ان کالموں میں یہ مضمون درس قرآن، جس کی ابتدا ہم نے اپریل ۷۲ء سے کی تھی، کی قسط نمبر ۲ کی جگہ شائع کیا جا رہا ہے کیونکہ اسے ہم ان شاء اللہ ''اسلامی معیشت نمبر'' میں مسئلہ معیشت کی شرعی حیثیت سے ایک مستقل مضمون کی شکل میں ہدیۂ قارئین کریں گے۔نیز خاص نمبر تک ہم نے درسِ قرآن کو ملتوی کر دیا ہے کیونکہ اس وقت کئی دیگر مضامین کی فوری اشاعت (جس کا ہم اعلان کر چکے تھے) بھی ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نے خاص نمبر کے بعد درسِ قرآن اور درس حدیث دونوں کی مستقل اشاعت کا فیصلہ کیا ہے۔ (وھو الموفق)
کسی گھڑی یا دیواری گھنٹے کے اندر خواہ کتنے ہی خوبصورت پرزے ہوں، کیسی ہی قیمتی دھاتیں استعمال کی گئی ہوں۔ دانش و حکمت کا ان کی ترتیب میں کتنا ہی دخل ہو اور کیسے ہی بڑے سائنس دان اور ماہرینِ ریاضیات اور انجینئر اس کی تشکیل میں حصہ دار ہوں، مشینری کی ساری قدر و قیمت کا عین اس کے اس ڈائل سے ہوتا ہے جس پر سوئیوں کی نپی تلی حرکت بہ طور نتیجہ وقت دکھاتی ہے۔ ڈائل پر اگر وقت کا حساب غلط آرہا ہے، سوئیاں تیز چل رہی ہیں، سست چل رہی ہیں یا کوئی ایک ڈھیلی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور اگر یہ بے قاعدگی مستقل ہو، روز بروز بڑھتی جائے اور ماہر ترین مرمت کار بھی اسے صحت و اعتدال پر نہ لا سکیں تو پھر ڈائل کے پیچھے چاہے سونے چاندی کے پرزے ہوں اور پچاسوں ہیرے کی کنیاں (Jewels) لگی ہوں، گھڑی یا گھنٹے کی وقعت ختم ہو جائے گی۔
بعینہٖ یہی حالت کسی نظام زندگی یا تہذیب کی ہوتی ہے، وہ بے شمار علمی کارناموں، فلسفیانہ افکار، سائنسی سرگرمیوں، قانونی نظام، معاشی رابطوں، سیاسی ادارت اور کئی دوسری چیزوں سے ترکیب پاتی ہے اور ان چیزوں کو اگر الگ الگ دیکھا جائے تو ہر چیز بڑی قابلِ قدر، عظیم اور مرعوب کن معلوم ہوتی ہے لیکن ان ساری سرگرمیوں، تنظیموں اور اداروں کی اصل قدر و قیمت تہذیب کے ڈائل ہی کو دیکھ کر متعین ہو سکتی ہے۔ تہذیب کا ڈائل اس کی وہ ذہنی و اخلاقی فضا ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ آیا انسان حالتِ اطمینان سے بہرہ مند ہے، یا خوف و اضطراب اور حزن و ملال سے۔ کسی نظریہ یا نظامِ حیات نے اسے عظمت دی ہے یا اسے پستی میں دھکیل دیا ہے۔ تہذیب کے اس ڈائل پر اعداد و شمار کی سوئیاں آپ کو بتاتی ہیں کہ تشدّد، جرائم، جنسی انتشار، خود کشی اور نفسیاتی امراض کا تناسب بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔
سائنس کی رہنمائی میں مغرب نے جس مادی نظامِ حیات کی تشکیل سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کی تھی اور جس کی تکمیل اب سوشلزم کی صورت میں ہوئی ہے، اس کے پیچ پرزے بہت قیمتی اور خوبصورت ہیں اور ان پر بڑی محنتیں ہوئی ہیں۔ لیکن ان پیچ پرزوں کا جو نتیجہ تہذیبِ جدید کے ڈائل پر سامنے آرہا ہے وہ بے حد مایوس کن ہے اور یہ نتیجہ ہی اس بات کی شہادت ہے کہ سرے سے وہ نظریات ہی باطل ہیں جس سے دورِ حاضر کی تہذیبی مشین کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس مشین کے پرزوں کی ترتیب غلط ہے اور ان کی حرکت اور ان کا عمل فاسد ہے۔
جدید دور کی نہ صرف رہنما طاقت سائنس ہے، بلکہ سانس کو لوگوں نے ایک ''الٰہ'' کی حیثیت دے دی ہے اور سائنس کی پیدا کردہ مشینیں دیویاں اور دیوتا بن کر انسان کو محکوم بنائے ہوئے ہیں۔ سائنس کے نظریات و قیاسات پر ان کے نت تبدیل ہونے کے باوجود ہر شخص بڑی آسانی سے ایمان لے آتا ہے۔ سائنس کے لوگوں نے امرت دھارا کی طرح ہر مرض کے دو اقرار دے لیا ہے بلکہ وہ اسے پیر جی کے تعویذ اور کسی صوفی کے چھومنتر کی طرح عقیدت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ یہ سائنس پرستی خود ایک بڑا روگ ہے۔ یہی روگ نظریات و تصورات کے دائرے میں ماڈرن ازم یا جدیدیت کہلاتا ہے۔
نوخیز اور ترقی پذیر ممالک میں جدیدیت ایک نئے مذہب کی حیثیت میں اُٹھ رہی ہے اور نئے مذہب کی حیثیت ہی میں وہ ہر مذہب کو توڑ پھوڑ دینا چاہتی ہے۔ جو بھی جدیدیت کے زیر اثر ہے وہ اسے ہانک کر سائنس کے الٰہ کی پرستش کی طرف لے جاتی ہے مگر اس جدیدیت کے جرعہ ہائے رنگیں کی تلخیوں کا جوکرب اس کے مغربی فدائیوں کو درپیش ہے اس کا پوری طرح کسی کو اندازہ نہیں۔
ماڈرن ازم کے مغربی ناقدین:
سی، جی، یُنگ نے ایک کتاب لکھی ہے۔ ''جدید انسان روح کی تلاش میں'' (Modern Max in Search of Soul) اس میں وہ سطحیت کی اس بیماری کا تذکرہ کرتا ہے جو ماڈرن ازم کے نام سے پائی جاتی ہے:۔
''بہت سے لوگ اپنے آپ کو ماڈرن کہلاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ جو نمائشی یا نقلی ماڈرن ہیں۔ پس صحیح قسم کا ماڈرن آدمی بالعموم ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو قدامت پسند کہتے ہیں۔'' (ص ۲۲۹)
پھر وہ ماڈرن ازم کی اس نمائشی سطح سے نیچے اتر کر زندگی کے تلخ حقائق کو اس تاثر کے ساتھ نمایاں کرتا ہے کہ خالص مادی تحفظ و اطمینان سے بھی انسان محروم ہو گیا ہے۔ کیونکہ:
''وہ یہ دیکھتا ہے کہ مادی ترقی کا ہر قدم ہولناک تر تباہی کے خطرے میں بہت زیادہ اضافہ کر دیتا ہے (ایٹمی ایجادات اور تباہ کن اسلحہ کو مد نظر رکھتے ہوئے) یہ تصویرِ احوال تصور کو دہشت زدہ کر دیتی ہے۔
یونگ مغربی تہذیب کی اخلاقی غارت گری کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک واقعاتی تجربہ کو بیان کرتا ہے:
''افریقی مشن تعدددِ ازدواج کو ختم کر کے قحبہ گری کو رائج کرنے کا باعث بن گئے ہیں۔ صرف یوگنڈا میں ۲۰ ہزار پونڈ سالانہ آتشک و سوزاک کی روک تھام کے لئے صرف ہوتے ہیں اور اخلاقی خرابیوں کی شکل میں جو اصل بربادی ہو رہی ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور ان کارناموں کے لئے نیک دل یورپین حضرات اپنے مشنریوں کو تنخواہیں اور انعامات دیتے ہیں۔'' (ص ۶۴۲)
مادی ترقی اور روحانی خلاء:
روحانی خلاء کی وجہ سے مغرب کے مادی معاشرے میں جو شدید ذہنی بے چینی پائی جاتی ہے، اس کا اندازہ وہاں کے واقعاتِ قتل و خود کشی، کثرتِ جرائم اور نشہ آور اشیاء کے بڑھتے ہوئے استعمال سے لگایا جا سکتا ہے۔
مثلاً سرمایہ دار امریکہ کا حال یہ ہے کہ ہر منٹ میں ایک نہ ایک شخص خود کشی کی کوشش کرتا ہے جو کبھی کامیاب ہوتی ہے، کبھی ناکام۔ تخمینۂ اعداد کی رو سے سالانہ ۴،۵ لاکھ افراد خود کشی کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں جن میں سے ۵۰ ہزار سالانہ یا روزانہ ۱۳۶ افراد خود کشی میں کامیاب رہتے ہیں۔ اِسی طرح انگلستان جسے دنیا کے بہت سے سوشلسٹ (جن میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں) اپنے نظریہ کے مطابق ایک اچھے نمونے کا معاشرہ سمجھتے ہیں، وہاں کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ انگلینڈ اور ویلز میں ۳ تا ۴ لاکھ افراد خود کشی کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ تعداد زبانِ حال سے پکارتی ہے۔ ؎