قارئین کرام محدثین کے چند رحلات علم کے ذکر سے ان کی مشقتوں کا اندازہ فرما چکے ہیں۔ تاریخ امم میں مسلمانوں کے اس عظیم کارنامہ کی مثال نہیں ملتی جس کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ واقعی کسی انسان کی پوری زندگی کے اقوال و افعال کا اس طرح جمع ہونا ایک معجزہ ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے محدثین کے ہاتھوں قرآن مجید کی طرح اس کی تفسیر و تعبیر یعنی حدیث بھی محفوظ فرما دی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی انتھک کوششیں صرف سرکار مدینہ ﷺ کی سیرت کی خاطر ہی کی جا سکتی تھیں جو کل دنیائے انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ اور واجب الاتباع ہو۔ ان رحلات کی داغ بیل تو اگرچہ محدثین نے ڈالی لیکن اس سے دوسرے علوم کی تحصیل کے لئے لوگ دور دراز کے سفر کرنے لگ گئے۔ خصوصاً جملہ اسلامی علوم و فنون کے لئے عموماً یہی رواج رہا کہ طالبان علم ہر قسم کے علوم کی تحصیل کے شوق میں علماء اور ان کی مجالس کا رخ کرتے رہے (اور آج بھی جبکہ علماء کی مجالس کی بجائے مستقل مدارس کا رواج چل نکلا ہے، شائقین دور دراز کے علاقوں سے ان مقامات یا مدارس کا رُخ کرتے ہیں جو اس سلسلہ میں مشہور ہوں اور اسے حصولِ علم کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ توریٰت میں بھی حضرت موسیٰ کا یہ قول منقول ہے کہ علم بھوک اور سفر میں ہے جبکہ لوگ اسے شکم سیری اور حضر (وطن) میں تلاش کرتے ہیں) اس لئے اب ہم ان اشخاص کا ذِکر بھی مناسب سمجھتے ہیں جنہوں نے دوسرے علوم کی تحصیل کی غرض سے سفر کئے۔
رحلہ فقہاء:
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خیر القرون میں علماء کی اکثریت جامع العلوم ہوتی تھی اور شرعی امور میں انہی کے اجتہاد و تفقہ پر اعتماد کیا جاتا تھا اور یہ علماء شرعی علومِ (علوم عالیہ مثل قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ وغیرہ) ہوں یا علومِ عربیہ (علومِ آلیہ) سب کتاب و سنت کی خدمت ہی کی غرض سے سیکھتے تھے اور ان سے کتاب و سنت میں اجتہاد کر کے فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اس لئے یہی لوگ فقہاء تھے (جیسا کہ شاہ ولی اللہ کے الفاظ ''فقہاءِ محدثین'' جو انہوں نے اپنی ایک وصیت میں ان کا طریقہ پسند فرماتے ہوئے اسے اختیار کرنے کے متعلق کہے، سے بھی ظاہر ہے) لیکن بعد کے ادوار میں جیسا کہ حدیث اور تفسیر نے علیحدہ علیحدہ فن کی حیثیت اختیار کر لی۔ اسی طرح فقہ و قانون کا شعبہ بھی الگ شمار کیا جانے لگا اور چونکہ اجتہاد اور استنباطِ مسائل کے لئے سفر کی مشکلات کے بجائے حضر کے آرام اور یکسوئی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں وہی لوگ گھر بار چھوڑتے ہیں جو شوقِ علم میں علماء یا مدارس کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یا وہ لوگ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی طرف سفر کرتے ہیں جن کو کسی اہم مسئلہ میں ان کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہر ہے یہ ضرورت ایسے ادوار میں بہت کم پیش آتی ہے جبکہ علم کا دور دورہ ہو۔ اس لئے فقہاءِ محدثین کے علاوہ دوسرے فقہاء کے علمی رحلات بہت کم ہیں۔
مثلاً فقہاء میں زیادہ شہرت ائمہ اربعہ کو حاصل ہے لیکن ان میں سے علمی سفر زیادہ تر امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ، جن کا شمار فقہائے محدثین میں ہوتا ہے نے کیے ہیں اور جہاں جہاں گئے وہاں اپنے علمی اثرات بھی چھوڑے، لیکن اس کے برعکس امام ابو حنیفہؒ کا صرف ''سفرِ حجاز'' ہی ثابت ہے لیکن وہ بغرضِ حج بھی ہو سکتا ہے اور امام مالکؒ نے تو مدینہ منورہ کو اس طرح لازم پکڑا کہ وہیں کے ہو کے رہ گئے، وہ اشد ضرورتوں میں بھی وہاں سے نکلنا گوارا نہ کرتے تھے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ حصول علم کے لئے انہیں کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ ان دنوں مدینہ میں تابعین علماء کی اک بڑی اکثریت موجود تھی۔
رحلہ مؤرخین:
علومِ شرعیہ میں چوتھا نمبر علمِ تاریخ کا ہے۔ جس میں گزشتہ واقعات و حادثات اور مشاہیر کے حالات بیان کیے جاتے ہیں۔ اس کا ایک مستقل حصہ تو علم اسماء الرجال ہے جس میں راویانِ حدیث کی زندگی زیرِ بحث آتی ہے تاکہ ان کی تعدیل یا جرح سے حدیث کی صحت و ضعف معلوم ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام محدثین کا ہے جنہوں نے نہ صرف راویانِ حدیث کے حالات معلوم کرنے کے لئے دور دراز کے سفر کیے بلکہ نقد و جرح کے اصول وضع کر کے ''مصطلح الحدیث'' کا ایک مستقل علم ایجاد کیا۔ علم تاریخ کے اس شعبہ کے لئے تو محدثین کے رحلات کا ذِکر گزر چکا ہے اور متقدمین و متاخرین کی عظیم الشان تصنیفات اس کی عظمت اور اہمیت پر شاہد ہیں۔ باقی رہے دین و دنیا کی ممتاز شخصیتوں کے حالاتِ زندگی تو اس سلسلہ میں بھی بہت بڑا کم محدثین ہی نے کیا کیونکہ علم تاریخ بھی شرعی علم اور قرآنِ کریم کے پنجگانہ علوم میں سے ایک ہے بلکہ محدثین نے اپنے ذوقِ تحقیق سے اس فن کو اتنی ترقی دی کہ انہی کے فیضِ کرم سے اس علم کو اعتماد و وقار حاصل ہوا۔ گویا علم تاریخ میں تحقیق و تنقید کی یہ ریت ڈالنا مسلمانوں کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ لیکن محدثین کے علاوہ کئی دوسرے مؤرخین نے بھی اس سلسلہ میں سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق تاریخ کے مختلف حصوں پر مشتمل معلوماتی مواد اکٹھا کیا۔ اگرچہ یہ لوگ تحقیق و تنقید کا محدثانہ معیار تو قائم نہ رکھتے تھے تاہم علماء نے ان کے کام کی قدر کی اور اسے تاریخ میں شامل رکھا کیونکہ تاریخ کا وہ حصہ جسے کوئی شرعی حیثیت حاصل تھی، اسے تو محدثین نے حدیث ہی کا حصہ بنا دیا تھا جس کی چھان پھٹک بھی محدثانہ معیار پر تھی۔ باقی حصہ کو اسلام کے اصولی مسائل (فقہ اکبر) اور حرام و حلال (فقہ اصغر) کے لئے ناقابلِ استناد قرار دے کر عام تاریخ شمار کیا جس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ واقعات کا کچھ تفصیلی خاکہ ہمارے سامنے آجاتا ہے جو نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کا مصداق ہے۔ نیز وہ شخصیتیں جو اگرچہ دینی نہیں لیکن اپنی دنیاوی اہمیت کی وجہ سے دین و شریعت پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں ان کا سوانحی خاکہ اگر یقینی حیثیت میں نہیں تو اس تفصیل سے ان کے متعلق اجمالاً اتنا علم ضرور حاصل ہو جاتا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ اس طرح علم تاریخ سے سابقہ تجربات کا فائدہ بھی ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ تاریخ کے لئے باوجود محدثانہ معیار قائم نہ رکھنے کے مسلمانوں نے اصولِ روایت کا اتنا معیار ضرور ملحوظ رکھا ہے کہ تاریخ جاہلیت کی طرح بے سروپا کہانیوں اور بے سند قصوں کا مجموعہ نہ رہ جائے۔ جن علماء نے تاریخ دانی میں ایک مقام حاصل کیا اور کتب تاریخ بھی تصنیف فرمائیں ان میں سے بخاریؒ، طبریؒ، ابن سعدؒ، ابن ہشامؒ، ابن عبد البرؒ، ابن حزمؒ، ابن اثیرؒ، ابن کثیرؒ، ابن حجرؒ، ابن تیمیہؒ، ابن القیمؒ، ابن خلدونؒ ، خطیب بغدادیؒ اور سیوطیؒ کی کتبِ سیر و تواریخ خصوصی طور پر قابلِ اعتماد اور علماء کے ہاں متداول ہیں۔
علمِ تاریخ سے قریبی تعلق رکھنے والا ایک علم، علم جغرافیہ ہے جس میں مشاہیر زمانہ کے بجائے حالاتِ مقام و مکان سے متعلق بحث ہوتی ہے اور مختلف خطوں اور علاقوں کی خصوصیات کا ذِکر ہوتا ہے۔ اگرچہ فی زمانہ اس سلسلہ میں یورپ نے بڑی شہرت حاصل کی ہے لیکن مسلمان سیاحین کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کام کی ابتداء مسلمانوں نے ہی کی اور اپنے ترقی یافتہ دور میں انہوں نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے / مثلاً مشہور مسلمان جہاں پیما ابن بطوطہ کا ایک واقعہ ان کے دور دراز کے سفر اور سیاحت کا پتہ دیتا ہے، وہ یہ کہ جب ابن بطوطہ سکندریہ پہنچے تو شیخ برہان الدین اعرج کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے دورانِ ملاقات اپنے تین بھائیوں کو، جن میں سے ایک فرید الدین نامی ہند میں تھے، دوسرے زین الدین سندھ میں اور تیسرے برہان الدین چین میں تھے۔ سلام پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ ابن بطوطہ نے ان سب کو فرداً فرداً مل کر ان کا سلام پہنچایا۔ افسوس! کہ آج مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے ساتھ ہی اس کام کے امین غیر بن گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے یہ عظیم الشان کارنامے بھی گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔
رحلۂ اُدباء:
مسلمانوں کی الہامی کتاب ''قرآن'' اور ان کے پیشواء محمد رسول اللہ (ﷺ) کی زبان چونکہ عربی تھی اس لئے کتاب و سنت کے فہم و سنت کے فہم و بصیرت کے لئے عربی زبان کی واقفیت نہایت ضروری ہے مسلمانوں نے اس کا احساس کرتے ہوئے اور عربی ادب کو دین سمجھتے ہوئے اس کی بڑی خدمت کی اور اسے نہ صرف سیکھا سکھایا بلکہ اس کے لئے بڑے بڑے علوم ایجاد کیے۔ صرف و نحو، بلاغت، عروض و قوافی، لغت وغیرہ بیش بہا قیمتی علوم مسلمانوں ہی کے وضع کردہ ہیں۔ جہاں تک اصل عربی ادب و زبان کا تعلق ہے۔ اس کے لئے دورِ جاہلی صدرِ اسلام اور اموی دور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوران شعر و شاعری اور لغت و ادب کا مرکز زیادہ تر حجاز ہی رہا اور باقی قبائل کی حیثیت ثانوی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بھی لغتِ حجاز ہی میں نازل ہوا اور اسی لیے کتاب و سنت کے فہم کے لئے بطور استناد اسی دور کی زبان پیش کی جا سکتی ہے۔ لیکن بعد میں مؤلدین کی کثرت کی وجہ سے اور شہری ماحول اور قوموں کے کثیر اختلاط کی وجہ سے زبان کا وہ معیار قائم نہ رہ سکا۔ تاہم اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایک جمِ غفیر عربی زبان کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آیا جن کی کوششوں سے بیسیوں نئے علوم معرضِ وجود میں آئے۔
بقول علامہ فرید وجدی (صاحب دائرۃ المعارف) سب سے پہلے جس نے اس سلسلہ میں سفر اختیار کیا وہ یونس بن حبیب (متوفی ۱۸۳ھ) تھے۔ ان کے بعد مشہور شاعر خلف الاحمر تھے جنہوں نے صرف عربوں کی شعر و شاعری اور ان کے اصلی حالات معلوم کرنے کے لئے بدوؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ہاں رہے۔ انہوں نے ۱۸۰ھ میں وفات پائی۔ ان کے بعد مشہور نحوی خلیل بن احمد نے قبائل عرب سے مل کر ان کی مادری اور اصلی زبان کی چھان بین کی۔ ان کا سن وفات ۱۷۵ھ ہے۔ ان کی پیروی میں ابو زید انصاری (متوفی ۲۱۵ھ) نے عرب علاقوں کا سفر کیا اور بدوؤں سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔ یہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری تک چلتا رہا۔ پھر عرب دیہات کی زبان بھی دست بردِ زمانہ سے نہ بچ سکی۔ نیز عربی زبان اور اس کے متعلقہ علوم مدون ہو کر عربی ادب اس قدر محفوظ ہو چکا تھا کہ پھر بغرضِ تدوین رحلہ کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اگرچہ بعد میں علیم و تعلّم کی غرض سے یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اس کے لئے کوئی علاقہ مخصوص نہ رہا۔
اِس دور میں اس بات کا ذِکر فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ عربی زبان و ادب میں احتیاط کا یہ عالم تھا (مثلاً بعض ادباء سے منقول ہے) کہ جو ادباء زبان کی تعلیم کی غرض سے شہروں میں آتے تو علماء پہلے ان کا امتحان لیتے۔ اگر وہ شہری زبان سے ناواقف ہوتے تو ان سے اخذ علم کرتے ورنہ ان سے نقل کرنا احتیاط کے منافی سمجھتے۔ پھر جب شہریوں کے ساتھ اختلاط سے یہ لوگ شہری زبان سے خوب واقف ہو جاتے تو ان سے عربی زبان سیکھنا بند کر دیتے۔ جاہلی شراء کا کلام حفظ کرنے والے تو بہت ہیں لیکن یہاں رحلہ کے اعتبار سے ان کا ذِکر غیر متعلق ہے۔ ہاں رحلۂ تعلیم و تعلّم کی چند ایک مثالوں کا ذِکر مناسب رہے ا۔
حماد بن راویہ (متوفی ۱۵۵ھ) جنہیں ولید بن یزید نے ۲۹۰۰ قصائد از بر ہونے پر کامیابی کی سند دی تھی، کا ذِکر ہے کہ ایک دفعہ ہشام ابن عبد الملک کو ایک شعر کے قائل کا علم نہ ہو سکا۔ وہ شعر یہ تھا:
حاشیہ
لغت میں فقہ ''فہم'' کو کہتے ہیں اور اس لفظ یا اس کے مشتقات سے قرآن و حدیث میں ''فہم'' ہی مراد لیا جاتا ہے لیکن بعد کی اصطلاحات میں کتاب و سنت سے مستنبطہ مسائل و احکام کو ''فقہ'' دے دیا گیا۔ ہمارے ہاں مروجہ فقہ مذاہب مکتب فکر (School OF Thought) کے اختلاف کے اعتبار سے الگ الگ شمار ہوتی ہیں۔
شاہ صاحب کے نزدیک فقہیہ کی دو قسمیں ہیں۔ فقہائے اہل حدیث اور فقہائے اہل الرائے، مثلاً ائمہ اربعہ میں سے مالک، شافعی اور احمد (رحمہم اللہ) پہلی قسم یعنی اجتہاد و استنباط کے ماہر محدثین ہیں اور امام ابو حنیفہؒ دوسری قسم کے فقیہ ہیں۔ (ادارہ)
پنجگانہ علوم کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفوز الکبیر اور دیگر کتب اصول التفسیر نیز واضح رہے کہ ہمارا مروجہ فن تاریخ بعینہٖ قرآنی علوم میں سے نہیں ہے کیونکہ قرآنِ کریم میں جن قصص کا بیان ہے اس سے مقصود فقط عبرت و موعظت ہے نہ کہ انبیاء یا اممِ سابقہ کے حالات۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر مناسبتِ مقصد سے ایک ہی واقعہ کو کم و بیش کر کے بیان کیا ہے اور حالات میں نہ تو زمانی ترتیب کا لحاظ رکھا ہے اور نہ ہی انہیں اکٹھا بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ البتہ ان قصص سے جن حالات کا پتہ چلتا ہے وہ فنِ تاریخ کا مستند ترین باب ہے۔ البتہ ان دوسرے علوم کی طرح فن تاریخ کے لئے تحقیق و تنقید کے اصول قرآن ہی نے بتائے ہیں۔
حضرت عمرؓ کا مشہور فرمان ہے: تعلموا العربية فإنھا من دینکم۔ عربی زبان سیکھو یہ تمہارے دین سے ہے۔
عربوں کی وہ اولاد جو غیر قوموں کے اختلاط سے پیدا ہوئی۔
شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور تصنیف ''حجۃ اللہ البالغہ'' میں علمِ طب کو دنیاوی امور سے شمار کیا جن کا دار و مدار تجربہ پر ہے اور اس سلسلہ میں نبی ﷺ کی ہدایات کو آپ کے فرمان
إنما أنا بشر إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به وإذا أمرتكم بشيء من رأيي فإنما أنا بشر پر محمول کیا ہے۔ (واللہ أعلم) ملاحظہ ہو حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۲۸ ج۱۔
یہ مقولہ ہے حدیث نبوی ﷺ نہیں ہے۔
روح سے مراد طبّی روح ہے۔
علمائے سلف و نابینا علماء بحوالہ عیون لا بناء ص۲۱۹ ج ۲
ابلیس کو نافرمانی کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا تھا لیکن چونکہ عام جنات نے کوئی نافرمانی نہ کی تھی اس لئے وہ انسان کی طرح مکلف ہی رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی امانتِ علمی کا امین بننے کی وجہ سے خیر البریہّ انسان ہی قرار پایا اور نبوت اس کا خلاصہ بنی واضح رہے کہ انسان سے قبل جنات کے انبیاء انہی میں سے ہوتے تھے لیکن آدم کے بعد یہ نبوت آدم کے حصہ میں آئی۔ نبوت کا چھیننا کوئی ان کے لئے سزا نہ تھا بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہے دے۔ ان کے سردار ابلیس کی نافرمانی کی وجہ سے اگر اپنا کوئی جزوی فضل و احسان ان پر نہ کیا یا اگر انسان کی افضلیت کی وجہ سے انسان ہی اللہ تعالیٰ کا نمائندہ (نبی) قرار پایا تو اس پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے سورۃ البقرہع ۴ اور سورۃ الاحزاب کے آخری رکوع میں غور فرمائیں۔
حضرت سلیمان کی تو ان پر حکومت بھی تھی اور یہ آپ کے بہت سے کام سر انجام دیتے تھے۔ قرآن کریم (سورۂ سبا) میں ان کا بیت المقدس کی تعمیر کرنے کا ذِکر ہے۔ لیکن اب سلیمانی کی دعا کی وجہ سے انہیں محکوم بنانا ممنوع ہے۔
قرآن کریم میں بھی قرآن کو سن کر جنوں کا ایمان لانا مذکور ہے: وإذ صرفنا إليك نفرا من الجن يستمعون القراٰن أولئك في ضلٰل مبين (سورۃ الاحقاف: آیت ۲۹ تا ۳۲)