اپریل 1972ء

فکر و نظر

صدر بھٹو کو روس جا کر مسٹر کو سیجن سے اور پاکستان میں بلا کر برطانیہ کے وزیر خارجہ مسٹر ڈگلس ہیوم سے جو کچھ سننا پڑا ہے اس سے ہمیں بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ یہ دونوں لیڈر باتوں باتوں مین جس طرح بھارت اور نام نہاد بنگلہ دیشی کی ثنا خوانی کرتے رہے ہیںِ وہ ان کے دشمنانہ اور غیر منصفانہ رویہ کی ایک بد ترین مثال ہے۔ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ ط

ان تمام اور واضح تحقیر آمیز رویہ کے باوجود اگر صدر بھٹو نے ان کو مزید آزمانے کی کوشش کی تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

سخن شناس نۂ دلبرا خطا اینجا است!

جب کسی فرد یا جماعت کی طرف سے احتجاج یا جلوس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ان کی جائز شکایت کو سنے یا اس کے ازالہ کرنے کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے۔ زیادہ تر جوابی کار روائی پر زور صرف کیا جاتا ہے اور سب سے بڑا جو تیر چھوڑا جاتا ہے، یہ ہوتا ہے کہ:

''یہ فلاں شخص یا جماعت کی سازش ہے اور وہی پسِ پردہ یہ ڈور ہلا رہی ہے۔''

اور یہ وہ بے بنیاد اور لا حاصل الزام ہے جو اب اپنا وزن اور اپنی سنسنی خیزی کھو چکا ہے۔ اس سے سنورنے کے بجائے ایک اور جوابی الزام کشمکش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو شیطان کی آنت سے زیادہ طویل اور منحوس ترین ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اب اس قسم کی الزام تراشی اور جوابی کاروائی کے مزید تجربات کرنے کے بجائے شکایات کو سننے، معاملہ کو سمجھنے اور فراخدلانہ طریق کار اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کسی گتھی کو سلجھانا ہی صحیح طریق کار ہوتا ہے۔ اس کو وقار کا مسئلہ بنانا مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اس لئے شاطرانہ چالیں چلنے سے پرہیز کیا جائے اور قائدانہ سنجیدگی کو ملحوظ رکھا جائے۔

رسوائے زمانہ ۳۵ء ایکٹ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے سفر کے آغاز کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ صرف دور رس نتائج کا حامل نہیں ہے، بلکہ تینوں (پیپلز، نیپ اور جمعیۃ) جماعتوں کی ذہنیت کے مضمرات کا غماز بھی ہے۔ خاص کر اس کے ذریعے خاں لیاقت علی خاں کی ''قرار دادِ مقاصد'' کی نفی کر کے انہوں نے جو مثال قائم کی ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اب:
؎ تاثر یا مے رود دیوار کج

کی منہ بولتی تصویر بن کر رہ جائے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ یہ لوگ کچھ ہوش کریں۔﴿أَلَم يَأنِ لِلَّذينَ ءامَنوا أَن تَخشَعَ قُلوبُهُم لِذِكرِ‌ اللَّهِ...١٦﴾... سورة الحديد

لاہور شہر میں سمن آباد سے طاہرہ سجاد اور فرخ سجاد کا اغواء نہایت شرمناک سانحہ ہے۔ مگر اس کو یوں اچھالا گیا ہے، جیسے ملک میں یہ واقعہ صرف پہلی دفعہ پیش آیا ہے۔ حالانکہ اغواء کے یہ کیس اب ملک میں ایک معمول بن گئے ہیں بلکہ ان کے اندر اب کوئی ندرت بھی نہیں رہی۔ جہاں کہیں اس قسم کی دھاندلی کے خلاف کبھی کوئی ہنگامہ برپا ہوا بھی ہے تو صرف اس لئے نہیں کہ اب انہوں نے حالات کی سنگینی کا احساس کیا ہے بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ اب یار دوستووں کا کچھ موڈ ہی ایسا بن گیا تھا اس لئے گو ہم اس شرمناک جسارت کے خلاف اس منظم اور بروقت احتجاج کی قدر کرتے ہیں لیکن اس سے کسی ٹھوس اور دیرپا نتیجہ کی توقع عبث ہے۔ اس کے لئے تو وہ اسلامی غیرت، حمیت اور بصیرت درکار ہے جو لازوال حرارت پر مبنی ہو اور اتنی حساس ہو کہ جہاں کہیں اس کی پرچھائیاں نظر آئیں، تڑپ جائے۔ وقتی اور ہنگامی قسم کی اس بے چینی کو اگر کاروباری نوعیت کی بے چینی نہ بھی کہا جائے تب بھی اس پر کامیاب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ ہمیں یقین ہے کہ ملک میں جرائم کے کاروبار کا بازار سرد پڑ چکا ہوتا اور مجرم ضمیر کے لئے ممکن نہ ہوتا کہ وہ امن عامہ میں خلل ڈالے یا اسلامی قلب و نگاہ کی لطیف حسیات پر بوجھ بننے کا حوصلہ کر سے۔ ﴿اُدْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَافَّةً﴾ (اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ) کا حاصل بھی یہی ہے کہ اسلامی اقدار اور اعمال سے تعلق وقتی نہ ہو، ٹھس ہو۔ جذبانی نہ ہو، حقیقی ہو۔ جزوی نہ ہو، ہمہ گیر ہو۔ کاروباری نہ ہو، جذبۂ تعمیل کا حاصل اور بینا اور غیور قلب و نگاہ کی اُمنگوں کا ترجمان ہو۔ اس طرزِ حیات اور یقینِ محکم کے غیر وہ 'در نایاب'' ہاتھ نہیں آتا جو ہم کو مطلوب ہے۔

اس کے علاوہ اس اغواکے سلسلہ میں کچھ لوگوں کے دلوں میں ناگفتہ بہ شکوک و شہات بھی ہیں، ان کا ازالہ بھی ضروری ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اب اسلامی زندگی کے احیاء اور استحکام کے لئے سنجیدہ کوشش کرے جس کے بعد نہ کسی بچے اور خاتون کے اغواء کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی قوم اور ملک کے اغواء ہو جانے کے امکانات باقی رہ سکتے ہیں۔ ملک پر جتنی آفت آئی ہے، وہ اسی بے یقینی اور اسلام سے بے تعلقی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ مجیب اغواہوتا، مشرقی پاکستان کو پاؤں لگتے اور ہمیں چھوڑ کر کسی مکار اور دغا باز دشمن کے ساتھ بھاگ اُٹھنے کی سوچتا۔