معرکۂ حق و باطل

تم سے دنیا نے اخوت کا سبق سیکھا تھا شرم کا، مہر و مروت کا سبق سیکھا تھا
تم نے انسانوں کو اک راہ نئی بخشی تھی جامِ جم بخشا تھا اور دولتِ کئی بخشی تھی
آج کیوں تم کو وہ ایامِ وفا یاد نہیں وہ بزرگوں کا چلن، حکمِ خدا یاد نہیں
تم کہ صحراؤں کے دل چیر کے رکھ دیتے تھے تم کہ دریاؤں کے دل چیر کے رکھ دیتے تھے
قوتِ دین کی ضربت سے چٹانیں توڑو تیر بیکار کرو وار کمانیں توڑو
ہاں کبھی چہرٔہ تاریخ کا غازہ تم تھے دلِ کونین میں اک ولولۂ تازہ تم تھے
کون کہتا ہے کہ میدان میں ہارے تم ہو کون کہتا ہے کہ تقدیر کے مارے تم ہو
وہم ہے، غلبۂ باطل بھی کبھی ہوتا ہے؟ غیرِ حق، فتح کے قابل بھی کبھی ہوتا ہے؟
عمر فاروقؓ بنو، حیدرِ کرار بنو! گردنِ کفر پہ اللہ کی تلوار بنو
غم و اندوہ کے اس عہدِ دوامیسے کیا کس نے انسان کو آزاد غلامی سے کیا
سایۂ کفر میں خور سند ہوئے جاتے ہو تم کہ ذلت پہ رضا مند ہوئے جاتے ہو