﴿وَما نَقَموا إِلّا أَن أَغنىٰهُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ مِن فَضلِهِ...٧٤﴾... سورة التوبة
ان منافقوں نے صرف اس بات کا انتظام لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے (اللہ) کے فضل سے انہیں غنی بنا دیا۔
تمہیدی گزارشات:
چند روز قبل ایک مولوی صاحب نے مندرجہ بالا آیت کریمہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مالدار بنانا اللہ اور اس کے رسول دونوں کے اختیار میں ہے کیونکہ عربی قواعد کے مطابق جس طرح لفظ ''اللہ'' ''اغنٰی'' کا فاعل ہے اسی طرح ''رسولہ'' بھی، گویا غنیٰ اور فقر جس طرح اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں بھی ہے۔
شکم پروری کے چکر نے جہاں اس قسم کی تفسیروں کا دروازہ کھولا ہے وہاں اسی قسم کی مادہ پرستی نے ہر انسان کو اپنا رازق ہونے کا نظریہ دیا اور سب کچھ اسباب کو سمجھا جانے لگا۔ جس سے سرمایہ دارانہ نظام پھلا پھولا ہے۔ پھر رد عمل کے طور پر اشتراکیت (سوشلزم) نے یہ اختیار، نام نہاد قوم بلکہ ریاست کے ہاتھ میں دے دیا۔ یعنی جب توحیدِ ربّانی (عقیدۂ رزاقیت رب العالمین) کو چھڑ کر دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک سمجھا جانے لگا تو تان کہاں آکر ٹوٹی؟ (أعاذ نا اللہ منه)
جب انسان شرک میں مبتلا ہو جائے تو پھر کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا بلکہ ہر شجر و حجر کے آگے جھکنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی صفات دوسری چیزوں میں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کر کے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ...٣﴾... سورة النور
زانی (مرد) زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے اور زانیہ عورت زانی یا مشرک مرد ہی سے نکاح کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ میں مشرک اور زانی کو اکٹھا ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زنا کا عادی مرد یا عورت کبھی ایک بیوی یا خاوند پر قناعت نہیں کرتے اسی طرح مشرک کبھی ایک رب پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔ جب خدا کو چھوڑ دیا تو کہیں کا بھی نہ رہا۔ میں اس آیت کی اصلی تفسیر کی طرف آنے سے پہلے توحید کی نزاکت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پھر ان شاء اللہ وضاحت سے ذکر کروں گا کہ اس آیت سے کیا مراد ہے؟
شرک کی مذمت:
شرک ایک ایسا مہلک مرض ہے کہ جب کسی کو لگ جائے تو اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔ زندگی کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ جس طرح طبعی بیماریوں میں دل کا اختلاج سارے جسم کا نظام بگاڑ دیتا ہے۔ اسی طرح مشرک کا مرض تمام روحانی صحت کا قلع قمع کر دیتا ہے اور انسان کی ساری زندگی اضطراب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو سب نیک اعمال کے ضائع ہو جانے کا موجب ٹھہرایا ہے۔ عام آدمی کا تو کیا ذِکر، سید المرسلین امام المتقین حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَئِن أَشرَكتَ لَيَحبَطَنَّ عَمَلُكَ...٦٥﴾... سورة الزمر
یعنی اگر آپ بھی شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں تو آپ کے بھی سب اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
اس لئے دیگر گناہوں کا مرتکب تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر یا بخششِ خداوندی سے بغیر سزا ہی کے عذابِ الٰہی سے نجات حاصل کرے گا لیکن مشرک اگر بغیر توبہ کے مر گیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ...١١٦﴾... سورة النساء
الله تعالی شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے اور اس کے سوا جو چاہیں معاف فرمادیں
﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ...٧٢﴾... سورة الحديد
جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔
ان آیات سے واضح ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر مذموم ہے جس کو وہ کسی حالت میں اور کسی کے لئے اجازت نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں توحید ہی اصلِ دین ہے اور ساری خرابیاں اسی توحید میں فرق آنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء نے ہر قسم کے معاشرہ میں اسی شرک کی خامیوں کو واضح فرمایا اور اسی توحید کی طرف سب سے پہلی عوت دی۔
یہاں میں اتنی بات واضح کر دوں کہ توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ظاہری عبادات میں کسی اور کو سجدہ نہ کیا جائے بلکہ انسانی زندگی کے کسی بھی قسم کے معاملہ میں اگر مقصودِ رضاءِ الٰہی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر صرف دوسروں کی اطاعت اور رضا طلبی ہو یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو بھی حصہ دار بنایا جائے تو یہی کفر و شرک ہے۔ مجملاً بات کلمہ طیبہ (لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ) کے اقرار سے ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے اور اسی پر کار بند رہنے کا اعلان کرتا ہے اور باقی سارا دین اس کی تفصیل ہے۔ وللتفصیل موضع آخر۔
أَغْنٰھُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه کی صحیح تعبیر:
اب ميں آیت مذکورہ بالا کی اصلی تفسیر بیان کرتا ہوں۔ ہمیں کسی آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لئے سب سے پہلے اس کا شانِ نزول دیکھنا چاہئے تاکہ اس مخصوص واقع سے اس کا مفہوم اصلی واضح ہو جائے۔ پھر اسی سببِ نزول کی روشنی میں اس آیت کی دلالت یا حکم کسی دوسرے موقع پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آیات کا سیاق و سباق بھی آیت کا مفہوم سمجھنے میں مد دیتا ہے کیونکہ آیات کی ترتیب بھی وحیِ الٰہی سے ہے۔
اس آیت کا شانِ نزول جو معتبر تفاسیر میں ذِکر ہے یہ ہے کہ منافقین زبانوں سے قسمیں کھا کھا کر نبی ﷺ اور اہلِ ایمان کو اپنی صداقتِ دینی کا اعتماد دلاتے تھے۔ لیکن اپنی خصوصی مجلسوں میں نبی ﷺ اور ایمان والوں کو برا بھلا کہتے تھے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ انہی سازشوں میں سے ایک وہ تھی، جب نبی ﷺ جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو منافقین نے ایک تنگ گھاٹی سے گزرتے وقت آپ اور آپ کے صحابہ پر حملہ کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک جگہ چھپ کر اور اپنے چہروں کو چھپا کر بیٹھ گئے۔ جب صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا تو حضرت عمارؓ اور حزیفہؓ کو انہوں نے گھیر لیا۔ حضرت عمارؓ کو تو انہوں نے قابو کر لیا لیکن حضرت حذیفہ کی شجاعت کام آئی اور اس طرح سے یہ سازش ناکام ہو گئی۔ نبی ﷺ کو جب اطلاع ملی تو آپ (ﷺ) نے اس سلسلہ میں بارہ آدمیوں سے پوچھ گچھ کی لیکن وہ حلف کے ساتھ انکار کر گئے ۔ اس پر یہ آیت اُتری:۔
﴿يَحلِفونَ بِاللَّهِ ما قالوا وَلَقَد قالوا كَلِمَةَ الكُفرِ وَكَفَروا بَعدَ إِسلـٰمِهِم وَهَمّوا بِما لَم يَنالوا ۚ وَما نَقَموا إِلّا أَن أَغنىٰهُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ مِن فَضلِهِ...٧٤﴾... سورة التوبة
''یعنی منافقین اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی۔ حالانکہ يقيناً انہوں نے کفر کے کلمات کہے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا اور ایسی سازش تیار کی جس میں وہ ناکام ہوئے اور یہ (سب کچھ) انہوں نے اس بات کا انتقام لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اللہ کے فضل سے (مال سے) انہیں غنی بنا دیا۔''
منافقین کا مومنین سے اس قسم کا برتاؤ قرآن مجید کے کئی دیگر آیات سے بھی ثابت ہے لیکن اختصار کی غرض سے ہم ان کا ذِکر ضروری نہیں سمجھتے۔
اس آیت میں مال دیکر غنی کرنے کا جو ذکر آیا ہے اس سے اس طرف اشارہ ہے ،کہ نبی اکرم ﷺ غرباء کو اللہ کے دیئے ہوئے مال سے دے کر خوشحال بنایا کرتے تھے۔ جن میں سے بیشتر منافقین اور کمزور ایمان والے لوگ بھی ہوتے تھے۔
اسی سازش کا ایک خاص سرغنہ جلاس نامی ایک شخص (جو بعد میں بحمد اللہ پکا سچا مسلمان ہو گیا تھا) خصوصی طور پر سول اللہ ﷺ کا ممنونِ کرم تھا کہ آپ نے ایک بار اس کا ایک بڑا قرضہ اتار دیا تھا۔ اس بہت بْڑے احسان کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ کے خلاف سازش کی۔ اس پر یہ اللہ تعالیٰ نے طنز لطیف سے ان منافقین کی کمینہ فطرت کا بیان فرمایا کہ انہوں نے یہ سازش کر کے گویا اس بات کا انتقام لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے انہیں خوش حال بنایا کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ کا تھا اور تقسیم رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا اس لئے اَغنٰی (غنی بنانے) کے مجموعی فعل کو دونوں کی طرف نسبت کیا۔ اس بات کی وضاحت نبی اکرم ﷺ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جسے آپ نے مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔
إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَّاللہُ یُعْطِي
یعنی میں تو صرف تقسیم کنندہ ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے۔
یہی وہ ہے کہ اس آیت میں لفظ ''مِنْ فَضْلِھِمَا'' کی بجائے ''مِنْ فَضْلِه'' آیا ہے کیونکہ یہ کام یعنی غنی بنانا صرف اللہ کا فضل ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں کا۔
حاصل یہ ہے کہ اس آیت کے شانِ نزول اور سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ مالک رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہیں۔ دوسروں کی طرف رزق وغیرہ کی نسبت ہمارے عادی معاملات کے اعتبار سے تو درست ہے جیسا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف قاسم ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے۔ لیکن رازق حقیقی یا غیر عادی لین دین کا مختار سمجھتے ہوئے کسی کی طرف اس کی نسبت درست نہیں بلکہ یہ شرک ہے۔
یہی چیز اب میں قرآن کریم کی دیگر آیات اور احادیثِ نبویہ سے پیش کر کے اس مسئلہ کی وضاحت کرتا ہوں۔
خالق غنی ہے اور مخلوق محتاج:
جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ مطلق خالق اللہ تعالیٰ ہیں اور کل کائنات مخلوق۔ جس میں کل انبیاء شہداء، صالحین اور اولیاء اللہ حتیٰ کہ سب کے سردار نبی حضرت محمد ﷺ بھی داخل ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اپنے وجود کے لئے اللہ کا محتاج اپنے رزق و بقا کے لئے بھی اسی کا محتاج ہے اور رہے گا تو یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی محتاجی کیسے دور کرے گا؟
یہی وجہ ہے کہ غنی اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ (صفاتی ناموں) سے ہے اور اس معنی میں اس کا اطلاق کسی پر جائز نہیں حتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ کے صفاتی ناموں میں بھی غنی کا ذِکر کہیں نہیں آیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ أَنتُمُ الفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الغَنِىُّ الحَميدُ ﴿١٥﴾... سورة فاطر
اے انسانوں! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ غنی حمید ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَاللَّهُ الغَنِىُّ وَأَنتُمُ الفُقَراءُ...٣٨﴾... سورة محمد" اللہ ہی غنی ہے اور تم محتاج
دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ غنی صرف اللہ تعالیٰ ہیں۔ باقی سب محتاج۔ نیز کسی کا خالق و رازق ہونا آپس میں لازم و ملزوم ہے۔ جو خالق ہوگا وہی رازق ہوگا اور جو رازق ہوگا وہی خالق اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کے تو کفار بھی قائل تھے لیکن رزق کی نسبت وہ دوسروں کی طرف بھی کرتے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:۔
﴿هَل مِن خـٰلِقٍ غَيرُ اللَّهِ يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ...٣﴾... سورة فاطر
کیا اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہے جو زمین و آسمان سے تمہیں رزق دے؟
یعنی خالق وہی ہو سکتا ہے جو رازق ہو۔ اور جب اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں تو کوئی رازق کیسے ہو سکتا ہے؟
انبیاء بھی اللہ کے محتاج ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ جلیل القدر انبیاء کی محتاجی کا ذِکر کیا ہے۔ جن میں سے بعض جگہ ان کا اپنا اقرار بھی نقل فرمایا ہے۔ بطور نمونہ مشتے از خروارے چند انبیاء کا ذِکر ملاحظہ فرمائیں۔
1. حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے رزاقیت کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذى هُوَ يُطعِمُنى وَيَسقينِ ﴿٧٩﴾... سورة الشعراء
وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ یعنی کھانے پینے کے معاملہ میں وہ اللہ ہی کے محتاج تھے۔
2. حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت شعیب کی بکریوں کو پانی پلاتے تھے اور تھک کر ایک درخت کے سایہ میں آرام کے لئے بیٹھ جاتے ہیں تو بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔
﴿رَبِّ إِنّى لِما أَنزَلتَ إِلَىَّ مِن خَيرٍ فَقيرٌ ﴿٢٤﴾... سورة القصص
اے میرے پروردگار! جو خیر تو میرے لئے اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔
3. حضرت سلیمان علیہ السلام اسی بات کے قائل تھے کہ مال و دولت اللہ کی طرف سے ہے اور باقی سب محتاج ہیں۔ اسی لئے جب ملکۂ سبا (بلقیس) نے انہیں تحائف سے مرہونِ منت کرنا چاہا تا آپ نے وہ سب کچھ یہ کہہ کر واپس کر دیا:
﴿أَتُمِدّونَنِ بِمالٍ فَما ءاتىٰنِۦَ اللَّهُ خَيرٌ مِمّا ءاتىٰكُم...٣٦﴾... سورة النمل
تم ميری مالی امداد کے خواہاں ہو۔ جب کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر دیا ہے، جو اس نے تمہیں دیا ہے۔
اس میں اپنی محتاجی کے ساتھ ان کی محتاجی کا بھی ذکر کر دیا اور فرمایا ''مجھے دینے والا بھی وہی ہے اور تمہیں دینے والا بھی وہی۔
4. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے مائدہ (دستر خوان) کا سوال کرتے ہوئے کہا:
﴿هَل يَستَطيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَينا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ...١١٢﴾... سورة المائدة
کیا تیرا رب ہمارے لئے آسمان سے دستر خوان اتار سکتا ہے؟
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
﴿اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿١١٢﴾... سورة المائدة
ایسی بات کہتے ہوئے ڈرو، اگر تم میں ایمان ہے۔
پھر جب انہوں نے اصرار کیا تو اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کی اور کہا:
﴿اللَّهُمَّ رَبَّنا أَنزِل عَلَينا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ...١١٤﴾... سورة المائدة
اے اللہ! ہم پر اپنے پاس دستر خوان اتار دے۔
یعنی خود مانگا تو اللہ سے مانگا لیکن جب شروع میں حواریوں نے ان سے ایک غیر عادی چیز کا مطالبہ کیا تو انہیں ڈرایا کہ اس قسم کی چیزوں کے مطالبے اس لئے نہ کرو کہ اس کے بغیر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رزاقیت و مالکیت کا اقرار نہیں۔
سابقہ انبیاء کی اس تعلیم و کردار کا ذِکر قرآن کریم میں اس کثرت سے ملتا ہے کہ اس سے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب تیار کی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہاں احاطہ مقصود نہیں۔ اس لئے انہی چند ایک مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں۔ (باقی آئندہ)