ایمان باللہ۔ جَدّہ

بے شک آنحضرت ﷺ سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے۔ بلاشبہ انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہیں تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہئے۔ خدا پر ایمان، اصولِ اخلاق اور عملی زندگی یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی ربط، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیز رشتہ موجود نہ تھا۔ یہ صرف محمد ﷺ ہیں جنہوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمو دیا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کا نقشہ محض خیال کی دنیا ہی میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کر کے دکھایا۔

انہوں نے بتایا کہ خدا پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے مان لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے اور اسی اخلاق کا ظہورِ انسان کا علمی زندگی کے پورے رویہ میں ہونا چاہئے۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفسِ انسانی میں جڑ پکڑنے میں اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے پورے درخت کی تخلیق شروع کر دیتا ہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رس جاری و ساری ہو جاتا ہے جس کی سوتیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں۔

جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمیں میں بوئی تو جائے آم کی گھٹلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے مادہ پرستانہ زندگی، جس کی رگ رگ میں بد اخلاقی کی روح سرایت کئے ہوئے ہو۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق، اور شرک، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہو سکتے زندگی کے یہ سب نظریے اپنے الگ الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف ایک خاص عابد و زاہد گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چار دیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہو سکے۔ ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر ہر پہلو میں ہونا چاہئے اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں، اس کے انتظامِ ملکی میں۔ اس کی خارجی سیاست میں اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہئے، ورنہ اس کا ایمان باللہ ایک لفظِ بے معنی ہے۔ (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

جدّہ:

جدہ کے لغوی معنی پر مَیں نے غور نہیں کیا۔ عرب میں کوئی نام بغیر مفہوم کے نہیں ہوتا۔ خود لفظِ ''عرب'' کے کئی کئی معنی ہیں۔ مثلاً بعض یہ کہتے ہیں کہ عرب اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری کے ہیں۔ اسی لئے عرب اپنے سوا تمام دنیا کو عجم کہتے رہے۔ یہ محض نکتہ آفرینی ہے، علمائے انساب کے نزدیک چونکہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان تھا، لہٰذا اسی کے نام پر ملک کا نام پڑ گیا۔ اہلِ جغرافیہ نے عرب کا پہلا نام عربہ لکھا ہے جو تخفیفاً عرب ہو گیا اور یہی قوم کا نام قرار پایا۔

سید سلیمان ندوی نے اسد بن جاحل ابن منقد ثوری، ابو سفیان کلبی اور ابو طالب کے بعض اشعار کا حوالہ دے کر اس کی توثیق کی ہے اور یہ قرین حقیقت ہے کیونکہ تمام سیاسی زبانوں میں عربہ، صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا نام عربہ اور عرب ہو گیا۔

قرآن کریم میں عرب کا لفظ ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سکونت کے ذِکر میں وادیٔ غیر ذی زرع یعنی وادی ناقابلِ کاشت بولا گیا ہے اور یہ لفظِ عرب کا بعینہٖ لفظی ترجم ہے۔ حضرت مسیح سے ایک ہزار برس پہلے حضرت سلیمان کے عہد میں لفظِ عرب کے استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے۔

جدہ کا نام حضرت عثمان کے وقت رکھا گیا۔ پہلا نام سجیلہ تھا جدہ ٹھیک ٹھیک وہاں تو نہیں لیکن اس سے ہٹ کر اس کی جگہ آباد کیا گیا۔ السنہ کی ایک روایت کے مطابق جدہ کے معنی ساحل کے ہیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق وہ حصہ جہاں زمین پانی سے کٹ جاتی ہے۔ لغت میں جدہ کے معنی، دادی اور نانی کے بھی ہیں۔ یہاں حضرت حوا کی قبر ہے۔ ممکن ہے اسی رعایت سے اس کا نام جدہ کر دیا گیا ہو۔ جدہ اب نانی ہے نہ دادی۔ وہ نئی تہذیب کی ساحلی محبوباؤں میں سے ایک ہے۔ شعرائے عرب سے کسی نے کہا ہے۔ محبوبہ کے دو حصے ہیں۔ ایک سراسر محبت کے لئے دوسرا شوہر کا جس پر کبھی آنچ نہیں آتی۔

جدہ انہی شاعروں کے تصورو تخیل کا سراپا ہے لیکن محمل سے باہر آچکا اور تہذیب کے ہاتھ میں تیغِ براں کی طرح ہے۔ اب امرأ القیس ہے نہ نابغہ زیبانی۔ زہیر بن ابی سلمی ہے نہ عنترہ عنسی، عمر بن کلثوم ہے نہ طرفہ بن العبد اعشیٰ۔ قیس ہے نہ حارث بن حلزہ، لبید بن ربیعہ ہے نہ امیہ بن ابی الصلت، کعب بن زہیر ہے نہ عمرو بن معدیکرب، خنساء ہے نہ حسان بن ثابت۔ حطیہ ہے نہ نابغہ الحمدی۔ عمر بن ابی ربیعہ ہے نہ اخطل، فرزوق ہے نہ جریر جتبٰی ہے۔ نہ ابو تمام ابو العلاء معری ہے نہ شریف رضی۔ اب ان کے تذکرے ہی رہ گئے ہیں۔ جدہ شاید ان تذکروں سے بھی خالی ہے۔ اس کے چہرے مہرے پر قدامت کی برائے نام تیوری بھی نہیں چڑھی ہے۔ وہ ان جھریوں پر گزارا نہیں کر رہا۔ بلکہ اس کی سج دھج انگور کے خوشوں سے نچڑی ہوئی تازہ شراب ہے۔ اس کی عرب روایتیں دید و شنید سے نکل چکی ہیں۔ کہانیاں چلا کرتی ہیں مجھے ان کہانیوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن قہر سلطانی نے پورے شہر کو جرائم سے محفوظ کر دیا ہے۔ چہرے آوارہ نگاہوں سے مصئون ہیں اور جیبیں فن کاروں سے۔ قطع ید کے خوف اور سر قلم کیے جانے کے اندیشہ نے مجرموں کی کوکھ بانجھ کر دی ہے۔ یورپ اور ایشياکے بڑے شہروں کی طرح یہاں مجرم کلیلیں نہیں بھرتے۔ آپ سونا اچھالتے نکل جائیں۔ کوئی میلی نگاہ نہیں اُٹھے گی۔ نصف صدی پہلے بدو حجاج کو لوٹ لیتے اور قافلوں پر چڑھ دوڑتے تھے۔ عبد العزیز ابن سعود نے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ آج ''مہذب'' ملکوں کے مقابلہ میں اس ''غیر مہذب'' ملک میں سب سے کم جرم ہوتے ہیں۔ ان جرائم کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا جن سے یورپ اور امریکہ مالا مال ہیں۔ تعزیر اتی سخت ہے کہ جرم کا حوصلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کوئی جرم ہے تو انڈر گراؤنڈ کوئی کھلا نہیں اور کوئی آوارہ نگاہ نہیں۔ مسلمان عرب عورت بازار کی ہرنی نہیں اور نہ وہ کھلے منہ پھرتی ہے۔ غیر ملکی نا مسلمان عورتیں اکا دکا ادھر اُدھر پھرتی نظر آتی ہیں لیکن آپ ان کا جائزہ نہیں لے سکتے اور نہ آپ کی نگاہیں ان کا تعاقب کر سکتی ہیں۔ شورش کاشمیری (شب جائے کہ ن بودم ص ۱۹، ۲۰، ۲۱)