مسئلہ سماع
شمارہ مارچ ۷۲ء میں ہم نے مولانا عزیز زبیدی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ''سماع، امام نابلسیؒ کا نقطہ نظر'' شائع کیا تھا جس میں زبیدی صاحب موصوف نے مجوزینِ سماع میں سے امام نابلسی کی ایک تصنیف ''إیضاح الدلالات في سماع الآمات'' کے ایک اہم حصہ کی تلخیص پیش کر کے ان کا نقطۂ نظر واضح کیا تھا۔ ہم نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث اور صحیح نقطۂ نظر بادلائل پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا حالیہ اشاعت میں ہم مولانا عزیز زبیدی صاحب ہی کے قلم سے اس مسئلہ پر ایک تفصیلی مضمون ہدیۂ قارئین کر رہے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ میں جملہ مغالطے اور مخالفین کے دلائل سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے جملہ شکوک و شبہات رفع ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ (ادارہ)
سماع خاص ایک صوفیانہ اصطلاح ہے مگر افسوس! ثقافتی قسم کے لوگوں نے اس کو متداول موسیقی کا مترادف قرار دے ڈالا ہے۔ اسی طرح ''غنا'' بھی حدیث کی خاص ایک زبان ہے لیکن یار دوستوں نے اسے بھی ''نور جہاں کا ترنم'' تصور کر لیا ہے۔
دف کا استعمال، زیادہ سے زیادہ ایک حد جواز جہاں تک کوئی شخص جا سکتا ہے لیکن بلا نوش اُلٹے، انہوں نے اس کو اسی سلسلہ کا نقطۂ آغاز قرار دے کر زیادہ سے زیادہ اور حدود فراموش حد کے لئے اس کو وجہِ جواز بنایا اور پھر اس پر نظامِ موسیقی کی وہ ساری عمارت کھڑی کر ڈالی جو ان کی الڑھ ترنگوں کی مست پینگوں کے لئے بے خدا خمار اور مست الست سر مستیوں کی ضمانت دے سکتی ہے۔ بعض خام صوفیوں کے وجد کو رقص اور ان کی قوالی کو ''تان سینی راگ و رنگ'' کا شرعی ماخذ تصور کر کے لوگوں کے لئے انہوں نے مغالطے مہیا کیے۔ یہ مغالطے کسی علمی اور تحقیقی پس منظر کا حاصل نہیں ہیں بلکہ یہ سبھی کچھ نام نہاد فنونِ لطیفہ کے کثیف وارثوں اور شاطر ثقافتیوں نے عمداً پیدا کیے ہیں۔
یہ وہ گھپلا اور غیر سنجیدہ دھاندلی ہے، جس نے ہمیں اس موضوع پر قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو عیاشی کرنا چاہتے ہیں وہ کم از کم اپنے گناہ کی شرم رکھنے کے لئے قرآن و حدیث کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔ یہ کیا ضروری ہے کہ جو بھی گناہ کیا جائے اس کے لئے کوئی نہ کوئی شرعی معذرت ضرور ہی ایجاد کی بجائے ویسے بھی ایسا کرنے سے کسی شے کی ماہیت نہیں بدل جایا کرتی۔ کتنی ہی لیپا پوتی کی جائے، بہرحال نہاں خانوں میں جو کچھ ہوتا ہے۔ اس سے اس کی واقعی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ وہ بزدلی کے بجائے جرأت سے کام لیں۔ اگر مسرفانہ عیاشی ضرور ہی کرنی ہے تو گھونگھٹ کیوں؟ آخر اور بھی بہت سی ایسی دھاندلیاں ہیں جن کے اختیار کرنے میں آپ اس قسم کے تکلفات کا سہارا لینے کا تکلف نہیں کیا کرتے، یہاں پر بھی اگر آپ اپنے اس اصول اور تعامل کو ملحوظ رکھیں گے تو یقین کیجئے! آپ پر آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ ہمیں خاص کر ان اداروں سے زیادہ گلہ ہے جو اسلام کے نام پر ''تحقیقی مرکز'' کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں اور ان میں ''مولانا'' قسم کے بڑے بڑے جغادری بھی براجمان ہیں۔ انہیں بہرحال ان دنیا داروں کی ضیافت طبع کے لئے یہ مصنوعی دین یہاں مہیا نہیں کرنا چاہئے۔ خواہ اس کے عوض کتنا ہی ان کو معاوضہ ہاتھ آئے۔ یہ خدا کی نگاہ میں ثَمَنًا قَلِیْلًا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے لیکن اس کا انجام ''خواری بسیار'' سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ العیاذ باللہ۔
کلامِ موزوں، لحنِ حسیں اور ارداۂ خیر کے ساتھ سننے کا نام ''سماع'' ہے۔ یہ خاص صوفیوں کی اصطلاح ہے۔
کلامِ موزوں اور لحنِ حسیں کی حد تک تو اہل دیں کے ایک طائفہ کے ساتھ مست اور رنگیلے شاہ بھی متفق نظر آتے ہیں۔ لیکن اگلے مرحلہ یعنی ''ارادۂ خیر'' کی قید میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہو گئے ہیں۔ مگر ہمیں صوفیاء سے بھی اس مرحلہ میں اختلاف ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک سادہ تفریح کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کو ''تقرب'' کا ذریعہ سمجھنا غلط ہے۔ مزید تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی۔ انشاء اللہ۔
سماع اور اہلِ سماع کی چند قسمیں ہیں۔ ان کی تفصیل کے بعد قرآن و حدیث اور اکابر ائمہ کے فتاوی کی روشنی میں ہم اپنا نقطۂ نظر بیان کریں گے۔
سماع کی قسمیں:
1. مزامیر وغیرہ کے بغیر خوش الحانی کے ساتھ ''کلام'' کا سننا۔ کلام منظوم ہو یا غیر منظوم۔
2. آلات کے ساتھ اس کا سننا۔
3. خوش الحانی کا ایک انداز عجمی ہے، دوسرا غیر عجمی۔ عجمی میں موسیقی کی فی نزاکتوں کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور ان کا زیادہ تر تعلق تعیش یا وہم پرستانہ سرمستی کے ساتھ ہوتا ہے۔
اہل سماع کی صرف دو (۲) قسمیں ہیں:
1. ایک وہ ہیں جو اپنے روحانی داعیہ کی تسکین یا نشوونما کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
2. دوسرے وہ ہیں جو صرف
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کے مصاق داد عیش دیتے ہیں یا وقت پاس کیا کرتے ہیں۔
بے ضرر سماع:بے ضرر سماع سے ہماری مراد ایسا سماع ہے جو آلاتِ لہو سے پاک ہو اور غیر عجمی لَے میں صرف سادہ خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ حکیم یا حسانی قسم کے کلامِ معنی خیز کا صرف تفریح اور زوق کی تسکین کے لئے سنناہے۔
ہمارے نزدیک گاہے بہ گاہے اور بغیر کسی خصوصی اہتمام اور شدِّ رحال کے سن لینا کچھ برا نہیں۔ کیونکہ بقول بعض اکابر:
''سماع و غنا بذات خود مباح ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کی اصل عمدہ آواز کا سننا ہے اور اصل کے اعتبار سے سامعہ کو عمدہ آواز کے سننے کی اجازت ہے جس طرح کہ باصرہ کو رنگ برنگ کی چیزیں، اچھی اچھی صورتیں دیکھنے کی اور باغ و گلزار میں سیر و تفریح کی اجازت ہے۔''
(مکتوبات محدث دہلویؒ)
اصل مابہ النزاع وہ سماع ہے جو تقرب کی نیت سے کیا جاتا ہے یا جو عیش و نشاط کی ضیافت طبع کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں شرعی لحاظ سے حرام اور ناجائز ہیں۔
صوفیانہ سرمستی کے لئے سماع:صوفیانہ سرمستی کے لئے سماع کی باتیں، دراصل روحانیت نہیں ہیں، روحانیت کا ایک واہمہ ہے اور یہ تصور عجم کے اللہ زارِ روحانیات کی دیانتدارانہ نقالی اور سرقہ ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک یہ ساز اور راگ معراجِ مازاغ کے سامان نہیں ہیں، بلکہ بت شکن حنیف کی نگاہ بے نیاز کے انتشار اور پریشاں نظری کا نتیجہ ہیں۔
اسلام کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ خوش الحانی، گو دل کو خوش لگتی ہے اور صرف اس حد تک گوارا بھی کی جا سکتی ہے لیکن اس کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ملتا کہ قربِ الٰہی کے لئے یہ کوئی شرعی ذریعہ بھی ہے۔ ہاں قومِ ہندو، ملّتِ عیسائیہ اور ان کی ہم مشرب دوسری قوموں میں ''قرب و وصال'' کی منازل طے کرنے اور اوتار کی توجہ کے حصول کے لئے اس کو مؤثر ذریعہ ضرور قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے ان کی پوجا پاٹ کے جتنے انداز ہیں سب میں بنسری کی تانوں، ناقوس کی صداؤں اور سرتال کی سریلی دھنوں اور رقص و سرود کی مختلف النوع نواؤں کو جزوِ لا ینفک کی حیثیت حاصل ہے اور رہی ہے۔
''توریت میں ہے کہ یہود خدا کی تسبیح و تقدیس رقص ہی کے ذریعے کرتے تھے۔۔۔۔
ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا۔ اس کے نزدیک شعر اور رقص دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں، اہل سپارٹا اپنے بچوں کو 5 سال کی عمر میں رقص سکھانے لگتے ہیں۔ عموماً لڑکوں کے باپ اور استاد گاتے تھے اور وہ خود ناچتے تھے۔''
(مقالہ تاریخ رقص از لطیف الدین لطیف۔ مطبوعہ محدث جلد ۱ عدد ۱۱)
وہم پرستانہ روحانیت کے نام پر گانوں باجوں کی تقدیس کا یہ تصور بالخصوص قوم یہود میں کافی تھا۔ اس لئے اس سلسلہ میں انہوں نے عجیب سی گپیں ہانکی ہیں۔ چنانچہ یہودی روایات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:
''حضرت داؤد علیہ السلام بڑے خوش الحان تھے اور (العیاذ باللہ) موسیقی کے ماہر تھے۔
بابل اور مصری مزامیر کو ترقی دے کر نئی نئی ایجادیں کی تھیں۔ موجودہ زبور بھی گیتوں کا مجموعہ ہے جسے آپ بربط کے ساتھ گاتے تو کائنات پر نورانی نغموں کی بارش ہوتی۔''
یہ پیرا گراف منکرینِ حدیث کے اس بڑے جغادری نے نقل کیا ہے، جو احادیث پاک میں کیڑے ڈالتے رہتے ہیں لیکن یہاں پر اسے نقل کر کے بڑی حکمت عملی سے چپ چاپ گزر گئے ہیں۔
روحِ حیوانی یا روحانی:ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سرود، وہ سرودِ ازلی ہیں جو صدائے
''اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ'' کی صدائے بازگشت محسوس ہوتے ہیں جو روحانیت کے لئے اپنے اندر قدرتی کشش رکھتے ہیں کہ:
''ان کے انگ انگ سے ''قالوابلیٰ قالوا بلیٰ'' کی سرمستی وجد کرنے لگتی ہے اور ان کی روحانی ملکوتیت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ ''حق حق'' بولا ٹھتی ہے۔''
حضرت عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ جب اللہ وحی سے کلام کرتا ہے تو آسمانوں کے کانوں میں بھی اس کی بھنک پڑ جاتی ہے (چونکہ اس میں جلال و جمال اپنی پوری شان میں جلوہ گر ہوتے ہیں اس لئے ملائکہ پر ایک سکتہ سا طاری ہو جاتا ہے۔)
«فإذا فرغ عن قلوبھم وسکن الصوت عرفوا أنه الحق ونادوا ما ذا قال ربکم قالوا الحق ،الحدیث» (بخاری باب قول اللہ ولا تنفع الشفاعة)تو جب ان کے دلوں سے سکتہ کی کیفیت کافور ہو جاتی ہے اور وہ (بے کیف) آواز تھم جاتی ہے (تو) وہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے اور (لپک کر محبوب برحق کا ارشاد پوچھتے ہوئے) آوازیں دینے لگ جاتے ہیں کہ اوفو! بتاؤ بھی تمہارے رب نے کیا فرمایا آواز آتی ہے، حق فرمایا۔
بعض روایات میں آتا ہے:
«إذا قضی اللہ الأمر في السماء ضرب الملائكة بأجنحتھا فخضعانا لقوله کأنه سلسلة علی صفوان»جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی امرطے فرماتے ہیں تو فرشتے وفادارانہ اپنے پر مارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر صاف پتھر پر۔کیا خوش الحانی اور مزامیر کی یہ جھنکاریں اسی قسم کی نوائے ازلی کے لئے مضراب کا کام دیتی ہیں اور ان ارضی فرشتہ صورتوں کی نفسیات بھی کچھ اس قسم کی نفسیات اور قلب و نگاہ کی بے تابانہ تحریکات بھی کچھ اس طرح وجد میں آجاتی ہیں؟
یا یہ کہ یہ مادی جھنکاریں، روحِ حیوانی کے لئے خوراک بنتی ہیں اور انہی حیوانی تقاضوں کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اگر اس کا دیانتدارانہ جواب معلوم ہو جائے تو بات کے سمجھنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگ سکتی۔
ہمارے نزدیک اس کے جواب کے سمجھنے کے لئے سماع (معہ لوازمات) کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے، کہ اس کے ذریعے، روحانیت کا پلہ بھاری رہا ہے یا بہیمیت کا؟ اس لحاظ سے جواب بالکل واضح ہے کہ اس سے نفس و طاغوت کی امنگیں ہی مچلی ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ توجہ الی اللہ اور طلبِ حق کی تحریک کو بھی اس سے کوئی فائدہ پہنچا؟ زبانی کلامی تو کہہ دینا شاید آسان ہو لیکن واقعات کی رو سے جواب بالکل نفی ہے۔
اس کے علاوہ انبیاءِ سابقین سے لے کے خاتم النبیین ﷺ کے تزکیہ و طہارت کی تاریخ میں ایک نبی اور ہادی کا یہ دستور نظر نہیں آیا کہ انہوں نے معصیت کا زنگار دھونے، ملکوتیت کی نشوونما اور قرب و وصال کی منزلیں طے کرنے کے لئے نظام سماع اور سامعہ نواز موسیقی کو نسخۂ شفا سمجھا ہو یا کوئی ایسا خانقاہی نظام قائم کیا ہو جہاں طبلے کی تھاپ پر کسی مغنّی کے بولوں سے تزکیہ و طہارت کی خدمات لی گئی ہوں؟ اگر نہیں کیا گیا اور یقیناً نہیں کیا گیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے روحانیت کا ایاء یا اس کی تقویت کا تصور لینا اسلام نہیں ، سراپا عجمی ہے۔
جب ہم طب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی یہ صاف ملتا ہے کہ جنسی کمزوریوں کے علاج کے لئے سماع اور غنا سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اور لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دورِ حاضر میں اس موسیقی نے جتنے ہیر رانجھے اور سسی پنوں تیار کئے ہیں، اور نئی نسل کو اس نے جس طرح گمراہ کیا ہے، وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ اس کے بعد بھی اس کو کوئی شخص ''روحانیت'' کی ترقی کا زینہ تصور کرتا ہے تو اسے اس کی اپنی ذاتی کرامت ہی کہیں گے، ورنہ بات کہنے کی نہیں ہے۔
غلط استدلال:کچھ لوگ سماع اور غنا کے جواز اور روحانی سرمدیت کے لئے ایسی ایسی باتوں سے استدلال کرتے ہیں، جن کو پڑھ کر ان پر ترس ہی آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ:
''حضرت داوؤد علیہ السلام بڑے خوش الحان تھے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے (باب حسن الصوت بالقراءۃ) تو ہمارے نزدیک حسنِ صوت (خوبصورت آواز) کوئی گناہ نہیں۔ نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسے گلے کو کھرچ کر بالکل بیکار کر دينا چاہئے بلکہ یہ ہے کہ قومِ ہنود اور یہود کی طرح اس کو جزو عبادت نہ بنا لیا جائے کیونکہ خوش الحان ہونا اور شے ہے اور اس کو عبادت تصور کرنا بالکل الگ بات ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ چونکہ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرنے کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پسند کیا ہے۔ لہٰذا ''سماع'' جائز ہے۔ دراصل یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیونکہ ہم بھی اس کو ناجائز نہیں کہتے بلکہ جائز سے بڑھ کر مستحسن سمجھتے ہیں، کیونکہ تلاوتِ کلام پاک ہو اور خوبصورت لے اور جاذب خوش آوازی کے ساتھ ہو؟ تو وہ سونے پر سہاگہ والی بات ہوتی ہے۔ صحابہ میں حضرت عقبہ بن عامریؓ (ف ۵۸ھ) حضرت طلق بن علی یمامی اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ (ف ۵۲ھ) بڑے خوش الحان تھے، ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حضرت عقبہ یمانی سے قرآن سنانے کو کہا، چنانچہ وہ پڑھتے رہے اور حضرت عمرؓ روتے رہے، اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے بھی فرمایا:
ذکرنا ربنا (عینی) ہمیں ہمارے رب کی یاد تازہ کراؤ۔
مقصد یہ تھا کہ خوش آواز سے قرآن سناؤ، کیونکہ اس طرح قرآن حمید کی تلاوت دل کو اچھی لگتی ہے۔ اس لئے خوش آ واز سے پڑھنا دل پر مزید اثر کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ:
«لم یأذن اللہ لشيء ما أذن للنبي صلی اللہ علیه وسلم یتغنی بالقراٰن»الله تعالیٰ كسی چیز پر اتنی توجہ نہیں دیتا، جتنی توجہ رسول پاک ﷺپر فرمائی جبکہ وہ خوبصورت آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔لیکن اس خوش آوازی کو اس لحن اور غنا سے کوئی نسبت نہیں، جو عجمی ہے جس میں موسیقار اور قوال کی گلوکاری کا رنگ بھرا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس اندازِ سماع اور غنا سے تلاوت کرنے کو آپ نے برا منایا ہے:
«اقرءوا القران بلحون العرب وأصواتھا وإیاکم ولحون أھل العشق ولحون أھل الکتابین وسیجیٔ قوم یرجعون بالقراٰن ترجیع الغناء والنوح لا یجاوزحنا جرھم مفتونة قلوبھم وقلوب الذین یعجبھم شأنھم» (مشکوٰۃ بحواله شعب الإیمان ورزین)
قرآن کو عربی لے اور آواز سے پڑھا کرو۔ عشاق اور اہل کتاب کی لَے اور لحن سے بچو میرے بعد ایک روہ آئے گا جو قرآن کو گانوں اور نوحہ کے طرز پر بنا سنوار کر پڑھے گا۔ لیکن (حال ان کا یہ ہو گا کہ) قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے ا۔ اس طرح پڑھنے والوں کے اور ان لوگوں کے جو ان کے اس طرز کے پڑھنے کو پسند کریں گے۔ دل فتنہ زدہ ہوں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ حسن آواز تنہا کوئی کارِ ثواب نہیں، اصل غرض کلامِ پاک سے طبعی مناسبت کا حصول ہے۔ بشرطیکہ یہ ذریعہ بھی بجائے خود فتنہ نہ ہو۔ یعنی گیت گانوں اور قوالوں کی دل آویز لے اور خوبصورت آواز میں قرآن بھی پڑھیں گے تو یہ خوش الحانی قرآن حکیم اور اس کی شانِ قرآن کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو گی۔ باقی رہی یہ بات کہ خوبصورت آواز لَے کی پہچان کیا ہے کہ یہ غیر عجمی ہے؟ اس کے متعلق حضرت امام طیبی فرماتے ہیں:
وذلك بالترتیل وتحسین الصوت بالتلیین والتحزین (مرقات ص ۱۱، ۵)
یعنی ترتیل اور خوش آوازی کا مطلب فروتنی اور خشیت کے ساتھ پڑھنا ہے۔
اس کی تائید دارمی کی اس مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے جو انہوں ے ''باب التغني بالقرآن ج ۲، ص ۴۷۱ میں حضرت طاؤس سے روایت کی ہے:
«سئل النبيﷺ أي الناس أحسن صوتا للقراٰن وأحسن قراءة قال من إذا سمعته یقرأ أریت أنه یخشی اللہ قال طاؤس وکان طلق کذلك» (دارمی)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کسی نے پوچھا کہ حضور! قرآن کے سلسلہ میں لوگوں میں سب سے اچھی آواز اور سب سے اچھی قراءت کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا جب تو اسے پڑھتا ہوئے سنے تو تجھے یوں محسوس ہو کہ اس پر خشیتِ الٰہی طاری ہے۔ حضرت طاؤسؓ فرماتے ہیں حضرت طلق کی یہی کیفیت تھی۔ان روایات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سامع پر بھی خشیت اور گریہ جیسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عقبہ سے قرآن سنانے کو کہا تو ان سے قرأت سن کر رو پڑے تھے۔ خود یہی کیفیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی تھی۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ قرأت کا یہ انداز بڑا جاذب اور پُر کشش ہوتا ہے اور قرآنِ پاک کے سلسلہ میں یہی ''خوش الحانی'' مطلوب ہے۔
ان گزارشات سے غرض یہ ہے کہ لحنِ داؤدی ہو یا قرآنِ حکیم کے سلسلہ کی خوش الحانی؟ اس کو معروف معنوں میں سماع اور غنا سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ان سے سماع اور غنا کے لئے استدلال صحیح نہیں ہے۔
دف کا استعمال:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض تقریبات کے سلسلہ میں دف کے استعمال کی اجازت دی ہے جس کے یہ معنی بنا لیے گئے ہیں کہ ''لہٰذا سماع اور موسیقی جائز ہے۔'' ہمارے نزدیک یہ بھی غلط ہے کیونکہ دف کا یہ استعمال، اس سلسلہ کا نقطۂ آغاز نہیں بلکہ اس سلسلہ کی یہ اخیری حد اور کڑی ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے تقریب ملاقات اور گنگنانے کی ایک بے ضرر سی سبیل پیدا ہو جاتی ہے جو بجائے خود پُر مسرت ماحول کا سماں پیدا کر دیتی ہے۔ اس کے استعمال سے مسرفانہ سر مستی اور عیاشانہ ترنگوں کی تخلیق کے امکانات کمزور رہتے ہیں۔ دف کی دنیا اتنی محدود ہوتی ہے کہ انسان حدود فراموش ہاؤ ہُو اور ناؤ نوشی سے کافی درے اور پرے رہتا ہے۔ اس سے صرف سادہ سی تفریح اور بے ضرر سی ایک تقریب مسرت آسان ہو جاتی ہے اور جس امت کو ''کار جہاں کے بارِ امانت'' کی ذمہ داری کا مرحلہ در پیش ہو اس کو اپنی تھکن دور کرنے اور تازہ دم ہونے کے لئے اتنی سی ''تقریب شادی'' کافی ہوتی ہے۔ اس سے مزید کی توقع اور انتظار در اصل ملت اسلامیہ کی ذمہ داریوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
حضرت حسانؓ سے ان کا کلام سننا سماع کے جواز کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عمل سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے یا فلاں صحابیؓ نے فلاں فلاں سے شاعرانہ کلام سنا۔ اس لئے سماع اور غنا جائز ہے۔
دراصل یار لوگوں نے منکرینِ سماع کو ایک بد ذوق ٹولہ تصور کر لیا ہے، اس لئے وہ اس قسم کی مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ حسنِ آواز جو مسنون لائنوں کا پابند ہے۔ ہمیں بھی پسند ہے، ہمارے دل کو اچھا لگتا ہے اور پہروں سنتے رہیں، تو دل نہیں بھرتا۔ لیکن بایں ہمہ، اس کو کارِ ثواب اور عبادت تصور کرنا مشکل ہے اور صوفیاءسے جو مابہ النزاع صورت ہے وہ صرف یہی ہے۔ (جاری ہے)
حوالہ جاتبخاري باب من لم يتغن بالقراٰن