل ذلك
اسی طرح انہوں نے حضرت انسؓ کی درج ذیل روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے جسے قاسم بن اصبغ نے روایت کیا ہے:
کان أصحاب رسول اللہ ﷺ ینتظرون الصلاة فیضعون جنوبھم فمنھم من ينام ثم يقوم إلي الصلوٰة
اسی طرح حافظ ضیاء الدین المقدسی صاحب ''المختارۃ'' نے اپنی اس کتاب میں کئی ایسی احادیث کی تصحیح کی ہے جن کی صحت ائمہ متقدمین سے منقول نہیں تھی۔ حافظ منذریؒ نے حدیث أبي ھریرۃ في غفران ما تقدم من ذنبه وما تأخر کی تصحیح کی ہے۔ حافظ دمیاطیؒ حدیثِ جابرؓ ماء زمزم لما شرب له کی تصحیح کی ہے اور شیخ تقی الدین السبکیؒ نے اپنی کتاب شفاء السقام في زیادۃ خیر الأنام میں حدیث ابن عمرؓ من زار قبري وجبت له شفاعتي پر صحت کا حکم لگاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حافظ ابن الصلاحؒ کا متاخر علماء کو اس منصبِ جلیلہ سے محروم و معزول کر دینا درست نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ ہر عالم کو خواہ متقدم ہو یا متاخر اس کا حق پہنچتا ہے بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو۔ تفصیل کے لئے ''فتح المغیث للعراتیؒ، فتح المغیث للسخاویؒ اور تدریب الراوی للسیوطیؒ ملاحظہ فرمائیے۔
اسی طرح حافظ ابن الصلاحؒ، امام حاکم اور ان کی متدرک کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وھو واسع الحظو في شرط الصحيح متأھل في القضاء به فالأولٰي أن نتوسط في أمره فنقول ما حكم بصحته ولم نجد ذلك فيه لغيره من الأئمة إن لم يكن من قبيل الصحيح فھو من قبيل الحسن يحتج به ويعمل به إلا أن تظھر فيه علة توجب ضعفه
امام ابن الصلاح کے اس قول پر بھی تعاقب کیا گیا ہے۔
الصواب أن یتبع ویحکم علیه بما یلیق من الحسن أو الصحة أو الضعف
یعنی یہ ضروری نہیں کہ امام حاکم نے جس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہو اور اس کے متعلق کسی دوسرے امام کی تصریح موجود نہ ہو تو وہ اگر صحیح نہیں قولا محالہ حسن ہو گی بلکہ تتبع کیا جائے گا اور اس کے حسبِ حال صحت حسن یا ضعف کا حکم لگایا جائے گا۔ قاضی ابن جماعۃ کے اس تعاقب کو علامہ سخاویؒ و انصاریؒ نے بھی ذِکر فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ''النکت'' میں اسے ذِکر کر کے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اس مذکورہ عبارت کے متصل ہی حافظ ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
ویقاربه في حکمه صحیح أبی حاتم بن حبان البستي
لیکن آپ کا صحیح ابن حبان کو مستدرک حاکم کے ہم پلہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ امام ابن حبانؒ کا حدیث میں امام حاکم کی نسبت مقام بلند ہے۔ چنانچہ علامہ عراقی، امام حازمیؒ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ابن حبان أمکن في الحدیث من الحاکم
امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:
قیل ما ذکر من تساھل ابن حبان لیس بصحیح غایته أن یسمی الحسن صحیحا فإن کانت نسبته إلی التساھل باعتبار وجدان الحسن في کتابه فھي شاحة في الاصطلاح
اسی طرح حافظ ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
ثم إن الزیادة في الصحیحین علی ما في الکتابین یتلقاھا طالبھا مما اشتمل علیه أحد المصنفات المعتمده المشتھرة وسائر من جمع في كتابه بين الصحيح وغيره ويكفي مجرد كونه موجوداً في كتب من اشترط منھم الصحيح فيما جمعه ككتاب ابن خزيمة
اس کے متعلق پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ''من اشترط منھم الصحیح'' کے ضمن میں تو صحیح ابن حبان بھی آتی ہے اور اسے آپ خود ہی مستدرک حاکم کے متقارب قرار دے چکے ہیں اور مستدرک کے مقام و مرتبہ اور محتویات سے حدیث کا ہر طالب علم واقف ہے۔
اور دوسری گزارش صحیح ابن خزیمہ کے متعلق ہے جسے آپ نے بطور مثال بیان فرمایا ہے کہ اس پر مطلقاً یہ حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس میں اور اس جیسی دیگر کتب میں ضعیف روایات بھی ہیں، مثلاً صحیح ابن خزیمہ کی ہم تین روایات پیش کرتے ہیں:
1. قال رسول اللہ ﷺ إذا توضأ أحدکم ثم یخرج إلي المسجد فلا یشبکن یدیه فإنه في صلاة
اس حدیث کی سند میں اختلاف ہے جس کے سبب بعض ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی سند میں راوی ابو شمامہ الحجازی مجہول الحال ہے جیسا کہ حافظ نے ''تقریب'' میں فرمایا ہے اور ''تہذیب'' میں امام دار قطنی کے حوالہ سے لکھا ہے لا یعرف یترك
2. سئل رسول اللہ ﷺ عن ھذہ الآية ''قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰي وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰي'' قال أنزلت في زكوٰة الفطر
اس کی سند میں کثیر بن عبد اللہ ہے جس کے متعلق امام منذری نے فرمایا ہے ''والا'' اور امام ذہبیؒ نے اس کی اس حدیث کو مناکیر سے شمار کیا ہے۔
3. من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینھن بسوء عدلن له بعبادة اثنتٰي عشرة سنة
اس حدیث کے سلسلۂ اسناد میں عمر بن عبد اللہ بن ابی خثعم ہے جس کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں:
منکر الحدیث ذاھب (میزان جلد ۲۔ ص ۲۶۴)
تو حافظ ابن الصلاحؒ کے مذکورہ ارشاد کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں ان جیسی روایات بھی ہیں۔ منکر حدیث کی بحث میں امام ابن الصّلاح منکر اور شاذ کو مترادف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
والصواب فیه التفصیل الذي بیناہ انفا في شرح الشاذ وعند ھذا نقول المنکر ینقسم قسمین علی ما ذکرناہ في الشاذ فإنه بمعناہ (علوم الحدیث ص ۷۲)
لیکن آپ کا منکر اور شاذ کو مترادف قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ تحقیق یہ ہے کہ منکر اور شاذ ایک نہیں، شیخ الاسلام ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ''وقد غفل من سوی بینھا'' (شرح نخبۃ الفکر)
اور امام سیوطی فرماتے ہیں:
المنکر الذي روی غیر الثقه مخالفا في نخبة قد حققه
قابله المعروف والذي رأی ترادف المنکر والشاذ نأی
حدیثِ مرسل کی صورِ مختلفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''أحدٰھا إذا انقطع الإسناد قبل الوصول إلی التابعي فکان فیه رواية
ولم يسمع من المذكور فوقه ۔۔۔۔۔۔۔ لا يسمي مرسلا'' (علوم الحديث ص ۴۷)
علامہ عراقیؒ اس پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قوله قبل الوصول إلی التابعي لیس بجید بل الصواب قبل الوصول إلی الصحابي فإنه لوسقط التابعي أیضا کان منقطعا لا مرسلا عند ھٰؤلاء'' (التقیید والایضاح ص ۵۵)
''معرفة الأسماء والکنٰی'' Lesson میں ان رواۃ پر بحث کرتے ہوئے جن کے نام کنیت جیسے ہیں اور ان کی کنیت بھی ہے۔ ایک یہ نام بھی بتلاتے ہیں۔ ابو بکر بن عبد الرحمان یعنی جو فقہاءِ سبعہ میں سے ہیں۔ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کا نام ابو بکر اور کنیت ابو عبد الرحمان تھی۔ لیکن انہیں یہاں بطور مثال پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ صحیح یہ ہے کہ ان کا نام اور کنیت ایک ہی تھی جیسا کہ امام ابن ابی حاتم اور علامہ عراقی نے فرمایا ہے ۔
یہ اور اس طرح کے چند دیگر مقامات ہیں جن میں ائمہ فن نے امام ابن الصّلاحؒ سے اختلاف کیا ہے۔ تاہم اس سے ''علوم الحدیث'' کی اہمیت و عظمت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کی امتیازی و انفرادی شان بدستور قائم رہتی ہے۔