دینی مدارس کے نصاب اور طرزِ تعلیم پر ایک نظر

زیرِ نظر مقالہ دینی مدارس کے نظامِ تعلیم کی اصلاح کے پیش نظر سپرد قلم کیا گیا ہے۔ یہ ایک طالب علم کے تاثرات ہیں جو معزز قارئین تک پہنچا کر اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔ تعلیم و تدریس پر کوئی تبصرہ اور اس کے نظام کی مکمل خرابیوں کو اجاگر کرنا اگرچہ ماہرینِ تعلیم کا کام ہے اور انہی کی رائے کسی اعلیٰ قدر و قیمت کی حامل ہو سکتی ہے۔ لیکن میں نے اس نازک موضوع پر قلم اس لئے اُٹھایا ہے کہ اس پر دوسروں کو تحریک ہو اور ہمارے دینی مدارس کی اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے۔

میں نے مدارس میں مروجہ علوم و فنون کی زیرِ درس کتب اور ان کے طرزِ تدریس پر جو بحث کی ہے اگرچہ یہ میرے ذاتی تاثرات ہیں لیکن میں نے اپنے ذوق کے مطابق اس سلسلہ میں دُورس نظر کے حامل علماء اور اصلاح کے خواہاں ماہرینِ تعلیم کی کتب سے فائدہ اُٹھایا ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ میرے افکار کو ان کی قیمتی آراء سے بھی زبردست تائید ملتی ہے اس لئے الحمد للہ میں اپنے تاثرات کو نہایت اعتماد سے پیش کر رہا ہوں۔

باقی رہا خامیوں کو دور کر کے مفید تجاویز کو اپنانا سو یہ اربابِ مدارس کی ذمہ داری ہے جو تعلیمی امانت کے امین اور دینی مدارس کے زیرِ تعلیم طلبہ کے کفیل ہیں۔ حالات اس شدّت سے اصلاحِ تعلیم کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے اس تبدیلی کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو علم نہیں، دینی تعلیم اور اس کے حاملین کا مستقبل کیا ہو؟ علماء کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور اجتماعی کوششوں سے اصلاح احوال کرنی چاہئے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ علماء معاشرہ کے لئے اپنی رہی سہی اہمیت اور افادیت بھی کھو بیٹھیں گے۔ ؎

گرم فغاں ہے جرس، اُٹھ گیا قافلہ       وائے وہ راہرو کہ ہے منتظر راحلہ (اقبال)

برصغیر پاک و ہند میں اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی علوم کی مجالسِ درس و تدریس بھی قائم ہوئیں۔ ان مجالس میں عام طور پر ابتدائی صرف و نحو اور فارسی کے بعد فقہ اور اصولِ فقہ کی تعلیم کا اہتمام تھا۔ علومِ قرآن و حدیث برصغیر کی مجالسِ درس کے لئے ایک حد تک غیر مانوس تھے۔ تبرکاً بعض اساتذہ حدیث کی ایک آدھی کتاب پڑھا دیتے تھے۔ علومِ عربیہ صرف و نحو وغیرہ کی تعلیم بھی بہت معمولی ہوا کرتی تھی۔ صوفیا کی مجالسِ ذکر و فکر میں اگرچہ تصوف کا زور تھا لیکن اعلیٰ اور مستند کتابوں سے ان بزرگوں کی محافل خالی ہی ہوا کرتی تھیں۔

برصغیر میں دینی علوم:

مروّجہ تعلیم فقہ و اصول میں بھی اجتہاد و استنباط کو دخل تھا نہ کہ اصولِ فقہ پر فروعِ فقہیہ کے انطباق کا رواج۔ کیونکہ یہ اصول وضع ہی اس لئے کئے گئے تھے کہ ان سے فروعِ حنفیہ کے لئے کتاب و سنت سے جواز پیش کیا جا سکے۔ گویا یہ اصول فروع کے لئے تھے نہ ہ ان اصولوں کے ذریعہ کتاب و سنت سے فقہ کا استنباط مقصود تھا۔ علاوہ ازیں آپ اسے ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی حالات کہہ لیجئے یا علماء ماوراء النہر کے طرز تفقہ کی کرم فرمائی (جن کے توسط سے فقہ و اصول ہندوستان میں در آمد ہوئے) کہ یہاں شخصیت پرستی اور متوارث خیالات و ادہام (اباً عن جدٍ) نہ صرف عوام کے دماغوں پر مسلط تھے بلکہ خواص اور حاملینِ علومِ شریعت بھی ان سے محفوظ نہ تھے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں سب سے بڑا دخل صوفیائے کرام کے اثر کو تھا۔ ان کا احترام مسلمان بادشاہ بھی کرتے تھے بلکہ انہیں وہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے۔ چونکہ یہ طبقہ درویشی اور صلحِ کل اور ہر ایک کے متعلق حسن ظن کی پالیسی پر قائم تھا۔ اس لئے ان کے متصوفانہ خیالات و افکار کو بڑی پذیرائی ہوئی اور عوام و خواص توہم پرستانہ میلانات کی بنا پر انہیں قبول کرتے رہے لیکن اس عام ذہنیت کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ غیر اسلامی اوہام و مراسم اسلام کے نام پر رواج پکڑتے رہے اور بالآخر انہی عقائد و اعمال نے جڑیں پکڑ لیں۔

اس متصوفانہ اسلام کا یہ اثر ہوا کہ اسلام کے اصل اصول کتاب و سنت اور اس کے اولین علمبردار و شارحین صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین کا طرزِ فکر و عمل گوشۂ نسیان میں پڑ گیا اور ائمہ اربعہ بلکہ مذاہب اربعہ میں سے بھی صرف حنفی فروع و اصول ان کے سامنے رہ گئے۔ البتہ اساتذہ و طلبہ کودوسرے ائمہ کے صرف فروع سے اتنی واقفیت ہوتی تھی کہ فلاں مسئلہ میں امام شافعیؒ یا شافعیہ ہمارے مخالف ہیں اور وہ بھی اس حد تک جس کا ذِکر مروجہ حنفی کتبِ فقہ میں تھا۔ باقی رہے ان کے اصول تو ان سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا کیونکہ مقلد کے لئے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اذہان کا یک طرفہ طور پر مطمئن رہنا اور اسے ہی کامل و خالص اسلام سمجھنا ایک ناگزیر امر تھا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل کے معدودے چند مصنفین کو چھوڑ کر اکثر کی تصانیف اسی جامد اور غیر محققانہ روش کی آئینہ دار ہیں جس کا شکوہ حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی تصانیف میں جا بجا کرتے ہیں۔

اوپر ذِکر ہو چکا ہے کہ ہندوستانی علماء کی نظر میں قرآن و حدیث اور صحابہ و تابعین کے فقہی طور طریقے کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے اور نہ ہی برصغیر کی تعلیمی و تدریسی مجالس میں ان کی کوئی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح عقائد کا حال تھا۔ علماء کی توجہ عقائد کی طرف ہوئی بھی تو کتابی صورت میں وہ مجموعہ جات ان کے سامنے آئے جو بعید از کار فلسفیانہ مباحث پر مشتمل تھے جن میں فلسفہ کی مبادیات و اصول کو عقائد کی بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اگر کوئی نظریاتی اختلاف زیرِ بحث آتا بھی تو انہی مسلمات کے ذریعہ حل کیا جاتا جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ مبدأ اور معاد کی تفصیلات فلسفہ و کلام سے طے ہونے لگیں اور مروجہ علم کلام سے حل شدہ جملہ تفصیلات نے اسلامی عقائد کی حیثیت اختیار کر لی اور اس سلسلہ میں حاملِ وحی حضرت رسول اکرم ﷺ اور ان کے تعلیم و تربیت یافتہ سلف صالحین کا طرزِ فکر بالکل نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ ان متکلمانہ مباحث اور نظریات سے عموماً اور متاخرین علمائے کلام جن کے توسط سے یہ علم ہندوستان میں رواج پذیر ہوا، کی ''ان قیل قلت'' جیسی لفظی بے معنی اور غیر مقصود بحث سے خصوصاً بھول بھلیاں ہی سامنے آئیں جبکہ علمائے سلف کا انداز فکر ٹھوس اور سادہ ہونے کے ساتھ یقین و ایمان کی دولت سے بھی مالا مال کرتا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ وہ احتیاط جو تفرق و انتشار سے بچنے کے لئے اسلام کے اصول (عقائد) میں اختیار کرنی چاہئے تھی (کیونکہ وہ امور غیبیہ سے متعلق اور غیر متبدل ہیں) وہ تقلید و انجماد کی شکل میں فروعاتِ فقہیہ میں واجب قرار دی گئی جبکہ دنیا میں حالات کی تغیر پذیر ہونے کی وجہ سے ان کے لئے اجتہاد و قیاس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہئے تھا (کیونکہ فقہی اختلاف جبکہ وہ مقلدانہ نہ ہو تشتّت و افتراق کا مسبب نہیں بلکہ اختلاف مکان و زمان کی وجہ امت کے لئے آسانی اور رحمت کا باعث ہوتا ہے۔)

میں یہ بھی واضح کر دوں کہ فلسفہ و کلام کو اسلامی قرونِ وسطےٰ میں اگر علمائے اہل سنت نے استعمال کیا بھی ہے تو فلسفۂ یونان و عجم کے مقابلہ کی ضرورت سے تاکہ ان کے عقائد و اعمال کا بطلان ان کے مسلمات اور اندازِ فکر سے ان پر واضح کیا جائے نہ کہ اسلامی عقائد و اعمال کے اثبات کے لئے کہ اس کا واحد ترجمان کتاب و سنت ہے۔ (ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ سنتي)

ہندوستان میں علومِ عقلیہ کا داخلہ:

برصغیر میں علومِ عقلیہ کا داخلہ مغلیہ دورِ حکومت میں ایران کے راستہ سے ہوا ہے۔ اہلِ ہند کے لئے یہ علوم نئے تھے۔ اسی لئے یہ لوگ اسے نئی چیز سمجھ کر پورے انہماک سے ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن یہ ان کی قسمت تھی کہ ہندوستان میں متاخرین کی کتابیں ان کی مرعوب کن شخصیتوں کے ہمراہ آئیں۔ چنانچہ وہ کتابیں ہندوستان کی مجالسِ تدریس میں مقبولیت حاصل کر گئیں اور انہیں علم کے متوالے اپنا مرکزِ فکر بنا کر بیٹھ گئے۔ اس طرح بجائے مختلف نظریات سے شناسائی حاصل کرنے کے ہندوستانی بد قسمتوں کے حصہ میں وہی بے مقصد لفظی بحثیں اور بے معنی نکتہ آفرینیاں رہ گئی اور بقولِ سید سلیمان ندویؒ ہم قیل و قال کے مکدّر گڑھے میں گر گئے جس سے تلخیص و تشریح اور تحشیہ در تحشیہ کا بگڑا ہوا مذاق پیدا ہو گیا۔ لہٰذا علوم عقلیہ میں بھی اجتہادی اور انتقادی کام سے ان کی عقلی قوتیں محروم ہو گئیں۔ ان کتابوں کی بنا محض قیاسات اور اٹکل پچو کلیات پر تھی اور علمائے ہند جز لا یتجزی کے ثبوت کے لئے اجزا کو وہم کی قینچی سے کاٹنے میں مصروف ہو گئے جس سے ان کی تجرباتی قوتوں کو کسی قسم کی کوئی مشق نہ ہو سکی بلکہ متأخرین کے عام سلسلۂ فکر کی تقلید میں ہندوستانی علماء و طلباء کے سامنے سے تجربے کی اہمیت اُٹھ گئی اور وہ بھی اسے اپنے علمی درجے سے پست خیال کرنے لگے اور اس سے کام لینا صرف اہلِ صنعت و حرفت کے لئے مخصوص سمجھا جان لگا اور ''علومِ عالیہ'' کے لئے بھی صرف ذہنی اور گھڑے ہوئے کلیوں کو کافی ہی نہیں سمجھا گیا بلکہ انہیں ہی اہم مانا گیا۔ طبیعات، الٰہیات، منطقیات کی بھی یہی حیثیت تھی۔ عقلیات میں سے وہ فنون جن کو عملی اغراض سے تعلق تھا۔ مثلاً ریاضیات وغیرہ انہیں اس معنی میں کوئی خاص ترقی حاصل نہ ہو سکی کہ مختلف مشاہدات و تجربات سے ان کے مسلمہ اصول و ضوابط میں کمی بیشی یا اصلاح و ترمیم کی جاتی یا مزید اصولوں کا استخراج کیا جاتا مگر برخلاف اس کے اگلوں کو ''معصوم'' اور ''ہمہ دان'' مان کر ان کے کلام کی توجیہ و تاویل پر ہی اکتفا کیا گیا اور اس میں بھی تلخیص و تشریح اور حواشی سے آگے نہ بڑھ سکے۔ (یونانی علوم او۔ عرب ص ۱۹۸)

پاکستان کے اسلامی عربی مدارس:

بالکل جدّت میں ڈھلے ہوئے چند مدارس کو چھوڑ کر ہمارے موجودہ دینی مدارس کا ڈھانچہ بھی انہی اثرات کی پیداوار ہے اور مذکورہ بالا علمی ماحول ہمارے اذہان میں راسخ ہے اور اسی فکری نہج پر ہمارے مدارس کا نصاب مرتب کیا گیا ہے۔ اساتذہ کے تعلیم و تربیت کے انداز نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جو اس نصاب کی تکمیل کے بعد، ممکن تھا کہ، رہ جاتی اور طلبہ کو اس طرزِ فکر سے نجات دلا سکتی۔

مسلمانوں کے علوم کے دو عہد:

قبل ازیں کہ ہم دورِ حاضر کے نصابِ تعلیم پر نظر کریں ہمیں مسلمانوں کے دو علمی دوروں پر نظر ڈال لینی چاہئے اس سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مروجہ مدارس میں کس قسم کی ذہنی تربیت کرنی چاہئے۔

ترقی کا دور:

جس کو بھی مسلمانوں کی علمی تاریخ سے دلچسپی ہے وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی علمی فتوحات کا دور اور ان کی مجتہدانہ قوتِ تصنیف کا عہد ساتویں یا پھر زیادہ سے زیادہ آٹھویں صدی ہجری پر ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے تقریباً تمام علمی اکتشافات خواہ وہ فلکیات سے متعلق ہوں یا عنصریات سے، طبعیات سے تعلق رکھتے ہوں یا کیمیا سے، ہندوسی ہوں یا حسابی، جغرافیائی ہوں یا تخطیط الارض سے متعلق سب انہی صدیوں سے متعلق ہیں۔ اسی طرح علوم استخراجیہ کا استخراج اور ان کی تدوین بھی انہی صدیوں کے اندر ختم ہو گئی اس کے بعد اگر کچھ باقی رہا تو صرف تلخیص و شرح اور نقل و تحشیہ۔ الاّ ماشاء اللہ۔

اس دور کی تصانیف میں واضح طور پر فنی عروج، تحقیقی اور انتقادی ذہنیت کا رنگ پہلی نظر میں ہی نمایاں ہو جاتا ہے۔ جزئیات سے کلیات کے استنباط کی کوشش ہوتی ہے۔ ہر فن پر بحیثیت اس کے فن ہونے کے غور کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک فن کے مسائل کی ترجیح میں دوسرے فن کے اصول و ضوابط کو داخل کر دیا گیا ہو۔ دلائل میں فرضی کلیات کی نسبت استقراء کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ صحیح تحقیق و تنقید میں اکابر پرستی اور ائمہ کی پیروی حائل نہیں ہے۔ اس اسالیب کا واضح ثبوت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی تصانیف ہیں۔

انحطاط کا دَور:

برعکس اس کے بعد کے علماء تہذیب و تنقیح کے اعتبار سے خواہ متقدمین پر فائق ہیں لیکن ان میں فنی عروج کی بجائے جمود و تقلید ہے۔ اجتہادی قوت کی قلت اور اکابر پرستی کے باعث صرف متقدمین کے کلام کی توجیہ و تاویل پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید اوّلاً تو ہے ہی نہیں اگر ہے تو فنی وجوہ اور استقرائی دلائل پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہر فن غیر فنی مباحث سے بھرا ہوا ہے۔ اعتراضات و جوابات کی بھرمار ہے مگر ان کا تعلق اصولی حیثیت سے اس فن سے بالکل نہیں ہے مثلاً نحو، صرف اور بلاغت کے مسائل جن کی حیثیت خالص لسانی ہے اور اہل زبان کے سماع پر مبنی ہیں۔ ان پر عقلی دلائل سے نظر کرنا متاخرین علماء کی خصوصیت ہے۔ لفظی کج بحثیاں، بے معنی نکتہ آف؛رینیاں، سوال در سوال، جواب در جواب، تلخیص در تلخیص اس قدر کہ کتاب ایک معمہ اور چیستان معلوم ہونے لگے۔ عملاً متقدمین پرستی اور وہ بھی جانبدارانہ، ان تصانیف کا عام انداز ہے۔ شروح اور حواشی ایسی توجیہوں اور تاویلوں سے پُر ہیں جو موجدینِ فنون کے ذہنوں کے قریب سے بھی کبھی نہ گزری ہوں گی۔ اور نہ ہی بآسانی ان کی طرف کسی قاری کا ذہن منتقل ہو سکے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ بجز ابتدائی رسائل کے متاخرین کی کتب سے یہ تو ممکن ہے کہ قاری ''شیخ الکل'' بن جائے مگر وہ فن جس میں وہ لکھی گئی ہیں کسی طرح بھی نہیں آسکتا۔ اجتہادی قوت کا پیدا ہونا تو ایک بہت بڑی بات ہے۔

موجودہ مدارسِ عربیہ کا نصابِ تعلیم:

ان دونوں عہدوں (متقدمین و متاخرین) کی خصوصیات کو سامنے رکھنے کے بعد ہمیں موجودہ مدارس عربیہ اسلامیہ کے نصاب ہائے تعلیم پر ایک سرسری نظر کرنی چاہئے۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام مدارس ایک ہی نہج پر ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض میں کوئی ترمیم و اصلاح بھی ہو۔ مگر بات اکثریت کی ہے۔ دورِ حاضر کے نصاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے قدیم مدارس کی تمام کتب کا احصاء ہو جائے۔ میری معلومات کی حد تک اکثر مدارسِ عربیہ میں نحو ''کافیہ'' اور 'شرح جامی'' تک، صرف ''فصول اکبری'' اور بعض میں 'شافیہ'' تک، تفسیر ''جلالین'' یا ''جامع البیان'' اور مولوی فاضل زدہ مدارس میں ''بیضاوی کی سورۂ بقرۃ'' تک زیرِ درس ہیں۔

عقائد و کلام میں ماسواے چند مدارس کے ''شرح عقائد نسفی'' ہی زیرِ درس ہے۔ اصول فقہ میں ''اصول شاشی، نور الانوار'' اور بعض مدارس میں ''توضیح و تلویح'' اور بہت کم مدارس میں ''ارشاد الفحول'' شامل ہیں۔ فقہ میں ''شرح وقایہ، ہدایہ'' اور چند مدارس میں ''ابن رشد کا بدایہ'' داخلِ نصاب ہے۔ عربی نظم میں ''حماسہ، متنبی'' اور بعض مدارس میں ''السبع المعلقات'' زیرِ تدریس ہیں۔ عربی نثر کی ''تاریخ ادب العربی، مقاماتِ حریری'' اور ''عبرات'' پڑھائی جاتی ہیں۔ منطق کی شرح 'تہذیب'' یا ''مسلم'' اور بعض مدارس میں ''ملا حسن'' شامل ہیں۔ حکمت میں ''ہدیہ سعیدیہ'' میبزی'' اور بعض میں ''شمس بازغہ'' زیرِ درس ہیں۔ ہیئت، ہندسہ اور حساب قریب قریب نصاب سے خارج ہی ہیں الا ما شاء اللہ۔ تاریخ خواہ کسی قسم کی ہو وہ ناب کا جز نہیں ہے۔ بہت کم مدارس میں تاریخ اسلام کی ایک دو کتابوں کا رواج ہے وہ بھی ادبی نقطہ نگاہ سے۔ حدیث اب قریباً مکمل صحاح ستہ پڑھایا جانے لگا ہے مگر اکثر غیر مانوس طور پر۔

جہاں تک تعلیم و تدریس کا تعلق ہے غالباً یہ نصاب کافی خیال کیا جاتا ہے لیکن مطالعہ کے لئے اساتذہ اور طلبہ دونوں کے نزدیک یہ کتابیں کافی نہیں ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی یا پھر کم از کم اساتذہ کے مطالعہ میں عموماً ان کتابوں کی شروح اور حواشی رہتے ہیں۔ چنانچہ ہر کتاب کے لئے اس کے متعد دحواشی اور شروح کا سامنے رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ شروح اور حواشی تمام کے تمام متاخرین علماء کی جودتِ طبع کا شاہکار ہوتے ہیں جن کے اسلوبِ نگارش پر ہم اوپر خامہ فرسائی کر چکے ہیں۔ ان حواشی کا مقصد نہ کتاب کا حل ہے اور نہ ہی فن کا احصاء۔ بلکہ محض اپنی ذہانت اور دقتِ نظر کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس نہج پر اساتذہ کرام چلتے ہیں، وہ جس قدر بھی اِدھر اُدھر قیل و قال کی گتھیاں سلجھائیں اسی قدر فخر محسوس کرتے ہیں اور طلبہ بھی اسی اندازِ تدریس پر ہمہ وقت مر مٹنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ اکثر حواشی کا سمجھنا اصل کتاب سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ غالباً اِس فن سے اس حاشیہ کو صرف اور صرف اسی قدر واسطہ ہوتا ہے کہ وہ اس فن کی ایک کتاب پر لکھا ہوا ہے۔ پھر یہ ہے کہ مدارس میں داخلِ نصاب کتب اکثر مکمل بھی نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ چند ایک ابتدائی کتاب کے علاوہ نہ صرف یہ کہ مکمل نہیں بلکہ نصف اور ربع تک داخلِ نا ہیں۔ بعض کتب کی مقدارِ درس اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہمارے مطابع ان کی اشاعت کے لئے بھی انہی حصوں کو منتخب کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ تفسیر بیضاوی اور نفحۃ الیمن وغیر کتب کا مکمل دستیاب ہونا بھی مشکل ہے۔

قبل ازیں کہ ہم مذکورہ فنون کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں، کسی ہندی عالم کے چند عاربی اشعار، ظرافتِ طبع کے لئے پیشِ خدمت ہیں۔ (ولنعم ما قیل فی علماء الھند) ؎
ايا علماء الھند طال بقائكم وزال بفضل الله عنكم بلائكم
رجوتم بعلم العقل فوز سعادة وأخشي عليكم أن يخيب رجائكم
فلا في تصانيف الاثير هداية ولا في إشارات ابن سينا شفائكم
ولا طلعت شمس الھدي من مطالع فاوراتھا ويجوركم لا ضياء كم
وما كان شرح الصدر للصدر شارحا بل ازداد منه في الصدور صداءكم
وبازغة لا ضوء فيھا إذا بدت وأظلم منھا كالليالي ذكاءكم
وسلمكم مما يفيد تسفلا وليس به نحو العلوار تقاءكم
فما علمكم يوم المعاد بنافع فيا ويلتٰي ما ذا يكون جزاءكم
أخذتم علوم الكفر شرعا كأنما فلا سفة اليونان ھم أنبياءكم
موضتم فزدتم علة فوق علة تدا و وابعلم الشرع فھو وائكم

صحاح حديث المصطفي وحسانه

شفاء عجيب فليزل منه داءكم

(مقدمہ تحفۃ الاحوذی)

(باقی آئندہ)