محسنِ انسانیت

آنحضرت ﷺ سے پہلے عرب کی حالت:

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ، وہ کیا تھا؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ساڑھے تین ہزار برس گزر چکے تھے۔ معبدِ ابراہیمی کی چھت پر جو، کائناتِ ارضی و سماوی کے حقیقی مالک و مختار کے سامنے سر نیاز جھکانے کے لئے تعیر کیا گیا تھا، ہبل کا دیو ہیکل سنگی مجسمہ نصب تھا جو فخر و غرور کی ساکت و صامت تصویر بنا ہزارہا کے ایک بے مقصد ہجوم کو حقارت آمیز انداز سے گھور رہا تھا۔

قرب و جوار کی گھاٹیوں اور پہاڑیوں پر رنگا رنگ کے چھوٹے بڑے خیموں کی قطاریں نظر آرہی تھیں۔ جن کے اندر، جوان، بوڑھے اور عورتیں مختلف انواع کی رنگ رلیوں میں مصروف تھے۔ شراب کی بُو کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے، رقص و سرود کی محفلیں گرم تھیں، مختلف اقسام کے سازوں کے ساتھ انتہا درجہ کے فحش گیت گائے جا رہے تھے۔

سینکڑوں عورتوں اور صدہا مردوں کی ایک مخلوط جمعیت مادر زاد برہنگی کے عالم میں تالیاں اور سیٹیاں بجاتی ہوئی خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی جس کے اندر اس عہد کے اوہامِ باطلہ کی تمثیلیں تین سو ساٹھ بتوں کی مختلف صورتوں میں جلوہ گر تھیں۔

فخریہ انداز میں کچھ قریشی نوجوان جو شراب کے نشے میں بد مست تھے، جھوم جھوم کر یہ شعر پڑھ رہے تھے:

''ہم اپنے دشمنوں کو آگ کی نذر کر دیتے ہیں، ان کی حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالتے ہیں، بچوں کو تیروں کا نشانہ بنا دیتے ہیں، ہم ان کے بوڑھوں پر بھی رحم نہیں کرتے تاکہ دشمنوں کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ ہم دشمن کو تہ تیغ کرنے کے لئے برسوں تک اپنی تلواریں بے نیام رکھ سکتے ہیں۔''

''ہمارے دشمنوں کی قبروں میں اندھیرا رہتا ہے کیونکہ ان میں ہمارے قبیلہ کے افراد سے ٹکر لینے اور اپنے مقتولین کا قصاص لینے کی جرأت نہیں ہتی۔''

''ہم ایک جان کے بدلے دشمن کی دس دس اور بیس بیس جانیں بطور سود وصول کرتے ہیں۔''

''ہم مصاہرت کے قائل نہیں۔ اس لئے اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں۔''

''آج ہبل کی سر بلندی کا دن ہے۔ آج لات، منات، عزیٰ، ود، سواع، یعوق اور نسر کے ماننے والوں کی عظمت کا دن ہے۔ دنیا کی کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کوئی نہیں جو ہم سے آنکھ ملانے کی جرأت کرے۔''

یہ عکاظ کا میلہ تھا، جہاں جا بجا اسی قسم کے بلکہ اس سے بھی بدتر تماشے چشمِ فلک کو دکھائے جا رہے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ نوعِ انسانی ہر قسم کے روحانی اور اخلاقی تسفل کا شکار ہو کر حیوانوں سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور کسی کو شرفِ انسانیت کے تحفظ کا خیال تک نہیں تاکہ اپنے آپ کو بھیڑیوں، کتوں اور جنگلی جانوروں سے ممتاز ثابت کر سکے۔

یہ سر زمین عرب تھی۔ یہاں رہزنی، اور قتل و غارت کو آبائی پیشوں کی حیثیت دے دی گئی تھی، یہاں فسق و فجور کی آندھیاں اُٹھتی تھیں اور ظلم و ستم کے بادل بن کر ہر سو چھا جاتی تھیں۔ جہاں شیطنت عروج پر تھی اور انسانیت منہ چھپائے پھرتی تھی۔ جہاں فحاشی کی حکومت تھی اور عصیان و معصیت کا سکہ چلتا تھا۔ اولادِ آدم اپنے گناہوں کی سیاہی کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی کہ
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانب بو قلبیس ابرِ رحمت!

قبولیت دعا:

اب وہ وقت آگیا تھا کہ حضرتِ خلیلؑ کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کرتی:
﴿رَ‌بَّنا وَابعَث فيهِم رَ‌سولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِم ۚ إِنَّكَ أَنتَ العَزيزُ الحَكيمُ ﴿١٢٩﴾... سورة البقرة
اے ہمارے رب! (جب میری اولاد راہِ حق سے بھٹک جائے تو) ان میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمائیے گا جو انہی میں سے ہو اور ان کو کتاب و حکمت سکھائے (ان کو پاک کرے (اے اللہ! ہماری یہ دعا قبول فرما) کہ ٹھیک تو غالب صاحبِ حکمت ہے۔

ظہورِ قدسی:

یہی وہ موقع تھا کہ کوئی خورشیدِ جہان تاب طلوع ہوتا جو ظلمات کو چاک کر کے اپنی نورانی کرنوں سے ہر طرف ضیا پاشیاں کرتا ہوا گوشے گوشے کو منور کرتا چلا جاتا جو وحشت و بربریت، ظلم و ستم اور کفر و طغیان کے ان بحرِ ناپید اکنار کو آن کی آن میں خشک کر ڈالتا۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیلؑ اور نویدِ مسیحاؑ!

دو شنبہ ۹ ربیع الاول کا وہ دن کتنا مبارک تھا، آج ایک کی بجائے دو سورج طلوع ہوئے، لیکن کس قدر فرق تھا ان دونوں میں۔ ایک سورج تو ظاہری تاریکیوں کو دور کر رہا تھا لیکن دوسرا تاریک اور نہاں خانۂ قلوب کو منور کرنے کی بھی استطاعت رکھتا تھا، ایک کی قسمت میں یہی لکھا تھا ہ خواہ کتنا چمکو، رات کی تاریکیاں ضرور تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی لیکن دوسرا رات اور تاریکی کے لفظ سے ناآشنا تھا۔ یہ ہر دم روشن اور ہمہ وقت تابندہ تھا۔ ایک کو روشنی پھیلانے کے لئے ہر روز طلوع ہونے کی ضرورت تھی لیکن دوسرے کو صرف چند برس تک چمکنے کی ضرورت تھی اور پھر تا قیامت اس کی روشنی کو تاریکی میں بدلنے والا کئی نہ تھا، ایک جلا سکتا تھا، جھلس سکتا تھا لیکن دوسرا پتھروں کو بھی موم کر سکتا تھا۔ ایک کی گرمی میں لو اور تپش تھی لیکن دوسرا ایسا کہ ابرِ باراں کی طرح ٹھنڈا اور قہرو غضب کی آگ کو رحمت و شفقت میں بدل دینے کی اہلیت رکھتا تھا۔

آج فلک کے ہر گوشہ سے یہ صدائیں بلند ہو رہی تھیں کہ اے ظلم و تشدد میں ڈوبے ہوئے انسانو! اے اجڑی ہوئی خلق اللہ! تمہیں مبارک ہو کہ محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تشریف لاتے ہیں۔

انقلاب:
ناگاہ بحرِ زیست کے طوفاں اتر گئے       لیلائے شب کے گیسوئے برہم سنور گئے
ابرِ سیاہ مطلعِ عالم سے چھٹ گیا       ظلمت شکست کھا گئی پانسا پلٹ گیا
کھولا کسی کے ہاتھ نے اک دَورِ نو کا باب       نکلا سوادِ مشرقِ بطحاء سے آفتاب
ایک ایک ذرہ دیدۂ بیدار ہو گیا       سارا جہاں بقعۂ انوار ہو گیا!!!

یہ کیسا انقلاب تھا؟ یہ کون محسنِ انسانیت تھا جس نے آن کی آن میں کایا پلٹ کر رکھ دی۔ صرف چند برسوں میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں، منیٰ، عرفات، مزدلفہ کے میدانوں، حرم کعبہ کی دیواروں، مدینہ کے نخلستانوں اور مکہ کی عمارتوں نے ہزاروں واقعات اور انقلابات دیکھ ڈالے۔ اب معبدِ ابراہیمی کی چھت پر سے ہبل کا مجسمہ غائب ہو چکا تھا۔ خانہ کعبۂ کی چار دیواری بتوں کی نجاست سے پاک نظر آتی ہے۔ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والے لوگ اب بھی ہزاروں کی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ لیکن اب ان کے جسم عریاں نہیں، احرام کی چادریں زیب تن کئے ہوئے شرفِ انسانیت کا اعلان کر رہے ہیں۔ عورتیں اب بھی اس گروہ میں موجود ہیں لیکن اب ان میں سے پہلے کی سی بے حیائی و بے باکی مفقود ہے۔ ہجوم اب بھی منیٰ و عرفات کے میدانوں، مزدلفہ کی گھاٹیوں اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر دکھائی دے رہا ہے لیکن لہو و لعب میں گھرے ہوئے انسانوں سے بے مقصد شور و شغب کی بجائے اب تکبیر و تحلیل کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ لبیك اللھم لبیك لا شریك لك لبیك کی خود آئند آوازیں شانِ اسلام کا پرچار کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ مست ہاتھیوں کے غول کی طرح گشت لگانے والے بے فکرے نوجوانوں کی ٹولیوں کی بجائے اب شریف انسانوں کی جماعتیں ایک دوسرے کو صلح و سلامتی کا پیام دیتی، اخوتِ نوعِ انسانی کا مظاہرہ کرتی اور رشد و ہدایت کا سبق دیتی نظر آتی ہیں۔ عکاظ کے میلوں میں جمع ہو کر پتھروں کے تراشیدہ خداؤں کی بڑائی کا دعویٰ کرنے والے اب ربِ کعبہ کے سامنے سرِ نیاز جھکانے اور اس کے سامنے اپنی عبدیت کا زیادہ سے زیادہ اعتراف کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ آج سے چند برس پیشتر جو لوگ انسان کے سفلی خصائل کا چلتا پھرتا اشتہار تھے، آج عرفات کے میدان میں ضبط نفس اور صبر و تحمل کا بہترین نمونہ اور وقار و تمکنت کی ایک ایسی زندہ تصویر ہیں کہ جس میں لغویات کا نام و نشان تک نہیں۔

یہ عرب کے بدوّ تھے، جاہل اور گنوار! لیکن آج ان سے زیادہ عالم فاضل اور مہذب ساری دنیا میں موجود نہیں۔ یہ راہزن، لٹیرے، چور اور ڈاکو تھے لیکن آج یہ غیروں کے مال کی حفاظت اپنی جان کی بازی لگا کر کرتے ہیں۔ یہ بد بو دار شراب پیتے تھے لیکن آج ان کے لباس خوشبؤں سے معطر تھے۔ یہ زانی تھے لیکن آج یہ دشمن کی عورتوں کی بھی عصمت کے محافظ ہیں۔ یہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن آج ان سا شفیق باپ کوئی نہیں۔ یہ بات بات پر لڑتے جھگڑتے اور تلواریں کھینچ لیتے تھے لیکن آج یہ پوری دنیا کو صلح و آشتی کا پیغام دے رہے ہیں۔

بلاشبہ یہ اس محسنِ انسانیت کا کمال ہے جس کا نام محمد (ﷺ)۔

کردار کی عظمت:

آؤ اس محسنِ انسانیت رحمۃ للعالمین کو دیکھو، یہ یتیم ہے لیکن لوگ اس پر رشک کرتے ہیں یہ امی ہے لیکن لوگ اس کے علم کے کروڑویں حصے کا مالک ہونے کو باعثِ فخر اور عزت افزائی خیال کرتے ہیں۔

آؤ! تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو، بسیرتِ محمدی ﷺ میں تلاش کرو۔ اگر تم تاجر ہو تو بصرہ کے کارواں کے سالار کو دیکھو۔ اگر بادشاہ ہو تو سلطانِ عرب کے احوال ڈھونڈو۔ اگر فاتح ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار کو دیکھو۔ اگر خطیب ہو تو مسجدِ نبوی کے منبر پر کھڑے ہونے والے واعظ کو دیکھو۔ اگر ایامِ طفولیت گزارا ہے ہو تو آمنہ کے بیٹے کو نہ بھولو۔ اگر جوان ہو تو مکہ معظمہ کے چرواہے کی سیرت پاک کو دیکھو۔ اگر باپ ہو تو فاطمہ، زینب، ام کلثوم، رقیہ اور قاسم، عبد اللہ اور ابراہیم (رضوان اللہ علیهم أجمعین) کے ابا کو دیکھو۔ اگر شوہر ہو تو خدیجہ، عائشہ وغیرہما کے شوہر سے سبق حاصل کرو۔ اگر بھائی ہو تو علی المرتضٰے کے بھائی کو دیکھو۔ اگر داماد ہو تو عمر فاروقؓ اور ابو بکر صدیقؓ کے داماد کے عادات و خصائل کو مشعلِ راہ بناؤ۔ اگر آقا ہو تو بلالؓ اور زیدؓ کے آقا کو دیکھو۔ مساوات کے طالب ہو تو جنگِ احد میں رسول اکرم ﷺ کے چچا کے کفن سے عبرت حاصل کرو۔ دوست ہو تو صحابہ کرام کے صاحب عزت ساتھی کو نہ بھولو۔ دشمن ہو تو فتح مکہ کے ہیرو کو فراموش نہ کرو۔ میزبان ہو تو سید المرسلین کو دیکھو،، مہمان ہو تو سید الکونین کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرو۔ معاشرے کا ایک فرد ہو تو اسوۂ محمدی کو نہ بھولو اور اگر سیاستدان ہو تو نبیٔ امی کی حکمتِ عملی کو ہرگز ہرگز نظر انداز نہ کرو۔ غرض زندگی کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں جس میں نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے ہدایات نہ چھوڑی ہوں۔ تنہائی ہو یا مجلس، خلوت ہو یا جلوت، صلح ہو یا جنگ، ناکامی ہو یا کامیابی، شادی ہو یا غمی ہر جگہ اسوۂ محمد (ﷺ) اعلیٰ اخلاق کا مظہر نظر آتا ہے۔

خود قرآن مجید شاہد ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌...٢١﴾... سورة الاحزاب

کہ جو تم میں سے آخرت کی کامیابی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی چاہے اسے چاہئے کہ اسوۂ رسول اللہ کو مشعلِ راہ بنائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم بھی رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ہر پہلو سے سبق حاصل کریں اور آپ کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر دین و دنیا کی فلاح و کامرانی سے مشرف بہ کنار ہوں۔ آمین۔